میں وہ نہیں ہوں جو تیرا کہا بُھلا دوں گی
میں تیرا لہجہ خدا کو بھی جا سُنا دوں گی
مری خموشی کو سمجھے نہ کوئی بَھولا پن
میں تیرے جیسے کئی دام پے لگا دوں گی
کبھی تو مجھ میں بغاوت یوں سر اُٹھاتی ہے
کہ جیسے آج ہی سب خاک میں مِلا دوں گی
مجھے تُو آج حقارت سے تک رہا ہے تو پِھر
ترے غرور کو کل توڑ کر گِرا دوں گی
جسے ہے مسئلہ مُجھ سے وہ مُجھ سے بات کرے
پلک جھپکتے میں سارے گِلے مِٹا دوں گی
اگر خُلوص نہیں ہے تو ہوشِیار رہو
مُنافقین کو دِیوار سے لگا دوں گی
سمجھ رہے تھے جو آساں نہیں بُھلانا اُنہیں
میں فارحہ ہُوں !!! سہُولت سے ہی بھُلا دوں گی
فارحہ نوید