آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزعلی عبد اللہ ہاشمی

برابری کا مقدمہ

ایک اردو کالم از علی عبد اللہ ہاشمی

"برابری کا مقدمہ”

روئے زمین کا سب سے پہلا جھوٹ یہ تھا کہ تمام انسان برابر ہیں۔ ڈارون پر لعنت بھیجیں وہ تو ملحد تھا مگر ہندومت چھوڑ تمام مروجہ ادیان میں کہانی آدمؑ سے شروع ہوتی ہے۔ تو کیا آدمؑ اپنی اولاد یا پھر اماں حواؑ اپنی ہم جنس بیٹیوں کے برابر تھیں؟ بالکل نہیں! کسی بھی مذھب کو پکڑ لیں، کیا اسکے انبیاء اپنے منتا داروں یا انکے اصحاب بعد میں آنے والوں کے برابر تھے؟ تو کیا وجہ ہے کہ ہر نبیِ معبوث نے تمام انسانوں کو باہم برابر قرار دیا؟ کیا یہ نعرہ ایسا ہی دلفریب تھا کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار الوہی پیامبروں کے اسے یکساں بروئے کار لانے کے باوجود یہ آجدن تک اپنی پوری شدومد کیساتھ سارے مد و جزر کا مرکزی نقطہ اور مکمل کارگر ہتھیار ہے؟

(تحریر ہذا کا مقصد کسی مذھب یا مقدس کلام کی توھین نہیں بلکہ انتہائی سادہ بحث ہے کہ اگر آدمؑ سے لیکر آخر تک کوئی بھی برابر نہیں تو پھر ‘برابری’ کا یہ لُچ فرائی کیا ہے؟)

مُحمؐدِ عربی کا نام آتے ہی خیر و برکت، ہمدردی، غم گساری، متانت، ستاری و غفاری کا پیکر دماغ میں معجزن ہوتا ہے لیکن کیا آپؐ تمام انسانوں کے برابر تھے؟ انسان چھوڑیئے کیا آپ دیگر ایک لاکھ تئیس ہزار نو سو ننانوے انبیاء کے برابر تھے؟ جبرائیلؑ جو تمام انبیاءؑ کیلئے پیامبر تھے، کیا وہ اپنے دیگر ہم جنسوں سے برابر ہیں؟ جواب ہے نہیں۔۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ ‘اللہ کی نظر میں سب برابر ہیں’ تو کیا یہودیوں اور عیسائیوں کے یہوہ کے نزدیک بالترتیب انکا موسؑیٰ یا پھر عیسٰؑی یا پھر مسلمانوں کے اللہ کے نزدیک انکا محمدؐ اپنے باقی ہم عصروں کے برابر تھے؟ بالکل نہیں؟ تو پھر کہانی کیا ہے؟

سیانوں کے نزدیک تاریخِ انسانی میں مذھب عوام یعنی عام لوگوں کو کنٹرول کرنے کا سب سے کارگر ہتھیار رہا ہے۔ کفائیت شعاری اور چھینا جھپٹی اولین انسانوں میں بھی رائج تھی لہذا جو جو کاربند ہوئے انہوں نے اپنے اپنے دور کی دولت اکٹھی کی، مطلب یہ کہ Haves اور Have Nots کا معاملہ معلوم تاریخ کے کہیں پہلے سے موجود ہے۔ اب کیونکہ سرمائے کا ایک جگہ ارتکاز معاشرے میں جلن، مسابقت اور غیر منصفانہ تقسیمِ دولت کیخلاف شدید جذبات پیدا کرتا ہے لہذا اسے کنٹرول کرنے کیلئے سب سے کارگر ہتھیار اخلاقیات پر مبنی مذہب رہے ہیں جنہوں نے محنت کر حسد نہ کر جیسے اصول وضع کر کے جہاں عام لوگوں کو سیدھا راستہ دکھایا تو وہیں سرمایہ داروں کیلئے پروٹیکٹیو شیلڈ کا کام بھی کیا۔ سرمایہ داروں نے مذہبی اصولوں کی آڑ میں بیشمار دولت اکٹھی کر کے عوام، نظام اور مذھب تینوں کو اپنی چوکھٹ پر سجدہ زن کیئے رکھا اور اپنے اپنے دور کی ایسٹیبلشمنٹ بنے رہے۔ جواباً عوام، نظام اور مذاہب نے بھی ایسے ایسے لوگ پیدا کیئے جنہوں نے برابری کا ڈنکا بجا کر اپنے دور کی ایسٹیبلشمنٹ کو للکارا۔ ایسٹیبلشمنٹ نے پہلے تو انہیں ہر طرح سے کُچلنے کی کوشش کی لیکن عوام، جو ازل سے برابری چاہتے ہیں نے ان انبیاء یا سیاسی لیڈروں (زمانے کے حساب سے جو بھی) کی گُڈی چڑھا کر بازی پلٹ دی اور برابری کا نیا خواب بُن لیا۔

ایسٹیبلشمنٹ نے ہار نہیں مانی، اول تو سرمائے کو بچانے کیلئے اپنا سیاسی یا مذھبی نظریہ بدل کر نئے نظریئے کیساتھ ہو لیئے اور پھر اپنے بڑوں والی واردات ڈال دی یعنی نئے نظریئے یا مذھب کیساتھ ہو کر انہوں نے اپنے طبقاتی دوستوں کو بتدریج مستحکم عہدوں پر متمکن کروا لیا۔ دوسرے یہ کہ نظریہ دان یا نبی اور اسکے اصل (سیاسی یا مذہبی) ورثا کو زیادہ سے زیادہ متنازعہ بنایا، انکی اساس یعنی انکے ماننے والوں ہی سے انہیں گالیاں دلوائیں، قتل کروایا، فتوے یا پھر غداری سرٹیفیکیٹ جاری کروا کر نئے نظریئے یا مذھب کو واپس سرمایہ دارانہ نظام کے مکمل تابع کر کے دم لیا۔ اسلام میں فتح مکہ سے لیکر معاویة ابنِ ابی سفیان تک کا سفر محض چالیس برس میں طے ہوا اور بقول مولانا مودودی اسلام میں ملوکیت جیسی خرابی کے بانی یہی صاحب تھے۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو نے جو برابری کا خواب اپنے عوام کو دکھایا وہ انکی موت کیساتھ ہی دفن ہو گیا۔ سوشلزم کو بھٹو صاحب کی اپنی صاحبزادی نے ترک کیا جبکہ باقی کام ایسٹیبلشمنٹی گماشتوں اور پارٹی عہدوں پر براجمان انکے چٹے بٹوں نے کر دیا۔ بھٹو صاحب کی فاش غلطیاں جو انہیں پھانسی کے پھندے تک لے گئیں ان میں حمودالرحمن کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد نہ کرنا بھی شامل ہے جو غلطی انہوں نے عزت معآب جنرل ٹکا خان کے کہنے پر عمداً کی۔ اب جنرل صاحب کس طبقہ کے نمائندہ تھے یہ بتانے کی ضرورت شائید نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور برابری کی مسابقت کو سمجھنے کیلئے بھٹو صاحب اور حضرتِ محمدِؐ مصطفیٰ کی زندگیوں میں بہت سی مماثلتیں اس مدعے کی دست بستہ وضاحت ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔

بھٹو صاحب نے اپنے نبیؐ کی پیروی میں اپنے ہی طبقے سے معاشرے کے پِچھڑے طبقات کی جنگ لڑی اور انکے حقوق دلوائے۔ اشرافیہ میں پیدا ہونے کے باوجود نیچوں کمزاتوں کو تعلیم، ہُنر اور مواقع کا نا صرف خواب دکھایا بلکہ عملاً جتنا ممکن ہو سکا انہیں اونچے طبقات کے برابر کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ اگر کسی کو یہ وہم ہے کہ بلالِؓ حبشی کو اکثرئیت میں اصحابِ رسولؐ نے اپنے برابر مان رکھا تھا تو یہ جاننے کی زحمت اٹھا لے کہ بعدِ نبیؐ انہیں مدینہ بدر کیوں کیا گیا۔ اس میں سب سے بڑی وجہ جنابِ ابوبکر کی بیعت سے انکار نہیں بلکہ وہ مقام و منزلت تھی جو سرکارِ دو جہاں نے انہیں تقوی کی بنیاد پر اس دور کی ایسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں دے رکھی تھی جو انکؐے آنکھیں بند کرتے ہی ان لوگوں کے ہاتھ بلالِؓ محمدی کے گریبان تک لے آئی۔ بھٹو کے چاہنے والوں کیساتھ بھی کچھ کم نہیں ہوا، ہزاروں جلا وطن ہوئے، ہزاروں نے جیلیں کاٹیں کوڑے کھائے۔ محمدِؐ مصطفی کی بیٹی کو انکے وصال کے تین ماہ کے اندر قتل کیا گیا جبکہ غلامِ محمدؐ بھٹو کے تین بچے ابتک قتل ہو کر رزقِ خاک ہو چکے ہیں۔ بعدِ نبیؐ حدیثیں گھڑ گھڑ کر آپکی شخصیت سمیت آپکے نظریئے اور آل اولاد کو بدرجہا متنازعہ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی بالکل جیسے بھٹو صاحب کے گرفتار کرتے ہی تین قسطوں کا قرطاسِ ابیض شائع کر کے سانحہ مشرقی پاکستان سمیت اپنے سارے کالے کرتوت ایسٹیبلشمنٹ نے بھٹو کے کھاتے ڈالے اور اسکے نظریئے کیخلاف ہر ہر طرح سے گٹھ جوڑ کھڑے کیئے اور اسکے بچوں کو بدرجہا ملک دشمن قرار دیتی رہی۔ بھٹو صاحب کے ناحق قتل کو آج اکتالیس برس بیت گئے مگر آج بھی انکے نام لیواوں پر یہ زمین تنگ ہے۔ آج بھی سچ لکھنے بولنے پڑھنے پر پابندی ہے وگرنہ آپ نامعلوم کر دیئے جاتے ہیں یا پھر۔۔۔ بالکل جیسے آجدن تک محمؐدِ مصطفؐیٰ کا میلاد کرانے یا اسکے نواسے کا ماتم کرنے پر چودہ سو سال پہلے کی ایسٹیبلشمنٹ کی آل اولاد بم دھماکوں یا قتل و غارت گری سے اپنے اجداد کی شناخت کراتی ہے۔

چوہدری نصرت حمید ٹھاکر ضلع سیالکوٹ کے ایک بڑے راٹھ، میرے محبوب بزرگ اور انتہائی قد آور شخصیت ہیں۔ میری اولین یادوں ہی سے وہ مجھے بھٹو صاحب کے نام پر چِڑایا کرتے تھے اور میں اوائل بچپنے سے انہیں کافی تُند جواب دیتا تھا جس پر وہ بہت لُطف اُٹھاتے۔ کوئی بائیس برس قبل ایک مرتبہ وہ اپنے موڈ میں تھے کہ بولے۔۔

"پُتر، آج میں تُمھیں بھُٹو دُشمنی کی وجہ بتاتا ہوں۔ ہم اپنے علاقے کے راٹھ تھے اور اردگرد اکثرئیت میں لوگ ہمارے کمّی یعنی محتاج تھے۔ پھر بھٹو آ گیا، اُسنے مڈل ایسٹ میں غریب غرباء کیلئے ملازمتوں اور مواقع کے انبار لگا دیئے۔ ہمارے گاوں کے نائیوں کا مُنڈا بھی دُبئی چلا گیا۔ عید آئی تو وہ پہلی چھُٹی آیا، نماز کے بعد وہ جو فقیر (مدرسے کے بچے) چادر لیکر چندہ لینے آتے ہیں، میں نے انکی چادر میں اُس زمانے میں دس روپے ڈالے اور وہ، نائی کا مُنڈا۔۔۔۔ اس نے دس دس کے پانچ نئے نوٹ اس چادر میں ڈال دیئے۔ میں نے وہیں بے ساختہ کہا "اوئے بھُٹو، اور تیری۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور پھر خون آورد آنکھوں سے بولے، پُتر یہ ہے میرا اور مجھ جیسوں کا بھُٹو تئیں تعصُب۔ بھٹو نے ہماری چودھراہٹ، ہمارا راج پاٹ ختم کر دیا، اُس نے ہمارے کمیوں کے گھروں میں ہم سے پہلے ٹی وی، فریج اور ریڈیو پہنچا دیا۔ وہ لوگ جو ہر روز شام کو ہمارے حُقے کے گرد بیٹھ کر ہمارے اجداد کے قصے سناتے تھے، ہماری عورتیں اور بچے ٹی وی دیکھنے کیلئے انکے محتاج ہونے لگے۔ انکی عورتیں ہماری عورتوں کے برابر بلکہ بہتر کپڑے پہننے لگیں۔ انکے گھروں پہلے سائیکل آیا، پھر موٹر سائیکل پھر موٹر کاریں بھی آ گئیں۔ بھٹو ہماری ہزاروں برس کی طبقاتی تہذیب کو کھانے لگا تھا جس میں عوام کی اکثرئیت ہماری چھوٹی سی اقلیت کی مرہونِ منت تھی سو ہم اسکے دشمن ہو گئے۔ صرف ہم ہی نہیں، بڑے بڑے جاگیردار جو بھٹو سے جا ملے وہ کوئی اسکے نظریئے سے متاثر ہو کر نہیں گئے تھے بلکہ وہ تو اپنی چودھراہٹ بچانے کیلئے اسکے پیچھے ہو لیئے، جبھی تو یہاں بُرا وقت شروع ہوا وہاں وہ لوگ ایک ایک کر کے اُڑن چھُو ہو لیئے۔۔۔”

حقیقت یہ ہے کہ برابری نام کی کوئی چڑیا کبھی اس روئے زمین پر اُتری ہی نہیں۔ انسان ہمیشہ سے طبقات میں بٹے رہے ہیں۔ لوگ جب مجبور ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے نئے نظریئے کو اپنا کر اپنے سرمائے کا تحفظ کرتے ہیں۔ ملک کے بڑے بڑے جاگیر داروں کو ہی لے لیں جنکے باپ دادا 1947 تک ہندو یا سکھ تھے، انہوں نے اپنا مذہب تیاگ دیا کیونکہ یہ انکے مفادات کے آڑے آ رہا تھا۔ وہ پہلے بھی اسمبلیوں کی زینت تھے، ڈی سی بہادر کے ساتھ چائے ناشتہ کرتے تھے اور آج بھی انکی اولادیں یہ مزے لے رہی ہے۔ انسانی برابری آبِ حیات کیطرح ایک ایسا خواب ہے جسے آدم سے لیکر آجدن تک اسکے چُنے ہوئے بندوں نے پورا کرنے کی کوشش ضرور کی مگر کبھی حقیقی طور پر کامیاب نہیں ہو سکے۔ شائید اسی حقیقت کو جانتے تھے جو نوحؑ پانچ سو برس تک اللہ سے یہ دعا کرتے رہے کہ اس زمین کو غرق کر دے۔ یہ انسان کبھی تیرے راستے پر نہیں چلے گا۔ یہ اس قابل ہی نہیں لہذا برابری کا ڈھکوسلہ نِرا لُچ ہے جس نے ہمیں حقیقت سے بھٹکا رکھا ہے۔۔

علی عبد اللہ ہاشمی

علی عبد اللہ ہاشمی

علی عبد اللہ ہاشمی ایک وکیل اور اردو لکھاری ہیں- تعلق سیالکوٹ سے ہے-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button