اردو غزلیاتسلیم کوثرشعر و شاعری

کوئی یاد ہی رخت سفر

سلیم کوثر کی ایک اردو غزل

کوئی یاد ہی رخت سفر ٹھہرے کوئی راہ گزر انجانی ہو

جب تک مری عمر جوان رہے اور یہ تصویر پرانی ہو

کوئی ناؤ کہیں منجدھار میں ڈوبے چاند سے الجھے اور ادھر

موجوں کی وہی حلقہ بندی دریا کی وہی طغیانی ہو

اسی رات اور دن کے میلے میں ترا ہاتھ چھٹے مرے ہاتھوں سے

ترے ساتھ تری تنہائی ہو مرے ساتھ مری ویرانی ہو

یوں خانۂ دل میں اک خوشبو آباد ہے اور لو دیتی ہے

جو باد شمال کے پہرے میں کوئی تنہا رات کی رانی ہو

کیا ڈھونڈتے ہیں کیا کھو بیٹھے کس عجلت میں ہیں لوگ یہاں

سر راہ کچھ ایسے ملتے ہیں جیسے کوئی رسم نبھانی ہو

ہم کب تک اپنے ہاتھوں سے خود اپنے لیے دیوار چنیں

کبھی تجھ سے حکم عدولی ہو کبھی مجھ سے نافرمانی ہو

کچھ یادیں اور کتابیں ہوں مرا عشق ہو اور یارانے ہوں

اسی آب و ہوا میں رہنا ہو اور ساری عمر بتانی ہو

 

سلیم کوثر

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button