- Advertisement -

غضب کی دھوپ میں ٹھنڈی ہوا سا لگتا ہے

ایک اردو غزل از حسن فتحپوری

غضب کی دھوپ میں ٹھنڈی ہوا سا لگتا ہے
ترا خیال ہی باد صبا سا لگتا ہے

وہ جس نے چھین لیا ہے سکون دل میرا
اسی کا ذکر مجھے کیوں بھلا سا لگتا ہے

میں اپنے شہر میں مدت کے بعد لوٹا ہوں
ہر ایک شخص ہی نا آشنا سا لگتا ہے

وہ شخص جس نے ہمیشہ مرا برا چاہا
اسے برا جو کہوں تو برا سا لگتا ہے

وہ ایک نام جو دیوار دل پہ لکھا تھا
وہ ایک نام ہی مجھ کو مٹا سا لگتا ہے

ترا مہکتا بدن اور نرم سا احساس
چمن میں جیسے کوئی گل کھلا سا لگتا ہے

حسن جو سر پہ ہے ماں کی دعاوں کا سایہ
یہ ایک سایہ ہی مجھ کو خدا سا لگتا ہے

حسن فتحپوری

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از حسن فتحپوری