ترے دئیے کی تھی باتی تو اور کیا کرتی
نہ تیرے ساتھ نبھاتی تو اور کیا کرتی
میں ایسا سوچ کے بھی ڈر سے مرنے لگتی ہوں
تمہارے دل کو نہ بھاتی تو اور کیا کرتی
مری زمین کا بھی مجھ سے کچھ تقاضا تھا
میں مندروں میں نہ گاتی تو اور کیا کرتی
رقم تھا لطف پرستش سے آشنا ہونا
تمہیں خدا نہ بناتی تو اور کیا کرتی
یہ بالی جھمکا یہ کنگن پہن کے جاتی کہاں
یہ قہر تم پہ نہ ڈھاتی تو اور کیا کرتی
بتا کے آتی تو پھر تم سے ملنے دیتا کون
میں چھپ کے ملنے نہ آتی تو اور کیا کرتی
سمندروں میں محبت کی پیاس تھی اتنی
تمہارے خط نہ بہاتی تو اور کیا کرتی
وگرنہ وہ مرا کر دیتے راکھ راکھ بدن
نہ دشمنوں کو جلاتی تو اور کیا کرتی
خدا نے ہاتھ دئیے پرورش کو بچوں کی
انہیں نہ کھانا کھلاتی تو اور کیا کرتی
صوفیہ بیدار