اسے انگ انگ کو صاف کرنا تھا، رواں رواں کو دھونا تھا۔ ہر بن مو سے پھوٹتے پگھلتی جوانی کے عرق کو بھی پونچھنا تھا۔ بدن پر موجود دو دہائیوں کی میل پانی سے دھلنا ناممکن تھی۔ گرچہ بوڑھی ماں دور پنگھٹ سے گھگریاں بھر بھر کر پانی لا رہی تھی اور وہ اپنے بدن پر انڈیلتی جا رہی تھی لیکن تنہائی کی جوالا جو شعلہ بھڑکاتی ہے اس کو غسل ارتماسی بھی نہیں بھیجا سکتا۔ جوانی کا دریا تین دن بھر پور بہہ کر عارضی طور پر خاموش ہو گیا تھا۔ آج وہ کلمہ پڑھ کر اپنے جسم پر پھونکتی جاتی تھی اور مل مل کر دھو رہی تھی۔
دو دہائیوں کے دکھوں کا مداوا صرف دو ہفتوں میں ہی ہو گیا۔ ایک دہائی برابر ایک ہفتہ۔ خاندان کے لوگ اور برادری کے بزرگ سب مل کر بیٹھے، پیر سائیں بھی موجود تھے۔ اب سارے دکھ ختم ہونے جا رہے تھے۔ ماں نے کہا تھا، ”سارے رنج و الم بھول جاؤ۔ تم نے جو کشٹ بھوگنے تھے وہ پورے ہوئے۔“
ان دو ہفتوں میں اس کے وہ خواب بھی پورے ہوئے جو عام حالات میں خواب ہی رہتے ہیں خواہ انسان ایک صدی جئے یا اس سے بھی زیادہ۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سارے دکھ ختم ہو جائیں گے اور وہ سکھ کا جھولا جھولے گی۔
دکھ کی یادیں راکھ بن کر اس کے پاؤں کی دھول کے ساتھ اڑ گئی تھیں۔ وہ اداسی کی وجوہات بھول گئی تھی۔ غم کیسے غیر روایتی طریقوں سے اپنی موت آپ مر جاتا ہے وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ موت جس کی اس نے پچھلی دو دہائیوں میں بھرپور خواہش کی تھی کیسے بے موت مر جاتی ہے اسے آج پتا چلا تھا۔
آج اس کا جسم پھول کی طرح ہلکا پھلکا تھا۔ بے وزن جسم ہواؤں کے دوش پر سوار آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ بچپن کی جانی پہچانی گلیوں میں وہ قدم رکھتی کہیں اور تھی، پڑتا کہیں اور تھا۔ پسلیوں کے اندر دھڑکتا دل اور سینے کے سمن زاروں میں بھٹکتے سفید مالا کے موتی چاندنی رات میں ساحلی پہاڑیوں سے ٹکرانے والی لہر کی طرح سرسراہٹ پیدا کر رہے تھے۔ سب خواہشیں پوری ہو گئی تھیں صرف ایک ہی باقی تھی سو اس نے کہہ دیا کہ آج کے دن وہ سفید ریشم کی اوڑھنی اوڑھے گی۔
دلہن کی پاکی سفید پیرہن میں ہی نکھرتی ہے۔
دوپہر کی دھوپ میں یہ ریشمی پیرہن ہوا کے ساتھ لہرا کر فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ کا سماں باندھ رہا تھا۔ فرشتے جو اس کے دوش بدوش چل کر فخر محسوس کرتے تھے، جن کے دامن کی سفیدی اس کی پاکبازی کے ہم پلہ نہیں تھی۔
آج صبح صبح ہی خاندان کے لوگ پہنچ گئے تھے۔ اسے باپ کی یاد آ رہی تھی۔ پچھلی دو دہائیوں میں اسی کے سہارے معذور خاوند کی موجودگی میں خاموشی سے بیوگی کے خار الم کی چبھن برداشت کی تھی۔
باپ نے کہا تھا، ”تمہیں میری عزت کی لاج رکھنی ہے۔“
بیس سالہ زندگی میں خوشی کہیں بھول بھلیوں میں کھو گئی تھی اور وہ اس کا سرا بھی نہ ڈھونڈ سکی تھی۔ پھر یک دم یہ بھول بھلیاں بکھر گئیں۔ اس نے خود کو آزاد ہواؤں میں تیرتے ہوئے پایا۔ سینے پر پڑی غم کی بھاری سل ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گئی۔
وہ ماں کے گھر پہنچ گئی۔
نماز جمعہ کے بعد سب پہنچ گئے۔ بزرگ مرد اور عورتیں، بچے اور جوان بھی۔ سب کلمہ شکر ادا کر رہے تھے کہ چلو اب اس کے دکھوں کا مداوا ہو جائے گا۔
وہ بھی پہنچ گئے۔ ڈھول، میوزک، ڈانس اور بھنگڑے، سارے شور ان کے ہم رکاب تھے۔ دولت لٹائی جا رہی تھی، وہی دولت جس کی کمی اسے اس حالت تک لے آئی تھی۔ گھر کا سارا فرنیچر بیچ کر بھی کئی دنوں سے فاقہ ہی خریدا جا سکا تھا۔
کرونا کا بخار اور ماں کی کسمپرسی۔
وہ اسی دن آیا تھا۔ پھر آنا جانا جاری رہا۔ کچھ دنوں کے بعد ماں کی حالت سنبھلی تو چلنے پھرنے کے قابل ہوئی۔ وہی پہلا دن تھا جب وہ اس کے پاس اکیلا بیٹھا ان کے حالات کی بات کر رہا تھا۔
اسی دن اسے احساس ہوا کہ بات کچھ اور ہے۔
وہ اس کا ہم عمر تھا اور خوبصورت بھی۔ اسے اپنے بھولے بسرے افسانوی خواب سچے ہوتے نظر آئے۔ وہ خاموش رہی تھی۔
ماں نے کہا تھا، ”تمہارے دکھ دیکھے نہیں جاتے۔ دنیا والوں کی باتوں کا ڈر نہ ہو تو کوئی ماں اپنی بچی کو نہ بیاہے۔ اب نیا بندہ کرو گی تو برادری پھر باتیں بنائے گی۔ جب گھر میں رشتہ موجود ہے تو باہر والوں کے سامنے کیوں ننگا ہونا ہے؟“
پیر سائیں نے بھی اسی بات کی حمایت کی کہ جیٹھ کا ہی حق بنتا ہے۔
پھر آج کا دن آ گیا۔ بارات پہنچ گئی۔ وہ صبح سویرے ہی تیار ہو گئی تھی۔ غسل کے بعد اس کا جسم ہلکا پھلکا ہو گیا۔ باپ کو دیا ہوا قول نبھایا تھا، اب ماں کی نصیحت سامنے تھی۔ وہ مڑ کر دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ چلتی جا رہی تھی۔ بچپن کی جانی پہچانی گلیوں میں، سفید ریشمی پیرہن اوڑھے، ہواؤں کے دوش پر ، فرشتوں کے دوش بدوش۔
پل پر پہنچ کر اس نے دریا میں چھلانگ لگا دی۔
نکاح کی اجازت لینے وہ کمرے میں آئے تو دیکھا کہ بستر پر صرف ایک کاغذ پڑا ہوا تھا۔ ماں نے اٹھا لیا، لکھا تھا،
”ایک اور مردہ شخص سے شادی کرنے کی بجائے مرنا پسند کروں گی۔“
”کیا لکھا ہے؟“ نکاح خواں نے پوچھا۔
روتے روتے کہنے لگی،
”لکھا ہے کسی اور سے شادی کرنے کی بجائے مرنا پسند کروں گی۔“
کچھ دیر خاموشی سے آنسو بہاتی رہی، پھر بین کرتے ہوئے دریا کی طرف بھاگی۔ پل پر بہت سے لوگ حلقہ باندھے کھڑے تھے۔
”میں نہ کہتی تھی اسے اپنے خاوند سے بہت محبت ہے۔ وہ پانی میں ڈوب کر ستی ہو گئی۔
سیّد محمد زاہد