درد کا دیپ جلاتے ہیں، چلے جاتے ہیں
اشک کچھ آنکھ میں آتے ہیں، چلے جاتے ہیں
دوسروں سے وہ بغلگیر ہوئے ملتے ہیں
مجھ کو آواز لگاتے ہیں، چلے جاتے ہیں
وہ سمجھتے ہیں کہ آنکھیں نہیں باقی میری
چھو کے احساس دلاتے ہیں، چلے جاتے ہیں
دوست ہر دور میں آتے ہیں بہت ایسے فقیر
رسمِ دنیا جو نبھاتے ہیں، چلے جاتے ہیں
مجھ کو غمگیں کوئی انساں نہیں کرتا بلکہ
کچھ پرندے ہیں، رلاتے ہیں، چلے جاتے ہیں
اس زمانے میں نئی رسم چلی ہے کہ یہ لوگ
ساتھ دانستہ نبھاتے ہیں، چلے جاتے ہیں
ایک مدت سے زمانے کا ہے دستور و چلن
لوگ آتے ہیں، رلاتے ہیں، چلے جاتے ہیں
آپ سے خوب سمجھتا ہے کوئی بے رخی کو؟
آپ بس آنکھ ملاتے ہیں، چلے جاتے ہیں
اس طرح سے وہ اداسی کو بڑھاتے ہیں مری
شِو کے کچھ گیت سناتے ہیں، چلے جاتے ہیں
عمر اشتر