آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزسید محمد زاہد

نئی جہت

سید زاہد کا ایک کالم

1997 کے بعد سے اس وقت کی سیاسی جماعتوں نے قوم کو کوئی نئی فکر یا قیادت نہیں دی۔ مشرف کے خلاف مہم کی قیادت وکلا کے ہاتھوں میں تھی اور وہ اس کا پھل کھا رہے ہیں۔ اس مہم میں سیاسی جماعتیں ان کا دم چھلا بنیں اور اب تک ملک کی سیاست میں وہی کام نبھا رہی ہیں۔

وکلا نے اس کے بعد عدلیہ میں کوئی نقب نہیں لگنے دی اور اب سپریم کورٹ سے لے کر گلی و محلہ کی سیاست تک ہر شعبہ میں ناقابل شکست رویہ اختیار کر چکے ہیں۔ پی ٹی آئی نے مشکل حالات کو سامنے دیکھتے ہوئے ان کا سہارا ڈھونڈا۔ یہ سٹریٹجی کامیاب رہی۔ جہاں جہاں وکلا انتخاب لڑ رہے تھے وہاں وہاں اسٹیبلشمنٹ کی گرفت کمزور نظر آئی۔ عمران خاں مزاحمت کی سیاست کر رہے ہیں اس لیے یہ لوگ اس کام میں زیادہ مضبوط ہتھیار ثابت ہوئے کیونکہ ان کے پیچھے بار کا طاقتور جمہوری گروپ موجود تھا۔

1997 کے بعد سے کسی سیاسی جماعت نے نوجوانوں پر کام نہیں کیا۔ لیپ ٹاپ، سکوٹی اور سولر بلب و پلیٹ انعام میں دے کر آپ نوجوانوں کو نہیں ورغلا سکتے۔ وہ مستقبل کی سیاست میں اپنا حصہ مانگتے ہیں۔ کل کی تصویر دیکھیں جس میں پی ٹی آئی کے علاوہ اس ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندے شجاعت حسین کے گھر پر موجود تھے، ان میں سے کوئی ایک فرد بھی پچاس سال سے کم عمر نہیں۔ بلکہ زیادہ تر ساٹھ سے بھی اوپر کے ہیں۔ اگلے الیکشن تک بھی نوجوانوں کو ان پارٹیوں سے حصہ ملنے کوئی امید نہیں۔ جو کمزوری اور بڑھاپے کے باعث نا اہل ہو جائیں گے ان کی جگہ لینے کو اولاد میں سے کوئی پچاس ساٹھ سال کا جوان ہی آگے آئے گا۔

نئی فکر اور قیادت آتی کہاں سے ہے؟

پوری جمہوری دنیا میں نوجوان قیادت کی تلاش میں پارٹیاں تعلیمی اداروں کی طرف دیکھتی ہیں۔ پچھلے چالیس سال سے ان اداروں میں سیاسی پارٹیوں کا کام صفر ہے۔ ٹریڈ یونینز، صحافتی تنظیمیں، این جی اوز اور مختلف پروفیشنل گروپس کے الیکشن کے بعد جیتنے والی قیادت بھی آگے چل کر سیاسی پارٹیوں کو نئے لیڈر مہیا کرتی ہے۔ سب سے اہم سیاسی پنیری بلدیاتی اداروں میں تیار ہوتی ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ان کی طرف کسی سیاسی پارٹی کا دھیان نہیں۔

نئے چہروں سے تمام پرانے سیاست دان خوفزدہ رہتے ہیں۔ کیونکہ یہ ان کے سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور متبادل قیادت بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اگر کوئی پارٹی ان کو موقع نہیں دیتی تو کیا یہ نہیں ابھریں گے؟

یہ وہ سوال ہے جس کے جواب میں پی ٹی آئی کی فتح لکھی ہے۔ یہ وہ جہت ہے جو اس نے اپنائی اور تمام سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کو دو زانو کر دیا۔

نوجوانوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم ملا جہاں ان کو سیاسی قیادت حاصل کرنے کے مواقع ملے۔ پی ٹی آئی کے لیے بھی تعلیمی ادارے، ٹریڈ یونینز اور دوسرے سیاسی ادارے میسر نہیں تھے لیکن اس نے سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں سے نئی قیادت کو پنپنے کا موقع ملا۔ وہ کھیل جو روایتی سیاسی میدانوں میں کھیلا جاتا تھا وہ ایک ایسے میدان میں منتقل ہو گیا جہاں ان کے سامنے کوئی مخالف ٹیم موجود ہی نہیں تھی۔ بوڑھے سیاست دانوں کو اس فیلڈ کا پتا ہی نہیں چلا اور نئی قیادت نے انہیں چاروں شانے چت کر دیا۔

یہ سچ ہے کہ ساڑھے تین سالہ حکومت میں عمران خاں ملکی ترقی کا کوئی ایک بھی منصوبہ پیش نہیں کرسکے۔ لیکن سوشل میڈیا اور ان کی کرشماتی شخصیت نے اپنے ووٹرز کو یہ باور کروا دیا کہ مشکل حالات کے بعد اب بہتری آنی تھی، وقت آیا تو اسٹیبلشمنٹ نے مقبولیت سے گبھرا کر ان کی حکومت الٹا دی۔ نوجوانوں کو کچھ اور نظر ہی نہیں آ رہا تو انہوں نے اپنی امید کی ڈوری کو ٹوٹنے نہیں دیا۔

اگر یہ کہا جائے تو جھوٹ نہیں ہو گا کہ اس وقت پورے ملک میں صرف پی ٹی آئی کا ووٹ ہے جو بھی دوسری پارٹیوں نے سیٹیں جیتی ہیں ان میں لوگوں کا ذاتی ووٹ تھا اور اس کے بعد کچھ ووٹ روایتی سیاسی ہتھکنڈوں سے حاصل کیا گیا ہے۔

کیا اب بھی سیاسی پارٹیاں نہیں سوچیں گئیں؟ اب موٹروے، ایٹم بم، بے نظیر انکم سپورٹ، میرٹ، نوکریاں، نالی سولنگ اور مذہبی و علاقائی دو نمبریاں نہیں چلیں گئیں۔ جاوید لطیف، سعد رفیق اور رانا ثنا اللہ کی شکست بتا رہی ہے کہ کام کی وجہ سے ووٹ نہیں ملتے۔ اب مقابلہ کرنا ہے تو نئی قیادت سامنے لائی جائے۔

اس کا سب سے آسان حل بلدیاتی انتخابات ہیں۔

سٹوڈنٹس میں کام کرنا اور وکلا کو رام کرنا ابھی نئی حکومت کے لیے مشکل ہو گا۔ بہرحال کام تو کرنا پڑے گا۔

آخری بات یہ ہے کہ اب اس ملک میں صرف اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست ہی ہو سکتی ہے۔ بی ٹیمیں اور گیٹ نمبر چار کی پیدائش والے سارے الیکشن ہار گئے ہیں۔ شیخ رشید، پرویز خٹک اور جہانگیر ترین کی ناکامی سے عبرت حاصل کریں۔ پرویز الٰہی کو عمران خاں کا سہارا بھی نہیں بچا سکا۔ آپ بھی سہارے ڈھونڈنا چھوڑیں اور میدان میں مقابلہ کریں ابھی پانچ سال باقی ہیں اور جیسے بھی ملے گی حکومت آپ کے ہاتھ میں ہوگی۔ اس الیکشن نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ پی پی پی کے علاوہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس لاڑکانہ کی طرز کا کوئی محفوظ حلقہ موجود نہیں۔

بھٹو کو 1970 کے الیکشن میں واحد شکست مفتی محمود نے دی تھی، مولانا فضل الرحمان یہ آبائی سیٹ دوسری بار کھو چکے ہیں۔ اے این پی کا مکمل صفایا ہو گیا ہے۔ ولی باغ سے وہ ہار چکے ہیں۔ شیر پاؤ بے نشان ہو گئے ہیں۔ جن سیٹوں سے ایم کیو ایم والے پچھلی صدی میں لاکھوں ووٹوں سے جیتا کرتے تھے وہاں اب جیتنے والے کے چند ہزار ووٹ ہیں۔ یہ رزلٹ بھی وہی کہانی سنا رہے ہیں۔

اگر آپ نے روش نہ بدلی اور نئی فکر اور نئی قیادت کو ابھرنے کے مواقع مہیا نہ کیے تو اگلے الیکشن میں یہ چند سیٹیں بھی نظر نہیں آئیں گئیں۔ پھر اپنی پارٹیوں کی خیر منائیں۔

 

سید محمد زاہد

سید محمد زاہد

ڈاکٹر سید محمد زاہد اردو کالم نگار، بلاگر اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا زیادہ تر کام موجودہ مسائل، مذہب، جنس اور طاقت کی سیاست پر مرکوز ہے۔ وہ ایک پریکٹس کرنے والے طبی ڈاکٹر بھی ہیں اور انہوں نے کئی این جی اوز کے ساتھ کام کیا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button