دریائے سندھ: خاموش چیخیں اور بکھری ہوئی راہیں
دریائے سندھ، جو ہزاروں سال سے اس دھرتی پر زندگی کی علامت رہا ہے، آج خود بھی ویرانی کے گیت گا رہا ہے۔ جب بھی میں گڈو، سکھر یا خیرپور کے پل سے دریا کے نچلے بہاؤ (downstream) پر نظر ڈالتا ہوں تو دل اداس ہو جاتا ہے۔ پانی کی جگہ ریت کے ٹیلے، خشک جزیرے اور بہتے پانی کے بکھرتے ہوئے راستے دیکھ کر میں اکثر خود سے سوال کرتا ہوں: کیا یہ وہی دریا ہے جو صدیوں سے اپنی بےمثال شان کے ساتھ بہتا رہا؟ آخر ایسا کیا ہوا کہ دریائے سندھ آج سسک رہا ہے؟
خون ہمیشہ نہیں بہے گا… لیکن ریت کیوں؟
سائنس کہتی ہے کہ دریا اپنا راستہ خود بناتا ہے، لیکن ہم نے ترقی کے نام پر اس کے راستے بند کر دیے۔ گڈو، سکھر اور کوٹری کے بیراج، جو کبھی زراعت کے لیے پانی کی تقسیم کے لیے بنائے گئے تھے، آج خود دریا کے لیے رکاوٹ بن چکے ہیں۔ جب بھی پانی کے بہاؤ کو روکا جاتا ہے تو اس میں موجود گاد (silt) اور ریت نیچے بیٹھ جاتی ہے۔ نتیجتاً، دریا کی تہہ میں ریت کے ٹیلے بن جاتے ہیں، اور پانی مجبور ہو کر نئے چھوٹے راستے تلاش کرتا ہے۔
میں اکثر دیکھتا ہوں کہ پانی کے بہاؤ نے مختلف راستے بنا لیے ہیں، جیسے دریا اپنا وجود بچانے کے لیے آخری سانسیں لے رہا ہو۔ مگر سوال یہ ہے: کیا یہ دریا اپنا اصل راستہ بھول گیا ہے یا ہم نے اسے بھولنے پر مجبور کر دیا ہے؟
یہ صرف وقت کا وار نہیں… ہمارے ہاتھ بھی آلودہ ہیں
تاریخ گواہ ہے کہ دریائے سندھ ہمیشہ اپنا راستہ خود بناتا آیا ہے، لیکن اب اس کے راستے میں انسان کھڑا ہے۔ بیراجوں اور بندوں کے ذریعے پانی کے بہاؤ کو قابو کرنے کی کوشش کی گئی، مگر اس سے دریا کی قوت کم ہو گئی۔
جب پانی آہستہ بہتا ہے تو ریت نیچے بیٹھتی جاتی ہے، اور ہر گزرتے سال کے ساتھ یہ ریت کے ڈھیر بڑے ہوتے جا رہے ہیں۔ پانی کے بہاؤ میں رکاوٹیں ڈالنے سے دریا کا قدرتی بہاؤ بدل گیا ہے، اور اب وہ چھوٹے راستوں میں بٹ چکا ہے۔
دریا کی خاموش دہائی
سوچنے کی بات ہے کہ جو دریا پچاس لاکھ سال سے بہہ رہا تھا، وہ آج رک کیوں گیا؟
یہ صرف قدرتی عوامل کا نتیجہ نہیں؛ ہمارے ہاتھ بھی اس میں رنگے ہوئے ہیں۔ ڈیم، بند، اور بیراج بنا کر ہم نے دریا کے قدرتی بہاؤ کو زنجیروں میں جکڑ دیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں اپنا اثر ڈال رہی ہیں، مگر اصل تباہی انسان کے ہاتھوں ہوئی ہے۔
کیا حل ہے؟
1. ڈریجنگ (Dredging): دریا کی تہہ سے ریت اور گاد کو نکالنے کے لیے بڑے پیمانے پر ڈریجنگ کی جائے۔
2. قدرتی بہاؤ کی بحالی: پانی کے ٹھہراؤ (stagnation) کو ختم کرنے کے لیے دریا میں مسلسل پانی چھوڑا جائے تاکہ اس کا قدرتی بہاؤ بحال ہو سکے۔
3. تحقیقات اور منصوبہ بندی: ماہرین کو چاہیے کہ وہ دریا کی صورتحال کا جائزہ لیں اور سائنسی بنیادوں پر منصوبہ بندی کریں۔
دھرتی کی صدا، میرا آواز
میں حکومت اور متعلقہ اداروں سے التجا کرتا ہوں کہ دریائے سندھ کو بچائیں۔ صرف رپورٹس لکھنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے — میدان میں اترنا ہوگا، ریت کے ڈھیر ہٹانے ہوں گے، اور دریا کو دوبارہ سانس لینے کے لیے آزاد کرنا ہوگا۔
دریا کے خشک ہونے سے سندھ کی خوشحالی ختم ہو جائے گی۔
آج اگر ہم نے آنکھیں نہ کھولیں تو کل بہت دیر ہو چکی ہوگی۔
انور علی