اردو سفر نامے

سفر نامہ ایک طرح کی ’’روداد‘‘ یا ’’رپورتاژ‘‘ ہے جسے آپ بیتی کی ایک شکل کہا جا سکتا ہے۔ سفر نامے کی عمدگی اور دلچسپی دو باتوں پر منحصر ہوتی ہے۔ ایک واقعاتِ سفر کی ندرت وجدت اور دوسرے اندازِ بیان میں تازگی۔۔ دلچسپی اور مقبولیت کے لحاظ سے ایک معیاری سفر نامہ ناول و افسانے سے کسی طرح کم نہیں۔ دورِ جدید میں اُردو اصنافِ نثر میں سفر نامہ ایک امتیازی اور منفرد صنف کی حیثیت اختیار کر چُکا ہے۔ اُردو کے قدیم سفرناموں میں ’’عجائبات فرنگ‘‘ (یوسف خان کمبل پوش) ’’سفرنامہ مہاراج‘‘ ’’مسافرانِ لندن‘‘ (سرسید احمد خان) ’’سیر ایران‘‘ (محمد حسین آزاد) ’’سفرنامہ روم و مصر و شام‘‘ (شبلی) اہم ہیں۔۔ بیسویں صدی میں یوں تو بے شمار سفرنامے لکھے گئے۔ مگر ’’سفرنامہ یورپ‘‘ (منشی محبوب عالم)، ’’مقام خلافت‘‘ (سر عبدالقادر) ’’نقشِ فرنگ‘‘ (قاضی عبدالغفار) ’’سیر افغانستان‘‘ (علامہ سید سلیمان ندوی) ’’محمد علی کا سفر یورپ‘‘ (مرتبہ: محمد سرور) ’’ساحل اور سمندر‘‘ (احتشام حسین) اور ’’اشتراکی چین‘‘ (ارشاد احمد حقانی) ’’سفرنامہ ارض القرٓن‘‘ (خلیل حامدی) اور ’’چار ہفتے یورپ میں‘‘ (سورش کاشمیری) نسبتاً اہم ہیں۔ بیگم اختر ریاض الدین کے دو مجموعے ’’سات سمندر پار‘‘ اور ’’دھنک پر قدم‘‘ ندرتِ بیان اور دلکش اسلوب کے سبب بہت دلچسپ اور مقبول ہوئے ہیں۔ محمود نظامی کا نظرنامہ‘‘ رپورتاژ کا رانگ لیے ہوئے ہے۔ ادبی سفرناموں میں فارغ بخاری کا ’’براتِ عاشقان‘‘ اور کرشن چندر کا ’’صبح ہوتے ہی‘‘ اہمیت رکھتے ہیں۔ حج کے سفرناموں میں ماہرالقادری کا ’’کاروانِ حجاز‘‘ اور نسیم حجازی کا ’’پاکستان سے دیارِ حرم تک‘‘ زیادہ معروف ہیں۔

Back to top button