بنام سید بدر الدین احمد المعروف بہ فقیر صاحب
غالب بنام سید بدر کے خطوط
بنام سید بدر الدین احمد المعروف بہ فقیر صاحب
حضرت مخدوم مکرم و معظم جناب فقیر صاحب دامت برکاتہم۔ بعد بندگی عرض کیا جاتا ہے کہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ حال معلوم ہوا۔ بابو صاحب کے واسطے میرا جی بہت جلا۔ زمانہ ان دنوں میں ان سے برسر امتحان ہے پروردگار ان کو سلامت رکھے اور صبر و شکیب عطا کرے۔ علاقہ مساعدت روزگار کی وہ صورت شداید ِ رنج سفر کی وہ حالت۔ ناسازگاری مزاج کا وہ رنگ۔ ان سب باتوں سے علاوہ یہ کتنی بڑی مصیبت ہے کہ جوان داماد مر جائے اور بیٹی بیوہ ہو جاوے۔ مرگ و زیست کا سررشتہ خدا کے ہاتھ ہے آدمی کیا کرے دل پر میرے جو گزری ہے وہ میرا دل ہی جانتا ہے ہاں بحسب ِ ظاہر تعزیت نامہ لکھنا چاہیے۔ حیران ہوں کہ اگر خط لکھوں تو کس پتہ سے لکھوں ناچار ابھی تامل ہے جب وہ بھرتپور آ جائیں تو آپ ان کے آنے کی مجھ کو اطلاع دیجئے گا کچھ لکھ بھیجوں گا۔ نواب علی نقی خاں صاحب کے خط کے جواب میں جو آپ نے مجھ کو لکھا تھا وہ مجھ کو یاد رہے گا جب نواب صاحب آ جائیں گے میں ان کو سمجھا دوں گا آپ ہندی اور فارسی غزلیں مانگتے ہیں فارسی غزل تو شاید ایک بھی نہیں کہی ہاں ہندی غزلیں قلعہ کے مشاعرے میں دو چار لکھی تھیں سو وہ یا تمہارے دوستحسین مرزا صاحب کے پاس یا ضیاء الدین خاں صاحب پاس۔ میرے پاس کہاں۔ آدمی کو یہاں اتنا توقف نہیں کہ وہاں سے دیوان منگوا کر نقل اتروا کر بھیج دوں۔ سید محمد صاحب کو اور ان کے دونوں بھائیوں کو میری دعا پہنچے۔ اسد اللہ ۔ نگاشتہ چار شنبہ ۱۳ ربیع الثانی ۱۲۷۱ ہجری ۳ جنوری ۱۸۵۵ء
ایضاً
مخدوم مکرم جناب فقیر صاحب کی خدمت عالی میں عرض کیا جاتا ہے کہ بہت دن سے آپ نے مجھ کو یاد نہیں کیا اور مجھ کو کچہ (کچھ)آپ کا حال معلوم نہیں۔ بابو صاحب خدا جانے کہاں ہیں اور کس کام میں ہیں ان کا بھی کچہ (کچھ)حال مجھ کو معلوم نہیں منشی ہر گوپال تفتہ کی تحریر سے بابو صاحب کا حال اکثر اور تمہاری خیر و عافیت گاہ گاہ دریافت ہو جاتی تھی سو وہ بہت دنوں سے علی گڈہ (علی گڑھ)میں ہیں۔ اگرچہ خط ان کے آتے رہتے ہیں مگر ان کو بھی بابو صاحب کا حال معلوم نہیں اور تم سے تو بُعد ہی ہے پھر تمہاری خیر و عافیت کیا لکھیں بہرحال مقصود اس تحریر سے یہ ہے کہ نواب میر علی نقی خاں صاحب آپ سے ملیں گے۔ یہ بہت عالی خاندان ہیں۔ نواب ذوالفقار خاں اور نواب اسدخاں کی اولاد میں سے ہیں۔ اور تمہارے ماموں صاحب یعنی نواب محمد میر خاں مغفور کے بڑے دوست ہیں اب یہ نوکری کی جستجو کو نکلے ہیں آپ ان کی تعظیم و توقیر میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں اور راج کا حال سب ان پر ظاہر کریں اور اہالی سرکار سے ان کو ملوا دیں اور بابو صاحب سے جو ان کو ملوائیے تو یہ میرا خط جو آپ کے نام کا ہے بابو صاحب کو پڑھوا دیجئے کیا خوب ہو کہ یہ اس سرکار میں نوکر ہو جائیں اور اگر نوکری کی صورت نہ بنے تو راج سے ان کی رخصت بآئینِشائستہعمل میں آوے۔ نواب اسد خان عالمگیر کے وزیر تھے اور فرخ سیر ان کا بٹھایا ہوا تھا جب فرخ سیر نے ذوالفقار خاں کو مار ڈالا تو از روئے کتب تواریخ ظاہر ہے کہ سلطنت کیسی برہم ہو گئی اور خود فرخ سیر پر کیا گزری۔ قصہ کوتاہ ان کی تقریب میں جو مدارج آپ صرف کریں گے اور جس قدر آپ ان کی بہبود میں کوشش کریں گے احسان مجھ پر ہو گا۔ زیادہ زیادہ۔ اسد اللہ
ایضاً
سید صاحب جمیل المناقب عالی خاندان سعادت و اقبال توامان مجھ کو اپنی یاد سے غافل اور سید احمد کی خدمت گزاری سے فارغ نہ سمجھیں پر کیا کروں صورت مقدمہ عجیب و غریب ہے یہ بہنیں اور ان کا بھائی باہم موافق رہیں گے تو کوئی صورت نکل آئے گی۔ صامت و ناطق سیم و زر روپیہ اشرقی(اشرفی۔ واللہ اعلم)سنتا ہوں کہ کچھ نہیں ہاں جاداد(جائیداد)سو سیّد کے اظہار سے معلوم ہوا کہ وہ تقسیم نہ ہو گی۔ کرایہ اس کا تقسیم ہو جائے گا میں رائے کیا دوں اور سمجھاؤں کیا۔ کئی دن ہوئے کہ میں حسین مرزا صاحب کے ہاں گیا تھا وہاں میاں بھی بیٹھا تھا باہم ان دونوں صاحبوں میں بھی باتیں ہو رہی تھیں وہ بھی میری مانند حیرت زدہ تھے قضا و قدر کو چھوڑو نیرنگ تقدیر کے تماشائی رہو۔ گھاٹا نہیں ٹوٹا نہیں نقد مال کا پتہ نہیں املاک کا کرایہ بٹ رہے گا گھبراتے کیوں ہو۔ یہ دلی والوں کی خفقانیت کے حالات ہیں۔ تمہارا بھتیجا یعنی حیدر حسین خاں بچ گیا۔ عوارض کی آندھی دفع ہو گئی۔ توقع زیست کی قوی ہے صرف طاقت کا آنا باقی ہے صدمہ بڑا اٹھایا۔ مہینا بھر میں جیسے تھے ویسے ہی ہو جاویں گے انشاءاللہ العلی العظیم۔ صبح دو شنبہ ۲۵ مئی ۱۸۶۳ء۔
ایضاً
پیرو مرشد آج نواں دن ہے حسین مرزا صاحب کو الور گئے اگر ہوتے تو ان سے پوچھتا کہ حضرت میرا دیوان کس مطبع میں طبع ہوا اور حاشیے اس پر کس نے چڑھائے خدا جانے حسین مرزا نے کیا کہا اور حضرت کیا سمجھے اب یہ حقیقت مجھ سے سنیے ۱۸۶۲ یعنی سالِ گزشتہ میں قاطع برہان چھپی پچاس جلدیں میں نے مول لیں اور یہ وہ زمانہ ہے کہ آپ دلی آئے ہیں میں نے یہ سمجھ کر کہ یہ تمہارے کس کام کی ہیں تمہیں نہ دی۔ تم مانگتے اور میں نہ دیتا تو گنہگار تھا اب کوئی جلد باقی نہیں ہے رہا دیوان اگر ریختہ کا منتخب کہتے ہو تو وہ اس عرصہ میں دلی اور کانپور دو جگہ چھاپا گیا اور تیسری جگہ آگرہ میں چھپ رہا ہے فارسی کا دیوان بیس پچیس برس کا عرصہ ہوا جب چھپا تھا پھر نہیں چھپا۔ مگر ہاں سال گزشتہ میں منشی نولکشور نے شہاب الدین خاں کو لکھ کر کلیاتِ فارسی جو ضیاء الدین خان نے غدر کے بعد بڑی محنت سے جمع کیا تھا وہ منگا لیا اور چھاپنا شروع کیا۔ وہ پچاس جزو ہیں یعنی کوئی مصرعہ میرا اس سے خارج نہیں اب سنا ہے کہ وہ چھپ کر تمام ہو گیا ہے روپیہ کی فکر میں ہوں ہاتھ آ جائے تو بھیج کر بیس جلدیں منگواؤں۔ جب آ جائیں گے ایک آپ کو بھی بھیج دوں گا۔ نواب محی الدین خاں صاحب کا حال سن کربہت جی خوش ہوا۔ میری طرف سے سلام و نیاز کے بعد مبارکباد دینا۔
ایضاً
حضرت آپ کے خط کا جواب لکھنے میں درنگ اس راہ سے ہوئی کہ میں منتظر رہا میاں کے آنے کا اب جو وہ مجھ سے مل گئے اور ان کی زبانی سارا حال سن لیا تو جواب لکھنے بیٹھا۔ سنو صاحب ایک منشی محمد تقی ہی تو نہیں یہاں تو ساتا روہن ہے۔ محمد تقی ایک اس کی دو بہنیں تین منشی آغا جان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا چار یہ سات مدعی۔ ایک ان میں سے سید کی بی بی بھی سہی۔ نہ وہ حکام ہیں جن کو میں جانتا تھا نہ وہ عملہ ہے جس سے میری ملاقات تھینہ وہ عدالت کے قواعد ہیں جن کو پچاس برس میں نے دیکھا ہے۔ ایک کونے میں بیٹھا ہوا نیرنگ روزگار کا تماشا دیکھ رہا ہوں یا حافظُ یا حفیظُ وِردِ زبان ہے تمہارے بھائی غلام حسین خان مرحوم کا بیٹا حیدر حسن خاں خدا ہی خدا ہے جو بچے۔ آج تیرھواں دن ہے کہ نہ تپ مفارقت کرتی ہے نہ دست بند ہوتے ہیں نہ قے موقوف ہوتی ہے چارپائی کاٹ رہی ہے حوا س زائل ہو گئے ہیں انجام اچھا نظر نہیں آتا۔ کام تمام ہے۔ والسلام والاکرام۔ مرقومہ ۲۴ ذی قعدہ۱۲۷۹ ہجری۔ عافیت کا طالب غالب۔
٭٭٭