آب و ہوا ہے برسر پیکار کون ہے
میرے سوا یہ مجھ میں گرفتار کون ہے
اک روشنی سی راہ دکھاتی ہے ہر طرف
دوش ہوا پہ صاحب رفتار کون ہے
ایک ایک کر کے خود سے بچھڑنے لگے ہیں ہم
دیکھو تو جا کے قافلہ سالار کون ہے
بوسیدگی کے خوف سے سب اٹھ کے چل دیئے
پھر بھی یہ زیر سایۂ دیوار کون ہے
قدموں میں سائے کی طرح روندے گئے ہیں ہم
ہم سے زیادہ تیرا طلب گار کون ہے
پھیلا رہا ہے دامن شب کی حکایتیں
سورج نہیں تو یہ پس کہسار کون ہے
کیا شے ہے جس کے واسطے ٹوٹے پڑے ہیں لوگ
یہ بھیڑ کیوں ہے رونق بازار کون ہے
اے دل اب اپنی لو کو بچا لے کہ شہر میں
تو جل بجھا تو تیرا عزا دار کون ہے
اب تک اسی خیال سے سوئے نہیں سلیمؔ
ہم سو گئے تو پھر یہاں بے دار کون ہے
سلیم کوثر