لفظ میرے مری تحریر نہیں رہنی ہے
جب میری بات میں تاثیر نہیں رہنی ہے
نقش جتنے ہیں بگڑنے کے لیے ہیں مرے دوست
اس جہاں میں کوئی تصویر نہیں رہنی ہے
ایک گھر میں نے بنانا ہے تمہارے دل میں
پھر مجھے حسرت تعمیر نہیں رہنی ہے
میں نہتا بھی اگر الجھوں گا ترے لشکر سے
میرے دشمن تری توقیر نہیں رہنی ہے
مجھ کو معلوم نہیں تھا کہ دیا بجھتے ہی
ان ستاروں میں بھی تنویر نہیں رہنی ہے
یہ تماشا بھی بالآخر سمٹ آنا ہے عتیق
ایک دن خواب کی تعبیر نہیں رہنی ہے
ملک عتیق