تھا میسر نہ ایک تار ہمیں
ہنس پڑی دیکھ کر بہار ہمیں
اتنا خود پر بھی اعتبار نہیں
جتنا تجھ پر ہے اعتبار ہمیں
اب محبت کا یہ تقاضا ہے
کاکلوں کی طرح سنوار ہمیں
زخم دل دیکھ کر خیال آیا
تجھ پہ کتنا تھا اعتبار ہمیں
تیری نظروں پہ حرف آتا ہے
ورنہ دل پر ہے اختیار ہمیں
غیر سے اس طرح ملے جیسے
مل گیا کوئی غمگسار ہمیں
دلِ پُر درد کا تقاضا ہے
دوستوں کی طرح پکار ہمیں
بارہا وقت نے دئیے باقیؔ
پھول کے رنگ میں شرار ہمیں
باقی صدیقی