بجلی پہلوان
بجلی پہلوان کے متعلق بہت سے قصے مشہور ہیں‘ کہتے ہیں کہ وہ برق رفتار تھا۔ بجلی کی مانند اپنے دشمنوں پر گرتا تھا اور انھیں بھسم کر دیتا تھا لیکن جب میں نے اسے مغل بازار میں دیکھا تو وہ مجھے بے ضرر کدّو کے مانند نظر آیا‘ بڑا پھسپھس سا‘ توند باہر نکلی ہوئی‘ بند بند ڈھیلے‘ گال لٹکے ہوئے‘ البتہ اس کا رنگ سُرخ و سفید تھا۔ وہ مغل بازار میں ایک بزاز کی دُکان پر آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا‘ میں نے اُس کو غور سے دیکھا‘ مجھے اس میں کوئی غنڈہ پن نظر نہ آیا‘ حالانکہ اُس کے متعلق مشہور یہی تھا کہ ہندوؤں کا وہ سب سے بڑا غنڈہ ہے۔ وہ غنڈہ ہو ہی نہیں سکتا تھا‘ اس لیے کہ اُس کے خدوخال اُس کی نفی کرتے تھے۔ میں تھوڑی دیر سامنے والی کتابوں کی دکان کے پاس کھڑا اُس کو دیکھتا رہا۔ اتنے میں ایک مسلمان عورت جو بڑی مفلس دکھائی دیتی تھی‘ بزاز کی دکان کے پاس پہنچی‘ بجلی پہلوان سے اس نے کہا
’’مجھے بجلی پہلوان سے ملنا ہے‘‘
بجلی پہلوان نے ہاتھ جوڑ کر اسے پرنام کیا
’’ماتا‘ میں ہی بجلی پہلوان ہوں‘‘
اس عورت نے اُس کو سلام کیا
’’خدا تمھیں سلامت رکھے۔ میں نے سنا ہے کہ تم بڑے دیالو ہو
’’بجلی نے بڑی انکساری سے کہا :
’’ماتا ‘ دیالوپرمیشور ہے۔ میں کیا دیا کر سکتا ہوں‘ لیکن مجھے بتاؤ کہ میں کیا سیوا کر سکتا ہوں‘‘
’’بیٹا‘ مجھے اپنی جوان لڑکی کا بیاہ کرنا ہے۔ تم اگر میری کچھ مدد کر سکو تو میں ساری عمر تمھیں دعائیں دوں گی‘‘
بجلی نے اُس عورت سے پوچھا:
’’کتنے روپوں میں کام چل جائے گا‘‘
عورت نے جواب دیا : بیٹا! تم خود ہی سمجھ لو۔ میں تو ایک بھکارن بن کر تمہارے پاس آئی ہوں‘‘
بجلی نے کہا بھکارن منہ سے نہ کہو۔ میرا فرض ہے کہ میں تمہاری مدد کروں‘‘
اس کے بعد اس نے بزاز سے جو تھان تہہ کر رہا تھا کہا
’’لالہ جی۔ دو ہزار روپے نکالیے‘‘
لالہ جی نے دو ہزار رُوپے فوراً اپنی صندوقچی سے نکالے اور گن کر بجلی کو دے دیے۔ یہ روپے اُس نے اس عورت کو پیش کر دیے۔
’’ماتا۔ بھگوان کرے کہ تمہاری بیٹی کے بھاگ اچھے ہوں‘‘
وہ عورت چند لمحات کے لیے نوٹ ہاتھ میں لیے بُت بنی کھڑی رہی۔ غالباً اُس کو اتنے روپے ایک دم مل جانے کی توقع ہی نہیں تھی۔ جب وہ سنبھلی تو اُس نے بجلی پہلوان پر دُعاؤں کی بوچھاڑ کر دی‘ میں نے دیکھا کہ پہلوان بڑی اُلجھن محسوس کر رہا تھا‘ آخر اُس نے اس عورت سے کہا :
’’ماتا ‘ مجھے شرمندہ نہ کرو۔ جاؤ‘ اپنی بیٹی کے دان، جہیز کا انتظام کرو۔ اس کو میری اشیر باد دینا‘‘
میں سوچ رہا تھا کہ یہ کس قسم کا غنڈہ اور بدمعاش ہے جو دو ہزار روپے ایک ایسی عورت کو جو مسلمان ہے اور جسے وہ جانتا بھی نہیں (دو ہزار روپے) پکڑا دیتا ہے لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ بڑا مخیّر ہے‘ ہر مہینے ہزاروں روپے دان کے طور پر دیتا ہے۔ مجھے چونکہ اس کی شخصیت سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی‘ اس لیے میں نے کافی چھان بین کے بعد بجلی پہلوان کے متعلق کئی معلومات حاصل کیں۔ مغل بازار کی اکثر دکانیں اُس کی تھیں‘ حلوائی کی دکان ہے‘ بزاز کی دُکان ہے‘ شربت بیچنے والا ہے‘ شیشے فروخت کرنے والا ہے‘ پنساری ہے۔ غرضیکہ اِس سرے سے اُس سرے تک جہاں وہ بزاز کی دُکان میں بیٹھا تھا اُس نے ایک
’’لائن آف کمیونیکیشن‘‘
قائم کر رکھی تھی تاکہ اگر پولس چھاپہ مارنے کی غرض سے آئے تو اسے فوراً اطلاع مل جائے۔ دراصل اُس کی دو بیٹھکوں میں جو بزاز کی دُکان کے بالکل سامنے تھیں‘ بہت بھاری جوا ہوتا تھا‘ ہر روز ہزاروں روپے نال کی صورت میں اُسے وصول ہو جاتے تھے۔ وہ خود جوا نہیں کھیلتا تھا‘ نہ شراب پیتا تھا مگر اس کی بیٹھکوں میں شراب ہر وقت مل سکتی تھی‘ اس سے بھی اس کی آمدن کافی تھی۔ شہر کے جتنے بڑے بڑے غنڈے تھے‘ ان کو اُس نے ہفتہ مقرر کر رکھا تھا‘ یعنی ہفتہ وار انھیں ان کے مرتبے کے مطابق تنخواہ مل جاتی تھی۔ میرا خیال ہے اس نے یہ سلسلہ بطور حفظ ماتقدم شروع کیا تھا کہ وہ غنڈے بڑی خطرناک قسم کے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ یہ غنڈے سب کے سب مسلمان تھے زیادہ تر ہاتھی دروازے کے۔ ہر ہفتے بجلی پہلوان کے پاس جاتے اور اپنی تنخواہ صول کر لیتے۔ وہ ان کو کبھی نااُمید نہ لوٹاتا۔ اس لیے کہ اس کے پاس روپیہ عام تھا۔ میں نے سُنا کہ ایک دن وہ بزاز کی دکان پر حسبِ معمول بیٹھا تھا کہ ایک ہندو بنیا جو کافی مالدار تھا‘ اُس کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی
’’پہلوان جی! میرا لڑکا خراب ہو گیا ہے۔ اس کو ٹھیک کر دیجیے۔ پہلوان نے مسکرا کر اس سے کہا
’’میرے دو لڑکے ہیں۔ بہت شریف ‘ لوگ مجھے غنڈہ اور بدمعاش کہتے ہیں لیکن میں نے انھیں اس طرح پالا پوسا ہے کہ وہ کوئی بُری حرکت کر ہی نہیں سکتے۔ مہاشہ جی یہ آپ کا قصور ہے‘ آپ کے بڑے لڑکے کا نہیں‘‘
بنیے نے ہاتھ جوڑ کر کہا
’’پہلوان جی۔ میں نے بھی اس کو اچھی طرح پالا پوسا ہے‘ پر اُس نے اب چوری چوری بہت بُرے کام شروع کر دیے ہیں‘‘
بجلی نے اپنا فیصلہ سنا دیا
’’اس کی شادی کر دو‘‘
اس واقعے کو دس روز گزرے تھے کہ بجلی پہلوان ایک نوجوان لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو گیا حالانکہ اس سے اس قسم کی کوئی توقع نہیں ہو سکتی تھی۔ لڑکی کی عمر سولہ سترہ برس کے لگ بھگ ہو گی اور بجلی پچاس سے اُوپر ہو گا۔ آدمی بااثر اور مالدار تھا۔ لڑکی کے والدین راضی ہو گئے‘ چنانچہ شادی ہو گئی۔ اس نے شہر کے باہر ایک عالی شان کوٹھی بنائی تھی‘ دولہن کو وہ جب اس میں لے کر گیا تو اُسے محسوس ہوا کہ تمام جھالر اور فانوس ماند پڑ گئے ہیں۔ لڑکی بہت خوبصورت تھی‘ پہلی رات بجلی پہلوان نے کسرت کرنا چاہی مگر نہ کر سکا۔ اس لیے کہ اس کے دماغ میں اپنی پہلی بیوی کا خیال کروٹیں لے رہا تھا‘اس کے دو جوان لڑکے تھے جو اسی کوٹھی کے ایک کمرے میں سو رہے تھے یا جاگ رہے تھے۔ اس نے اپنی پہلی بیوی کو کہیں باہر بھیج دیا تھا ‘ اس کو اس کا قطعاً علم نہیں تھا کہ اس کے پتی نے دوسری شادی کر لی ہے۔ بجلی پہلوان سوچتا تھا کہ اسے اور کچھ نہیں تو اپنی پہلی بیوی کو مطلع کر دینا چاہیے تھا۔ ساری رات نئی نویلی دولہن جس کی عمر سولہ سترہ برس کے قریب تھی‘ چوڑے چکلے پلنگ پر بیٹھی بجلی پہلوان کی اوٹ پٹانگ باتیں سنتی رہی اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ شادی کیا ہے‘ کیا اسے ہر روز اسی قسم کی باتیں سننا ہوں گی۔
’’کل میں تمہارے لیے دس ہزار کے زیور اور لاؤں گا‘‘
’’تم بڑی سندر ہو‘‘
’’برفی کھاؤ گی یا پیڑے‘‘
’’یہ سارا شہر سمجھو کہ تمہارا ہے‘‘
’’یہ کوٹھی میں تمہارے نام لکھ دُوں گا‘‘
کتنے نوکر چاہئیں تمھیں۔ مجھے بتا دو ایک منٹ میں انتظام ہو جائے گا۔
’’میرے دو جوان لڑکے ہیں‘ بہت شریف۔ تم ان سے جو کام لینا چاہو لے سکتی ہو‘ وہ تمہارا حکم مانیں گے‘‘
دولہن ہر روز اسی قسم کی باتیں سنتی رہی‘ حتٰی کہ چھ مہینے گزر گئے‘ بجلی پہلوان دن بدن اُس کی محبت میں غرق ہوتا گیا‘ وہ اس کے تیکھے تیکھے نقش دیکھتا تو اپنی ساری پہلوانی بھول جاتا۔ اس کی پہلی بیوی بدشکل تھی۔ ان معنوں میں کہ اس میں کوئی کشش نہیں تھی‘ وہ ایک عام کھترانی تھی جو ایک بچہ جننے کے بعد ہی بوڑھی ہو جاتی ہے لیکن اس کی یہ دوسری بیوی بڑی ٹھوس تھی‘ دس بچے پیدا کرنے کے بعد بھی وہ ثابت و سالم رہ سکتی تھی۔ بجلی پہلوان کا ایک وید دوست تھا اس کے پاس وہ کئی دنوں سے جا رہا تھا اُس نے بجلی کو یقین دلایا کہ اب کسی قسم کے تردّد کی ضرورت نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ پہلوان خوش تھا۔ وید کے ہاں سے آتے ہوئے اس نے کئی سکیمیں تیار کیں‘ راستے میں مٹھائی خریدی‘ سونے کے دو بڑے بڑے خوشنما کڑے لیے ‘ بارہ قمیصوں اور بارہ شلواروں کے لیے بہترین کپڑا قیمت ادا کیے بغیر حاصل کیا۔ اس لیے کہ وہ لوگ جو دُکان کے مالک تھے اس سے مرعوب تھے اور قیمت لینے سے انکاری تھے۔ شام کو سات بجے وہ گھر پہنچا ‘ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتے ہوئے اپنے کمرے میں گیا‘ دیکھا تو وہاں اس کی دوسری بیوی نہیں تھی‘ اس نے سوچا شاید غسل خانے میں ہو گی چنانچہ اس نے اپنا بوجھ‘ میرا مطلب ہے وہ تھان وغیرہ پلنگ پر رکھ کر غسل خانے کا رخ کیا ‘ مگر وہ خالی تھا۔ بجلی پہلوان بڑا متحیر ہوا کہ اس کی بیوی کہاں گئی۔ طرح طرح کے خیالات اس کے دماغ میں آئے مگر وہ کوئی نتیجہ برآمد نہ کر سکا اس نے دیدکی دی ہوئی گولیاں کھائیں اور پلنگ پر بیٹھ گیا کہ اس کی بیوی آ جائے گی آخر اسے جانا کہاں ہے؟ وہ گولیاں کھا کر پلنگ پر بیٹھا قمیصوں کے کپڑوں کو اُنگلیوں میں مسل مسل کر دیکھ رہا تھا کہ اسے اپنی بیوی کی ہنسی کی آواز سنائی دی وہ چونکا اُٹھ کر اُس کمرے میں گیا جو اُس نے اپنے بڑے لڑکے کو دے رکھا تھا اندر سے اس کی بیوی اور اس کے بیٹے کی ہنسی کی آواز نکل رہی تھی۔ اُس نے دستک دی۔ لیکن دروازہ نہ کھلا پھر بڑے زور سے چلانا شروع کیا کہ دروازہ کھولو۔ اس وقت اس کا خون کھول رہا تھا۔ دروازہ پھر بھی نہ کھلا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کمرے کے اندر اس کی بیوی اور اس کے بڑے لڑکے نے سانس لینا بھی بند کر دیا ہے۔ بجلی پہلوان نے بڑے کمرے میں جاکر گورمکھی زُبان میں ایک رقعہ لکھا جس کی عبارت اُردو میں کچھ یوں ہوسکتی ہے‘‘
یہ کوٹھی اب تمہاری ہے۔ میری بیوی بھی اب تمہاری بیوی ہے خوش رہو۔ ۔ تمہارے لیے کچھ تحفے لایا تھا۔ وہ یہاں چھوڑے جارہا ہوں۔ یہ رقعہ لکھ اس نے ساٹن کے تھان کے ساتھ ٹانک دیا۔ (۲۷ مئی ۵۴ ء)
سعادت حسن منٹو