- Advertisement -

آلو کھا کر آنسو جھیل دیکھیے

ایک اردو سفرنامہ از پیر عارف اﷲ شاہ

۲۰۰۶ء میں ہمارا آنسو جھیل دیکھنے کا پروگرام بنا، مگر بالاکوٹ سے اوپر کی سڑکیں بری طرح خراب اور بند تھیں اس لیے شدید خواہش کے باوجود پروگرام کو اگلے سال یعنی ۲۰۰۷ء تک ملتوی کرنا پڑا۔ گیارہ جون ۲۰۰۷ء کو رات آٹھ بجے پروگرام کے روح رواں فخر عالم نے اچانک آ کر اطلاع دی کہ صبح سفر پر نکلنا ہے۔ میں پریشان ہو گیا کہ ایک رات میں کیسے تیاری کر سکوں گا۔ ہنگامی تیاری میں میں نے سارا زور گرم لباس پر لگا دیا۔ فیصلہ یہ ہوا تھا کہ چونکہ پہاڑوں کا پیدل سفر ہے اس لیے صرف ’دیوانوں ‘ کو ہی ساتھ لیا جایا تاکہ پروگرام میں خرابی نہ آئے۔ چنانچہ کلیم، فخر عالم، مشتاق اور میں تیار ہو گئے۔ ۱۲/جون کو پشاور سے سات بجے روانہ ہونے والی گاڑی نے ہمیں چار گھنٹے میں مانسہرہ پہنچا دیا۔ وہاں کھانا کھایا اور مہانڈری جانے والی گاڑی پر بیٹھ گئے۔ تین گھنٹے میں مہانڈری پہنچ گئے۔ واضح رہے کہ مانسہرہ سے فقط ایک گھنٹے کی مسافت پر بالا کوٹ شہر ہے۔ گاڑی یہاں کچھ سواریاں اتار کر اور کچھ کو بٹھا کر آگے چل دی۔ بالا کوٹ سے بڑی بڑی چڑھائیاں چڑھ کر گاڑی ایک ٹھنڈے یخ چشمے پر رکی جو گاڑیوں کے لیے سستانے کی جگہ ہے۔ یہاں گاڑی سے نکل کر اندازہ ہو گیا کہ ہم گرمی کی شدت والے علاقے سے نکل آئے ہیں۔

آنسو جھیل تک چار راستے جاتے ہیں۔

(ا)مہانڈری سے آنسو جھیل اور دوسری طرف سے اتر کر جھیل سیف الملوک سے ہوتے ہوئے ناران شہر۔ (ب)ناران سے جھیل سیف الملوک اور پھر آنسو جھیل اور دوسری طرف سے اتر کر مہانڈری۔
(ج)ناران اور جھیل سیف الملوک سے ہوتے ہوئے آنسو جھیل اور پھر واپس جھیل سیف الملوک اور پھر ناران۔
(د)مہانڈری سے آنسو جھیل اور واپس پھر مہانڈری۔

ہم نے پہلے والے طریقے کا انتخاب کیا یعنی آنسو جھیل اور پھر دوسری طرف سے اتر کر جھیل سیف الملوک سے ہوتے ہوئے ناران شہر پہنچے۔ ہم نے مہانڈری سے پہاڑی جیپ کرائے پر حاصل کی اور روانہ ہو گئے۔ پہاڑی علاقوں کے دکاندار اِن جیپوں پر بے تحاشا سامان چڑھا دیتے ہیں اور خود پرندوں کی طرح جیپ کے سلاخوں والے ڈھانچے کے اوپر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے اور تو اور جیپ نے مہانڈری سے یک دم پہاڑوں پر چڑھنا شروع کیا مگر ان لوگوں کو گرنے کا خوف ہی نہ تھا۔ پرندوں کی طرح آپس میں بول رہے تھے کہ جیسے اﷲ نہ کرے جیپ کے گرنے کی صورت میں سب اڑ جائیں گے۔ انتہائی خطرناک راستوں پر چلتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ بعد ایک پہاڑی درے میں جیپ رک گئی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا یہansoo jheel آخری منزل ہے۔ پہاڑی درے میں خالص لکڑی کا بنا ہوا دو منزلہ خریداری مرکز اور ساتھ میں بہتے پانی کا خوبصورت شور۔ مغرب کی قضا ہوتی ہوئی نماز کے واسطے جونہی وضو کے لیے پانی میں ہاتھ ڈالا تو جیسے برقی رو کا جھٹکا لگا۔ بے تحاشا ٹھنڈا پانی، وضو پورا ہی نہیں ہو رہا تھا۔ صلاح مشورے کے بعد دوسری منزل پر واقع لکڑی کے بنے بڑے کمرے جیسے ہوٹل میں رات گزارنا طے پایا۔ مہانڈری میں اور جیپ میں لوگوں سے آنسو جھیل کے بارے معلومات لیتے رہے مگر گھر کی مرغی دال برابر کے مصداق کسی نے بھی ابھی تک وہاں جانے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی، البتہ راستے کا علم سب کو تھا۔

صبح سویرے ہی سامان سے بھرے اپنے اپنے تھیلے اٹھا کر پیدل ہی چل پڑے کہ آگے کا راستہ صرف پیدل مسافت کے لیے ہی موزوں تھا۔ ایک گھنٹے میں پہاڑی سے ریوڑی پہنچے اور وہاں واقع ریوڑی آرام گھر چلے گئے۔ آرام گھر کا ملازم خوش اخلاقی سے پیش آیا۔ اس نے چائے ، پراٹھے اور آلو کے قتلے بنا دیئے اور ہم نے ناشتا کیا۔ اس پورے علاقے کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں کے لوگ انتہائی شریف اور تعاون کرنے والے ہیں۔ یہاں چاروں طرف دور دور تک بیش بہا سبزہ و گھاس اور اونچے اونچے درختوں کے جنگل ہیں۔ ہم نے خوب تصاویر بنائیں۔ آرام گھر کے ملازم کے مشورے سے یہاں سے ایک شخص کو راہبر کے طور پر ساتھ لیا کیونکہ آگے راستہ ختم ہونے سے بھٹکنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ راہبر کو صرف آنسو جھیل تک کے لیے لیا گیا۔ آنسو جھیل سے جھیل سیف الملوک تک کا راستہ فخر عالم اور مشتاق کو معلوم تھا کیونکہ وہ پہلے بھی اس طرف سے چڑھے تھے مگر جھیل کو دھند کی وجہ سے دیکھ نہ سکے تھے۔ ایک غلطی کا ہمیں ریوڑی میں شدت سے احساس ہوا اور آنسو جھیل پر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ وہ یہ کہ مہانڈری میں میرے اصرار کے باوجود کھانے پینے کی اشیا کی خریداری اگلی منزل تک ملتوی کر دی گئی۔ مجھے پہاڑی علاقوں میں گھومنے پھرنے کے تجربے کی وجہ سے یہ احساس کھائے جا رہا تھا کہ آگے اس طرح کا بازار نہیں ہو گا مگر میں چپ ہو گیا کہ خفگی پیدا نہ ہو۔ بہاڑی سے یہ سوچ کر نکلے کہ آگے چل کر خریداری کریں گے مگر ریوڑی میں کچھ تھا ہی نہیں۔ پراٹھے اور آلو کے قتلے ساتھ رکھ لیے۔ دوبارہ پیچھے جا کر بہاڑی سے خریداری کرنے کی میری تجویز یہ کہہ کر رد کر دی گئی کہ ہمیں کونسا راستے میں رکنا ہے اور شام تک جھیل سیف الملوک پہنچنا تو ہے۔ بحر حال راہبر کے ساتھ چل پڑے۔ پانی، برف اور سبزے کی حسین وادی کے پر پیچ راستوں پر چلتے ہوئے بلکہ اپنے لیے راستہ بناتے ہوئے اور چڑھتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹے میں چند گھروں پر مشتمل قصبے ڈھاریاں پہنچ گئے۔ وہاں واقع گھروں کے مالک چند ہی روز پہلے نیچے سے اوپر آئے تھے۔ ڈھاریاں ، ریوڑی اور بہاڑی کے لوگ سردیوں میں برفباری کی وجہ سے گھر چھوڑ کر نیچے چلے جاتے ہیں اور برف پگھلنے کے ساتھ ساتھ بالترتیب پہلے پہاڑی، پھر ریوڑی اور پھر ڈھاریاں کے لوگ واپس اپنے گھروں میں آتے ہیں۔

مزید دو گھنٹے بالکل سیدھی پہاڑی پر چڑھتے ہوئے ہم چھ گھروں پر مشتمل قصبے ڈھیر پہنچ گئے۔ اس سفر نے تو با لکل ادھ موا کر ڈالا۔ ایک جگہ تو پیاس کی شدت سے بہت ہی نڈھال ہو رہے تھے کہ راہبر نے کہا ’’یہاں سے قریب ایک چشمہ ہے، میں اس سے پانی لیکر آتا ہوں۔ ‘‘ وہ پانچ منٹ میں ہماری واحد بوتل بھر لایا تو پانی پی کر آنکھوں میں تازگی آ گئی ورنہ جیسے نظر ختم ہو رہی تھی۔ آنسو جھیل سے پہلے ڈھیر کے مقام پر آخری پڑاؤ ڈالنا پڑتا ہے۔ ہم وہاں دن بارہ بجے پہنچ گئے، تھکن سے چور اور بھوک پیاس سے نڈھال۔ پہنچتے ہی پانی پی لیا اور اپنی اپنی جگہ گر پڑے۔ کافی دیر تک دھوپ میں بے حس و حرکت پڑے رہے۔ ڈھیر کے لوگ ابھی آئے نہیں تھے اس لیے ان کے کمرے لکڑیوں اور شاخوں سے بھرے پڑے تھے۔ وہ لوگ نیچے اترتے وقت لکڑیاں کاٹ کر کمروں میں ٹھونس دیتے ہیں اور واپسی پر انہیں استعمال کرتے ہیں۔ ایک بجے ہم نے پراٹھے اور آلو کے قتلے کھا لیے۔ دو بجے نماز سے فارغ ہو کر روانہ ہو ہی رہے تھے کہ مشتاق نے کہا ’’میری ٹانگ میں درد ہو ریا ہے مجھ سے چڑھا نہیں جائے گا۔ ‘‘ اب معاملہ خراب ہونے لگا۔ وہ بضد تھا کہ رات یہیں رہ لیتے ہیں حالانکہ اسی روز جھیل سیف الملوک پہنچنا اسی کا منصوبہ تھا۔ اب رات رہنے کے لیے نہ تو خیمہ اور بستر تھے اور نہ ہی کھانے پینے کی اشیا۔ خوب بحث کے بعد ہم نے ان کے حق میں فیصلہ کیا کہ جب چلا ہی نہیں جا سکتا تو کیا کیا جائے۔ فیصلہ ہوا کہ رات کو کسی کمرے سے لکڑیاں نکال کر وہیں رہ لیں گے۔ اس وقت ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی مگر ہم چادریں اوڑھ کر دھوپ میں سو گئے۔ ٹھنڈ کی وجہ سے نیم خوابیدہ تھے کہ بارش نے جگا دیا۔ آسمان پر جگہ جگہ بادل کے ٹکڑے نمودار ہو چکے تھے اور وقفے وقفے سے چند قطرے گر رہے تھے۔ ہم نے ان قطروں کو پیشگی اطلاع سمجھ کر جلدی جلدی ایک کمرے سے لکڑیاں نکال کر صفائی کی اور پھر موسم اور دنیا کے شور سے دور، خوبصورت وادی کے پہاڑوں ، برف، سبزے اور صاف ستھرے اور پر فضا ماحول سے لطف اندوز ہونے لگے۔ مغرب ہونے کو تھی کہ بارش تیز ہو گئی۔ ہم کمرے میں گھس گئے۔ کلیم آگ جلانے لگا مگر لکڑیاں آگ پکڑ نہیں رہی تھیں۔ دھواں بہت زیادہ ہو رہا تھا اور ہم اسے برداشت کرنے پر مجبور تھے۔ اچانک مجھے اپنی ران کے قریب خارش اور شدید جلن محسوس ہوئی۔ کافی دیر تک تو میں برداشت کرتا رہا مگر بارش کے تھمتے ہی باہر نکل کر ایک ساتھی کی بیٹری کی روشنی میں جو دیکھا تو میرے پاؤں کے نیچے سے تو زمین نکل گئی۔ ٹھنڈ کو میں بھول گیا۔ مکھی جتنا کوئی گلابی رنگت والا کیڑا میرے بدن میں گھسا ہوا تھا، آدھی اندر اور آدھی باہر۔ پہلے میں نے ساتھیوں کو دیوانہ وار پکار کر باہر نکلنے کو کہا کہ کہیں ان کے ساتھ بھی ایسا نہ ہو جائے اور پھر اس چیز کو پکڑ کر کھینچتا رہا مگر وہ ناخنوں سے پھسلتی رہی۔ انتہائی تکلیف دہ حالت تھی۔ آخر ایک بھر پور جھٹکے سے نکل تو گئی مگر میری بھی چیخیں نکل گئیں۔ میں درد اور جلن سے بر ی طرح تڑپ رہا تھا۔ کافی چھوٹی عمر سے میں اردو ڈائجسٹ میں اس قسم کے مضامین، سفرنامے، سنسنی خیز اور جاسوسی سے بھرے واقعات اور ناول افسانے پڑھتا آ رہا ہوں ، جن میں قسم قسم کی خطرناک اور عجیب و غریب چیزوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے مگر اس مرتبہ میرے ساتھ ہی ایسا واقعہ پیش آیا کہ دم بخود رہ گیا۔ اس نے جسم کے اندر داخل ہو کر کیا کرنا تھا؟ اسکا سانس کیوں بند نہیں ہو رہا تھا؟اگر میں نکالنے میں ناکام ہو جاتا تو کیا ہوتا؟ اگر نکالنے کے بعد بھی مجھے کچھ ہو گیا تو کیا کریں گے؟ عجیب سوالات ذہن میں جنم لے رہے تھے۔ وہ دُور دراز پہاڑی مقام ہے جہاں ان دنوں اتفاقاً بھی کسی نے نہیں آنا، گاڑی کا راستہ نہیں ہے، گشتی فون کام نہیں کرتا، رات سر پر ہے، بارش کا موسم ہے۔ انتہائی ٹھنڈ ہے اور بچاؤ کے لیے کمرہ ایک ہی تھا جہاں سے نکلنا پڑا۔ دل ہی دل میں اﷲ سے خیر و عافیت کی دعائیں مانگ رہا تھا۔ ساتھیوں کی مدد سے میں نے خود ہی اپنے آپ کو دونوں بازوؤں میں الرجی وغیرہ کے دو ٹیکے لگائے اور گولیاں کھا لیں۔ اطمینان اس بات سے ہو رہا تھا کہ درد اور جلن میں مزید اضافہ نہیں ہو رہا تھا۔ جس کمرے سے بھاگ نکلے تھے وہ غالباً مویشیوں کا کمرہ تھا کیونکہ لکڑیاں نکالنے کے علاوہ ہم نے مینگنیاں وغیرہ بھی صاف کی تھیں۔ اس بار ساتھیوں نے صاف کمرے سے لکڑیاں اور شاخیں نکال کر جگہ صاف کر دی اور اندر گھس گئے مگر میں تو ڈرا ہوا تھا۔ میں نے دو جوڑے گرم کپڑے ، پاجامہ، اوپر نیچے کئی گرم بنیان، دو گرم ٹوپیاں ، دوہری جراب، بند جوتے اور دستانے وغیرہ سے خود کو ڈھانپ کر باہر دیوار کی آڑ میں ہوا سے محفوظ ایک جگہ پڑاؤ ڈالا۔ درد اور جلن میں ابھی کمی نہیں آئی تھی۔ عشا کے کافی دیر بعد پھر بارش شروع ہوئی۔ ٹھنڈ نے پہلے ہی پریشان کیا ہوا تھا کہ اوپر سے بارش بھی برسنے لگی لہٰذا میں بھی مجبوراً اندر چلا گیا۔ خوب آگ جل رہی تھی، کلیم اس کو بھیگنے نہیں دے رہا تھا، کلیم کو اﷲ خوش رکھے، سب سے چھوٹا تھا اور سب کی بہت خدمت کر رہا تھا۔ میں ڈر کی وجہ سے ساتھیوں کے درمیان میں ہی بیٹھا رہا۔ پراٹھوں کے ٹکڑے اور کچھ قتلے باقی تھے جسے ہم ہڑپ کر گئے۔ کسی کا پیٹ بھی نہیں بھرا جبکہ ابھی پوری رات اور دن کا تھکا دینے والا سفر باقی تھا اور کھانے کی کوئی شے باقی نہیں رہی تھی۔ لیٹتے بیٹھتے رات گزر گئی۔ کلیم نے پوری رات آگ جلائے رکھی۔ مجھ پر اﷲ کا یہ کرم ہے کہ نیند مجھے ہر حال میں آ جاتی ہے۔ اس لیے جب لیٹتا تو سو جاتا اور جب زمین کی ٹھنڈک مزید سونے نہ دیتی تو بیٹھ جاتا۔ میرے سوا راہبر سمیت کوئی ساتھی رات بھر سو نہ سکا تھا۔ اگرچہ کمرہ خوب گرم تھا مگر زمین کی ٹھنڈک اس پر غالب تھی۔ جیسے تیسے قیامت کی رات گزر گئی۔

صبح آسمان بالکل صاف تھا اور موسم بھی سفر کے لیے مناسب ورنہ بری طرح پھنس جاتے۔ میری طبیعت بھی کافی بہتر تھی۔ خالی پیٹ اور ٹوٹے پھوٹے جسموں کے ساتھ صبح پانچ بجے سیدھا پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا۔ پانی کی واحد بوتل راستے ہی میں خالی ہو گئی۔ دھوپ خوب تیز تھی اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا بھی خوب چل رہی تھی۔ پہاڑی کی چوٹی سے پینتیس چالیس قدم پیچھے ہی تھے کہ ایسی جگہ سے گزرنا پڑا جہاں راستہ تھا ہی نہیں۔ پندرہ بیس قدم کا فاصلہ یوں طے کیا کہ پورا جسم پہاڑی کے ساتھ چپکا کر آہستہ آہستہ آگے بڑھتے گئے۔ دراصل وہاں سے راستہ گر گیا تھا اور صرف پھسلان باقی تھا۔ اگر پھسلتے تو نجانے کہاں جاتے۔ کھسکتے ہوئے میں نے نیچے کی طرف بالکل نہیں دیکھا ورنہ یا تو گر جاتا اور یا آگے ہی نہ جاتا۔ خوف کی وجہ سے جیسے خون اور دم خم ختم ہو چکا تھا مگر اﷲ کا کرم ہوا کہ بخیریت گزر گئے۔ ساڑھے سات بجے یعنی ڈھائی گھنٹے بعد ہم چوٹی پر موجود تھے اور آنسوجھیل نظروں کے سامنے تھی۔ آنسو جھیل کو دیکھنے سے تھکاوٹ اور بھوک میں تو کمی آگئی مگر پیاس سے بُرا حال ہونے لگا۔ مشورہ کر کے طے شدہ رقم سے دو سو روپے بطور شکریہ راہبر کو زیادہ دیے۔ میں نے چپکے سے سو کا نوٹ مزید پکڑادیا اور وہ خوشی خوشی واپس چلا گیا۔ ہم برف کے اوپر ہی نڈھال پڑے رہے۔ میں نے صاف برف بوتل میں پانی بنانے کے لیے ڈال دی مگر پانی بن نہیں رہا تھا۔

آنسو جھیل دیکھنے کے شوقین لوگوں کی چار اقسام ہیں۔

(ا) ایک وہ لوگ جو راستے سے ہی واپس ہو جاتے ہیں۔

(ب) دوسرے وہ جو چوٹی پر پہنچ تو جاتے ہیں لیکن دھند کی وجہ سے جھیل کو دیکھ نہیں پاتے۔

(ج) تیسرے وہ لوگ جو چوٹی پر بھی پہنچ جاتے ہیں اور اوپر سے جھیل کا نظارہ بھی کر لیتے ہیں مگر جھیل کے پاس نہیں جاتے۔ اسکی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ جھیل راستے سے ایک طرف نیچے ہے۔ نیچے جھیل کے پاس جا کر دوبارہ اوپر چڑھنا ہوتا ہے جبکہ چوٹی پر پہنچ کر لوگوں کے بدن اس حد تک ریزہ ریزہ ہو چکے ہوتے ہیں کہ اُنہیں نیچے جانے آنے کی ہمت نہیں ہو پاتی۔ دوسری وجہ جھیل سے منسوب ڈراؤنی کہانیاں ہیں جن کی وجہ سے عام طور پر لوگوں کی ہمت نہیں ہوتی اور وہ اِسے اوپر سے دیکھنے پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں۔

(د) چوتھی اور آخری قسم ان خوش نصیبوں کی ہے جو جھیل کے پانی میں ہاتھ پاؤں مار کر اور جھیل کے وسط میں جا کر اور برف کے اوپر چل پھر کر خوب لطف اٹھاتے ہیں۔

کچھ دیر سستانے کے بعد جب نیچے جانے کی بات ہوئی تو مشتاق نے کہا ’’تم جاؤ اور بیگ میرے پاس چھوڑ دو۔ ‘‘ فخر عالم نے آہستہ سے میرے کان میں کہا ’’عارف بھائی نیچے نہیں جاتے بس آگے کو چلتے ہیں۔ ‘‘ فخر عالم ہم میں سب سے تگڑا بندہ تھا مگر اس چکر میں نجانے اس کو کیا ہو گیا۔ میں نے کہا ’’مجھے مرنا منظور ہے مگر نیچے ضرور جاؤں گا۔ ‘‘ کلیم بھی خوش ہوا۔ وہ ویسے بھی ہم تینوں سے زیادہ چست ثابت ہوا تھا۔ ہمیں دیکھ کر فخر عالم بھی راضی ہو گیا۔ ہم تینوں نے چادریں باندھ کر برف پر پھسلنا شروع کیا مگر پھسلان زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے پھسل نہیں سکتے تھے اس لیے کھڑے ہو کر دوڑ لگا دی اور پانچ منٹ میں جھیل کے کنارے پہنچ گئے۔ گلا خشک ہو رہا تھا اس لیے پانی کی طرف لپکے مگر یہ دیکھ کر حالت مزید خراب ہو گئی کہ پانی مچھروں وغیرہ سے بھرا ہوا ہے۔ پانی اور برف میں بے شمار مردہ مچھر تھے۔ پانی پینے کی خواہش یہاں بھی پوری نہ ہو سکی۔ اوپر چوٹی پر تیز ہوا چل رہی تھی جبکہ نیچے جھیل کے پاس ہوا بالکل بند تھی جبکہ دھوپ بھی تیز تھی۔ گرمی، پیاس اور پیاس سے بے حال ہو جانے کے ڈر کی وجہ سے پسینہ بہنا شروع ہو گیا۔ آخر برف سے مچھر ہٹا ہٹا کر وقفے وقفے سے برف کھاتے رہے اور پیاس بجھانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ جھیل کے گرد پگھلا ہوا پانی تقریباً تین فٹ نیچے تھا مگر درمیان میں برف ہی برف تھی جو جگہ جگہ سے ٹوٹ چکی تھی مگر پھر بھی ہم ڈرتے ڈرتے وہاں گئے۔ گھومے پھرے اور تصاویر بنائیں۔ جھیل کے منجمد پانی کے اوپر گھومتے ہوئے جو خوشی ہو رہی تھی اس کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا اور پھر کچھ کھائے پیے بغیر۔ جھیل کی سیر کے بعد ہم بڑی مشکل سے چار وقفوں سے اوپر چڑھ گئے۔ چڑھنے میں ہمیں گھنٹہ لگا۔ اوپر پہنچے تو جسم بھوک، پیاس اور تھکاوٹ کی وجہ سے مکمل طور پر جواب دے گیا تھا مگر ہم نے آگے بڑھنا تھا۔ مہانڈری سے کھانے پینے کی اشیا نہ لینے پر کئی مقامات پر ساتھیوں نے افسوس کیا مگر اب بے سود تھا۔

دوسری طرف سے اترنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ برف ہی برف ہے۔ چوٹی سے کم از کم ہزار میٹر تک خطرناک پھسلان ہے مگر پھسلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم ڈر رہے تھے کیونکہ لڑھکنے کا خطرہ تھا۔ مشتاق نے پہل کی تو ہمیں بھی حوصلہ ہوا۔ جب وہ پھسل کر رکا تو کافی چھوٹا دکھائی دے رہا تھا۔ مرتے کیا نہ کرتے۔ آخر ہم بھی چادریں باندھ کر اپنے اپنے تھیلوں سمیت پھسل گئے۔ بڑی تیزی سے پھسلے تھے مگر مزہ بہت آیا تھا۔ آگے بھی جگہ جگہ تھوڑا تھوڑا پھسلتے رہے۔ برف کے نیچے سے پانی گزرنے کی آواز سنائی دینے لگی تو پیاس بجھانے کی امید پیدا ہونے کے باوجود اس جگہ سے پرے پرے چلتے رہے کہ کہیں دھنس نہ جائیں۔ آدھ گھنٹہ بعد پانی کے پاس پہنچے تو خوب سیر ہو کر پانی پی لیا۔ جان میں جان آئی تو اﷲ کا شکر ادا کیا۔ دو گھنٹے تک برف اور پہاڑوں پر چلتے رہے اور مزید ڈیڑھ گھنٹہ زمینی برف پر چلتے رہنے کے بعد دو بجے کے قریب جھیل سیف الملوک پہنچے ہی تھے کہ موسلا دھار قسم کی بارش شروع ہو گئی۔ بھوک تھکاوٹ اور بے خوابی کو مسلسل برداشت کرنے سے ایک موقع ایسا آتا ہے کہ ان تینوں چیزوں کا احساس مٹ جاتا ہے۔ جھیل سیف الملوک پہنچ کر ہم بالکل خودکار مشینیں بن چکے تھے۔ نہ کھانے اور سونے کی آرزو تھی اور نہ ہی تھکاوٹ کا احساس ہو رہا تھا۔ گرم گرم چائے پی کر ناران کے لیے جیپ پر بیٹھ گئے۔ ناران میں لوگوں کا آنا ابھی شروع نہیں ہوا تھا اس لیے اچھے بھلے ہوٹل میں کوڑیوں کے مول کمرہ مل گیا۔ اگلے دن جب تصاویر صاف کر کے دیکھ رہے تھے اور وہاں مقیم نوجوانوں کے ایک گروہ کے ایک فرد کو آنسو جھیل کی تصاویر نظر آئیں تو وہ ہم سے پوچھنے لگا ’’آنسو جھیل جا کر لوگ واپس بھی آ سکتے ہیں ؟‘‘ ہم ہنسے اور احساس ہوا کہ آنسو جھیل کی کتنی دہشت ہے۔

آنسو جھیل دیکھنے کے خواہش مند مندرجہ ذیل نکات پر عمل کریں تو ان کے حق میں بہتر ہو گا۔
1۔ پیسے جتنے زیادہ ہوں اتنا ہی اچھا ہے۔ پوری ٹیم کے پاس کم پڑ گئے تو پوری ٹیم اور اگر ایک کے پاس کم پڑ گئے تو وہی اکیلا آگے کے سفر سے محروم یا ٹیم پر بوجھ ہو گا۔
2۔ جون کے وسط میں جانا بہتر ہے۔ اس سے پہلے اور بعد میں جانے والوں کو عموماً دھند اور بارشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
3۔ افراد جتنے زیادہ ہوں اتنا اچھا ہے۔ سب کو تکلیف میں دیکھ کر اپنی تکلیف ہلکی محسوس ہونے لگتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اﷲ نہ کرے اگر کوئی حادثہ پیش آ جائے تو افراد کی کمی محسوس نہیں ہو گی۔ مگر ساتھی ہمت والے ہوں۔ ورنہ کم ہی بہتر ہیں۔ کم از کم چار پانچ تو ہوں۔
4۔ طاقت والی چیزیں کھائیں اور اپنے ساتھ لے کر بھی جائیں۔
5۔ سفر سے متعلق تمام چیزیں اٹھائیں مگر غیر ضروری چیزوں کو خود پر بوجھ نہ بنائیں۔
6۔ سفری تھیلے اچھے اور مضبوط ہوں۔ دونوں بازوؤں میں ڈال کر پیٹھ پر لٹکانے والے ہوں۔
7۔ ہر ساتھی کے پاس پانی کی اپنی بوتل ہو۔
8۔ جوتے مضبوط اور پھسلنے والے نہ ہوں۔
9۔ پیسوں کے لیے محفوظ جیب چاہیے۔
10۔ برف کی چمک سے بچنے کے لیے کالا چشمہ بہت ضروری ہے۔
11۔ ماچس، لائٹر، چاقو، ویسلین، بیٹری اور ٹشو پیپر وغیرہ ساتھ لینا نہ بھولیں۔
12۔ ضروری گولیاں ، ٹیکے اور پٹی کا سامان۔
13۔ ایبٹ آباد کے بجائے مانسہرہ کی گاڑی مل سکتی ہو تو اچھا ہے کیونکہ ایبٹ آباد سے مانسہرہ کے لیے تھوڑے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔
14۔ مانسہرہ سے مہانڈری کی گاڑی بالا کوٹ کے اڈے سے ہی ملتی ہے۔
15۔ اگر ممکن ہو تو کم از کم ایک ساتھی ضرور ایسا ہو نا چاہیے جو پہلے اس سفر پر گیا ہو۔
16۔ مہانڈری یا بہاڑی سے اس وقت تک نہ نکلیں جب تک راہبر اور خوراک میسر نہ آ جائے۔
17۔ اگر سامان اٹھانا مشکل ہو تو گدھے والا راہبر ڈھونڈیں۔
18۔ ڈھیر میں ہر حال میں رات گزاریں اور اضافی خوراک ضرور ساتھ رکھیں۔
19۔ مہانڈری کی طرف سے جانا بہتر ہے کیونکہ جھیل سیف الملوک کی طرف سے جانے میں ہزار میٹر کی برفانی چڑھائی چڑھنا نا ممکن حد تک مشکل ہے۔
20۔ سب سے اہم بات یہ کہ جھیل کو دیکھ کر اپنا فیصلہ دیجیے گا کہ یہ آنسو جھیل ہے یا اس کو آنکھ جھیل کا نام دینا چاہیے تھا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو سفرنامہ از الحاج ایم زمان کھوکھر