- Advertisement -

جنت

ایک افسانہ از سریندر پرکاش

جنت

اس واقعہ کے بعد میرے وِژن میں ایک عجیب سی تبدیلی آگئی ہے۔ میں جب کسی چیز کو دیکھتا ہوں تو وہ ویسی نظر نہیں آتی جیسی کہ بظاہر دکھائی دیتی ہے۔۔۔ اس چیز میں چھپا ہواکچھ اور ہوتا ہے۔۔۔ اور وہ جو کچھ اور ہوتا ہے اس کا کیا مطلب ہوسکتاہے۔ میں ٹھیک طرح سے بیان نہیں کرسکتا۔

وہ واقعہ مردہ خانہ میں پیش آیا تھا۔۔۔ وہ دانا جس نے ایک لمبا سفید چغہ پہن رکھا تھا۔ چہرے پر سبز رنگ کا نقاب تھا،جس میں سے محض اس کی آنکھیں ہی دکھائی دیتی تھیں۔ اور آنکھیں بھی ایسی کہ ہر لحظہ مچلتی ہوئی۔۔۔ کبھی فرش پر دیکھ رہی ہیں تو کبھی عرش پر۔۔۔ اور اگر کسی آدمی پر ایک پل کے لیے نظر گڑ گئی ہے تو لگتا کہ جسم کے آر پار ہی توہوگئی ہے۔ آگے بڑھا اور اس نے لمبی میز پر پڑے ایک آدمی کے جسم کو ایک انتہائی تیز چمکتے ہوئے چاقو سےگردن کی جڑ سے لے کر بالکل نیچے تک ایک ہی وار میں کاٹ دیا۔۔۔ ایسے کہ جسم دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور جسم کے اندر جو کچھ تھا وہ سب صاف صاف دکھائی دینے لگا۔ تعفن بے انتہا تھا لیکن ایک ربڑ کی پائپ اس جسم کے کاٹے ہوئے حصوں پر لگاتار پانی ڈال رہی تھی۔ ہر چیز دھل کر بالکل اچھی طرح سامنے تھی۔ سانس اور کھانے کی نلی، پھیپھڑے، دل، پسلیوں کی ہڈیاں، انتڑیاں معدہ، جگر اور گردے اس کے پیشاب اور فضلے کی نلیاں۔۔۔ اور اس کے نیچے تو ٹانگیں ہی رہ گئی تھیں جن پر انسان کھڑا ہوسکتا ہے۔

عجیب دہشت ناک منظر تھا۔۔۔ لمبی میز پر لیٹا ہوا آدمی بے حس و حرکت پڑاتھا۔ شاید وہ مرچکا تھا۔۔۔ دانا نے ایک ایک چیز جسم میں سےنکال کر دکھائی اور پھر اسی جگہ پر رکھ دی جہاں وہ پہلے پڑی تھی۔۔۔ جب اس نے اپنی نظریں اٹھاکر سب کےچہروں پر دیکھا تو سب کارنگ فق ہو چکاتھا،سانسیں رکی ہوئی تھیں۔ اس دانا نے ٹٹولتی ہوئی نظریں سب پر ڈالیں اور پھر بغیر کچھ بولے میز کا پورا چکر لگاکر لیٹے ہوئے آدمی کےسر کی طرف آگیا۔ اس بار اس کے ہاتھ میں ایک بڑا ہی پتلا سا مگر بڑا ہی تیز چھوٹا ساچاقو تھا۔ اس نے میز پر لیٹے ہوئے آدمی کے سر کو ذراسا اٹھایا اور پھر اس چاقو کی تیز نوک سر کے گرد گھمادی، دوسرے ہی لمحہ کھوپڑی کااوپری حصہ ناریل کےآدھے ٹکڑے کی طرح اس کے ہاتھ میں تھا اور میز پر لیٹے ہوئے آدمی کا بھیجا دکھائی دےرہاتھا۔

اوہ تو ایسا ہوتاہےآدمی کادماغ؟ آخر اس میں اور کسی جانور کے دماغ میں فرق ہی کیا تھا۔ اس طرح جیسے برسات کے موسم میں زمین میں سے اپنے آپ نکل آنے والے لمبے لمبے گنڈھویوں کاایک گچھا ہو۔۔۔ یہ سب دیکھ کر میں سکتے میں آگیا تھا، اور اس دن سے میرا وژن بالکل بدل گیا تھا۔

اب میں یا میرے گھر کاکوئی فرد بیمار ہوتا ہے اور ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور وہ اچھی طرح سے دیکھ بھال کرنےکے بعد جب یہ کہتاہے۔

“Don’t worry everything will be all right” تو میں سمجھتا ہوں۔۔۔ اس کی بات کامطلب یہ قطعاً نہیں ہے کہ میں ٹھیک ہوجاؤں گا۔ بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ تمہارے جسم کا وہ حصہ جس میں خرابی ہے ٹھیک ہوجائے گا۔ ڈاکٹر کا وہ جملہ مجھے بار بار اپنے ذہن میں گونجتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سوتے میں کوئی کام کرتے ہوئے اور یا پھر سڑک پر چلتے پھرتے۔

ڈاکٹر کی آواز، دانا کاخاموش پراسرار چہرہ اور اس بزرگ کاہیولہ جس کی کہانی میں سنانے جارہا ہوں۔ میری زندگی میں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ ان تینوں چیزوں نے مجھے دوسرے لوگوں سے ذرامختلف کردیا ہے۔۔۔ ویسے ہی جیسے کوہِ طور پر چڑھنے کے بعد۔۔۔

پہلے سارا کاسارا جنگل تھا۔۔۔ چٹانیں، درخت، جھاڑ جھنکار، اور جھرنے۔۔۔ سورج ان سب چیزوں پر اپنی انگلیاں پھراتا ہوا گزر جاتاتھا۔ اور ہر شے سورج کی انگلیوں کو احترام سےبوسے دے کر سرجھکالیتی تھی اور پھر سب طرف اندھیرا چھا جاتا تھا۔

وہ دانا۔ جس کاچہرہ سبز نقاب میں چھپا تھا۔۔۔ اس کی آنکھیں ہی صرف اس کی پہچان تھیں۔ ایک روز، اس جنگل میں ایک بزرگ وارد ہواجس کی آنکھیں بالکل اس دانا جیسی تھیں۔ چہرے پر لمبی سفید داڑھی سر پر سفید پگڑی، پیشانی پر بے مثال نور اور سر کے پیچھے روشن ہالہ اور جسم پر دھنک کے رنگوں کا لمبا چغہ۔ اس بزرگ نے اپنی چمکیلی خوبصورت آنکھیں سارےجنگل کی ایک ایک چیز پر ٹکائیں اور پھر بےاختیار بول اٹھا۔

’’سب بہت خوبصورت ہے لیکن بکھراہوا۔‘‘

حسن سب طرف بکھرا ہوا تھا۔ ہر چیز اپنے آپ میں حسن کااستعارہ تھی اور اس کی خوبصورت، لمبی طلسمی انگلیوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ہرچیز جو کائنات میں بکھری ہوئی تھی اورحسین تھی اس نے اکٹھا کرنا شروع کی۔۔۔ ایک ایک چیز اور انھیں ایک ترتیب دینے لگا۔۔۔ جیسے آدمی کےجسم میں ترتیب سے رکھی ہوئی چیزیں۔ اس طرح کئی صدیاں گزرگئیں۔ کائنات میں زمین سےآسمان تک دس انگلیاں، دوپیر اور خوبصورت نورانی آنکھیں حرکت کرتی رہیں اور پھر سب مکمل ہوگیا اور وہ بزرگ تھک کر نڈھال ہوا اور ایک بہت بڑی فصیل کے بڑے سےدروازے کی بہت بڑی دہلیز پر بیٹھ گیا۔۔۔ کافی دیر تک وہ بیٹھا سستاتا رہا۔ اس کی نورانی آنکھوں کو لمبی پلکوں نے ڈھانپ دیا اس کی خوبصورت ملکوتی انگلیوں میں اب بالکل حرکت نہ تھی اور اس کے گارے سے اٹے ہوئے پاؤں پر کی پرانی کھال آہستہ آہستہ اترنےلگی اور اس کے نیچے سے نئی کھال نکل آئی۔۔۔ کئی صدیاں اور بیت گئیں۔

اور پھر ایک دن اچانک اس کی پلکوں میں جنبش ہوئی اور اس نے انکھیں کھول دیں۔ سب طرف ایک نظر ڈالی اس کے چہرے پر کسی قسم کی تکان کے کوئی اثرات نہ تھے۔ وہ اٹھااور اس نے بڑے گیٹ میں بنی ہوئی چھوٹی سی کھڑکی کے دروازے پر ہاتھ جمادیا۔ بڑا گیٹ سونے کا بنا ہوا تھا۔ اور اس میں جابجا قیمتی پتھر، ہیرے اور جواہرات جڑے تھے۔ کھڑکی کھل گئی اور اندر سے ہوا کا ایک جھونکا آیا اور بزرگ کے چہرے سے ٹکراکر جنگل کی طرف نکل گیا۔ ہوا میں خوشبو بسی ہوئی تھی جسے بزرگ نےاپے نتھنوں کے راستے اپنے اندر تک کھینچ لیا۔ اس کی داڑھی کے بال ہوا کے جھونکے سےمرتعش ہوئے اور بزرگ کے چہرے پر ایک خوشگوار سفید سی پرت ایک لمحہ کے لیے پھیل گئی۔۔۔ اور پھر وہی پرانا نور دھیرے دھیرے ابھرآیا۔

وہ کھڑکی کے راستے اندر داخل ہوا۔۔۔ اندر جنت بنی ہوئی تھی جس کی فصیل کی دیواریں چاندی کی تھیں، فرش مخمل کااور جنگل میں اپنے آپ کھلے ہوئے تمام پھول بڑی ترتیب سےکیاریوں میں سجےتھے۔ وہ دنیا کی حسین ترین جگہ تھی۔ جس کے پیڑوں پر رنگا رنگ پروں والے پرندے خاموش بیٹھے تھے۔۔۔ دنیا کی حسین ترین عورتوں کے مجسمے جابجا کھڑے تھے، فوارے میں سے آبِ حیات کی پہلی بوند اچھلنے کے کے لیے تڑپ رہی تھی، ندیوں کی آغوش دودھ اور شہد کی دھاروں کے لیے اپنے بازو کھولے ہوئے تھی۔۔۔ اور کیاریوں میں ایستادہ غنچے چٹکنے کے لیے بے تاب تھے۔۔۔ وہ بزرگ آہستہ آہستہ چلتا ہوا او ریہ سب دیکھتا ہوا جنت کے بالکل وسط میں کاریگری کے بہترین نمونےاور عجیب و غریب دھات سے بنے تخت پر جابیٹھا۔ اور پھر اس بےحرکت منظر کا ایک بے حرکت حصہ بن گیا۔۔۔ پھر کئی صدیاں بیت گئیں۔ اس سارے ماحول اور سارے حالات میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔ بس اس اثنا میں ایک واقعہ پیش آیا کہ ایک تیز رفتار پرندہ جنگل میں اڑتا ہوا اس جنت کی چہاردیواری پر سے گزرنےلگا تھاکہ اچانک اس کے پنکھ جل گئے اور وہ چیختا ہواکہیں دور پہاڑ کی ڈھلان پر سے لڑھکتا ہوا گہری کھائی میں جاگرااور ایک دو بار تڑپا اور سرد ہوگیا پھر اس کا سارا جلاہوا جسم ہوا میں اڑتا ہوا کائنات میں پھیل گیا۔

اس حادثے کو اس بزرگ نے دیکھا تھا اور پھر قدرے مسرور ہواتھا۔ اور وہ مسرت وقتی تھی جو آہستہ آہستہ اس کے چہرے سے ڈھل گئی اور ایک انجانی سی اداسی اس کے چہرے پر لمحہ لمحہ پھیلنے لگی۔

وہ اپنے تخت پر سے اٹھا۔ اور آہستہ آہستہ چلتاہوا بڑے پھاٹک تک پہنچا۔ اسے باہر ایک آہٹ سنائی دی۔ وہ دم سادھے کھڑا ہوگیا اور آنے والے کاانتظار کرنے لگا۔ مگر کسی نے دروازے پر دستک نہ دی۔ اس نےمایوس ہوکر کھڑکی کی جھری میں سے دیکھا۔۔۔ اس نے دیکھ لیا کہ ایک کتا کھڑاحیرانی سے اس تختی کی طرف منہ اٹھائے دیکھ رہا ہے جو بڑے پھاٹک پر آویزاں تھی اور جس پر اندر داخل ہونے کی سات شرائط لکھی تھیں۔۔۔ اس بزرگ کو لگا کتے کو تختی کا مطالعہ کرنے میں کئی صدیاں بیت گئی ہیں۔ بزرگ بے چین ہو اٹھا اور اس نے لپک کر کھڑکی کا ایک پٹ کھول دیا۔

کتا گھبراکر کھڑکی کی طرف دیکھنے لگا اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔ جیسے ہی اس نے بزرگ کانورانی چہرہ دیکھا وہ دم دباکر اور ایک دلدوز چیخ مارتا ہواجنگل کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ بزرگ اس واقعہ سے بہت حیران ہوا۔۔۔ اس نےجنگل کی طرف دیکھا۔ پیڑوں پر رنگارنگ پنکھوں والے پرندے چہچہارہے تھے، پہاڑ پر سے جھرنے گر رہے تھے، ہریالی کی زلفوں میں سورج اپنی انگلیوں سے کنگھی کر رہا تھا، کچھ چرندے آہستہ آہستہ گھاس چرتے ہوئے ایک سمت جارہے تھے اور دور اسی بزرگ کی شکل و صورت کے کچھ لوگ جو بدن سے ننگے تھے ایک پگڈنڈی پر چلے جارہے تھے۔ تب بزرگ نے اندر کی طرف پلٹ کر دیکھا۔ وہاں ہر خوبصورت چیز بے حرکت تھی۔ پھر اس نے بڑے گیٹ پر لٹکی ہوئی سات شرائط کی تختی دیکھی جس پر آخری شرط یہ تھی کہ جنت کی ہر چیز میں اس وقت زندگی آئے گی جب پہلا آدمی پہلے چھ شرائط پوری کرکے اندر قدم رکھے گا۔۔۔ دیر تک وہ اس تختی کو دیکھتا رہا اور پھر مایوسی سے سرجھکا کر اندر داخل ہوا اور اس نےکھڑکی کے پٹ بند کردیے۔ وہ چلتا ہوا تخت پر جابیٹھا اور سوچنے لگا۔۔۔ آدمی اپنے ہی بتائے ہوئے قوانین کے سامنے ایک دن کس طرح بے دست و پا آکھڑا ہوتا ہے اور اس دن وہ دنیا کا سب سے بے بس آدمی ہوتا ہے۔

وہ اپنےتخت پر بیٹھا رہا۔۔۔ اور سوچتا رہا۔۔۔ اور پھر شاید کئی صدیاں اور بیت گئیں۔۔۔ کہ اچانک اس بے جان ماحول میں اوب کر اس نے اپنے پاؤں پر نظر ڈالی۔ اس کے داہنے پاؤں کا انگوٹھا پتھر کا ہوگیا تھا۔ وہ گھبراگیا اور ایک جھٹکے سے اپنے تخت پر سے اٹھا اور بڑے پھاٹک کی طرف بڑھا۔۔۔ باہر کوئی آہٹ نہ تھی۔

اس نے کھڑکی کا دروازہ کھولا۔۔۔ اور باہر نکل آیا۔۔۔ سامنے ہر چیز میں زندگی تھی اور ہر چیز حرکت میں تھی۔ اس نے پلٹ کر سونے کے چمکتے ہوئے دروازے کی طرف دیکھا اور کھڑکی کے کھلے ہوئے پٹ میں سے دکھائی دینے والی ہرچیز کو دیکھا جو بالکل بے حرکت تھی اور پھر اپنے داہنے پاؤں کے انگوٹھے کو دیکھا جو پتھر کا ہو چکا تھا۔۔۔ وہ وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔۔۔ اور آسمان پر آہستہ آہستہ سفر کرتے ہوئے سورج کو دیکھنے لگا جس کے سامنے کائنات کی ہر چیز نے سرجھکادیا تھا اور اس کی حمد و ثنا کے گیت گائے جارہے تھے۔

اور پھر سب طرف اندھیرا چھا گیا۔۔۔ اندھیرے میں بیٹھا ہوا بزرگ اوب گیا اور اس نے نظریں اٹھاکر جنگل کی طرف دیکھا اور۔۔۔ کہیں بہت دور اسے روشنی دکھائی دی۔ وہ غیر ارادی طور پر اٹھا اور اس نے اس روشنی کی طرف چلنا شروع کیا۔ چلتے چلتے کئی صدیاں اور بیت گئیں۔۔۔ اس نے دیکھا سامنے جنگل کے بالکل وسط میں ایک الاؤ جل رہا ہے۔ جس کے شعلے بہت بلندی تک پہنچ رہے ہیں۔ آگ کی روشنی میں اسے کچھی مٹی کے بہت سے جھونپڑے دکھائی دیے۔۔۔ جن کی دیواریوں پر شعلےرقص کر رہے تھے۔ الاؤ کے گرد بہت سے لوگ بیٹھے تھے جو بالکل ننگ دھڑنگ تھے۔ وہ سب بہت خوش تھے اور آپس میں خوش گپیاں کر رہے تھے۔ ان کے چہروں پر اداسی اور مایوسی نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ اندھیرے میں آگ نےان کے چہروں کو اور بھی زیادہ چمکا دیا تھا۔

اس بزرگ نے بغیر کچھ سوچے ہوئے۔ اپنے سر پر سے پگڑی اتار پھینکی، پھر اپنا لمبا چغہ اتار دیا۔۔۔ آگ کی روشنی میں اسے لگا کہ وہ اب بالکل ان جیسا ہوگیا ہے پھر وہ دھیرے دھیرے چلتاہوا ان لوگوں کے قریب پہنچا اور ان میں شامل ہوگیا اور انھیں کی طرح خوش گپیوں میں مصروف ہوگیا اور ان کاایک حصہ بن گیا۔

اس دن کے بعد میں نے اسے اس دن دیکھا تھا جس دن اس نے مردہ خانے میں میز پر لیٹے ایک آدمی کا جسم چیر کر دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس کی آنکھیں دیکھ کر میں نے اسے پہچان لیا تھا اور پھر میں ایکا ایکی خوف زدہ ہوگیا۔

سریندر پرکاش

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک افسانہ از سریندر پرکاش