- Advertisement -

توبۃ النصوح – فصل دہم

شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کا تیسرا ناول

فصل دہم

کلیم کا جا کر پہلے اپنے دوست مرزا ظاہر دار بیگ،
اور پھر اپنے ایک قرابت دار، فطرت کے یہاں
جا کر رہنا، اور دونوں مرتبہ زک اٹھانا اور قید ہونا،
اور آخر کار باپ ہی کی سفارش پر رہائی پانا

اب ہم کو کلیم اور نعیمہ، دونوں بھائی بہنوں کا حال بیان کرنا چاہیئے کہ باپ کے گھر سے نکل کر ان پر کیا بیتی۔ سو، چوں کہ کلیم پہلے نکلا، پہلے اسی کا حال بیان کرتے ہیں۔

کئی بار اس کو باپ نے بلوا بھیجا، یہاں تک کہ ہار کر واقعہ لکھا۔ ماں نے بہتیرا سمجھایا، بھائی نے بہت کچھ کہا سنا لیکن وہ رو بہ راہ ہوا اور جب دیکھا کہ فہمیدہ، صالحہ کے اتروانے میں مصروف ہے، آنکھ بچا، بے پوچھے، بے کہے گھر سے اس طرح نکل کھڑا ہوا کہ گویا اس کو کچھ تعلق ہی نہ تھا۔ شاید اس کے ذہن میں بھی یہ بات اس وقت نہ گزری ہو گی کہ وہ عمر بھر کے واسطے گھر سے جا رہا ہے اور عزیز و اقارب جن سے وہ ایسے سرسری طور پر جدا ہوتا ہے، جیتے جی ان کو نہ دیکھ سکے گا۔ یہ نکلنا اس کا کچھ نیا نکلنا نہ تھا بلکہ معمولی عادت اور ہمیشہ کی خصلت تھی۔ گھر سے نکل جانے کی اس نے یہاں تک مشق بہم پہنچائی تھی کہ ذرا ذرا سی ادعائی نا خوشی پر وہ آئے دن بھاگا کرتا تھا۔ مگر ادھر اس کا نکلنا معلوم ہوا اور ادھر نو کروں کے جاسوس اس کی جستجو میں دوڑنے شروع ہوئے۔ شروع شروع میں تو نو کروں ہی کے بلانے سے چلا آتا تھا۔ پھر چندے یہ معمول رہا کہ خود میاں نصوح جاتے تو صاحب زادہ بلند اقبال کو منا لاتے۔ اب تھوڑے دنوں سے نصوح کے عمل میں بھی تاثیر گھٹ گئی تھی تو بی فہمیدہ کی ڈولی در بدر پھرا کرتی تھی۔

اس دفعہ بھی وہ ضرور یہ توقع جی میں لے کر نکلا تھا کہ گلی سے نکلتے نکلتے نو کر اس کے پیچھے دوڑیں گے اور اس امید میں اس نے اپنے دوست مرزا ظاہر دار بیگ کے گھر پہنچے پہنچے کوئی سینکڑوں ہی مرتبہ پیچھے پھر پھر کر دیکھا۔ مگر واقع میں یہ اس کی غلط فہمی تھی۔ اب کلیم کے سوا، بہ قول نعیمہ کے، گھر کا باوا آدم بدلا ہوا تھا۔ نہ پہلی سی ماں، نہ اگلا سا باپ، نو کر ڈھونڈھیں تو کیوں اور دوڑیں تو کس لئے؟ پھر بھی کلیم اس سے بے خبر نہ تھا کہ اس مرتبہ ایک خاص طرح کا بگاڑ ہے۔ وہ جانتا تھا کہ دین داری کا چرچا گھر میں ہو رہا ہے۔ خلاف توقع نعیمہ ایک تھپڑ کھا چکی ہے۔ سلیم اور حمیدہ جو گھر میں چھوٹے ہونے کی وجہ سے کلیم اور نعیمہ کے تختہ مشق تھے، اب سب سے زیادہ باپ اور ماں دونوں کے چہیتے ہو رہے ہیں۔ یعنی جن کی لمبی چوڑی عزت تھی، وہ ذلیل ہیں اور جو بے وقعت تھے، ان کا طوطی بول رہا ہے۔ پہلے جب کبھی کلیم گھر سے نا خوش ہر کر نکلا تو کھانے کھڑے، روپے پیسے کے لین دین پر، ماں یا بھائی بہنوں سے لڑائی جھگڑے کے سبب۔ لیکن اس دفعہ دین کی بحث تھی، نہ لین دین کی، باپ سے لڑائی تھی، نہ بھائی بہنوں سے۔ ذرا سی عقل معاملہ فہم بھی کلیم کو ہوتی تو وہ ایسی حالت میں گھر سے نکلنے پر دلیری نہ کرتا۔ لیکن، جیسا کہ نصوح نے تجویز کیا تھا، اس پر شاعری کی پھٹکار تھی اور سر پر شامت اعمال سوار اور واقع میں جب انسان شبانہ روز داد و تحسین کی فکر میں منہمک رہے گا تو ضرور ہے کہ خود پسندی، خود بینی، خود ستائی کے عیوب اس کی طبیعت میں راسخ ہوں۔

شعر و سخن کے اعتبار سے ہم بھی کلیم کو شاباش دیتے ہیں، کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ معاملہ اچھا باندھتا ہے، تضمین میں گرہ خوب لگاتا ہے، بندش بھی خاصی ہوتی ہے، قصیدہ بھی برا نہیں، طبعیت مضمون آفرینی پر بھی مائل ہے۔ مثنوی تو خیر، مگر رباعی اس کی لا جواب ہوتی ہے۔ مقطع میں تخلص کے اتنے التزام پر بے ساختگی کی ادا قابل آفریں ہے۔ اب قصیدے کی تشبیب بعد چندے سودا کے لگ بھگ ہونے والی ہے۔ چشم بد دور، چھ برس کی مشق میں دو دیوانوں کا مرتب ہو جانا کچھ تھوڑی بات نہیں۔ شہر میں بھلا کچھ نہیں تو سو دو سو غزلیں لوگوں کے زبان زد ہوں گی۔ سچ ہے، قبول سخن خدا داد بات ہے۔ الغرض شاعری میں کلیم کی لن ترانیاں چنداں بے جا نہ تھیں۔ لیکن دنیا کے معاملات میں از بس کہ اس کو غور اور خوض کرنے کی عادت نہ تھی، اسی وجہ سے اکثر اس کی رائے غلطی پر ہوتی تھی۔

وہ گھر سے نکل کر ایسا بے تکلف مرزا ظاہر دار بیگ کی طرف کو مڑا، جیسے مطلق العنان گھوڑا تھان کی طرف رخ کرتا ہے۔ مرزا کی ظاہر داری نے اس کو اس قدر دھوکہ دے رکھا تھا کہ وہ ان کو ماں، باپ، بھائی، بہن، خویش و اقارب، سب سے بڑھ کر اپنا خیر خواہ، سب سے زیادہ اپنا دوست سمجھتا تھا اور بے امتحان، بے آزمائش، اس کو مرزا پر ایسا تکیہ و اعتماد تھا کہ شاید دانش مند آدمی کو، متواتر تجربوں کے بعد بھی، کسی دوست پر نہیں ہو سکتا۔ بات اصل یہ ہے کہ مردم شناسی کی جو ایک صفت ہے، کلیم میں مطلق نہ تھی۔ مرزا سے زیادہ اس کو اپنی نسبت مغالطہ تھا اور اس نے اپنے تیئں ایسا عزیز الوجود فرض کر رکھا تھا کہ ایک سے ایک لائق نو کری کی جستجو میں مارے مارے پھرتے ہیں اور نہیں ملتی اور کلیم کے ذہن میں از خود یہ خناس سمایا ہوا تھا کہ گویا تمام ہندوستانی سرکاریں اس کے قدوم میمنت لزوم کی متمنی اور منتظر ہیں اور جس طرف کو چل کھڑا ہو گا، وہاں کا والی ملک اس کی تشریف آوری کو بس غنیمت جانے گا۔ گھر سے نکلا تو محض تہی دست، لیکن اس خیال میں مگن کہ اب کوئی دم جاتا ہے کہ مالک خزائن الارض بننے جا رہا ہوں۔ چلا جوتیاں چٹخاتا ہوا مگر اس تصور میں مست کہ فیل کوہ پی کر مع ہودج زر اس کی سواری کے لئے آ رہا ہے۔ باوجودیکہ شب خوابی کے کپڑوں کے سوا بدن پر کچھ نہ تھا، تاہم خلعت ہفت پارچہ کی امید میں

نظر اس کی نخوت کے زینے پہ تھی

کہ شانوں سے اتری تو سینے پہ تھی

قصہ کوتاہ، کلیم شیخ چلی کے سی منصوبے سوچتا ہوا اپنے دوست مرزا کے مکان پر پہنچا۔ ہر چند ابھی کچھ ایسی بہت رات نہیں گئی تھی لیکن مرزا جیسے نکمے، بے فکرے کبھی کی لمبی تاک کر سو چکے تھے۔ کلیم نے دروازے پر دستک دی تو جواب ندارد۔ اس مقام پر مرزا کا تھوڑا سا حال لکھ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس شخص کی کیفیت یہ تھی کہ شاید اس کا نانا، وہ بھی حقیقی نہیں، ابتدائے عمل داری سرکار میں صاحب ریزیڈنٹ کی اردلی کا جمعدار تھا۔ اول تو ایسی عالی جاہ سرکار، دوسرے با اعتبار منصب اردلی کا جمعدار، تیسرے ان دنوں کی بے عنوانی، اس پر خود اس کی رشوت ستانی، بہت کچھ کمایا۔ یہاں تک کہ اس کا اعتداد دلی کی روداروں میں ہو گیا۔ مرزا کی ماں اوائل عمر میں بیوہ ہو گئی۔ جمعدار نے با وجودے کہ دور کی قرابت تھی، حسبتہ للہ، اس کا تکفل اپنے ذمے لیا۔ جمعدار اپنی حیات میں اتنا سلوک کرتا رہا کہ مرزا کو یتیمی اور کی ماں کو بیوگی بھول کر بھی یاد نہ آئی ہو گی لیکن جمعدار کے مرنے پر اس کے بیٹے، پوتے، نواسے کثرت سے تھے، انہوں نے بے اعتنائی کی اور اگرچہ جمعدار بہت کچھ وصیت کر مرے تھے مگر ان کے ورثا نے بہ ہزار دقت، محل سرا کے پہلو میں ایک بہت چھوٹا سا قطعہ ان کے رہنے کو دیا، اور سات روپے مہینے کے کرائے کی دوکانیں مرزا کے نام کرا دیں۔ یہ تو حال تھا کہ مرزا مرزا کی ماں، مرزا کی بیوی، تین تین آدمی اور سات روپے کل کی کائنات، اس پر مرزا کی شیخی اور نمود۔ یہ مسخرہ اس ہستی پر چاہتا تھا کہ جمعدار کے بیٹوں کی برابری کرے، جن کو صد ہا روپے ماہوار کی آمدنی تھی۔ اگرچہ جمعدار والے اس کو منہ نہیں لگاتے تھے مگر یہ بے غیرت زبردستی ان میں گھستا تھا۔ کسی کو ماموں جان، کسی کو بھائی جان، کسی کو خالو جان بناتا اور وہ لوگ اس کے ادعائی رشتوں نا توں سے جلتے اور دق ہوتے۔ اونچی حیثیت کے لوگوں میں بیٹھنا اس کے حق میں اور بھی زبوں تھا۔ ان کی دیکھا دیکھی اس نے تمام عادتیں امیر زادوں کی سی اختیار کر رکھی تھیں، مگر امیر زادگی نہ تھی تو کیسے نبھے۔ دوکانیں گروی ہوتی جاتی تھیں۔ ماں بے چاری بہتیرا بکتی مگر کون سنتا تھا۔

مرزا کو جب دیکھو، پاؤں میں ڈیڑھ حاشیے کی جوتی، سر پر دہری بیل کی بھاری کام دار ٹوپی، بدن میں ایک چھوڑ دو دو انگرکھے : اوپر شبنم یا ہلکی سی تن زیب، نیچے کوئی طرح دار سا ڈھا کے کا نینو۔ جاڑا ہوا تو بانات مگر سات روپے گز سے کم کی نہیں۔ خیر، یہ تو صبح شام، اور تیسرے پہر کا شانی مخمل کی آصف خانی جس میں حریر کی سنجاف کے علاوہ گنگا جمنی کم خواب کی عمدہ بیل ٹنکی ہوئی۔ سرخ نیفہ۔ پائجامہ اگر ڈھیلے پائنچوں کا ہوا تو کلی دار اور اس قدر نیچا کہ ٹھوکر کے اشارے سے دو دو قدم آگے، اور اگر تنگ مہری کا ہوا تو نصف ساق تک چوڑیاں، اور اوپر جلد بدن کی طرح مڑھا ہوا۔ ریشمی ازار بند، گھٹنوں میں لٹکتا ہوا۔ اس میں بے قفل کی کنجیوں کا گچھا۔ غرض دیکھا تو مرزا صاحب اس ہیئت کذائی سے چھیلا بنے ہوئے، سر بازار، چھم چھم کرتے چلے جا رہے ہیں۔

کلیم سے مرزا سے محفل مشاعرہ میں تعارف پیدا ہوا۔ شدہ شدہ مرزا صاحب کلیم کے مکان پر تشریف لانے لگے۔ یہاں تک کہ اب چند روز سے تو دونوں میں ایسی گاڑھی چھننے لگی تھی کہ گویا یک جان و دو قالب تھے۔ کلیم کو تو مرزا کے مکان پر جانے کا کبھی بھی اتفاق نہیں ہوا مگر مرزا، شام کو تو کبھی کبھی، لیکن صبح کو بلا ناغہ آتے اور تمام تمام دن کلیم کے پاس رہتے۔ مرزا نے اپنا حال اصلی کلیم پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ کلیم یہی جانتا تھا کہ جمعدار کا تمام ترکہ مرزا کو ملا اور وہ جمعدار کی محل سرا کو مرزا کی محل سرا اور جمعدار کے دیوان خانے کو مرزا کا دیوان خانہ اور جمعدار کے بیٹے پو توں کے نو کروں کو مرزا کے نو کر سمجھتا اور اسی غلط فہمی میں وہ گھر سے نکلا تو سیدھا جمعدار کے محل سرا کی ڈیوڑھی پر جا موجود ہوا۔ بار بار کے پکارنے اور کنڈی کھڑکھڑانے سے دو لونڈیاں چراغ لئے ہوئے اندر سے نکلیں، اور ان میں سے ایک نے پوچھا: "کون صاحب ہیں اور اتنی رات گئے کیا کام ہے؟”

کلیم: جاؤ مرزا کو بھیج دو۔

لونڈی: کون مرزا؟

کلیم: مرزا ظاہر دار بیگ جن کا مکان ہے اور کون مرزا۔

لونڈی: یہاں کوئی ظاہر دار بیگ نہیں ہے۔

اتنا کہہ کر قریب تھا کہ لونڈی پھر کواڑ بند کر لے کہ کلیم نے کہا: "کیوں جی کیا یہ جمعدار صاحب کی محل سرا نہیں ہے؟”

لونڈی: ہے کیوں نہیں۔

کلیم: پھر تم نے یہ کیا کہا کہ یہاں کوئی ظاہر دار بیگ نہیں۔ کیا ظاہر دار بیگ جمعدار کے وارث اور جانشین نہیں ہیں؟

لونڈی: جمعدار کے وارثوں کو خدا سلامت رکھے، مُوا ظاہر دار بیگ جمعدار کا وارث بننے والا کون ہوتا ہے۔

دوسری لونڈی: اری کم بخت! یہ کہیں مرزا بانکے کے بیٹے کو نہ پوچھتے ہوں۔ وہ ہر جگہ اپنے تئیں جمعدار کا بیٹا بنایا کرتا ہے۔ (کلیم سے مخاطب ہو کر) "کیوں میاں ! وہی ظاہر دار بیگ نا، جن کی رنگ زرد زرد ہے، آنکھیں کرنجی، چھوٹا قد، دبلا ڈیل، اپنے تئیں بہت بنائے سنوارے رہا کرتے ہیں۔

کلیم: ہاں ہاں، وہی ظاہر دار بیگ۔

لونڈی: تو میاں، اس مکان کے پچھواڑے، اپلوں کی ٹال کے برابر ایک چھوٹا سا کچا مکان ہے، وہ اس میں رہتے ہیں۔

کلیم نے وہاں جا آواز دی تو کچھ دیر بعد مرزا صاحب ننگ دھڑنگ، جانگیہ پہنے ہوئے باہر تشریف لائے اور کلیم کو دیکھ کر شرمائے اور بولے : آہا! آپ ہیں۔ معاف کیجئے گا، میں نے سمجھا کوئی اور صاحب ہیں۔ بندے کو کپڑا پہن کر سونے کی عادت نہیں۔ میں ذرا کپڑے پہن آؤں تو آپ کے ہم رکاب چلوں۔

کلیم: چلئے گا کہاں؟ میں آپ ہی کے پاس تک آیا تھا۔

مرزا: پھر اگر کچھ دیر تشریف رکھنا منظور ہو تو میں اندر پردہ کرا دوں۔

کلیم: میں آج شب کو آپ ہی کے یہاں رہنے کی نیت سے آیا ہوں۔

مرزا: بسم اللہ، تو چلیے اسی مسجد میں تشریف رکھیے، بڑی فضا کی جگہ ہے۔ میں ابھی آیا۔
کلیم نے جو مسجد میں آ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک نہایت پرانی چھوٹی سی مسجد ہے، وہ بھی مسجد ضرار کی طرح ویران، وحشت ناک، نہ کوئی حافظ ہے، نہ کوئی طالب علم، نہ کوئی مسافر۔ ہزار ہا چمگادڑیں اس میں رہتی ہیں کہ ان کی تسبیح بے ہنگام سے کان کے پردے پھٹے جاتے ہیں۔ فرش پر اس قدر بیٹ پڑی ہے کہ بجائے خود کھرنجے کا فرش بن گیا ہے۔

مرزا کے انتظام میں کلیم کو چار و نا چار اسی مسجد میں ٹھہرنا پڑا۔ مرزا آئے بھی تو اتنی دیر کے بعد کہ کلیم مایوس ہو چکا تھا۔ قبل اس کے کہ کلیم شکایت کرے، مرزا صاحب، بطور دفع دخل مقدر، فرمانے لگے کہ بندے کے گھر میں کئی دن سے طبیعت علیل ہے، خفقان کا عارضہ، اختلاج قلب کا روگ ہے۔ اب جو میں آپ کے پاس سے گیا تو ان کو غشی میں پایا، اسی وجہ سے دیر ہوئی۔ پہلے تو یہ بتائیے کہ اس وقت بندہ نوازی فرمانے کی کیا وجہ ہے؟

کلیم نے باپ کی طلب، اپنا انکار، بھائی کی التجا، ماں کا اصرار، تمام ماجرا کہہ سنایا۔

مرزا: پھر اب کیا ارادہ ہے؟

کلیم: سوائے اس کے کہ اب گھر لوٹ کر جانے کا ارادہ نہیں ہے، اور جو آپ کی صلاح ہو۔

مرزا: خیر، نیت شب حرام، صبح تو ہو۔ آپ بے تکلف استراحت فرمایئے۔ میں جا کر بچھونا وغیرہ بھیجے دیتا ہوں اور مجھ کو مریضہ کی تیمار داری کے لئے اجازت دیجئے کہ آج اس کی علالت میں اشتداد ہے۔

کلیم: یہ کیا ماجرا ہے؟ تم تو کہا کرتے تھے کہ ہمارے یہاں دوہری محل سرائیں، متعدد دیوان خانے، کئی پائیں باغ ہیں۔ حوض اور حمام اور کٹرے اور گنج اور دوکانیں اور سرائیں، میں تو جانتا ہوں کہ عمارت کی قسم کی کوئی چیز ایسی نہ ہو گی جس کو تم نے اپنی ملک نہ بتایا ہو، یا یہ حال ہے کہ ایک متنفس کے واسطے ایک شب کے لیے تم کو جگہ میسر نہیں۔ جو جو حالات تم نے اپنی زبان سے بیان کئے، ان سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ جمعدار کے تمام تر کے پر تم قابض اور متصرف ہو۔ لیکن میں اس جاہ و حشمت کا ایک شمہ بھی نہیں دیکھتا۔

مرزا: آپ کو میری نسبت سخن سازی کا احتمال ہونا سخت تعجب کی بات ہے۔ اتنی مدت مجھ سے آپ سے صحبت رہی، مگر افسوس ہے کہ آپ نے میری طبیعت اور میری عادت کو نہ پہچانا۔ یہ اختلاف حالت جو آپ دیکھتے ہیں، اس کی ایک وجہ ہے۔ بندے کو جمعدار صاحب مرحوم و مغفور نے متبنٰی کیا تھا اور اپنا جانشین کر مرے تھے۔ شہر کے کل رؤسا اس سے واقف اور آگاہ ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد لوگوں نے اس میں رخنہ اندازیاں کیں۔ بندے کو آپ جانتے ہیں کہ بکھیڑے سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ صحبت نا ملائم دیکھ کر کنارا کش ہو گیا۔ لیکن کسی کو انتظام کا سلیقہ، بندوبست کا حوصلہ نہیں۔ اسی روز سے اندر باہر واویلا مچی ہوئی ہے اور اس بات کے مشورے ہو رہے ہیں کہ بندے کو منانے جائیں۔

کلیم: لیکن آپ نے اس کا تذکرہ کبھی نہیں کیا۔

مرزا: اگر میں آپ سے یا کسی سے تذکرہ رتا تو استقلال مزاج سے بے بہرہ اور غیرت و حمیت سے بے نصیب ٹھہرتا۔ اب آپ کو کھڑے رہنے میں تکلیف ہوتی ہے، اجازت دیجئے کہ میں جا کر بچھونا بھجوا دوں اور مریضہ کی تیمار داری کروں۔

کلیم: خیر، مقام مجبوری ہے۔ لیکن پہلے ایک چراغ تو بھیج دیجئے، تاریکی کی وجہ سے طبیعت اور بھی گھبراتی ہے۔

مرزا: چراغ کیا میں نے تو لمپ روشن کرانے کا ارادہ کیا تھا لیکن گرمی کے دن ہیں، پروانے بہت جمع ہو جائیں گے اور آپ زیادہ پریشان ہو جیے گا اور اس مکان میں ابابیلوں کی کثرت ہے، روشنی دیکھ کر گرنے شروع ہو جائیں گے اور آپ کا بیٹھنا دشوار کر دیں گے۔ تھوڑی دیر صبر کیجئے کہ ماہتاب نکلا آتا ہے۔

کلیم جب گھر سے نکلا تو کھانا تیار تھا لیکن وہ اس قدر طیش میں تھا کہ اس نے کھانے کی مطلق پروا نہ کی اور بے کھائے نکل کھڑا ہوا۔ مرزا سے ملنے کے بعد وہ منتظر تھا کہ آخر مرزا خود پوچھیں ہی گے تو کہہ دوں گا۔ مرزا کو ہر چند کھانے کی نسبت پوچھنا ضرور تھا، کیوں کہ اول تو کچھ ایسی رات زیادہ نہیں گئی تھی، دوسرے یہ اس کو معلوم ہو چکا تھا کہ کلیم گھر سے لڑ کر نکلا ہے، تیسرے دونوں میں بے تکلفی غایت درجے کی تھی۔ لیکن مرزا قصداً اس بات سے معترض نہ ہوا اور کلیم بے چارے کا بھوک کے مارے یہ حال کہ مسجد میں آنے سے پہلے اس کی انتڑیوں نے قل ہو اللہ پڑھنی شروع کر دی تھی۔ جب اس نے دیکھا کہ مرزا کسی طرح اس پہلو پر نہیں آتا اور عن قریب تمام شب کے واسطے رخصت ہوا چاہتا ہے، تو بے چارے نے بے غیرت بن کر خود ہی کہہ دیا کہ سنو یار، میں نے کھانا بھی نہیں کھایا۔

مرزا: سچ کہو! نہیں جھوٹ، بہکاتے ہو۔

کلیم: تمہارے سر کی قسم، میں بھوکا ہوں۔

مرزا: تو مرد خدا، آتے ہی کیوں نہ کہا؟ اب اتنی رات گئے کیا ہو سکتا ہے۔ دوکانیں سب بند ہو گئیں اور جو دو ایک کھلی بھی ہیں تو باسی چیزیں رہ گئی ہوں گی، جس کے کھانے سے فاقہ بہتر ہے۔ گھر میں آج آگ تک نہیں سلگی۔ مگر ظاہراً تم سے بھوک کی سہار ہونی مشکل معلوم ہوتی ہے۔ دیو اشتہا کو زیر کرنا بڑی ہمت والوں کا کام ہے۔ ایک تدبیر سمجھ میں آتی ہے کہ جاؤں چھدامی بھڑ بھونجے کے یہاں سے گرم گرم خستہ چنے کی دل بنوا لاؤں۔ بس ایک دھیلے کی مجھ کو تم کو دونوں کو کافی ہو گی، رات کا وقت ہے۔

ابھی کلیم کچھ کہنے بھی نہیں پایا تھا کہ مرزا جلدی سے اٹھ باہر گئے اور چشم زدن میں چنے بھنوا لائے۔ مگر دھیلے کا کہہ کر گئے تھے، یا تو کم کے لائے یا راہ میں دو چار پھن کے لگا لیے، اس واسطے کہ کلیم کے روبرو دو تین مٹھی چنے سے زیادہ نہ تھے۔

مرزا: یار، ہو تم بڑے خوش قسمت کہ اس وقت بھاڑ مل گیا۔ ذرا، واللہ ہاتھ تو لگاؤ، دیکھو تو کیسے بھلس رہے ہیں اور سوندھی سوندھی خوش بو بھی عجب ہی دلفریب ہے کہ بس بیان نہیں ہو سکتا۔ تعجب ہے کہ لوگوں نے خس اور مٹی کا عطر نکالا مگر بھنے ہوئے چنوں کی طرف کسی کا ذہن منتقل نہیں ہوا۔ کوئی فن ہو، کمال بھی کیا چیز ہے۔ دیکھیئے، اتنی تو رات گئی ہے مگر چھدامی کی دکان پر بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ بندے نے تحقیق سے سنا ہے کہ حضور والا کے خاصے میں چھدامی کی دوکان کا چنا بلا ناغہ لگ کر جاتا ہے۔ اور واقعی میں آپ ذرا غور سے دیکھئے، کیا کمال کرتا ہے کہ بھوننے میں چنوں کو سڈول بنا دیتا ہے۔ بھئی تمہیں میرے سر کی قسم سچ کہنا، ایسے خوب صورت، خوش قطع، سڈول چنے تم نے پہلے بھی کبھی دیکھے تھے؟ دال بنانے میں اس کو یہ کمال حاصل ہے کہ کسی دانے پر خراش تک نہیں، ٹوٹنے پھوٹنے کا کیا مذکور اور دانوں کی رنگت دیکھیے۔ کوئی بسنتی ہے، کوئی پستئی غرض دونوں رنگ خوش نما۔ یوں تو صد ہا قسم کے غلے اور پھل زمین سے اگتے ہیں لیکن چنے کی لذت کو کوئی نہیں پاتا۔ آپ نے وہ ایک ظریف کی حکایت سنی ہے؟

کلیم: فرمائیے۔

مرزا: چنا ایک بار حضرت میکائیل کی خدمت میں جن کو ارزاق عباد کا اہتمام سپرد ہے فریاد لے کر گیا کہ یا حضرت میں نے ایسا کیا قصور کیا ہے کہ جوں میں نے سر زمین سے نکالا تیر ستم چلنے لگا۔ ماکولات اور بھی ہیں، مگر جیسے جیسے ظلم مجھ پر ہوتے ہیں کسی اور پر نہیں ہوتے۔ نشو و نما کے ساتھ تو میری قطع و برید ہونے لگتی ہے۔ میری کونپلوں کو توڑ کر آدمی ساگ بناتے اور مجھے کچے کو کھا جاتے ہیں۔ جب ذرا بار آور ہوا تو خدا جھوٹ نہ بلوائے، آدمی بکری بن کر لاکھوں من بونٹ چر جاتے ہیں۔ اس سے نجات ملی تو ہولے کرنے شروع کیے۔ پکا تو شاخ و برگ، بھس بن کر بیلوں اور بھینسوں کے دوزخ شکم کا ایندھن ہوا۔ رہا دانہ، اس کو چکی میں دلیں، گھوڑوں کو کھلائیں، بھاڑ میں بھونیں، بیسن بنائیں، کھولتے ہوئے پانی میں ابالیں، گھنگھنیاں پسائیں۔ غرض شروع سے آخر تک مجھ پر طرح طرح کی آفتیں نازل رہتی ہیں۔ چنے کا حضرت میکائیل کے دربار میں اس طرح پر بے باکانہ چپڑ چپڑ بولنا سن کر حاضرین دربار اس قدر نا خوش ہوئے کہ ہر شخص اسے کھانے کو دوڑا۔ چنانچہ یہ ماجرا دیکھ کر بے انتظام حکم اخیر رخصت ہوا۔ سو حضرت، یہ چنے ایسے لذت کے بنے ہیں کہ فرشتوں کے دندان آز بھی ان پر تیز ہیں۔ افسوس ہے کہ اس وقت نمک مرچ بہم نہیں پہنچ سکتا، ورنہ میر مدن کے کبابوں میں یہ خستگی اور یہ سوندھا پن کہاں؟

غرض، مرزا نے اپنی چرب زبانی سے چنوں کو گھی کی تلی دال بنا کر اپنے دوست کلیم کو کھلایا۔ کلیم بھوکا تو تھا ہی، اس کو بھی ہمیشہ سے کچھ زیادہ مزے دار معلوم ہوئے۔ مرزا نے گھر جا کر ایک میلی دری ایک کثیف سا تکیہ بھیج دیا۔ دو ہی گھڑی میں کلیم کی حالت کا اس قدر متغیر ہونا عبرت کا مقام ہے۔ یا تو خلوت خانہ اور عشرت منزل میں تھا یا اب ایک مسجد میں آ کر پڑا اور مسجد بھی ایسی جس کا تھوڑا سا حال ہم نے اوپر بیان کیا۔ گھر کے الوان نعمت کو لات مار کر نکلا تھا تو پہلی ہی وقت چنے چبانے پڑے۔ نہ چراغ نہ چار پائی، نہ بہن نہ بھائی، نہ مونس نہ غم خوار، نہ نو کر نہ خدمت گار۔ مسجد میں اکیلا ایسا بیٹھا تھا جیسے قید خانے میں حاکم کا گنہگار، یا قفس میں مرغ نو گرفتار اور کوئی ہوتا تو اس حالت پر نظر کر کے تنبیہ پکڑتا، اپنی حرکت سے توبہ اور اپنے افعال سے استغفار کرتا، اور اسی وقت نہیں تو سویرے گجر دم باپ کے ساتھ نماز صبح میں جا شریک ہوتا۔ لیکن کلیم کو اور بہت مضمون سوچنے کو تھے۔ اس نے رات بھر میں ایک قصیدہ تو مسجد کی ہجو میں تیار کیا اور ایک مثنوی مرزا کی شان میں۔

صبح ہوتے آنکھ لگ گئی، تو معلوم نہیں مرزا یا محلے کا کوئی اور عیار، ٹوپی، جوتی، رومال، چھڑی، تکیہ، دری، یعنی جو چیز کلیم کے بدن سے منفک اور اس کے جسم سے جدا تھی، لے کر چمپت ہوا۔ یوں بھی کلیم بہت دیر کو سو کے اٹھتا تھا اور آج تو ایک وجہ خاص تھی۔ کوئی پہر سوا پہر دن چڑھے جاگا تو دیکھتا کیا ہے کہ فرش مسجد پر پڑا ہے اور نیند کی حالت میں جو کروٹیں لی ہیں تو سیروں گرد کا بھبھوت اور چمگادڑوں کی بیٹ کا ضماد بدن پر تھپا ہوا ہے۔ حیران ہوا کہ قلب ماہیت ہو کر میں کہیں بھتنا تو نہیں بن گیا۔ مرزا کو ادھر دیکھا ادھر دیکھا، کہیں پتا نہیں۔ مسجد تھی ویران، اس میں پانی کہاں۔ صبر کر کے بیٹھ رہا کہ کوئی اللہ کا بندہ ادھر کو آ نکلے تو اس کے ہاتھ مرزا کو بلواؤں اور یا منہ ہاتھ دھو کر خود مرزا تک جاؤں۔ ا س میں دوپہر ہونے کو آئی۔ بارے ایک لڑکا کھیلتا ہوا آیا۔ جونہی زینے پر چڑھا کہ کلیم اس سے عرض مطلب کرنے کے لئے لپکا۔ وہ لڑکا اس کی ہیئت کذائی دیکھ ڈر کر بھاگا۔ خدا جانے اس نے اس کو بھوت سمجھا یا سڑی خیال کیا۔ کلیم نے بہتیرا پکارا اس لڑ کے نے پیٹھ پھیر کر نہ دیکھا۔

نا چار کلیم نے بہ ہزار مصیبت دوسرے فاقے سے شام پکڑی اور جب اندھیرا ہوا تو الو کی طرح اپنے نشیمن سے نکلا۔ سیدھا مرزا کے مکان پر گیا اور آواز دی تو یہ جواب ملا کہ وہ تو بڑے سویرے کے قطب صاحب سدھارے ہیں۔ کلیم نے چاہا کہ اپنا تعارف ظاہر کر کے ممکن ہو تو منہ ہاتھ دھونے کو پانی مانگے اور مرزا کی پھٹی پرانی جوتی اور ٹوپی، تاکہ کسی طرح گلی کوچے میں چلنے کے قابل ہو جائے۔ یہ سوچ کر اس نے کہا: "کیوں حضرت، آپ مجھ سے بھی واقف ہیں؟”

اندر سے آواز آئی: "ہم تمہاری آواز تو نہیں پہچانتے، اپنا نام نشان بتاؤ تو معلوم ہو۔

کلیم: میرا نام کلیم ہے، اور مجھ سے اور مرزا ظاہر دار بیگ سے بڑی دوستی ہے۔ بلکہ شب کو میں مرزا صاحب ہی کی وجہ سے مسجد میں تھا۔

گھر والے : وہ دری اور تکیہ کہاں ہے جو تمہارے سونے کے لئے بھیجا گیا تھا؟

تکیہ اور دری کا نام سن کر تو کلیم بہت چکرایا اور ابھی جواب دینے میں متامل تھا کہ اندر سے آواز آئی: "مرزا زبردست بیگ! دیکھنا، یہ مردوا کہیں چل نہ دے۔ دوڑ کر تکیہ دری تو اس سے لو۔ ”

کلیم یہ سن کر بھاگا۔ ابھی گلی کی نکڑ تک نہیں پہنچا تھا کہ زبردست نے "چور چور” کر کے جا لیا۔ ہر چند کلیم نے مرزا ظاہر دار بیگ کے ساتھ اپنے حقوق معرفت ثابت کیے مگر زبردست کا ٹھینگا سر پر، اس نے ایک نہ مانی اور پکڑ کر کو توالی لے گیا۔ کو توال نے سرسری طور پر دونوں کا بیان سنا اور کلیم سے اس کا حسب نسب پوچھا۔ ہرچند، کلیم اپنا پتا بتانے میں جھینپتا تھا مگر چار و نا چار اس کو بتانا پڑا۔ لیکن اس کی حالت ظاہری ایسی ابتر ہو رہی تھی کہ اس کا سچ بھی جھوٹ معلوم ہوتا تھا۔ کو توال نے سن کر یہی کہا کہ میاں نصوح جن کو تم اپنا والد بتاتے ہو، میں ان کو خوب جانتا ہوں اور یہ بھی مجھ کو معلوم ہے کہ ان کے بڑے بیٹے کا یہی نام ہے جو تم نے اپنا بیان کیا ہے۔ محلے کا پتا، گھر کا نشان بھی جوتم نے کہا، سب ٹھیک ہے۔ مگر کلیم تو ایک مشہور و معروف آدمی ہے۔ آج شہر میں اس کی شاعری کی دھوم ہے۔ تمہاری یہ حیثیت کہ ننگے سر، ننگے پاؤں، بدن پر کیچڑ تھپی ہوئی۔ مجھ کو باور نہیں ہوتا۔ ان کو حوالات میں رکھو۔ صبح ہو تو میں ان کے والد کو بلواؤں تو ان کے بیان کی تصدیق ہو۔

کلیم یہ سن کر رو دیا اور کہا کہ میں وہی بدنصیب ہوں جس کی شعر گوئی کا شہرہ آپ نے سنا ہے۔ آپ کو یقین نہ ہو تو میں اپنے افکار تازہ سناؤں۔ چنانچہ کل شب کو جو کچھ مسجد و مرزا کی شان میں کہا تھا، سنایا۔ اس پر کو توال نے اتنی رعایت کی کہ دو سپاہی کلیم کے ساتھ کیے اور ان کو حکم دیا کہ ان کو میاں نصوح کے پاس لے جاؤ۔ اگر وہ ان کو اپنا فرزند بتائیں تو چھوڑ دینا، ورنہ واپس لا کر حوالات میں رکھنا۔

کلیم پر اس کیفیت سے باپ کے روبرو آنا جیسا کچھ شاق گزرا ہو گا، ظاہر ہے، مگر کیا کر سکتا تھا۔ سپاہی اس کو کشاں کشاں لے ہی گئے۔ محلے کی مسجد، جس میں نصوح نماز پڑھا کرتا تھا، اس کے گھر سے بہت ہی قریب تھی۔ صحن مسجد میں ایک شاداب چمن تھا اور چمن کے بیچوں بیچ، ایک پکا، مرتفع چبوترا۔ عجب تفریح کا مقام تھا۔ نصوح، بیش تر نماز عشاء کے بعد، خصوصاً چاندنی راتوں میں، اس چبوترے پر بیٹھ کر پھول بوٹوں میں خداوند تعالیٰ کی صنعت کا ملاحظہ کیا کرتا تھا۔ اس کو بیٹھا دیکھ کر دوسرے نمازی بھی جمع ہو جاتے تھے اور نصوح کو وعظ پند کے طور پر ان کے ساتھ گفتگو کرنے کا موقع ملتا تھا۔

نصوح اور اس کے مستمعین، مسجد کے چبوترے پر جمع ہوتے جاتے تھے، کہ کو توالی کے سپاہی کلیم کو لیے آن پہنچے۔ یہ اتفاق من جانب اللہ شاید اسی وجہ سے پیش آیا کہ جو لوگ کلیم کی نظر میں صرف اس وجہ سے ذلیل تھے کہ وہ اپنے خالق کی پرستش کرتے تھے، یا اپنے اور بال بچوں کے پیٹ بھرنے کے لئے محنت مزدوری کر کے بہ وجہ حلال روزی پیدا کرتے تھے، ان کے سامنے اس کی گردن نخوت نیچی ہو۔ اب وہ انہیں قل اعوذیوں اور مردہ شویوں، اور بھک منگوں، اور ٹکر گداؤں کے روبرو اس حیثیت سے کھڑا تھا کہ من کر نکیر کی طرح دو سپاہی اس کی گردن پر سوار تھے۔ نہ سر پر ٹوپی، نہ پاؤں میں جوتی۔ دو وقت کے فاقے سے منہ سوکھ کر ذری سا نکل آیا تھا، آنکھوں میں حلقے پڑ گئے تھے، ہونٹوں پر پپڑیاں جم رہی تھیں۔ کپڑوں کا وہ حال تھا کہ ایسے لباس سے ننگا ہوتا تو بہتر تھا۔

جوں نصوح کی نظر بیٹے پر پڑی گویا ایک تیر سا کلیجے میں لگ گیا۔ اگر پہلا سا نصوح ہوتا تو نہیں معلوم عور توں کی طرح دھاڑیں مار کر روتا، یا سر پیٹنے لگتا، یا دوڑ کر بیٹے کو لپٹ جاتا، یا سپاہیوں سے بے پوچھے گچھے دست و گریبان ہو پڑتا، یا خدا جانے اضطراب جاہلانہ میں کیا کرتا۔ مگر اب اس کی جملہ حرکات و سکنات، معلم دین داری کی مطیع، اور مؤدب خدا پرستی کی تابع تھیں۔ اس نے ایک دم آہ سرد بھر کر "انا للہ و انا الیہ راجعون” تو کہا اور اف بھی نہ کی۔ سپاہیوں نے اس سے کلیم کی نسبت پوچھا تو اس نے آنکھیں نیچی کر کے کہا کہ جب حضرت نوح اپنے بیٹے کو ڈوبتے دم تک "بیٹا بیٹا” پکارتے گئے تو میں اس کے فرزند ہونے سے کیوں کر انکار کر سکتا ہوں۔ سپاہی تو اتنا سن کر رخصت ہوئے اور کلیم کو رفقائے نصوح میں سے کسی نے ہاتھ پکڑ کر اپنے پہلو میں بٹھایا۔ نصوح بیٹے کی طرف مخاطب ہو کر بولا: "کیوں کلیم، میں نے ایسا کون سا قصور کیا تھا کہ تم کو میری طلعت منحوس تک دیکھنی وارا نہ ہوئی؟ تم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ شفقت اولاد، ماں باپ کی طینت میں مضمر اور ان کی جبلت میں داخل ہے۔ وہ شفقت جو اس وقت مجھ کو اس بات کی محرک ہوئی کہ میں سپاہیوں کے پنجے سے تمہاری نجات کا باعث ہوا، وہی شفقت مجھ کو اس بات پر بھی مجبور کرتی ہے اور کرے گی کہ میں تم کو ایسی راہ نہ چلنے دوں، جو تمہاری ابدی ہلاکت کا باعث اور دائمی تباہی کا موجب ہو۔ میں نے تم سے یہ نہیں کہا کہ میرے لئے کمائی کرو، میری آسائش کے واسطے اپنے اوپر تکلیف اٹھاؤ، اور اگر میں ایسا کہتا تو مجھ کو اس کا منصب اور حق تھا۔ میں نے جس کمائی کو کہا وہ تمہارے ہی کام آئے گی، اور جس محنت کی تم کو تکلیف دی، وہ تمہی کو آرام دے گی۔ اگر کسی بیمار کا طبیب مہربان سے پرہیز کرنا، کسی سیاح کا بدرقہ خیر خواہ سے گریز کرنا، روا ہے تو بے شک تم بھی مجھ سے نفرت رکھ سکتے ہو۔ کیوں کلیم، کیا ہمیشہ تمہاری خوشی مجھ کو منظور، تمہاری رضا جوئی مجھ کو ملحوظ نہیں رہی؟ اب جو تم نے مجھ کو اپنا دشمن قرار دے دیا، اپنا عدو ٹھہرایا، تو دشمنی کا سبب، عداوت کا موجب؟

میں نے سنا ہے کہ تم مجھ کو دیوانہ، مجنون اور مختل الحواس تجویز کرتے ہو۔ سو میں تمہاری اس تشخیص صحیح اور تجویز درست اور اس فراست صائب پر جرح نہیں کرتا۔ میں باؤلا اور سڑی اور پاگل سہی، لیکن اگر کوئی باؤلا تمہاری راہ میں کانٹے پڑے دیکھ کر تم کو آگاہ کرے تو کیا اس کی بات نہ سننا، اس کی نصیحت کو نہ ماننا، اس کی فریاد کی طرف ملتفت نہ ہونا، شیوہ دانش مندی ہے؟ پھر تم کو یہ بھی سوچنا چاہیئے تھا، اور چاہیے کہ آیا میں اکیلا اس جنون میں مبتلا ہوں یا اور بندگان خدا بھی میری ہی سی رائے، میرے ہی خیالات رکھتے ہیں۔ کلیم! میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جتنے بزرگان دین ہو گزرے ہیں (خدا ان کی پاکیزہ اور مطہر روحوں پر رحمت کاملہ نازل کرے ) اور جتنے نیک بندے اب موجود ہیں (خدا ان کی حیات میں برکت دے ) کوئی اس جنون سے خالی نہیں۔ بلکہ جس کو جتنا یہ جنون زیادہ، اسی قدر وہ برگزیدہ اور خدا رسیدہ زیادہ۔

کیا اس بات کا اقرار کرنا جنون ہے، کہ ہم بندے ہیں، اور اس کا بھی ہم پر کچھ حق ہے جس نے ہم کو پیدا کیا، جو ہم کو روزی دیتا ہے، جو ہم کو جلاتا ہے اور مارتا ہے، جو پانی برساتا اور زمین سے ہمارے لئے سرمایہ حیات اگاتا ہے، جس نے ہماری جانوں کی شادابی اور تازگی کے لئے آب شیریں و خوش گوار کے سوتے زمین میں جاری کر رکھے ہیں اور ہماری روحوں کے انبساط کے لئے ہوا کا ذخیرہ کافی مہیا فرما دیا ہے (جس کے حکم سے چاند سورج اپنے معمول سے نکلتے اور غروب ہوتے ہیں تاکہ کام کرنے کے لئے دن ہو اور آرام لینے کے لئے رات، جس نے دنیا کے قوی ہیکل اور زبردست جانوروں کو ہمارا مطیع و منقاد بنا دیا ہے کہ ان سے ہم سواری لیتے، ان پر اپنا بوجھ لادتے اور ان کے گوشت پوست اور دودھ سے مستفید ہوتے ہیں، جس نے انسان کو گویائی و بیان کی قوت عطا کی ہے جس کے ذریعے وہ اپنا ما فی الضمیر ابنائے جنس پر ظاہر کر سکتا ہے، جس نے انسان ضعیف البنیان کو عقل کی قوت اور دانش کی طاقت دے کر روئے زمین کا بادشاہ اور مخلوق کا حاکم بنایا ہے، جس نے کائنات میں سے ہر موجود کو اس کی مناسب حالت پر خلق کیا ہے۔ اگر دنیا کے سارے درخت قلموں پر صرف کر دیے جائیں، اور سا توں سمندر کا پانی سیاہی کی جگہ کام میں لایا جائے، اور پڑھے لکھے لوگ جتنے ابتدائے آفرینش سے اب تک ہو چکے اور اب موجود ہیں اور آئندہ پیدا ہونے والے ہیں، سب کے سب مل کر اس کی تعریف، اس کے احسانات، اس کے انعامات، روز قیامت تک بیٹھے لکھا کریں، تو گھستے گھستے درخت ہو چکیں، سمندر سوکھ جائیں، لکھنے والے تھک کر بیٹھ رہیں، مگر اس کے حق واجب کا ایک عشر عشیر بھی ادا نہ ہو۔

کلیم! فنا ایک ایسی بدیہی بات ہے کہ دنیا میں کوئی اس کا من کر نہیں اور نہ اس سے انکار ممکن ہے۔ ہیضے کی وبا کو دفع ہوئے برس نہیں گزرے، تمہارے دیکھتے کیسے کیسے لوگ، ہٹے کٹے، توانا، اچھے بھلے، چلتے پھرتے، امیر غریب، عالم جاہل، بھلے اور برے، سبھی طرح کے صد ہا ہزار ہا، ہدف تیر قضا ہو گئے۔ سدا رہے نام اللہ کا۔ وبا پر کیا منحصر ہے، وعدے سے دم زیادہ نہ کم، مرنا بر حق۔ اچھا، مرے پیچھے کیا ہو گا؟ وہی عقیل ہے، وہی فہیم، وہی زیرک، وہی دانش مند، جو اس سوال کا معقول جواب دے، جو اس معمے کو حل کرے، جو یہ پہیلی بوجھے۔

کلیم! انسان کی خاص طرح کی خلقت یعنی اس کا وجود عاقل ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ ضرور اس سے کوئی بڑی خدمت متعلق اور اس کے ذمے زیادہ جواب دہی ہے۔ اگر اس کا صرف یہی کام ہوتا کہ پیٹ بھر لے اور سو رہے، اور گرمی سردی سے اپنے تئیں بچائے، تو اس کے لئے زیادہ عقل کی ضرورت نہ تھی۔ جانور اپنے بڑے بڑے جثوں کی پرداخت کرنے پر بخوبی قادر ہیں، حالاں کہ عقل سے بے بہرہ اور دانش سے بے نصیب ہیں۔ پس اس خدمت اور اس ذمہ داری کو دریافت کرنا شرط انسانیت ہے۔

نصوح کا وعظ سن کر اس کے ہم راہیوں کے دلوں میں دین داری کے ولولے اور خدا پرستی کے جوش تازہ ہو گئے۔ حاضرین میں کلیم کے سوا کوئی متنفس نہ تھا جس پر تھوڑی یا بہت رقت طاری نہ ہوئی ہو۔ لیکن کلیم، بہ قول سعدی شیرازی،

باسیہ دل چہ سود گفتن وعظ

نہ رود میخ آہنی در سنگ

سکوت کی حالت میں سرنگوں تھا۔ اس کا سکوت یا تو اس وجہ سے تھا کہ نصوح کا سلسلہ سخن بلا فصل تھا

اور اس کو بیچ میں بات کہنے کا موقع نہیں ملتا تھا، یا دوسرے منصوبے سوچ رہا تھا۔ اس کا سرنگوں ہونا بھی کچھ گناہ کی ندامت سے نہ تھا، بلکہ حالت کی شناخت سے۔ جب نصوح نے دیکھا کہ وہ ہاں یا نہیں کچھ بھی نہیں کہتا، تو اس نے ذرا گرم ہو کر اتنی بات کہی کہ بڑی دقت تمہارے معاملے میں مجھ کو یہ در پیش ہے کہ تمہاری ما فی الضمیر مجھ پر منکشف نہیں ہوتا۔ شروع میں تم نے میرے سامنے آنے سے گریز کیا اور اب مواجہ بھی ہوا تو بے سود۔

ابھی تک کلیم نے کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالا تھا، کہ نصوح کے ہمراہی جو کلیم کے حالات سے واقف تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ وہ دین داری کی تاکید پر گھر سے نکل گیا ہے، بول اٹھے کہ اے حضرت، میاں کلیم ماشا اللہ بڑے ذہین اور زیرک اور عاقل ہیں، جو آپ نے فرمایا انہوں نے گرہ باندھا۔ اگرچہ باقتضائے سن، اب تک لہو و لعب کی طرف متوجہ تھے مگر اب آپ دیکھیے گا کہ انشا اللہ جوانِ صالح اور متشرع اور متقی بنیں گے کہ اپنے ہم عمروں کے لیے نمونہ ہوں گے۔ اپ گھر میں تشریف لے جایئے۔ یہ بھی آپ کے ساتھ جائیں، کپڑے بدلیں اور آپ کی نصیحت پر عمل کریں، جس میں دنیا اور دین دونوں کا فائدہ ہے۔ ”

نصوح نے پھر کلیم کی طرف مخاطب ہو کر کہا : ” کیوں صاحب، کچھ تم بھی تو اپنے دل کا ارادہ بیان کرو۔ ”

کلیم : ” مجھ کو آپ اتنی اجازت دیجئے کہ گھر سے اپنی ضرورت کی چند چیزیں منگوا لوں۔

نصوح : "سخت افسوس کہ تم دنیا کی چند روزہ اور عارضی ضرور توں کا اہتمام کرتے ہو اور دین کی بڑی ضرورت سے غافل ہو۔

غم دیں خور کہ غم غم دین ست

ہمہ غم ہا فرو تر از ایں ست

ضرورت کی چیزیں منگوا لینا کیا معنی، تم شوق سے گھر میں چلو۔ غالباً میری نسبت کر تم کو اس گھر میں زیادہ دنوں رہتا ہے، بس وہ گھر میرا کیوں فرض کر لیا گیا ہے۔ تمہاری ماں بہت بے تاب ہے۔ چھوٹے بڑے سب فکر مند ہیں۔ میرے جرم کی سزا دوسروں کو دینا شیوہ انصاف سے بعید ہے۔ ”

کلیم : ” مجھ کو معلوم ہے کہ آپ چند روز سے دین داری اور خدا پرستی کے نام سے نئے نئے دستور، نئے نئے طریقے، نئے نئے قاعدے گھر میں جاری کرنے چاہتے ہیں اور اس جدید انتظام میں جیسا کچھ اہتمام آپ کو منظور ہے، میں کیا گھر میں کوئی متنفس اس سے بے خبر نہیں۔ ہر شخص اس بات کو اچھی طرح سے جان چکا ہے کہ وہ اس انتظامِ جدید کی مخالفت کے ساتھ گھر میں رہ نہیں سکتا۔ پس میں نے اپنی طرف بہتیری کوشش کی کہ مجھ کو اپنی مخالفت آپ کے رو در رو ظاہر کرنے کی ضرورت نہ ہو، مگر آپ کے اصرار نے مجھ کو مجبور کر دیا اور اب نا چار مجھ کو کہنا پڑا کہ میں شروع سے اس انتظام کا مخالف ہوں، اور میرا گریز میری رائے ظاہر کر دینے کے لیے کافی تھا۔ میں ایک بال کے برابر اپنی طرز زندگی کو نہیں بدل سکتا اور اگر جبر اور سخت گیری کے خوف سے میں اپنی رائے کی آزادی نہ رکھ سکوں تو تف ہے میری ہمت پر اور نفرین ہے میری غیرت پر اور میں اس میں کلام نہیں کرتا کہ آپ کو اپنے گھر میں ہر طرح کے انتظام کا اختیار حاصل ہے، مگر اس جبری انتظام کے وہی لوگ پابند ہو سکتے ہیں جن کو اس کی واجبیت تسلیم ہو یا جو اس کی مخالفت پر قدرت نہ رکھتے ہوں۔ اور چوں کہ میں دونوں شقوں سے خارج ہوں، میں نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ گھر سے الگ ہو جاؤں اور اگرچہ میری اس وقت کی حالت پر یہ کہنا زیب نہیں دیتا لیکن ذرا مجھ کو دہلی سے نکلنے دیجئے، تو پھر آپ اور سب لوگ دیکھ لیں گے کہ میں کیا تھا اور کیا ہو گیا۔ قاعدہ ہے کہ وطن میں آدمی بے قدر ہوتا ہے، چنانچہ آپ کے نزدیک بھی یہ بات ثابت ہے کہ مجھ کو گھر سے نکلنے پر بھیک مانگی نہیں ملے گی۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ یہی آپ کا فرزند نا لائق و نا خلف ہو گا اور کسی امیر کی مصاحبت ہو گی، یا کسی ریاست کی مسندِ وزارت۔ میں ایسا بھی احمق نہیں ہوں کہ آپ پر مہربانی کی تہمت لگاؤں۔ آپ وہی بات فرماتے ہیں جو آپ میرے حق میں بہتر سمجھتے ہیں۔ لیکن میری بے ادبی اور گستاخی معاف، میں اپنے تئیں محتاج تعلیم و ہدایت نہیں سمجھتا۔ رہا گھر، سو اس میں صرف اس شرط سے چل سکتا ہوں کہ آپ میرے نیک و بد سے بحث، میرے بھلے برے سے تعرض نہ کرنے کا قول واثق اور وعدہ حتمی کریں۔ ”

نصوح : اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے مجھ کو منصب پدری سے معزول کیا۔

کلیم : نہیں۔ آپ نے مجھ کو فرزندی سے عاق فرمایا۔

اس کے بعد نصوح گھر میں آنے کی نیت سے اٹھا اور اس کا ارادہ تھا کہ طوعاً و کرہاً جس طرح ممکن ہو، کلیم کو ساتھ لوا جائے۔ مگر کلیم، نہیں معلوم کیوں کر، نصوح کے بطون کو تاڑ گیا کہ اس کو اٹھتا دیکھ چبوترے سے جست کی تو صحن میں تھا اور صحن سے تڑپا تو احاطے کے باہر۔ لوگوں نے دوڑ کر دیکھا تو وہ بازار کے پرلے سرے جا چکا تھا۔ یہ دیکھ کر نصوح ہکا بکا سا ہو کر رہ گیا اور جس طرح اس نے بیٹے کو سپاہیوں کے ہاتھوں میں گرفتار دیکھ کر ” انا للہ ” کہا تھا، اب بیٹے سے جدا ہوتے وقت بھی وہ ” انا للہ ” کہہ کر چپ ہو رہا۔

غرض کلیم نہ گھر گیا اور نہ گھر سے اس کو کوئی چیز لینی نصیب ہوئی۔ اسی طرح الٹے پاؤں پھر کر چلا گیا۔ نصوح کے پہنچتے پہنچتے یہ تمام ماجرا کسی نے گھر میں جا کہا اور مستورات میں بیٹھے بٹھائے ایک کہرام مچ گیا۔ فہمیدہ بے تاب ہو کر بادلوں کی طرح دروازے میں آ کھڑی ہوئی اور قریب تھا کہ پردے سے باہر نکل آئے، کہ نصوح جا پہنچا۔ بی بی کو دروازے میں کھڑا دیکھ کر حیران ہو کر پوچھا کہ خیر تو ہے، کہاں کھڑی ہو؟ فہمیدہ میاں کو دیکھ کر بلک گئی اور گھبرا کر پوچھا کہ میرا کلیم کہاں ہے؟

نصوح : میرا کلیم؟ اگر تمہارا کلیم ہوتا تو تمہارے گھر میں ہوتا۔ اور تمہارے اور باپ اور بھائی کے اتنے اصرار اور اتنے سمجھانے اور اتنی منت اور اتنی خوشامد پر، بے پوچھے، بے کہے، گھر سے نہ چلا جاتا۔

فہمیدہ : اچھے، خدا کے لیے مجھ کو اس کی صورت دیکھا دو۔ میں نے سنا ہے کہ سر سے ننگا ہے، پاؤں میں جوتی نہیں۔ اس نے کا ہے کو کبھی زمین پر پاؤں رکھا تھا، کن کر تلووں میں چبھتے ہوں گے۔ کون سے وہ مولے سپاہی تھے، میرے بچے کے پکڑنے والے۔ گھورا ہو تو الہٰی دیدے پھوٹیں۔ ہاتھ لگایا ہو تو خدا کرے پور پور سے کوڑھ ٹپ کے۔ وارے تھے وہ سپاہی اور قربان کیا تھا وہ کو توال۔ میرا بچہ اور چوری کرنے کے قابل؟

نصوح : کیسی بد عقلی کی باتیں کرتی ہو۔ چلو گھر میں چل کر بیٹھو۔ باہر گلی میں تمہاری آواز جاتی ہے۔ تمہاری اس بے تابی کی محبت نے اولاد کو دنیا اور دین دونوں سے تو کھو دیا، اب دیکھیے کیا کرے گی۔

فہمیدہ : اچھا تو پھر کلیم گیا تو کہاں گیا؟

نصوح : جانے میری جوتی کہاں گیا۔ مجھ سے پوچھ کر گیا ہو تو بتاؤں۔ نہیں معلوم خدائی خوار کہاں تھا، اور کیسے لوگوں میں تھا کہ جو رسوائی ہفتاد پشت سے نہ ہوئی تھی وہ اس مردک کی وجہ سے ہوئی۔ اب مجھ کو شہر میں منہ دکھانا مشکل ہے۔ یا تو خدا اس کو نیک ہدایت دے، یا میں اس کو تو کیا بد دعا دوں، مجھ کو ایمان سے اٹھا لے کہ ان تکلیفوں سے مجھ کو نجات ہو۔

فہمیدہ : کیوں کر تمہارے دل نے صبر کیا اور کن آنکھوں سے تم نے بیٹے کو اس حالت میں دیکھا۔ ؟

نصوح : جس طرح اس کی گستاخی پر صبر کیا تھا کہ میں نے بار بار بلایا اور وہ نہ آیا، اسی طرح میں نے اس کی وہ حالت دیکھ کر صبر کیا اور جن آنکھوں سے اس کے خلوت خانے، عشرت منزل اور کتب خانے کی رسوائی اور خرابی اور تفضیح کو دیکھا تھا، انہی آنکھوں سے اس کو کھلے سر، ننگے پاؤں، چور بنا ہوا، سپاہیوں کی حراست میں دیکھا۔ ع :

جو کچھ خدا دکھائے سو نا چار دیکھنا

فہمیدہ : تم سے اتنا نہ ہو سکا کہ اس کو مجھ تک لے آتے۔

نصوح : اگر میں اس کو تم تک نہ لا سکا تو مجھ سے پہلے تم اس کو مجھ تک نہیں لا سکیں اور نہ تم اس کو جانے سے روک سکیں۔

فہمیدہ : کہاں تم مرد، کہاں میں عورت۔

نصوح : تو کیا تمہاری مرضی تھی کہ میں اس سے کشتی لڑتا؟ بس ایسے اخلاص سے مجھ معاف رکھیے۔

غرض نصوح سمجھا بجھا کر بی بی کو گھر میں لے گیا اور یہ بات اس کے ذہن نشین کر دی کہ رونے سے مطلق فائدہ نہیں۔ البتہ خدا سے اس کے حق میں زار نالی کے ساتھ دعا کرنی چاہیے کہ با مراد اس کو واپس لائے۔

ادھر کلیم نے خالہ کے جانے کا ارادہ کیا مگر اس وقت تک اس کو نعیمہ کا حال معلوم نہ تھا۔ اگر کہیں خالہ کے یہاں چلا گیا ہوتا تو سب سے بہتر تھا۔ سرِ دست اس کی ہمدردی کرنے کو نعیمہ وہاں موجود تھی اور چوں کہ اس کی خالہ کا سارا خاندان نیک اور دین دار تھا، کلیم کو نصوح کے خیالات سے مانوس کرنے کے لیے وہاں ہر طرح کا موقع تھا۔ لیکن عصیانِ خدا کا وبال اور حقوق والدین کی شامت، ابھی بہت سی گردشیں اس کی تقدیر میں تھیں۔ جوں ہی گلی کے باہر نکلا کہ میاں فطرت اس کو مل گئے۔ یہ حضرت، نصوح کے چچا زاد بھائیوں میں تھے اور ان سے اور نصوح سے موروثی عداوت تھی، جیسی کہ دنیا دار خاندانوں میں اکثر ہوا کرتی ہے۔ رشتہ داری کی وجہ سے ایک کے حالات دوسرے سے مخفی نہ تھے۔ فطرت سن چکا تھا کہ نصوح کو دین داری کا نیا خبط اچھلا ہے، جس کی وجہ سے اس کے تمام خاندان میں کھلبلی مچ رہی ہے۔ جو دقتیں بیچارے نصوح کو اصلاح خاندان میں پیش آتی تھیں، فطرت کو سب کی خبر لگتی تھی اور یہاں کے تذکروں کا ایک مضحکہ ہوتا تھا۔ کلیم کی عادت سے تو واقف تھا ہی، فطرت اپنے یہاں خود کہا کرتا تھا کہ میاں نصوح لاکھ دین داری جتائیں مگر جب جانیں کہ بڑے بیٹے کو اپنی راہ پر لائیں۔ کلیم کو جو ننگے سر ننگے پاؤں سر بازار جاتے ہوئے دیکھا تو فطرت نے چھیڑ کر پوچھا کہ میاں

کلیم، تم نے ابھی سے احرام حج باندھ لیا؟

کلیم : احرام حج نہیں، احرام ہجرت۔

فطرت : وہی تو کہوں، مجھ کو تمہاری وضع داری اور دانش مندی سے شیخ وقت کی تقلید نہایت مستبعد معلوم ہوتی تھی۔

کلیم : جی نہیں، شیخ کی خدمت میں جیسی ارادت شاعروں کو ہے، معلوم۔

فطرت : بس یہی دیکھ لو کہ بھائی نصوح کا اپنی اولاد کے ساتھ اور اولاد میں بھی تمہارے ساتھ، کہ آج ماشا اللہ فخر خاندان ہو، یہ طرز مدارت ہے۔ ہم لوگ تو خیر کہنے کو اجنبی اور غیر ہیں۔ ایسی ہی بد مزاجیوں نے کنبہ والوں سے میل ملاپ چھڑایا، ورنہ انصاف شرط ہے، ہمارا ان کا کیا بانٹیے؟ اپنا کھانا، اپنا پہننا، لڑائی کس لیے اور جھگڑا کیوں؟ اور طرہ یہ ہے کہ جس قدر حضرت سن رسیدہ ہوتے جاتے ہیں، مزاج جوان ہوتا جاتا ہے۔ بھائی، صد آفرین ہے تمہاری والدہ کو۔ نہیں معلوم ایسے آتش مزاج، بے مروت آدمی کے ساتھ اس نیک بخت نے کیوں کر نباہ کیا۔ مگر عورت ذات، موذی کے پنجہ غضب میں گرفتار ہے، کرے تو کیا کرے۔ میاں کلیم، تم اس کو سچ جاننا، تم لوگوں کی مصیبت کا خیال کر کر کے، بھائی، ہمارا تو گھر بھر بے چین رہتا ہے۔ یہ خون کا جوش ہے ورنہ ملنا ملانا ترک، آنا جانا موقوف، سلام پیام مسدود۔ کیا کریں، کچھ بس نہیں چلتا۔ بھلا پھر اس حالت میں تم جاتے کہاں ہو؟

کلیم : خالہ جان کے یہاں جانے کا ارادہ ہے۔

فطرت : تمہارے باپ کے ڈر سے، دیکھا ہی چاہیے کہ گھر میں گھسنے دیں۔

کلیم : نہیں، ان سے تو ایسی توقع نہیں ہے۔

فطرت : مگر ذات شریف خود نہ تشریف لے جائیں، اس کی کیا روک ہے؟

کلیم : اس کا خدشہ تو ضرور ہے۔

دیوار پھاندنے میں دیکھو گے کام میرا

جب دھم سے آ کہوں گا حضرت سلام میرا

فطرت : میں کہہ تو نہیں سکتا، لیکن سمجھو تو ہم بھی، خدا نہ خواستہ، کوئی تمہارے یا بھائی نصوح کے دشمن نہیں ہیں۔ ارے میاں، رشتہ داروں ہی میں کھٹ پٹ بھی ہوا کرتی ہے۔ شکوہ غیر کا نہیں کرتے۔ گلہ اوپری سے نہیں ہوتا۔ جو ہم کو تمہارا اور تم کو ہمارا درد ہو گا، وہ خالہ خالو کو نہیں ہو سکتا۔ بھائی نصوح ابھی جب وبا میں بیمار پڑے، خدا شاہد ہے، دونوں وقت میں خود محلے میں آ کر خبر لے جاتا تھا۔ ہماری اماں جان ہمیشہ حلال خوری سے تمہارے یہاں کے حالات پوچھا کرتی ہیں۔ مجھ سے تو یہ رسوائی گوارا نہیں ہو سکتی کہ تم اس حالت سے، ایسے بے وقت خالہ کے یہاں جاؤ۔ چلو شب کو ہمارے یہاں آرام کرو۔ ایسا ہی ہو گا تو صبح کو خالہ کے یہاں بھی ہو آنا۔ لو یہ میرا دوپٹہ تو سر کو لپیٹ لو، لوگ آتے جاتے ہیں اور چلو پاس کے پاس اسی چھتے سے ہر کر نکل چلیں۔

غرض میاں فطرت للو پتو کر کے کلیم کو اپنے گھر لے گئے اور نصوح کے جلن سے اس کی ایسی بزرگداشت کی کہ کسی کے گھر والے بھی نہ کرتے ہوں گے۔ کلیم نے جب سے دین داری اور اصلاح وضع کی چھیڑ چھاڑ سنی تھی، کیا ماں، کیا باپ، کیا بھائی، سب کو اپنی رائے سے برخلاف پایا۔ اب جو فطرت نے بغرض اس کی دلجوئی اور خاطر داری کی اور اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور نصوح کو مجنوں اور بد مزاج اور سخت گیر ٹھہرایا، یہ احمق سمجھا کہ بس فطرت اور اس کے گھر والوں سے بڑھ کر کوئی اس کا خیر خواہ نہیں۔ اب تک وہ باپ سے صرف اختلاف رائے رکھتا تھا، اب اس کو باپ سے ایک نفرت و عداوت پیدا ہوئی۔ فطرت نے جلی کٹی باتیں لگا کر یہ خیال اس کے دل سے بالکل دور کر دیا کہ نصوح کو اس کے تدین نے اولاد کے ساتھ روک ٹوک کرنے پر مجبور کیا ہے اور چوں کہ کلیم اپنی پندار میں یہی سمجھتا تھا کہ اس وقت تک میں ہی اکیلا گھر سے نکلا ہوں، فطرت کے بہکا دینے سے اس کو یقین ہو گیا کہ دین داری اور خدا پرستی کا حیلہ تھا، ورنہ فی الاصل باپ کو اس کا گھر سے نکال دینا مرکوز خاطر تھا۔

کلیم اس وقت دو مخالفوں کی کشمکش میں تھا۔ باپ اس کو صراطِ مستقیم کی طرف کھینچتا تھا، فطرت گمراہی اور ضلالت کی طرف۔ لیکن فطرت حریف غالب تھا، اس واسطے کہ اول تو خود کلیم کا میلانِ طبع اس کی جانب تھا، دوسرے، نصوح ایک نئی اور نامانوس اور دشوار گزار راہ پر اس کو لے جانا چاہتا تھا، جس میں زہد و ریاضت اور اِتقا اور نفس کشی اور انکسار اور فروتنی اور خوفِ عاقبت کی چند در چند تکلیفیں اور مصیبتیں در پیش تھیں۔ اس راہ میں کلیم کو بدرقہ و راہ نما تو خیر، رفیق و ہمسفر کا ملنا بھی مشکل تھا۔ برخلاف اس کے فطرت اس کو ایک شارع عام دکھاتا تھا، ایسا آباد کہ گویا اس سرے سے اس سرے تک بازار لگا ہے اور نہ صرف منزل بہ منزل، بلکہ قدم بہ قدم، تن آسانی اور عیاشی اور خود پسندی اور کبر اور بے فکری اور مطلق العنانی، طرح طرح کی آسائشیں اور انواع و اقسام کی راحتیں موجود و مہیا تھیں۔ اس راہ میں کلیم کو میلے کا حظ یعنی سفر میں حضر کا لطف حاصل تھا۔

غرض کلیم، میاں فطرت سے شیر و شکر کی طرح ملا۔ نصوح نے جب یہ خبر سنی تو سخت افسوس کیا، نہ اس وجہ سے کہ وہ فطرت سے عداوت رکھتا تھا کیوں کہ عداوت تو دین عاری کے اعتبار سے بڑا گناہ ہے اور نصوح سے اس کے ارتکاب کی امید نہیں کی جا سکتی تھی لیکن اس کا یہ خدشہ کچھ بے جا نہ تھا کہ فطرت اصلاح میں کوشش نہیں کرے گا۔ فطرت کے یہاں کلیم کو اور توکسی طرح کی تکلیف نہ تھی، مگر اس کی مرضی کی کتابیں یہاں نہیں ملتی تھیں۔ تب اس نے فطرت سے بیان کیا کہ دن بھر خالی بیٹھے بیٹھے طبیعت گھبرایا کرتی ہے۔ اگرچہ میں نے اپنے حالات میں ایک مثنوی کہنی شروع کر دی ہے اور سو، سوا سو شعر بھی ہو گئے ہیں، مگر فکرِ سخن بے اطمینان خاطر بن نہیں پڑتا۔ اگر آپ صلاح دیں تو میں اپنی چند کتابیں گھر سے منگوا بھیجوں۔

فطرت : مجھ کو بھائی نصوح سے توقع نہیں کہ وہ اتنی رعایت بھی تمہارے حق میں جائز رکھیں، خصوصاً اس حال میں کہ تم میرے گھر ہو۔ میرے نزدیک تمہارا یہ جرم ان کے مذہب میں تکفیر کے لیے کافی ہے۔ مگر ہاں، اپنی والدہ سے کہلا بھیجو۔ ان کا قابو چلے گا تو البتہ دریغ نہ کریں گی۔

کلیم تو متردد تھا کسی سبیل سے کتابیں منگوائے مگر فطرت، از بس کہ عیاری اور چالاکی کے موکل اس کے مطیع تھے، خود بول اٹھا کہ جی، یہ کون سی بری بات ہے؟ مجھ سے کہیے تو بھائی نصوح کی چار پائی اٹھوا منگواؤں اور ان کے فرشتوں کو خبر نہ ہو۔

غرض فطرت نصوح کے گھر گیا اور کسی ڈھب سے اس نے سارا حال معلوم کیا، اور وہ آگ جو نصوح نے کلیم کی کتابوں میں لگائی تھی، فطرت نے کلیم سے جا لگائی۔ ایک تو خانہ ویرانی اس پر فطرت کی آتش بیانی۔ کلیم پر اس آتش زنی کی خبر نے وہ اثر کیا کہ جو حضرت مُوسیٰ علیہ السلام پر آتشِ طور نے کیا تھا۔ سنتے کے ساتھ ایسا بے خود ہو گیا کہ گویا بجلی گری۔ آپے میں آیا تو مزاج ایسا بر افروختہ تھا کہ شاید نصوح اس وقت موجود ہوتا تو یہ مردک دست و گریباں ہو کر لپٹ جاتا۔ کوئی نا گفتنی، جل کٹی بات اس نے اٹھا نہیں رکھی۔ مگر لال پیلا ہو کر خاموش ہو رہا اور اس بات کے درپے ہوا کہ باپ سے انتقام لے۔ کلیم نے جو طریقے انتقام کے سوچے تھے، وہ سخت بے ہودہ تھے۔ جب اس نے اپنی تدبیروں کو فطرت پر عرض کیا تو اس نے سب کی تحقیق کی اور کہا کہ ابھی تم نرے صاحب زادے ہو۔ میں تم کو ایسی تدبیر بتاؤں کہ ” ہم کینہ و ہم خزینہ۔ ”

کلیم : وہ کیا؟

فطرت : گاؤں پر آخر تمہارا نام چڑھا ہوا ہے، اس پر دخل کرو۔

کلیم : ” این خیال است و محال است و جنون”

ان کے متعدد کارندے اور نو کر چاکر اس پر مسلط ہیں۔

فطرت : گاؤں تمہارا تو نو کر اور کارندے تمہارے یا ان کے؟

کلیم : لیکن میں صرف اسم فرضی ہوں۔

فطرت : اس کا ثبوت؟

کلیم : ثبوت کا قبض و دخل، اور ان کے روپے سے گاؤں کا خرید ہونا۔

فطرت : ان کا قبض و دخل عین تمہارا قبض و دخل اور ان کا روپیہ عین تمہارا روپیہ ہے۔ بائع نے تمہارے نام سے رسید دی۔ گاؤں میں پٹہ قبولیت تمہارے نام سے ہوتا ہے۔ خزانہ سرکاری میں مال گزاری تمہارے نام سے سیاہہ ہوتی ہے۔

کلیم : جب میں سرے سے اسم فرضی ہوں تو نام کا ہونا میرے حق میں کچھ بھی مفید نہیں ہو سکتا۔

فطرت : لیکن اگر اسم فرضی ہونے سے انکار کیا جائے تو اس کی تردید کچھ آسان نہیں ہے۔

کلیم : میری سمجھ میں تو نہیں آتا کہ کیوں کر ایک امر واقعی کی تکذیب ہو سکتی ہے۔

فطرت : ہاں یہ شاعری نہیں ہے، دین داری ہے۔ اس کو ایک خاص سلیقہ درکار ہے۔

کلیم : غرض اس تدبیر کا پیش رفت ہونا تو ممکن نہیں معلوم ہوتا، کوئی اور بات سوچیے۔

فطرت : جب تم سے ایسے سہل کام کا سرانجام نہیں ہو سکتا تو گھر سے نکلنے کا حوصلہ تم نے ناحق کیا۔ یہی اسم فرضی کا حق مجھ کو حاصل ہوتا تو سیر دکھاتا۔

کلیم : فرض کر لیجئے کہ آپ کو حاصل ہے۔

فطرت : کیوں کر فرض کر لوں؟ جیسے تم اسم فرضی مالک ہو ویسا ہی ایک فرضی بیع نامہ میرے نام کر دو تو البتہ فرض کر سکتا ہوں۔

کلیم : اگر ملکیت فرضی کا بیع نامہ کچھ بکار آمد ہو سکتا ہے تو گاؤں کی کیا حقیقت ہے، میں تو سلطنت روم کا بیع نامہ آپ کے نام لکھ دوں۔ ع :

بخال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را

فطرت : بھلا گاؤں کتنے پر بیع کرو گے؟

کلیم : کسی فرضی قیمت پر۔

فطرت : بھلا اس کا اندازہ بھی؟

کلیم : فرض کیجئے کہ سو روپے

فطرت : مجھ سے ہزار نقد لیجئے۔

کلیم : سچ

فطرت : سچ

کلیم : واللہ بیچا۔

فطرت : واللہ لیا۔

کلیم کو فطرت کی قسم پر بھی اعتبار نہ ہوتا تھا۔ فطرت نے گھر میں جا، ہزار روپے کا توڑا لا کر سامنے رکھ دیا۔ ادھر روپے گنے گئے اور ادھر بیع نامہ لکھ پڑھ کر تیار ہو گیا۔

کلیم نے سوچا کہ میں نے یہ سودا کیا کیا، ایک غنیمت باردہ مفت ہاتھ آئی۔ اس وقت تو بات کی پچ کر کے فطرت نے روپیہ دے دیا، ایسا نہ ہو پھر چنید کرے۔ بہتر ہے کہ چل دیجئے۔ یہ سوچ، روپیہ کا توڑا بغل میں داب، کلیم رخصت ہوا تو سیدھا چاندنی چوک میں آیا۔ محل دار خان کا کمرہ اسی روز خالی ہوا تھا کہ اس نے سر قفلی جا دی۔

دہلی جیسا شہر اور کلیم جیسا نا عاقبت اندیش اور مسرف اور اس طرح کا مال مفت، بات کی بات میں، فرش و فروش، جھاڑ فانوس، ساز و سامان، نو کر چاکر، سب کچھ موجود ہو گیا۔ یہاں تک کہ اگلے ہی دن، پہلے مشاعرے کی محفل، اس کے بعد ناچ کا جلسہ ٹھہر ٹھہرا، جتنے یار آشنا تھے، سب کے نام رقعے تقسیم ہوئے اور کلیم کے سارے شیاطین الانس پھر بہ دستور جمع ہو گئے۔ حتی کہ وہ مرزا ظاہر دار بیگ بھی اتنے بڑے بے غیرت کہ خبر سن کر دوڑے آئے اور کلیم اتنا بڑا احمق کہ ایسا دھوکہ کھا کر پھر ان سے صاف ہو گیا۔

جس کیفیت سے کلیم نے دو مہینے گزارے، نا گفتہ بہ ہے۔ وہ بد کرداری کا تپ کہنہ رکھتا تھا، اب یہ دن گویا بحران کے تھے۔ ہزار روپے کی کل جمع پونجی اور ایسا بے دریغ خرچ، تیسرا مہینہ شروع نہیں ہوا تھا کہ ہزار تمام ہوئے۔ پہلے سے ہی بزاز، درزی، حلوائی، کبابی، نانوائی، میوہ فروش، گندھی، بساطی وغیرہ کا حساب باقی تھا۔ نو کروں کا دو ماہہ چڑھ چکا تھا، اب آٹا دال تک ادھار آنے لگا۔ شدہ شدہ ہر طرف سے طلب و تقاضا شروع ہوا۔ استعمال سے پہلے اسباب خانہ داری کے بکنے کی نوبت پہنچی تو کلیم خواب غفلت سے بیدار ہوا۔ لیکن اب اس کا تنبہ کچھ چنداں سود مند نہ تھا۔ اس کے یار دوست، دستور کے موافق اس کے پاس آنا جانا قاطبتہً ترک کر چکے تھے۔ نو کر چاکر بھی گھر بیٹھ رہے تھے اور جو تھے وہ تنخواہ کے نہ ملنے سے ایسے گستاخ ہو گئے تھے کہ کار خدمت تو در کنار، رو در رو جواب دیتے تھے۔ جو چیز جس کی تحویل میں تھی، وہ ہیکڑی سے اس کو اپنا مال سمجھتا تھا۔ کوئی وقت ایسا نہ تھا کہ دو چار قرض خواہ اس کے در دولت پر نہ ہوں۔ کلیم نے چاہا کہ چپ کے سے چل دے، مگر اس کے بغلی دشمنوں یعنی نو کروں کی وجہ سے اس کا منصوبہ فاش ہو گیا اور جوں پہر رات گئے وہ نو کروں کا لباس بدل کر باہر نکلا تھا کہ سر ہنگاں دیوانی کے پنجۂ غضب میں گرفتار ہو گیا۔ اس غفلت شعار کو اب معلوم ہوا کہ کئی ڈگریاں یک طرف اس پر جاری ہیں۔

ان پیادوں کی حراست میں جس کیفیت سے کلیم نے رات گزاری وہ ایسی سخت و ناگوار تھی کہ اس کو بار بار ظاہر دار بیگ کی مسجد کا اعتکاف شبینہ حسرت کے ساتھ یاد آتا تھا۔ اگلے دن کچہری کے پیادوں نے کلیم کو لے جا کر حاکم عدالت کے روبرو حاضر کیا۔ احاطہ کچہری میں پہنچتے ہی پہلے نصوح سے مڈ بھیڑ ہوئی۔ کلیم باپ کو دیکھ کر بے اختیار رو دیا، مگر پیادوں کے خوف اور اپنی ندامت کے سبب کچھ نہ کہہ سکا۔ نصوح کا کچہری میں آنا بھی انہی حضرت کی وجہ سے تھا۔ فطرت نے اس بیع نامہ فرضی کا ایک طومار بنا کھڑا کیا اور دو چار نمک حرام کارندوں کا گانٹھا اور چند کاشت کاروں کو بیگھہ پیچھے دو دو چار چار آنے کمی کر کے استماری پٹے کر دیے۔ دلی شہر کے چند آبرو باختہ غنڈے ساتھ لے، گاؤں پر زبردستی دخل کر لیا۔ نوبت بہ عدالت پہنچی۔ مقدمے میں کچھ ایسے پیچ پڑتے گئے کہ دروغ کو فروغ ہو گیا۔ کلیم نے تو اپنے نزدیک ایک کھیل کیا تھا، نصوح بے چارے کو مفت میں پانچ چھ ہزار کا گاؤں ہارنا پڑا۔

اسی تقریب سے نصوح کچہری تھا کہ کلیم اس کو دوسرے مرتبہ سرکاری پیادوں کے ہاتھ میں گرفتار نظر آیا۔ گو باپ بیٹے میں بالمشافہ بات چیت تو در کنار دعا سلام کا بھی اتفاق نہیں ہوا، لیکن ایک دوسرے کی کیفیت معلوم ہو گئی۔ باپ نے ابھی کچہری کے احاطے سے پاؤں باہر نہیں رکھا تھا کہ بیٹا جیل خانے جا داخل ہوا۔ کلیم نے ہر چند شاعری اور امیر زادگی کے چند در چند استحقاق ثابت کئے، مگر مالکان مجس نے ایک نہ مانی اور اس کو ایسا ایسا رگیدا کہ دوسرے ہی دن چیں بول گیا۔ اس بے کسی میں کلیم کو باپ یاد آ گیا اور اگرچہ اپنی حرکات پر نظر کرنے سے بالکل نا امیدی تھی مگر الفریق ینشبت بالحشیش مرتا کیا نہ کرتا۔ بے غیرتی کا ٹھی کرا آنکھوں پر رکھ کر باپ کو ایک خط لکھا۔ وہ یہ تھا : مجھ کو حیرت ہے کہ میں کون ہوں اور کس کو یہ خط لکھتا ہوں اور یقین ہے کہ اس خط کے پہنچنے پر مجھ سے زیادہ حیرت آپ کو ہو گی۔ اتنی گستاخی، اتنی نا فرمانی، اتنی بے حیائی، اتنی مخالفت پر جو مجھ نا لائق، نابکار، نا ہنجار، کشتنی، گردن زدنی، ننگ خاندان، ع :

بد نام کنندہ نکو نامے چند

سے سر زد ہوئی، میں کیا کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مجھ کو آپ کے ساتھ نسبت فرزندی باقی رہی۔ پس نہ تو یہ خط خط ہے، اور نہ بیٹے کی طرف سے ہے، اور نہ باپ کے نام ہے۔ بلکہ یہ معذرت نامہ ہے، عرضی اعتراف ہے، توبہ کا وثیقہ اور استغفار کی دستاویز، ندامت کا اقرار اور حاجت مندی کا اظہار ہے، گنہگار، روسیاہ و شرمسار، ظالم، جفا کار، تبہ روزگار کلیم کی طرف سے، صاحب کرم عمیم و خلق عظیم، برد بار و حلیم، رؤف و رحیم، محسن ولی نعمت، مہربان سراپا شفقت، نیکو کار، کم آزار، خیر خواہ بلا اشتباہ کے نام۔ ہر چند میری رسوائی یہاں تک پہنچی کہ جب سے مردود و مطرود ہوا، طرح طرح کی خرابیوں میں مبتلا اور انواع و اقسام کی ذلتوں میں گرفتار ہوں، لیکن یہ سمجھنا کہ میں جیسا کیا ویسا پایا بے جا اور غلط ہے، کہ کیا ہزار تو پایا ایک، کیا من تو بھگتا چھٹانک۔ بلکہ ایک اور چھٹانک بھی نہیں، حاشا نہیں، زینہار نہیں۔ ہر چند میں معذرت کرتا ہوں اور جو کچھ میرے دل میں ہے وہ کہیں زیادہ ہے اس سے جو عبارت میں ہے لیکن خود مجھ کو اپنی توبہ سے تشفی اور ندامت سے تسلی نہیں، اس واسطے کہ میری توبہ درماندگی کی توبہ اور ندامت حالت ابتلا کی ندامت ہے۔ تو طیہ برطرف، تمہید یک سو۔ نہ مجھ کو توبہ پر تکیہ، نہ ندامت پر ناز۔ خدا کو، جس کا میں آپ سے بڑھ کر گنہگار ہوں، اپنا شفیع قرار دیتا ہوں، ع :

اور دیکھتا ہوں تا کرم اور چہا کند۔ والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یُحِبُ المحسنین۔

قطعہ

شاہا ز کرم بر من درویش نگر

بر حال من خستہ و دلریش نگر

ہر چند نیم لائق بخشائش تو

بر من منگر بر کرم خویش نگر

علیم کسی پادری سے ایک مذہبی کتاب لے آیا تھا۔ اس میں اتفاق سے ایک جملہ مجھ کو نظر پڑا اور پسند آیا۔ وہ یہ تھا کہ توبہ ربڑ ہے اور گناہ پنسل کی تحریر۔ پس جب کہ توبہ و ندامت نے مجھ کو آلودگی گناہ سے پاک کر دیا تو پھر میں آپ کا برخور دار ہوں اور آپ میرے والد بزرگوار، مجھ کو آپ سے ہر طرح کا دعوی اور آپ کو مجھ سے ہر قسم کی توقع ہے۔ سات سو کے عوض میں اس وقت میری جان پر بنی ہے۔ آپ مجھ کو اگر للہ، صدقہ، زکوٰۃ، خیرات جان کر نہ دیں تو قرض حسنہ دیں۔ قیدی کے چھڑانے، غلام کے آزاد کرنے کا ثواب آپ پر مخفی نہیں ہے۔ اگر روپیہ کل تک نہیں آیا تو میری زندگی دشوار ہے۔

کلیم شاعر تو تھا ہی با توں کا جادو بنانے کی اس نے یہاں تک مشق بہم پہنچائی تھی کہ اس کے جھوٹے ڈھکوسلوں پر تمام مجلس کو وجد ہوتا تھا۔ باپ کے اس نے توبہ ریائی کا ایسا مضمون سوچا کہ اس کا خط گویا سات سو روپیہ کی درشنی ہنڈی تھی۔ جانے کی دیر تھی اور روپیہ ملنے کی دیر نہ تھی۔ لیکن مشکل یہ در پیش تھی کہ قاصد نہیں، نامہ بر نہیں، خط جائے توکیسے جائے۔ ہانسی حصار کی طرف کا ایک سپاہی کچھ حرف آشنا سا تھا، اور جب اس کو پہرے وغیرہ سے فراغت ہوتی تو وہ قصہ شام روم و سپاہی زادہ، بنجارہ نامہ، کنز المصلیٰ منظوم، اس قسم کے اردو رسالے، نثر کو پریشان، نظم کو نا موزوں کر کے اپنی کرخت سنگلاخ بولی میں پڑھا کرتا تھا۔ کلیم کو شاعری کے ذریعے سے اس سپاہی کے ساتھ تعارف پیدا کر لینا کچھ دشوار نہ تھا۔ منت سماجت سے کلیم نے اس کو خط پہنچا دینے پر آمادہ کیا اور اجرت یہ ٹھہری کہ کلیم، اس کے اور اس کے دو بیٹوں کے نام کے سجع بنا دے۔ نام ان کم بختوں کے، اتفاق سے ایسے ٹیڑھے تھے کہ بے چارہ کلیم بہتیرا غور کرتا تھا، کسی ڈھب سے نہیں کھپتے تھے اور واقع میں نتھے خاں، جمن خان، جاہل کندہ نا تراش، پسند کرنے والا سخن فہم۔ کلیم بہتر سے بہتر سجع کہہ کر لے جاتا، وہ سن کر ہنس دیتا اور کہتا کہ بھائی جی، یہ تو ٹھیک نہیں بیٹھا۔ بڑی بڑی خرابیوں سے کوئی چھ سات دن میں کلیم نے نتھے خاں کی فرمائش پوری کی۔

غرض کلیم کا خط باپ تک پہنچا۔ وہ اس طرح کی طلب نہ تھی اس میں امروز و فردا کی گنجائش ہو۔ نصوح مے خط پڑھتے کے ساتھ، سا توں کے سا توں سو روپے بے عذر گن دیے۔ کلیم اس مرتبہ بھی باپ سے نہ چوکا۔ ضرورت تھی پانسو کی اور منگوائے سات سو۔ پانسو دے کر تو رہائی پائی۔ باقی بچے دو سو، اس میں کھڑے کھڑے سامان سفر درست کر اسی وقت دولت آباد کا راستہ لیا۔

ڈپٹی نذیر احمد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کا تیسرا ناول