انور کی اس نہاری ہاؤس میں اکثر آنے کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ یہاں پورے شہر کے مقابلے میں سب سے زیادہ لذیذ اور منفرد ذائقے والی نہاری ملتی تھی۔ بلکہ یہاں آنے کی ایک وجہ اس کے کام کے حوالے سے بھی تعلق رکھتی تھی۔ وہ افرادی قوت فراہم کرتا تھا۔ اور اس مد میں کمیشن پاتا تھا۔ اور یہ ہوٹل تو اس کے بڑے کلائنٹ میں شمار ہوتا تھا۔
بڑھتے ہجوم کے باوجود اسے سیٹھ کے کاؤنٹر کے پاس والی ہی میز مل گئی۔ کافی دیر تک جب کوئی آرڈر لینے نہیں آیا تو اس نے سیٹھ کو آواز لگائی۔
’’اورسیٹھ، سناؤ کیا حال چال ہیں، دھندہ کیسا چل رہا ہے۔ مجھے اتنی دیر ہو گئی کوئی آرڈر لینے ہی نہیں آیا۔ ذرا ایک اسپیشل نہاری تو منگوا دو۔‘‘
’’ ارے واہ انور، ایک دم بڑھیا۔ تم سناؤ کیا چل رہا ہے۔ معافی، دیر لگ رہی ہے تمہیں، ادھر چھوکروں کا ذرا مسئلہ ہے۔ کمی چل رہی ہے۔ سالے ٹکتے ہی نہیں۔‘‘
’’ارے کیا سیٹھ وہ جو پچھلے ہفتے آٹھ پہاڑی لڑکے دیئے تھے۔ ان کا کیا ہوا نظر نہیں آ رہے۔ اور لوچا ووچا کچھ نہیں، یہ آج کل کے لڑکے حرام خور ہو گئے ہیں۔ کھانا جانتے ہیں پر کام نہیں ہوتا ان سے۔ خیر میرے ہوتے تمہیں فکر کرنے کی کیا ضرورت۔ بولو کتنے لڑکے بھیجوں۔ لڑکوں کی تازہ تازہ کھیپ آئی ہے۔‘‘
’’دس پندرہ تو بھیج ہی دو، ہوٹل کا رش تو تم دیکھ ہی رہے ہو۔ گراہکی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔‘‘
’’دس پندرہ؟‘‘ وہ ششدر رہ گیا۔ زیادہ لوگوں کا مطلب، زیادہ کمیشن۔ ہال کی جانب اس کی نظریں غیر ارادی طور پر اٹھ گئیں، ہال معمول کے مقابلے میں دگنا بھرا تھا اور اس میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔ ’’سیٹھ کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔‘‘اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ اور بھاری کمیشن کا سوچ کر مسکرا اٹھا۔
’’ہاں، اتنے تو میں مانگتا ہی ہوں۔ اور ہاں پہاڑی چھوکرے ہی لانا۔‘‘
’’پر سیٹھ، وہ تو پھر بھاگ جا۔۔ ۔‘‘اس کے جملہ ادھورا رہ گیا۔ سیٹھ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔
’’بولا نا، اب سے ادھر پہاڑی چھوکرے ہی چلیں گے اور ہاں پہلے کے طرح ہی ہٹے کٹے اور قد آور ہوں۔ اور ہاں، ان کے بھاگنے کی مجھے پرواہ نہیں، تم ہو نا۔‘‘
اس نے اثبات میں اپنی گردن ہلائی، اور اپنی نہاری کی طرف متوجہ ہو گیا۔ گرم گرم نہاری سے اشتہا انگیز خوشبو اٹھ رہی تھی۔ اس نے لوازمات ڈالتے ہوئے، بے قراری سے پہلا نوالہ لیا۔
’’واہ سیٹھ۔ تمہاری نہاری تو دن بدن لاجواب ہوتی جا رہی ہے۔ اب تو گوشت کی بوٹی بھی پہلے سے بڑی دینے لگے ہو، ایک دم رسدار، چربیلی، اور نرم۔‘‘
اس نے نہاری کی تعریف کرتے ہوئے سیٹھ کی جانب دیکھا۔ پر وہ چاروں جانب سے ادائیگی کرتے گاہکوں سے گھرا تھا۔ اس کی نظریں دفعتاً ہال کی جانب اٹھ گئیں، ہال میں اب تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ اور ہوٹل کے باہر، اپنی باری کا انتظار کرتے گاہکوں کی طویل قطار دور تک چلی گئی تھی۔
عامر صدیقی