غلط کہا تمھیں لوگوں نے ‘ جانے والے ہیں
ابھی تو ہم یہاں خیمے ‘ لگانے والے ہیں
یہ مُلک خواب فروشوں کے ہاتھ لگ گیا ہے
یہ شاہ زادے ‘ بھکاری بنانے والے ہیں
یہ شہرِ کشف و کَرامات تھا کبھی ‘ ہوگا
ابھی تو صرف تماشا ‘ دِکھانے والے ہیں
مِرے علاوہ بھی کچھ لوگ چاہتےہیں اُسے
مِرے علاوہ بھی ذِلت اُٹھانے والے ہیں
تو پھر یہ جھوٹ کا بازار کیسے گرم ہوا
اگر یہاں ابھی ‘ پینے پلانے والے ہیں
یہ ایک دن تری بینائی لے اُڑیں گے ‘ میاں
ترے دِیے کو جو سورج بتانے والے ہیں
کوئی وظیفہ کریں اور یہاں سے چل نکلیں
یہ لوگ آگ نہيں ‘ دل جلانے والے ہیں
عمران عامی