اقبالی غزلیات
اقبالی غزلیات
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجۂ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
-
گل ِ رنگيں
علامہ اقبال کی ایک نظم
-
خِردمندوں سے کیا پُوچھوں
علامہ محمد اقبال کی غزل
-
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
علامہ محمد اقبال کی غزل
-
ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک
علامہ محمد اقبال کی غزل
-
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
علامہ محمد اقبال کی غزل
-
کمال جوش جنوں میں رہا میں گرم طواف
علامہ محمد اقبال کی غزل
-
فطرت کو خرد کے روبرو
علامہ محمد اقبال کی غزل
-
کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحب ہوش
علامہ محمد اقبال کی غزل
-
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
علامہ اقبال کی ایک نظم
-
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
علامہ محمد اقبال کی غزل
-
پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
علامہ محمد اقبال کی غزل
-
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
علامہ محمد اقبال کی غزل