- Advertisement -

منہ پھیکا کرا دیں گے

ایک اردو سفرنامہ از ڈاکٹر محمد اقبال ہما

منہ پھیکا کرا دیں گے

Any man that walks the mead
In bud, or blade, or bloom, may find
A meaning suited to his mind.
Alfred D. Souza

ہر شخص فطرت کدے کی کلیوں، پتیوں اور پھولوں سے من چاہی مسرت کشید کر سکتا ہے
الفریڈ ڈی سوزا

ساڑھے آٹھ بجے ہم نے نیلولوٹ کی دلکش فضاؤں کو اللہ حافظ کہا۔
آج کا ٹریک نسبتاً طویل ہونے کی توقع تھی کیونکہ کل ہم مطلوبہ منزل تک نہیں پہنچ پائے تھے۔ لوئر شانی پہنچ کر آج کی باضابطہ سٹیج کا آغاز ہوتا۔
نیلو لوٹ سے آگے تھوڑی دور تک گل و گلزار نے ہمارا ساتھ نبھایا، پھر لینڈ سکیپ بدل گیا اور ہم پتھروں کے ایک وسیع و عریض میدان میں داخل ہوئے۔ دائیں جانب نظر آنے والے پتھروں کے ڈھیر اس بات کی نشاندہی کرتے تھے کہ یہ لینڈ سلائیڈنگ کا علاقہ ہے۔ یہاں پائے جانے والے بیش تر پتھر گول مٹول ہونے کے بجائے چپٹے اور ہموار تھے لیکن لڑھکنے میں گول مٹول پتھروں کو شرماتے تھے۔ میں اس قسم کے دوغلے اور دغا باز پتھر پہلی مرتبہ دیکھ رہا تھا اور اندازہ لگا رہا تھا کہ رات کی تاریکی میں یہاں سے گزرنا کس قسم کے ’’پنگوں‘‘ کا باعث بن سکتا تھا۔
اس پتھریلے میدان سے گزرتے ہوئے ’’تین سری‘‘ (Triple Headed) شانی پیک ہر وقت نظروں کے سامنے رہتی ہے جس کی چوٹیوں سے الگ الگ اترنے والے گلیشئر نیچے پہنچ کر ایک ہو جاتے ہیں اور ان کے سنگم سے نل تر نالا جنم لیتا ہے۔ اس میدان کے پہلو میں نل تر نالے کا پاٹ کافی وسیع ہے اور اسے دریائے نل تر کہا جا سکتا ہے۔ شانی پیک کی بلندیوں سے اترتے ہوئے گلیشئرز اور گلیشئرز سے جنم لینے والا دریاے نل تر ایک ایسی وسیع المنظر تصویر تخلیق کرتے ہیں جو اس پتھریلے میدان کی منفرد خصوصیت ہے۔ یہ وسیع المنظری ٹوئن پیک سے گلے مل کر بے حد طویل ہو جاتی ہے اور ایک فوٹو فریم میں نہیں سماتی۔اس مقام سے گزرتے ہوئے مجھے ’’وائڈ اینگل لینز‘‘ کی کمی کا شدت سے احساس ہوا جس کی مدد سے پورا منظر ایک تصویر میں سمویا جا سکتا تھا۔ وہاڑی پہنچنے پر میں نے ٹریک کی مختلف تصاویر اور سوفٹ ویئر کی مدد سے شانی پیک،شانی گلیشئر، دریائے نل تر اور ٹوئن پیک پر مشتمل پینوراما (Panorama) ترتیب دیا۔یہ کوشش بہت حد تک کامیاب رہی لیکن سوفٹ ویئر کی مدد سے ترتیب دیا گیا پینوراما اس تاثر کی مکمل عکاسی کرنے سے قاصر ہے جو ڈھیری سے لوئر شانی جاتے ہوئے ذہن پر نقش ہو جاتا ہے۔لوئر شانی پہنچنے سے پہلے ہمیں ایک چھوٹی سی (صرف ایک ہزار ایک سو فٹ بلند) پہاڑی سر کرنا پڑی۔ اس اچانک چڑھائی نے چند ہی منٹ میں ہمارا سانس اتھل پتھل کر دیا اور دس بجے لوئر شانی پہنچے تو باقاعدہ ہانپ رہے تھے۔
لوئر شانی صرف ایک نام ہے، یہاں کوئی شناختی علامت نہیں۔ ہمیں اگر بتایا نہ جاتا کہ یہ آئٹی نریری کا با ضابطہ پڑاؤ ہے تو نہایت سرسری انداز میں اس ننھے منے سبزہ زار سے گزر جاتے۔لوئر شانی کا کل اثاثہ شانی پیک کا بہترین منظر اور ایک پہاڑی نالا ہے جو بہ مشکل نظر آتا ہے، پر سکون انداز میں بہتا ہے اور منظر میں رنگ بھرنے کے بجائے پانی کی بوتلیں بھرنے کے کام آتا ہے۔ ایک دو جگہ چٹانی پتھروں کے درمیان غار نما خلا نظر آ رہاتھا۔ عالم خان نے بتا یا کہ یہ بھی ایک قسم کے بہک ہیں اور بکروال انھیں عارضی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ لوئر شانی کے سبزے میں وہ تراوٹ اور ہریالی نہیں جو ڈھیری میں بے تحاشہ ٹھاٹھیں مارتی تھی۔ جھرنوں کی راگ اور راگنیاں نہیں، دہکتی ہوئی آتشِ گل نہیں ؛ ہم مطمئن ہو گئے کہ ڈھیری کی ’’بہکی مہکی‘‘ آغوش میں رات گزار کر کوئی غلطی نہیں کی۔
لوئر شانی میں تقریباً تیس منٹ قیام کیا گیا۔
لوئر شانی تک پہنچانے والی چڑھائی سر کر تے ہوئے ہمارے جسم کے بہت سے نمکیات اور پانی پسینا بن کر بہہ گئے تھے۔یہ کمی پوری کرنے کے لیے شانی نالے کے پانی میں انرجائل، ٹینگ اور مٹھی بھر نمک گھول کر بنایا گیا ’’جامِ نمکیں‘‘ نوش فرمایا اور ہموار پتھروں پر ہاتھ پاؤں پسار کر تھکاوٹ دور کرنے کی ناکام کوشش کی۔ پورٹرز بہ ظاہر اس مشقت سے متاثر نہیں ہوئے، لیکن انھوں نے نمکین مشروب کی کئی بوتلیں خالی کر دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جسم سے خارج ہونے والا نمک پورا نہ کیا جائے تو معمولی سی تھکاوٹ بھی برداشت نہیں ہوتی۔ ہم نے اُن کی ہدایت پر اپنی بوتلیں پانی کے بجائے جامِ نمکیں سے لبریز کیں اور چند اضافی بوتلیں میر عالم کی پشت پر لدے ہوئے سامان میں ٹھونس دیں۔
تقریباً ساڑھے دس بجے دئینتر پاس ٹریک کی دوسری سٹیج کا آغاز ہوا۔
یہ آغاز ایک سبزہ زار سے ہوا جسے لوئر شانی کا بغل بچہ کہا جا سکتا تھا۔ سبزہ زار کے اختتام پر ایک رنگین بلندی سر اٹھائے کھڑی تھی جس کا چپہ چپہ کومل کومل پہاڑی پھولوں سے مرصع تھا۔ یہ دل چھو لینے والا منظر تھا۔
اللہ، اس طرح کی جنوں آفریں بہار
جوشِ بہار تھا کہ قیامت ’’بغل‘‘ میں تھی
میں چند ثانیے مبہوت کھڑا جنوں آفریں بہار یادداشت کے خفیہ گوشوں میں مقفل کرتا رہا کہ جب ذرا گردن جھکاؤں، مجنوں بن جاؤں۔ پھر نہایت محتاط انداز میں پہاڑی کے پہلو کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے لگا۔
’’اوئے سر تم کدر جاتا اے۔‘‘ اچانک شیر احمد کی آواز آئی۔
میں رک گیا۔ شیر احمد پہاڑی کے دامن میں اسی جگہ کھڑا تھا جہاں چند سیکنڈ پہلے میں نے قیامتِ چمن کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔
’’دئینتر پاس جاتا ہے،اور کدھر جاتا ہے۔‘‘
’’اوئے سر دئینتر پاس ادھر نہیں ہے،ادھر سے تم دوبارہ نل تر پہنچ جائے گا۔ دئینتر پاس جاتا ہے تو ہمارے ساتھ آؤ۔‘‘
شیر احمد نہایت بے دردی سے پھولوں کی نزاکت مسلتا ہوا پہاڑی پر چڑھنے لگا۔ میں بوکھلائے ہوئے انداز میں واپس آیا اور سراسیمہ نظروں سے اس گل رنگ بلندی کو تکنے لگا۔یہ بلندی سر کرنے میں دو قباحتیں تھیں۔ کومل کومل فرشِ گل پاؤں تلے روندتے ہوئے چلنا فطرت کی توہین کے مترادف تھا،اور میں یہ بلند و بالا شادابی تسخیر کرنے کا اعتماد نہیں رکھتا تھا۔ میرے ساتھی میرے جذبات و احساسات سے بے خبر چوٹی کی طرف گامزن تھے۔ میں ان کی تقلید میں فطرت کی توہین نہ کرتا تو کیا کرتا؟
چڑھائی شروع ہوتے ہی سانس پھولنا شروع ہو گیا۔ میں چند قدم بعد منظر سے لطف اندوز ہونے کی ایکٹنگ اور فوٹو گرافی کرنے لگتا۔ طاہر کا حال مجھ سے زیادہ پتلا تھا اور اس نے پرانی روش اختیار کر لی تھی جسے میں نے تین سال پہلے بیال کیمپ میں طاہری واک کا نام دیا تھا اور جو دس منٹ واک اور پھر کسی پتھر پر بیٹھ کر دس منٹ ٹاک پر مشتمل تھی۔ میرے جوڑ اور پٹھے طاہر کے اعضاء کی نسبت دس سال پرانے ہیں، اس بوسیدگی پر چڑھائی کا حاوی ہو جانا غیر معمولی بات نہیں تھی۔تھکاوٹ سے مغلوب اعصاب آرام کا وقفہ کرنے کے بعد باقاعدہ التجا کرتے تھے … میں یہاں بیٹھ چکا ہوں مجھے پھر سے اٹھانا لوگو … عالم خان کے ہاتھ کبھی یہ صدا سن کر سہارا دیتے تھے،کبھی بے نیازی سے جھولتے رہ جاتے تھے۔
’’آپ اتنا کمزور ہے تو ان لوگوں کے ساتھ کیا لینے آیا ہے؟‘‘
عالم خان نے سوال کیا اور … اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے … اسے کیسے سمجھایا جا سکتا تھا کہ میں جو لینے آیا تھا وہ مجھے ہائے وائے کرنے کے باوجود مل رہا تھا اور نہایت فراوانی سے مل رہا تھا … تھکاوٹ اپنی جگہ … آسودگی اپنی جگہ … تھکاوٹ کے صلے میں حاصل ہونے والا تلذذ ہی کوہ نورد کو فطرت کدے کا رخ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
شیر احمد اور میر عالم نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے۔ عالم خان گائیڈ ہو نے کے ناتے ہمارا ساتھ دینے پر مجبور تھا اور میں عالم خان کے قدم بہ قدم چلنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔ عرفان اور بھٹہ صاحب مجھ سے زیادہ سمارٹ تھے۔ وہ بے فکری سے ٹہلتے اور اٹکھیلیاں کرتے ہوئے گامزن تھے، لیکن تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے سے قاصر تھے۔ عام طور پر ٹیم کا بہترین رکن ٹیم کی ’’ٹیل‘‘ سنبھالنے کا ذمہ دار ہوتا ہے،عرفان سب سے پیچھے رہ کر اپنی ٹیم کی بھاری بھرکم دُم سنبھال رہا تھا،آگے کیسے نکل جاتا؟
میرا فوٹو گرافی کرنے کا دورانیہ بڑھنے لگا اور عالم خان نے سوال داغ دیا۔
’’سر آپ لوگ اس رفتار سے چلے گا تو پاس کیسے کراس کرے گا؟‘‘
’’بس ایسے ہی کرے گا۔‘‘ میں نے بے ترتیب سانس پر قابو پانے کی کوشش کی۔
’’آپ لوگ دئینتر پاس کراس نہیں کر سکتا۔‘‘ عالم خان نے پیش گوئی کی۔
’’کر رہے ہیں۔ ‘‘ میں نے لا پرواہی سے جواب دیا
’’کدھر کر رہا ہے ؟اس طرح آپ اگلے سیزن تک بھی ٹاپ پہ نہیں پہنچے گا۔ دئینتر پاس کراس کرنا مذاق نہیں ہے۔ ادھر گورا لوگ بھی سوچ سمجھ کر آتا ہے۔ ابھی وقت ہے، اپنے لوگوں سے مشورہ کر لو۔‘‘
’’مشورہ ہوچکا۔ اب کوئی بھی واپس نہیں جائے گا۔‘‘
’’واپس جانے کا بات نہیں، مگر آپ دئینتر کے بجائے پکھورا کراس کرو۔‘‘
’’ہمارا لیڈر عرفان ہے۔تم اس سے بات کیوں نہیں کرتے؟‘‘
’’عرفان صاحب نے ہمارے ساتھ دئینتر پاس کا بات کیا ہے۔ ہم انھیں ٹریک بدلنے کا مشورہ کیسے دے سکتا ہے؟ آپ ان کو بولو کہ آپ لوگ چل نہیں سکتا۔‘‘
’’ہم چل رہے ہیں۔ ‘‘
’’ناراض مت ہونا سر۔ آپ چل کدھر رہا ہے؟ آپ ایسے چلتا ہے جیسے پیٹ میں بچے والا عورت چلتا ہے۔ دئینتر پاس آپ لوگوں کے لیے بہت مشکل ٹریک ہے سر۔ پکھورا کے راستے میں اس طرح کا سیدھا چڑھائی نہیں ہے۔آپ آرام سے کراس کرے گا۔‘‘
’’عرفان پکھورا کر چکا ہے۔وہ دوبارہ وہاں کیوں جائے گا؟‘‘
’’تو ٹھیک ہے سر۔ آپ حایول پاس کیوں نہیں کراس کرتا؟‘‘
’’یہ کہاں ہے؟‘‘
’’اپرشانی سے آگے نل تر پاس ہے ناں۔ پکھورا پاس اور حایول پاس نل تر پاس سے تھوڑا آگے ہے۔‘‘
’’عالم خان تم خواہ مخواہ کنفیوژ کر رہے ہو۔بتانا چاہتے ہو تو ڈھنگ سے بتاؤ ورنہ چپ چاپ چلتے رہو۔ بے تکان بولنے سے سانس چڑھتا ہے۔‘‘
عالم خان نے اپنا بوجھ ایک بڑے پتھر پر رکھ دیا۔
’’ہم آپ کو سمجھاتا ہے۔لوئر شانی تو آپ جانتا ہے ناں ؟اُدھر سے ہم دائیں ہاتھ کی طرف نکل آیا تھا۔ سیدھا جاتا تو شانی گلیشئر کے کنارے کنارے چل کر اپر شانی پہنچ جاتا۔ اپر شانی بڑا زبردست کیمپ سائٹ ہے۔ادھر سے کھل تر چوٹی کا بہترین نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ابھی تک تو کوئی کنفیوژن نہیں ہوا؟‘‘
’’نہیں … آگے چلو۔‘‘
’’اپر شانی سے آگے شانی گلیشئر پر چلتا ہے اور نل تر پاس ٹاپ پہنچ کر کیمپ کرتا ہے۔ ادھر بہت بیوٹی فل نظارہ ہے۔نانگا پربت، راکاپوشی، دیراں پیک،سنتری پیک اور دوسری کی پیک کا بہترین نظارہ نل تر پاس ٹاپ سے ہوتا ہے۔ نل تر پاس کراس کر کے اشکومن وادی میں داخل ہوتا ہے۔کچھ لوگ بولتا ہے کہ اشکومن ہنزہ کا سب سے خوبصورت وادی ہے۔ نل تر پاس سے نیچے اترنے کا دو راستہ بنتا ہے۔دائیں طرف جاتا ہے تو لال پتھر سے گزر کر پکھورا پہنچتا ہے۔ بائیں طرف جاتا ہے تو حایول پاس کراس کرتا ہے اور چتور کھنڈ جا نکلتا ہے۔ اب بولو بات صاف ہوا کہ نہیں ہوا؟‘‘
’’بالکل نہیں ہوا۔ ہم اگر حایول جاتے ہیں تو ایک کے بجائے دو پاس کراس کرنے ہوں گے۔ اس کے باوجود تم کہتے ہو کہ حایول پاس آسان ٹریک ہے؟‘‘
’’دئینتر سے آسان ہے۔ دئینتر کا چڑھائی بالکل سیدھا ہے اور سارا راستہ میں پتھر ہی پتھر ہے۔دئینتر پاس سے آگے بھی کوئی بہت اچھا سائٹ نہیں ملتا،پتھر ہی پتھر ملتا ہے۔ اس طرف زیادہ لوگ نہیں آتا تو کوئی وجہ ہو گا ناں ؟ہم ابھی دس دن پہلے لاہور یونیورسٹی کی ٹیم کے ساتھ آیا تھا۔ وہ بہت فٹ فاٹ لوگ تھا۔‘‘
’’وہ دئینتر کراس نہیں کر سکے؟‘‘
’’وہ دئینتر نہیں، پکھورا جاتا تھا۔اپر شانی پہنچ کر پورا گروپ ایسا گرا کہ اٹھنے کا نام نہیں لیا۔ ان کا لیڈر بولتا تھا کہ ہمارا سب کچھ ’’پاٹ‘‘ گیا ہے،آگے نہیں جا سکتا۔ ہم نے ان کا حوصلہ بڑھانے کا بہت کوشش کیا مگر وہ نہیں مانا۔ واپس چلا گیا۔‘‘
’’اس کے باوجود تم ہمیں پکھورا لے جانا چاہتے ہو؟‘‘
’’پکھورا دئینتر سے آسان ہے ناں، مگر پاس تو پاس ہوتا ہے۔ اس میں تھوڑا مشکل نہ ہو تو سارا لوگ پاس کرنے لگے۔‘‘
عالم خان نے اپنا سامان اٹھایا اور سفر دوبارہ شروع کر دیا۔
مجھے ٹریک تبدیل کرنے کی تجویز پر کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ میرے لیے تینوں ٹریک یکساں تھے۔ میں بہرحال یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا کہ عالم خان ہاتھ دھوکر دئینتر پاس ٹریک کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے؟ واویلا کرتے ہوئے چلنا اور آنے والی سٹیج کے بارے میں خواہ مخواہ فکرمند رہنا میری عادتِ ثانیہ بن چکی ہے ورنہ ابھی تک دئینتر پاس ٹریک نے مجھے مایوس نہیں کیا تھا۔نل تر جھیل سے ڈھیری اور ڈھیری سے لوئر شانی ایک شاندار واک تھی جو ذوقِ آوارگی کے ہر معیار پر پورا اترتی تھی۔ لوئر شانی سے آگے کے مناظر بھی اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ جہاں تک سست رفتاری اور چلنے کے انداز کا سوال تھا تو یہ ہمارا مخصوص انداز تھا۔اسی انداز میں چلتے ہوئے ہم نانگا پربت بیس کیمپ پہنچے تھے جہاں آرٹس کالج کے انتہائی فٹ جوانوں کی ٹیم پہنچنے میں ناکام رہی تھی۔ کیا واقعی ہمیں ٹریک تبدیل کرنے کی ضرورت تھی؟
میں آہستہ آہستہ ڈگمگاتے قدموں سے عالم خاں کے ساتھ آگے بڑھتا رہا اور پہاڑی عبور کر لی۔ پہاڑی سے آگے راستہ پتھریلا ہو گیا،لیکن یہ پتھریلا میدان نہیں تھا، پتھریلی چٹانیں تھیں۔ یکے بعد دیگرے کالے پیلے پتھروں کے اونچے نیچے ڈھیر آتے گئے اور میں ہانپتا کانپتا، لڑکھڑاتا، ڈگمگاتا عالم خان کا ساتھ دیتا رہا۔ ایک دو جگہ لینڈ سلائیڈنگ کے سکری زدہ علاقے سے پالا پڑ ا جس کے دائیں جانب سینکڑوں فٹ گہری کھائی تھی اور پھسلنے سے پہلے قدم نہ اٹھانے کی صورت میں ٹھیک ٹھاک پنگے میں مبتلا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ دشواری کے لحاظ سے یہ راستہ ٹریکنگ کے درمیانے درجے میں رکھا جا سکتا تھا، نظر اٹھانے اور اردگرد کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کی مہلت با آسانی میسر آ جاتی تھی۔
لوئر شانی سے بیس کیمپ تک سفر کرتے ہوئے بنیادی پس منظر تبدیل نہیں ہوتا۔ ایک طرف نل تر وادی اپنے تمام نشیب و فراز آشکار کیے رکھتی ہے، دوسری طرف شانی گلیشئرکا برفاب منظر نظریں ہٹانے کی مہلت نہیں دیتا اور تیسری طرف سنو ڈوم کی دلکش گولائیاں کبھی شرماؤں کبھی نظریں چراؤں کی تصویر بنی رہتی ہیں کیونکہ دئینتر پاس ٹریک اسی گنبد نما بلندی سے بوس و کنار کرتے ہوئے گزرتا ہے۔
ایک ننھے منے گل زار سے گزرتے ہوئے عالم خان نے پانی کے وقفے کا اعلان کیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ ہم آج کی سٹیج کا نصف فاصلہ طے کر چکے ہیں۔ میرے خیال میں دئینتر پاس ٹریک کے دوران شانی پیک اور سنتری پیک کا خوبصورت ترین منظر اس گمنام سبزہ زار سے نظر آتا ہے۔ میں شانی پیک اور گلیشئر کی تصاویر بنانے لگا۔ اچانک ایک مہیب گڑگڑاہٹ نے دلکش منظر کی فضاؤں کو درہم برہم کر دیا اور شانی پیک کی بلندیاں نقرئی غبار کے بے شمار بگولوں میں روپوش ہو گئیں، لگتا تھا وہاں ایک قیامت برپا ہو چکی ہے۔ مجھے سمجھ ہی نہ آیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیا ماجرا ہو گیا؟
’’ایوا لانچے۔‘‘ عالم خان نے سرسری انداز میں کہا۔
’’ایوالانچے؟‘‘ میں نے بے یقینی،جوش اور مسرت کی ملی جلی کیفیت میں دہرایا۔
’’ہاں ناں۔ ہم اتنا زبردست ایوالانچے پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہے۔‘‘
شانی پیک سے گلیشئر تک برف کے تودوں کا سفر جاری تھا اور پیک نقرئی ذرات کے چمکیلے گھونگھٹ سے چند لمحات کے لیے درشن دیتی تھی،پھر روپوش ہو جاتی تھی۔ جب تک یہ مسحور کن منظر رنگ بکھیرتا رہا میں محویت کے عالم میں ساکت و جامد کھڑا سبحان اللہ کا ورد کرتا رہا۔ مجھے آج تک اس بات کا افسوس ہے کہ یہ منفرد منظر کیمرہ بند نہ ہو سکا۔میں نے برفانی تودے گرنے کے مناظر پردۂ سکرین پر دیکھے تھے اور ان سے آنے والی تباہی کے بارے میں پڑھا بھی تھا، لیکن لائیو شو پہلی مرتبہ دیکھ رہا تھا۔ نانگا پربت کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے علم ہوا کہ ایک مہم کے دوران پچاس سے زائد کوہ پیما برفانی تودے کی بھینٹ چڑھ گئے تھے تو میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ ایک برفانی تودہ اتنی تباہی کیسے مچا سکتا ہے؟ شانی سے نیچے آنے والے تودے نے بہت کچھ سمجھا دیا۔ شانی جیسی شریف الطبع چوٹی کے یہ تیور ہیں تو ’’کلر ماؤنٹین‘‘ کے غضب کا عالم کیا ہو گا؟ عرفان وغیرہ ہم تک پہنچے تو بتا یا کہ اس منظر نے چند منٹ کے لیے انھیں بھی اپنے سحر میں گرفتار کر لیا تھا۔طاہر اپنے تمام تر ذوقِ فلمبندی کے با وجود ایوالانچے پر نظریں جمائے رکھنے کے سواکچھ نہ کر سکا اور مووی کیمرہ کاندھے پر جھولتا رہ گیا۔ دئینتر پاس ٹریک کی آزاد فضاؤں میں جنم لینے والا یہ منظر دل میں بسانے کے لیے تخلیق کیا گیا تھا، فطرت اسے کیمرے میں قید کرنے کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں تھی۔
پانی کے وقفے کے بعد سفر دوبارہ شروع ہوا۔آسمان پر کالی کالی بدلیوں کی یلغار بڑھتی جا رہی تھی۔عالم خان ہماری سست روی پر بار بار شکوہ کر رہا تھا۔
’’سراب اگلا گیئر بھی لگاؤ ناں۔ آپ لوگ صرف پہلے گیئر میں چلتا ہے۔‘‘
’’عالم خان تم ہر وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار کیوں رہتے ہو؟ ہم تمھاری رفتار سے نہیں چل سکتے،خواہ مخواہ شور مچانے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘ طاہر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
’’جلدی کرنا پڑتا ہے ناں سر۔ بارش یا برف باری ہو جاتا ہے اور راستہ پھسلنے والا بن جاتا ہے تو آپ لوگ ٹاپ پر کیسے پہنچے گا؟‘‘
’’اللہ مالک ہے۔ آج کی منزل دئینتر پاس ٹاپ نہیں ہے۔ بیس کیمپ تک کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی جائیں گے،اور دئینتر پاس عبور کرنا کوئی فرض نہیں ہے۔ہم مناظر سے لطف اندوز ہونے آئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ گھوم پھر کر واپس …۔ ‘‘
’’واپس؟‘‘ عرفان نے چونک کر بات کاٹی۔’’نو واپس سر جی۔واپسی کی بات پر عالم خان کی موجیں لگ جائیں گی۔‘‘
’’کیا مطلب؟ٹریک کا دورانیہ کم ہوا تو مزدوری میں کمی آئے گی، اس میں موجیں لگنے والی کیا بات ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’مزدوری زیادہ ہو جائے گا سر۔‘‘ عالم خان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’زیادہ کیسے ہو جائے گی؟ اصولاً مزدوری کم ہونا چاہیے۔ تم لوگ بوجھ اٹھا کر پاس کی بلندی عبور کرنے کی مشقت سے بچ جاؤ گے۔‘‘
’’آپ نے ہمیں دئینتر پاس کیلئے بک کیا ہے سر، آپ پاس نہیں کر سکتا تو ہمارا کیا قصور؟ وہ پیسا ہم پورا لے گا۔ ادھر ادھر گھوم کر واپس جانے کا پیسا الگ ہو گا۔‘‘
’’پھر وہی۔تم نے کیسے فرض کر لیا کہ ہم واپس جائیں گے؟‘‘
’’صرف ہم نے نہیں کیا، ہمارا بزرگ لوگ بھی یہی بولتا تھا۔‘‘
’’ہم تمھاری اور تمھارے بزرگوں کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے دئینتر پاس عبور کریں گے،انشاء اللہ۔‘‘
میرے سنجیدہ اور پُر عزم لہجے کے جواب میں عالم خان کے چہرے پر طنزیہ و مزاحیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
’’او۔کے۔دئینتر آئے گا تو دیکھا جائے گا۔تم یہ بتاؤ کہ بیس کیمپ کتنی دور ہے؟‘‘
’’وہ سامنے نظر آتا ہے ناں۔ ‘‘ اس نے ایک بلندی کی طرف اشارہ کیا۔
سامنے نظر آنے والے بیس کیمپ اور ہمارے درمیان ایک بلند و بالا سنگلاخ حائل تھا۔ یہ تقریباً ویسی ہی چڑھائی تھی جو ہم نے ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے عبور کی تھی،لیکن یہ اتنی سرسبز اور فرحت بخش نہیں تھی۔اس سنگلاخ کی تسخیر مجھے ایک دشوار مرحلہ معلوم ہوتا تھا لیکن بیس کیمپ تک پہنچنا تھا تو اسے عبور کرنا مجبوری تھی۔چڑھائی کا آغاز کیا تو ایک مرتبہ پھر مسرت نذیر کی بھولی بسری یادیں تازہ کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی … چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ … سفر کٹنا شروع ہوا اور حیرت انگیز انداز میں کٹتا ہی چلا گیا۔ سنگلاخ کی تقریباً ایک تہائی بلندی پر پہنچ کر انتہائی خوشگوار تبدیلی محسوس ہوئی۔ جسم غالباً چڑھائی کا عادی ہو گیا اور سانس پھولنے کی رفتار برداشت کی حد میں رہنے لگی۔ پتھروں کا لڑھکنا کم ہوا،قدموں کی ڈگمگاہٹ استقامت میں تبدیل ہو ئی اور میں تقریباً ایک گھنٹے میں ٹاپ پر پہنچ گیا،جہاں ایک وسیع و عریض سرسبز حیرت کدے نے خوش آمدید کہا۔
دئینتر پاس ٹریک کا ایک اور تحفہ … دل موہ لینے والا ایک اور منظر
یہ ایک روایتی پہاڑی چراگاہ تھی جس کے وسط میں ایک سرسبز ٹیلا تھا اور اطراف میں بہنے والے کئی پانی جھلمل کر رہے تھے۔آس پاس کی بلندیوں کے دامن میں کئی درجن مویشی (یاک xگائے= زو یا زومو) (نر= زو مادہ =زومو) چہل قدمی فرما رہے تھے۔ اس قسم کی ’’لش گرین میڈوز‘‘ بھی افسانوی شہرت رکھتی ہیں اور تاروں بھری رات میں بلندیوں سے اُتر کر یہاں رقص کرنے والی پریوں کے قصے لوک داستانوں کا حصہ بن چکے ہیں۔
میر عالم اور شیر احمد اپنے اپنے بوجھ سے چھٹکارا حاصل کر کے سستا رہے تھے۔ عالم خان نے اپنا بوجھ اتار کر ٹیلے پر رکھ دیا۔ میں بھی سر سبز گھاس پر دراز ہو گیا۔ چند منٹ بعد میر عالم اور شیر احمد میرے پاس آئے۔
’’سفر کیسا گزرتا اے سر؟‘‘ میر عالم نے دریافت کیا۔
’’ابھی تک تو ٹھیک گزرتا ہے،آگے کا پتا نہیں۔ ‘‘
’’کل کا کل دیکھے گا سر۔آج آپ اتنی جلدی بیس کیمپ پہنچتا اے تو کل کا فکر مت کرو، کل بڑے آرام سے ٹاپ پہ پہنچتا اے۔‘‘
’’یہ بیس کیمپ ہے؟‘‘ میں نے سرخوشی کے عالم میں تصدیق چاہی۔
’’آپ کو نئی پتا؟‘‘ میر عالم حیران ہوا۔
اس کا مطلب تھا آج کا سفر تمام ہوا۔ یہ ایک خوشگوار حیرت تھی۔ گائیڈ بک کے مطابق ہمارا آج کا سفر چار سے پانچ گھنٹے طویل تھا۔ گذشتہ روز کی سٹیج یعنی نل تر جھیل سے لوئر شانی کا سفر تین تا چار گھنٹے بتایا گیا تھا، ہم تین گھنٹے میں ڈھیری پہنچے تھے اور ڈھیری سے لوئر شانی پہنچے میں مزید دو گھنٹے صرف ہوئے تھا۔ اس اندازے کے مطابق آج کا سفر چھ سے سات گھنٹے طویل ہونا چاہیے تھا جو پونے چھ گھنٹے میں اختتام کو پہنچا۔ اس حساب کتاب کی روشنی میں میر عالم یہ پیش گوئی کرنے میں حق بجانب تھا:
بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں
دئینتر کی تسخیر کے آثار نظر آتے ہیں
بیس کیمپ سے وادیِ نل تر کا نظارہ ناقابل فراموش تجربہ ہے۔ تنگ دامن نل تر وادی کی پوری وسعت ایک منظر میں سما جاتی ہے۔ ہم نے نل تر جھیل سے ٹریک شروع کیا تھا اور نل تر نالے کے دونوں طرف صف آرا برفیلی بلندیوں کے بیچ سفر کرتے ہوئے پہلے ڈھیری اور پھر لوئر شانی پہنچے۔ لوئر شانی سے بیس کیمپ تک کا سفر مرغزاروں اور سنگلاخ چٹانوں کا ملا جلا مجموعہ تھا۔ بیس کیمپ کی بلندی سے اس پورے سفر کے مناظر خوبصورت تصویر کی طرح نظروں کے سامنے پھیلے ہوئے نظر آ رہے تھے۔اس منظر کے انتہائی جنوب میں نل تر جھیل تھی اور شمالی کنارے پر شانی پیک۔نل تر نالا ان دونوں خوبصورتیوں کو آپس میں ملاتا تھا۔ اس طویل منظر میں کیا نہیں تھا؟ جھیلیں، گلیشئرز، جھرنے،آبشار، چشمے، سبزہ زار، گل زار … اور ان سب پر سایہ فگن برف پوش یا سبز پوش بلندیاں جن کی چوٹیوں پر کالی گھٹائیں رقص کرتی تھیں اور سورج کی کرنیں ان سیاہ ’’زلفوں‘‘ میں رنگ برنگے موتی پروتی تھیں۔ سبز و سفید بلندیوں کا یہی جھرمٹ وادیِ نل تر کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتا ہے۔
میں نے عالم خان سے فرمائش کی کہ دئینتر پاس کے درشن کرائے۔ عالم خان نے مشرقی پہاڑی سلسلے کی طرف اشارہ کر دیا۔ان بلندیوں پر سنو ڈوم اور مہربانی پیک کی برف لشکارے مارتی تھی اور ارد گرد کی سرمئی چٹانیں گلیشئرز سے ڈھالا گیا نقرئی زیور پہن کر نئی نویلی دلہن کے سنگھار کو شرماتی تھیں۔ دئینتر پاس بیس کیمپ دراصل سنوڈوم نامی چوٹی کا بیس کیمپ ہے۔ ہم سنو ڈوم کے دامن میں تشریف فرما تھے اور اس برف پوش بلندی کے دوسری جانب وادیِ دئینتر ہمارا انتظار کر رہی تھی۔
’’یہ سنو ڈوم ہے۔پاس کہاں ہے؟‘‘ میں نے عالم خان سے دریافت کیا۔
اُس نے سنو ڈوم کے پہلو میں ایک سرمئی بلندی کی طرف اشارہ کیا۔ اس بلندی تک پہنچنے والی چڑھائی تقریباً عمودی تھی۔
’’پاس اس چوٹی کے قریب سے گزرتا ہے؟‘‘
’’قریب وریب سے نہیں گزرتا۔بالکل اوپر سے گزرتا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب ؟ تم کہنا چاہتے ہو اس پہاڑ پر سیدھا چڑھنا ہو گا؟‘‘ میں حیران ہوا۔
’’اُلٹا کیسے چڑھ سکتا ہے؟‘‘ عالم خان مجھ سے زیادہ حیران ہوا۔
’’میرا مطلب ہے عام طور پر ایک بل کھاتا ہوا راستہ اس قسم کی بلندیوں تک لے جاتا ہے۔چڑھائی محسوس نہیں ہوتی۔‘‘
’’ادھر کوئی بل ول نہیں ہوتا سر۔ بالکل سیدھا راستہ ہے۔‘‘
میں کچھ دیر حیرانی و پریشانی کے عالم میں دئینتر پاس کی پتھریلی بلندی کی طرف دیکھتا رہا جس کی چڑھائی تقریباً ساٹھ درجے کا زاویہ بناتی تھی۔ میں نے دل ہی دل میں حساب کتاب کیا اور فیصلہ صادر کر دیا:
’’میں اس عمودی چڑھائی کو سیدھا سیدھا عبور نہیں کر سکتا۔‘‘
’’نہیں کر سکتا ناں ؟اسی لئے توہم بولتا ہے کہ واپس چلو یا پکھورا پاس کراس کر لو، اُس طرف ایسا چڑھائی نہیں ہے۔آپ مانتا ہی نہیں۔ ‘‘
میں نے اس منظر سے آنکھیں چرا لیں اور اللہ تعالیٰ سے شکوہ کیا کہ قوتِ تسخیر عنایت نہیں فرمائی تو اتنے خوبصورت مقامات تک رسائی چہ معنی دارد؟
جب میری پہنچ میں کوئی ’’پنگا‘‘ ہی نہیں ہے
پھر کس لئے لگتا ہے یہ میلا میرے آگے
میرا خیال تھا کہ انا للہ و انا الیہ راجعون کے با موقع اور بے موقع ورد کا حقیقی نتیجہ اب سامنے آیا ہے اور دئینتر پاس کہانی کم از کم میرے اور طاہر کے لیے منطقی انجام کو پہنچی۔
’’آپ ناراض ہو گیا سر؟‘‘ عالم خان نے سوال کیا۔
’’نہیں یار، بیزار ہو گیا ہوں۔ ‘‘ میں نے مایوسانہ لہجے میں کہا۔
’’کوئی گانا مانا سنائے سر؟‘‘ اُس نے شوخ لہجہ اختیار کرنے کی کوشش کی۔
’’گانا؟کون سا گانا؟‘‘ میری بیزاری ہوا ہو گئی۔
’’جو آپ بولے۔‘‘
طاہر،عرفان اور بھٹہ صاحب ہمارے پاس پہنچے تو عالم خان لہک لہک کر … جب پیار کیا تو ڈرنا کیا … پر طبع آزمائی کر رہا تھا اور میں داد کے ڈونگرے لٹا رہا تھا۔اُن کے آنے پر عالم خان نے گانے کا سلسلہ روک کر پُر مسرت لہجے میں اطلاع دی کہ ڈاکٹر صاحب دئینتر پاس والے پہاڑ پر نہیں چڑھ سکتا اس لیے واپس جائے گا۔
’’کون سے پہاڑ پر نہیں چڑھ سکتے؟‘‘ طاہر نے دریافت کیا۔
’’یہ جو سامنے نظر آتا ہے۔‘‘ عالم خان نے وادیِ دئینتر کے راستے میں حائل بلندی کی طرف اشارہ کیا۔
’’یہ پہاڑ ہے؟‘‘ طاہر نے حیرانی کا اظہار کیا۔
’’اور کیا ہے؟‘‘
’’مجھے تو کوئی آوارہ حسینہ لگتی ہے جو اپنی بلندیوں کو تسخیر کرنے کی دعوت دے رہی ہے۔ ا س پر چڑھنا کون سا مشکل کام ہے؟‘‘ طاہر نے بہ غور سنو ڈوم کا جائزہ لینے کی اداکاری کی۔
’’یار خدا کا خوف کرو۔ سیدھے راستے پر تم اڑیل ٹٹو کی طرح اٹکتے ہوئے چل رہے ہو، آوارہ حسینہ کی بلندی تک کتنے دن میں پہنچو گے؟‘‘
’’جتنے دن میں بھی پہنچے،پہنچ تو جائیں گے ناں ؟ وقت سے پہلے پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ طاہر کے بجائے عرفان نے جواب دیا۔
’’بائی دا وے، آپ کو کس الو کے پٹھے نے مشورہ دیا تھا کہ ہم جیسے مبتدیوں کو دئینتر پاس جیسے ٹیکنیکل ٹریک میں پھنسائیں ؟‘‘ میں نے عرفان کو مخاطب کیا۔
’’الو کے پٹھے نے نہیں الو کی پٹھی نے۔‘‘ عرفان نے تصحیح کی۔
’’کون الو کی پٹھی؟‘‘
’’دئینتر پاس کا خیال مجھے ازابیل شا کی کتاب پڑھ کر آیا تھا۔‘‘
’’اُس نے خبردار نہیں کیا کہ اس ٹریک پر بچے بچونگڑے ساتھ نہ لائیں ؟‘‘
’’اچھا جی؟آپ بچے بچونگڑے ہیں ؟‘‘
’’ٹریکنگ کی دنیا کے طفلِ مکتب ہی ہیں۔ دئینتر پاس کی چڑھائی اس جگہ سے ایک ٹیکنیکل کلائمبنگ معلوم ہوتی ہے اور اس کی ٹاپ تک پہنچنا بچوں کا کھیل نہیں۔ ‘‘
’’دئینتر پاس کوئی ٹیکنیکل ٹریک نہیں ہے۔‘‘
’’ٹیکنیکل ٹریک نہیں ہے تو آپ آئس ایکس، روپس اور کریمپونز کیوں اٹھا لایا ہے۔‘‘ میرے کچھ کہنے سے پہلے عالم خان نے سوال کیا۔
’’وہ ؟ صرف احتیاط کے طور پر ساتھ لایا ہوں۔ ‘‘
’’ہم ٹیکنیکل ٹریکنگ کا ایکوئپمنٹ ساتھ لائے ہیں ؟‘‘ میں اس انکشاف پر ایک مرتبہ پھر حیران و پریشان ہو گیا۔
’’ڈاکٹر صاحب پریشان نہ ہوں۔ وہ صرف حفظِ ما تقدم کے طور پر لائے گئے ہیں۔ ٹریکنگ کا پہلا اصول ہے کہ ایکوئپمنٹ مکمل ہونا چاہیے۔ مجھے سو فیصد امید ہے کہ ہمیں اس کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔‘‘
’’ٹاپ کی اترائی پر برف ہوا تو آ بھی سکتا ہے۔‘‘ عالم خان نے انکشاف کیا۔
’’عالم خان تم اپنا منہ بند نہیں رکھ سکتے؟میں کہہ رہا ہوں کہ کچھ نہیں ہو گا۔‘‘
’’ایکوئپمنٹ کی ضرورت پیش آ گئی تب بھی کچھ نہیں ہو گا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
سر جی کوئی ضرورت ورورت پیش نہیں آئے گی،اور آ ہی گئی تو یہ میری ذمہ داری ہے۔ آپ بلا وجہ پریشان نہ ہوں۔ ‘‘
’’ذمہ داری کیا کرے گی جب ہمیں ان اشیاء کا استعمال ہی نہیں آتا؟‘‘
’’استعمال آنے میں کون سی دیر لگتی ہے؟ ابھی آپ کو کریمپونز باندھنا، روپ اپ ہونا اور آئس ایکس استعمال کرنا سکھا دیتا ہوں، لیکن ایک سو ایک فیصد امید یہی ہے کہ اس کاٹھ کباڑ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کیونکہ ٹاپ کی برف پگھل چکی ہے۔‘‘
’’عالم خان کا خیال ہے کہ ہم دئینتر پاس کراس نہیں کر سکتے۔‘‘
عرفان یہ سن کر چراغ پا ہو گیا۔
’’عالم خان فضول باتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے؟تمھیں چاہیے کہ اپنے کلائنٹس کی ہمت بندھاؤ، واپس جانے پر کیوں اکسا رہے ہو؟‘‘
’’اس نے واپس جانے کا نہیں کہا۔اس کی تجویز تھی کہ دئینتر کے بجائے پکھورا یا حایول پاس کراس کر لیا جائے کیونکہ وہ بہت آسان ٹریک ہیں اور اُن کے مناظر دئینتر پاس کی نسبت بہت زیادہ خوبصورت ہیں۔ ‘‘ میں نے عالم خان کی صفائی پیش کی۔
’’میں جانتا ہوں کہ یہ لوگ دئینتر پر پکھورا یا حایول کو ترجیح کیوں دیتے ہیں۔ پکھورا اور حایول دئینتر کی نسبت اس لیے آسان ہیں کہ وہاں سٹیجز کی تعداد زیادہ ہے۔ دئیننتر پاس ٹریک کی پانچ سٹیج ہیں جبکہ پکھورا یا حایول کے لیے یہ لوگ سات تا نو سٹیجز کا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ آپ حایول کا فیصلہ کریں، عالم خان فوراً مطالبہ کر دے گا کہ حایول کی سٹیجز زیادہ ہیں، معاوضے میں کم از کم دوگنا اضافہ کر دیا جائے۔‘‘ عالم خان نے کوئی جواب نہ دیا، اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ عرفان کا تجزیہ حقیقت پر مبنی ہے۔عرفان نے بیان جاری رکھا۔
’’بے شک پکھورا نسبتاً آسان ٹریک ہے۔نل تر پاس ایک پیالہ نما برفیلا میدان ہے جہاں کئی درجن خیمے لگائے جا سکتے ہیں۔ اس کی خوبصورتی میں کوئی شک نہیں، لیکن وہاں سے گزرتے ہوئے احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم کوئی پہاڑی سلسلہ عبور کر رہے ہیں۔ دئینتر پاس کی چڑھائی اور اُترائی پاس کراسنگ کا اصل حسن ہے۔مجھے امید ہے آپ انجوائے کریں گے۔‘‘
’’شرط یہ ہے کہ وہاں تک پہنچ جاؤں۔ ‘‘
’’آپ خود کو انڈر ایسٹیمیٹ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ سب سے آگے چل رہے ہیں اور سب سے زیادہ واویلا کر رہے ہیں۔ اب تک کوئی خاص دشواری پیش آئی؟‘‘
’’اب تک تو لطف ہی لطف پیش آیا ہے۔‘‘ میں نے اعتراف کیا۔
’’کل انشاء اللہ ٹاپ پر پہنچیں گے تو لطف دوبالا ہو جائے گا۔ وعدہ کریں کہ پاس عبور کرنے کے بعد پی سی بھوربن میں ڈنر دینا نہیں بھو لیں گے۔‘‘
’’فکر نہ کریں :
منہ پھیکا کرا دیں گے
آپ اگر ہم کو
دئینتر پاس کرا دیں گے
مایوسی اور تذبذب بیس کیمپ کی گنگناتی فضاؤں میں تحلیل ہو گئے۔

ڈاکٹر محمد اقبال ہما

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو سفرنامہ از ڈاکٹر محمد اقبال ہما