جیسے بھی نام چاہے عطا کر دئیے گئے
حتّٰی کہ آدمی تھے’ خدا کر دئیے گئے
باب ِ قفس کُھلا بھی تو کچھ دیر کے لئے
جو قید میں نہيں تھے’ رِہا کر دئیے گئے
ہم کو ہماری نیند بھی واپس نہيں مِلی
لوگوں کو اُن کے خواب جگا کر دئیے گئے
جتنے ہم اپنے پاس تھے’ اُتنے تو ہیں ابھی
جو ہم تمھارے پاس تھے’ کیا کر دئیے گئے
اِک دوسرے پہ فرض کِیے جا چکے تھے ہم
پھر ایک روز دونوں ادا کر دئیے گئے
جن کو تو موت آ گئی اُن کا تو ذکر کیا
لیکن جو زندگی سے جُدا کر دئیے گئے
ٹوٹے ہوئے چراغ پہ اِترا رہے ہو ‘ تم
یاں تو ستارہ ساز ہَوا کر دئیے گئے
عمران عامی