اردو تحاریراردو سفر نامے

عجب ٹریک پرستوں سے واسطہ تھا مرا

ایک اردو سفرنامہ از ڈاکٹر محمد اقبال ہما

عجب ٹریک پرستوں سے واسطہ تھا مرا

Next time a meadow of flowers leave you speechless, remain that way
Say nothing, and listen as heaven whispers
Do you like it? I did it just for you
Max Lucado
اگلی مرتبہ جب تم پھولوں سے لبریز میدان دیکھ کر ششدر ہو جاؤ تو ہلنے جلنے یا بولنے کے بجائے آفاق سے آنے والی سرگوشیاں سننے کی کوشش کرنا جو سوال کر رہی ہوں گی:
یہ دنیا یہ محفل صرف تمھارے لئے سجائی گئی ہے
پسند آئی؟
میکس لوکاڈو

وادیِ دئینتر میں قدم رکھنے سے پہلے اس کی گہرائی میں اترنے والے راستے کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔اترائی کے آغاز اور ہمارے درمیان چند فٹ عریض وہ گلیشئر حائل تھا جسے کھرچ کر چائے بنانے کے لیے برف حاصل کی گئی تھی۔ اس کے بعد ایک پتھریلی اور بہت زیادہ عمودی ڈھلان تھی۔ ڈھلان کے نیچے لشکارے مارتا ہوا سفید گلیشئر تشریف فرما تھا جس کی سطح پر موجود دراڑیں صاف نظر آ رہی تھیں۔
گلیشئر کے بعد ’’جہانِ پتھراں‘‘ آباد تھا جو گلیشئر ہی کا حصہ رہا ہو گا۔چٹانی دراڑوں میں کہیں کہیں برف جھلملاتی تھی اور سرمئی پس منظر میں نقرئی کشیدہ کاری کا منظر پیش کرتی تھی۔اس میدان کے دائیں پہلو میں مٹیالے پانی کی چھوٹی سی جھیل منظر کا حصہ ہونے کے باوجود بے گانگی کا تاثر دے رہی تھی۔نل تر و دئینتر کے ’’شیشہ ور‘‘ پانیوں کی دنیا میں اس جھیل کے مٹیالے پانی شرمندہ شرمندہ نظر آتے تھے۔
پتھریلے میدان سے آگے ایک سرسبز قطعہ تھا،اور اس کے بعد شیطان کی آنت نما گھاٹی غالباً پاتال میں اترتی تھی۔اس گھاٹی کے نادیدہ اختتام پر پائے جانے والے بکروالوں کے چند جھونپڑے طولی بری کہلاتے تھے اور ہمارے ٹریک کا آخری پڑاؤ تھے۔
یہ منظر گائیڈ بکس اور انٹرنیٹ سے حاصل کردہ معلومات کے سراسر خلاف تھا۔ توقع سے زیادہ خوبصورت، اور بہت زیادہ طویل۔
میرا خیال تھا کہ اصل مرحلہ ٹاپ تک پہنچنا ہے۔ٹاپ سے طولی بری تک جانے والی اترائی کتنی بھی خطرناک ہو، زیادہ سے زیادہ دو تین گھنٹے میں طے ہو جائے گی اور ہم شام کے سائے ڈھلنے سے پہلے کیمپ سائٹ پہنچ کر اپنی کامیابی کا جشن منا رہے ہوں گے۔اس خوبصورت لیکن غیر متوقع منظر نے سارا تصور درہم برہم کر دیا۔ مجھے ایک فیصد بھی یقین نہیں تھا کہ سورج غروب ہونے سے پہلے طولی بری پہنچ سکیں گے۔
اترائی کے آغاز پر گلیشئر کے چند فٹ اتنے عمودی تھے کہ عرفان اسے براہِ راست عبور کرنے کے حق میں نہیں تھا۔ہم گلیشئر کے مغربی کنارے پر چلتے ہوئے اس کے مخروطی اختتام تک پہنچے اور مشرقی کنارے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے واپس آ کر اسی مقام سے اترائی کا سفر شروع کیاجہاں ہمارا قیام تھا۔گلیشئر کی ’’نوک‘‘ کے پاس سے بھی نیچے اترا جا سکتا تھا بشرطیکہ ہم سب نے عرفان کی طرح راک کلائمبنگ کی تربیت حاصل کی ہوتی۔ آسان سمجھے جانے والے مقام پر بھی اترائی کا ابتدائی حصہ ستر درجے کے زاویے سے زیادہ ڈھلان بناتا تھا۔ یہ قدرتی ’’سلائیڈ‘‘ جو اس وقت پتھروں اور سنگریزوں پر مشتمل تھی چند روز پہلے تک گلیشئر کے نیچے دبی ہوئی ہو گی کیونکہ اس کے کئی حصے ابھی تک برف میں پوشیدہ تھے۔ بیش تر برف پانی میں تبدیل نہ ہو چکی ہوتی تو یہاں سے کریمپونز اور آئس ایکس استعمال کیے بغیر گزرنا ممکن نہ ہوتا۔ یہ دئینتر پاس ٹریک کا سخت ترین،مگر دلچسپ ترین مرحلہ تھا۔
’’چلیں سر جی۔ بسم اللہ کریں۔ ‘‘ عرفان نے کہا۔
’’اگر پھسل گیا تو؟‘‘ میں بسم اللہ کرتے ہوئے جھجک رہا تھا۔
’’پھسل گئے تو گیا ہو گا؟ نہایت اطمینان سے ’’گھِسّی‘‘ کرتے ہوئے نیچے پہنچیں گے اور خواہ مخواہ کی خجل خواری سے بچ جائیں گے۔‘‘ طاہر نے ’’حوصلہ افزائی‘‘ کی۔
’’یار کچھ بھی نہیں ہو گا۔یہاں سے اترتے وقت صرف اتنی احتیاط کریں کہ جسم کا بوجھ پیچھے کی جانب رکھیں۔ پنجوں کے بل چلنے کی کوشش نہ کریں اور اگلے قدم کی ایڑی اچھی طرح جمانے کے بعد پچھلا قدم اٹھائیں۔ ‘‘
عرفان کی ہدایات کی روشنی میں بسم اللہ کی گئی اترائی بہت زیادہ ڈھلوانی ہونے کے باوجود غیر معمولی دشوار یا خطرناک ثابت نہیں ہوئی، لیکن قطار بنا کر ایک دوسرے کے آگے پیچھے اترنے کی وجہ سے کچھ’’ با ضرر‘‘ مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ پیچھے آنے والوں کے قدموں سے نکل جانے والے پتھر گرجتے برستے ہوئے نیچے جاتے تھے اور آگے چلنے والوں پر ناگہانی افتاد کی طرح نازل ہوتے جس کے نتیجے میں :
ہر قدم پر اک نئے سانچے میں ڈھل جاتے تھے لوگ
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے پھسل جاتے تھے لوگ
پتھروں کی لڑھکان لینڈ سلائیڈنگ میں تبدیل ہونے لگی تو فیصلہ کیا گیا کہ ایک ایک کر کے نیچے اترا جائے۔عالم خان سب سے آگے تھا۔ہم رک گئے اور وہ باآسانی گلیشئر تک پہنچ گیا۔عالم خان کے بعد میں، عرفان اور بھٹہ صاحب یکے بعد دیگرے نیچے پہنچے۔طاہر تقریباً سو فٹ کی بلندی پر پہنچ کر رک گیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں سوچ رہا ہوں اس جگہ سچ مچ گھِسّی لگا ئی جائے تو زیادہ مزہ آئے گا۔‘‘ طاہر نے قدرتی ’’سلائیڈ‘‘ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
’’اوئے حیا نوں ہتھ مار۔تیری پتلون شتلون پاٹ جانی اے،تے شیم شیم ہو جانی اے۔ فیر ہتھ لا لا کے ویکھیں گا کیویں پاٹ گئی اے۔‘‘ بھٹہ صاحب نے ٹراؤزر پھٹ جانے کی صورت حال باقاعدہ اشارہ کر کے سمجھائی۔
بھٹہ صاحب کے تبصرے پر ہنسی آنا قدرتی بات تھی اور با جماعت قہقہے کے بعد طاہر کے پاس گھِسّی سے بچنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔اُس نے تشریف کا ٹوکرا قدرتی سلائیڈ کے سنگریزوں پر رکھا اور پھسلنا شروع کر دیا۔ جب تک ہمیں اس شرارت کے غیر متوقع نتائج کا اندازہ ہوتا اُس کی گھسی ایک بے قاعدہ قلابازی میں تبدیل ہو چکی تھی۔
’’سٹک استعمال کریں … سٹک۔‘‘ عرفان پوری قوت سے چیخا اور اُس کے چہرے پر شدید پریشانی چھا گئی۔
طاہر لڑھکا ضرور،لیکن ہوش و حواس قائم رہے اور اس نے دوسری قلابازی سے پہلے اپنی سٹک پتھروں میں پھنسا دی۔
طاہر کے پاس اگر عرفان کی سٹک نہ ہوتی؟
طاہر کے پاس سٹک نہیں تھی۔عرفان نے نیچے اترتے وقت حفظ ماتقدم کے طور پر اپنی سٹک اسے پکڑا دی تھی اور خود آئس ایکس نکال لیا تھا۔ یہ چھوٹا سا فیصلہ بہت بڑے حادثے سے بچنے کا سبب بن گیا۔ اس حادثے کی وجہ طاہر کی پشت پر بندھا ہوا رک سیک تھا۔ہم سب یہ اندازہ لگانے سے قاصر رہے کہ مجوزہ گھِسی کے دوران پشت پر بندھا ہوا رک سیک کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔رک سیک کی وجہ سے طاہر پوری طرح پیچھے کی طرف نہ جھک سکا اور توازن کھو بیٹھا۔اللہ کا شکر ہے کہ بروقت سنبھل گیا اور سنبھلنے کے بعد شرمندگی چھپانے کیلئے بے تکے انداز میں دانت نکالتا ہوا نیچے تشریف لایا۔
’’آپ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘ ہمیں گم سم دیکھ کر اُس نے سوال کیا۔
’’آئی۔ایم رئیلی سوری۔‘‘ عرفان نے سنجیدگی سے معذرت کی۔
’’کیا مطلب؟کیسی سوری؟‘‘ طاہر حیران ہوا۔
’’ٹریکنگ کا پہلا اصول ہے کہ مظاہر فطرت کا احترام کیا جائے۔انھیں کھلونا سمجھ کر کھیلنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ہم نے اس وقت یہ اہم اصول نظر انداز کر دیا تھا۔‘‘
’’چھوڑیں جی،اتنا سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ تو اس طرح منہ بسور رہے ہیں جیسے میں بھٹہ صاحب والا انّا للہ ہو چکا ہوں۔ ‘‘
طاہر نے اپنی قلابازی خود نہیں دیکھی تھی، شاید اسی لئے احساس نہیں تھا کہ وہ کتنے سنگین حادثے سے بال بال بچا ہے۔
ٹاپ سے گلیشئر تک تقریباً ایک سو میٹر ڈھلوان طے کرنے میں ایک گھنٹے سے زائد وقت چٹ ہو گیا لیکن یہ منفرد مرحلہ ہم نے بچوں کی طرح شور مچاتے اور ایک دوسرے پر طنزیہ فقرے اچھالتے ہوئے طے کیا۔
اب ہمارے سامنے گلیشئر عبور کرنے کا مرحلہ تھا۔
میں نے اس سے پہلے ایک دو نام نہاد گلیشئر عبور کیے تھے،اتنا بے داغ اور دراڑوں سے بھر پور گلیشئر پہلی مرتبہ دیکھ رہا تھا۔ گلیشئر کے بائیں کنارے پر اسی قسم کی گلیشریائی جھیل نظر آرہی تھی جس کے لیے میں نے آدھے گھنٹے کی اضافی مشقت برداشت کی تھی، لیکن یہ اُس کی نسبت بہت چھوٹی تھی۔اس قسم کی ننھی منی جھیلیں آس پاس کے گلیشئرز پر بھی دکھائی دے رہیں تھیں۔ مٹیالے اور سرسبز پس منظر میں دور دور تک بکھرے ہوئے سفید گلیشئرز اور ننھی منی جھیلوں کی یہ دنیا بہت دلکش تھی،ہمارے ٹریک کا منفرد ترین منظر۔اس منظر میں جگہ جگہ دراڑیں نظر آ رہی تھیں اور ان دراڑوں سے بلند ہونے والے نیلگوں بخارات ظاہر کرتے تھے کہ گہرائی میں بہنے والے پانی کا دھارا بہت زیادہ دور نہیں ہے۔ گلیشئر کی دراڑیں زیادہ چوڑی نہیں تھیں اور انھیں پھلانگنا بائیں ’’پاؤں‘‘ کا کھیل تھا۔ یہ کھیل جان لیوا نہ سہی، شفاف اور ڈھلواں سطح کی وجہ سے ’’ٹانگ لیوا‘‘ ثابت ہو سکتا تھا۔ ہم واکنگ سٹکس اور ایک دوسرے کا سہارا لینے کے باوجود پھسلتے پھسلاتے ہی اس مرحلے سے گزرنے میں کامیاب ہوئے۔عالم خان اس کھیل کا کھلاڑی تھا۔ اس نے گلیشئر کے وسط میں پہنچ کر ہمارا دل بہلانے کے لیے سکائی انگ کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔ وہ گھٹنوں کو خم دے کر نہایت تیزی سے پھسلتا اور دراڑ کے نزدیک پہنچ کر اچانک کنی کترا جاتا۔سکائی انگ کٹ کی غیر موجودگی میں اس کی مہارت قابل داد تھی۔ اس نے انکشاف کیا کہ وہ سکائی انگ کی باقاعدہ تربیت حاصل کر چکا ہے اور نل تر سکائی انگ سکول کے کئی مقابلوں میں حصہ لے چکا ہے۔
’’تمھیں مقابلے میں حصہ لینے کی اجازت کیسے مل گئی؟میں نے سنا ہے اس میں صرف آرمی آفیسرز حصہ لے سکتے ہیں۔ ‘‘ عرفان نے وضاحت چاہی۔
’’وہ پرانا بات ہو گیا ہے۔اب ادھر بہت سارا مقابلہ ہوتا ہے جس میں سویلین لوگ بھی آتا ہے۔اس سال بڑا زبردست چمپئن شپ ہوا تھا۔بہت سارا ٹیم آیا تھا۔ایک ایسا میاں بیوی بھی تھا جس کا نیا نیا شادی ہوا تھا،اس نے کمال کر دیا تھا۔‘‘
’’میاں بیوی؟مقابلے میں جوڑے بھی حصہ لیتے ہیں ؟‘‘
’’وہ مقابلہ نہیں کرتا تھا۔شوقیہ طور پر ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر جھیل سے ادھر ٹاپ تک سکائی انگ کرتا تھا۔‘‘
’’دئینتر ٹاپ سے نل تر جھیل تک؟‘‘ میں حیران ہوا۔
’’ہاں ناں۔ ‘‘
’’یہاں اتنی برف کہاں ہے کہ اس پر سکائی انگ کی جا سکے؟ اور میرا خیال ہے پاکستانی خواتین اس کھیل کی اتنی ماہر نہیں ہوتیں کہ ٹاپ سے جھیل تک سکائی انگ کر سکیں۔ ‘‘
’’آپ فروری میں ادھر آؤ ناں، پھر دیکھو کتنا برف ہوتا ہے اور عورت لوگ کا مقابلہ کتنا زبردست ہوتا ہے۔‘‘
’’عورتوں کے مقابلے؟تمھارا مطلب ہے کہ یہاں اتنی خواتین آ جاتی ہیں کہ ان کے مقابلے منعقد ہو سکیں۔ ‘‘
’’کیوں نہیں آتا؟ادھر بڑا بڑا شوقین عورت آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے سارا پری لوگ نل تر میں اتر آیا ہے۔ آپ سکائی انگ کے سیزن میں ادھر آتا ہے تو ہم کو ضرور یاد کرتا ہے۔‘‘
’’میں اتنا بد ذوق نہیں ہوں کہ پریوں موجودگی میں تمھیں یاد کروں۔ ‘‘
’’آپ نہ کرنا۔آپ کو خود بخود یاد آئے گا کہ سردی کا موسم میں نل تر آنے کا مشورہ عالم خان نے دیا تھا۔‘‘
عالم خان اگر درست کہہ رہا تھا تو( بعد میں تصدیق ہو گئی کہ فروری کے مہینے میں نل تر میں سعدیہ خان کپ سکائی انگ چمپین شپ منعقد ہوتی ہے جس میں صرف خواتین اور بچے حصہ لے سکتے ہیں ) فروری کی وادیِ نل تر بے تحاشہ ہیجان خیز ہو تی ہو گی۔نل تر سے دئینتر پاس تک پھیلے ہوئے … نل تر پیک … شانی پیک … مہربانی پیک … جڑواں پیک اور نہ جانے کون کون سی بلندیوں کے دودھیالے نشیب و فراز،اور اس بے داغ سفیدی کے پس منظر میں سکائی انگ کے لیے اترتی ہوئی ’’شوقین پریاں‘‘ ؟
اس فروری میں نل تر آ کر ہم بھی دیکھیں گے
گلیشئر کنارے کے رخنوں سے اللہ تعالیٰ کی قدرت سبزہ نورستہ کی صورت میں نمودار ہو رہی تھی۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس منجمد سر زمین پر اتنی رنگا رنگ جڑی بوٹیاں اُگ سکتی ہیں۔ وہ نہ صرف اُگ رہی تھیں بلکہ گلیشئر کے سفید براق منظر کو حیران کن حد تک رنگین بنا رہی تھیں۔ عالم خان نے ان جڑی بوٹیوں سے پیلے رنگ کے ننھے منے پھل توڑ کر ہماری خدمت میں پیش کئے۔ یہ انتہائی خوش ذائقہ پھل مقامی زبان میں ’’میو‘‘ کہلاتے ہیں۔ عالم خان کا کہنا تھا کہ یہ دئینتر پاس کی برفیلی بلندی کا تحفہ ہیں، گلیشئر کا علاقہ عبور کرنے کے بعد نظر نہیں آئیں گے۔ ہم نے مزید پھلوں کی فرمائش کی لیکن عالم خان پوری کوشش کے با وجود مزید پھل تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
اترائی کی پہلی قسط با مشقت ہونے کے باوجود انتہائی با مقصد تھی۔اسی قسم کے مناظر کے لیے فطرت کدوں کے بے نام و نشان راستے اپنائے جاتے ہیں۔ نل تر جھیل سے اس گلیشئر تک ہونے والی تھکاوٹ گلیشریائی جھیلوں کے صاف و شفاف پانی میں تحلیل ہو گئی۔ دئینتر پاس کی پچاس ساٹھ میٹر چڑھائی اور سو میٹر اترائی کو دئینتر پاس ٹریک کا حاصل کہا جا سکتا ہے اور یہ ایک انمول حاصل ہے۔ انھی پتھروں سے زندگی کے حقیقی چشمے پھوٹتے ہیں، انہی برف پاروں میں کائنات کا اصل حسن بسیرا کرتا ہے،انھی جھیلوں کے پانی سے خمارِ فطرت کے پیمانے لبریز کیے جاتے ہیں ؛ان پیمانوں کا نشہ فضاؤں پر راج کرتا ہے،یہاں آئے بغیر اس نشے سے حاصل ہونے والے سرور کا اندازہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔پاس کراسنگ واقعی کوہ نوردی کی دنیا کا انوکھا جام ہے۔ذوقِ آوارگی تجھے آفریں … کہ یہ جام ہم کو پلا دیا۔
گلیشئر کے بعد ایک مختصر سا مٹیالا لینڈ سکیپ تھا جس کے دائیں جانب گدلے پانی کی جھیل تھی،اور جھیل سے آگے:
اترائی کی یلغار ہے میں یکا و تنہا
کھائی میرے پیچھے ہے تو کھڈّا میرے آگے
کھائی اور کھڈّے اُس گلیشئر کے بائیں کنارے کا ’’ملبہ‘‘ تھے جو غالباً سنوڈوم ٹاپ سے آتا تھا اور وادیِ دئینتر کی گہرائی میں پہنچ کر دریا میں تبدیل ہو جاتا تھا۔اس میدان کے پتھر قدم بہ قدم بے تحاشہ لڑھکتے تھے اور لڑھکتے ہی چلے جاتے تھے۔ آگے چلنے والوں کے لئے ایک مرتبہ پھر خطرہ پیدا ہو گیا اور ایک ایک کر کے اترنے کی ضرورت محسوس ہو نے لگی۔ فاصلہ اتنا زیادہ تھا کہ یہ پالیسی اپنانے کی صورت میں اسی مقام پر شب باشی کے سو فیصد امکانات تھے۔ میں اوپر سے آنے والے پتھروں کی زد میں تھا۔طاہر اور بھٹہ صاحب بار بار ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے کی صدا لگا رہے تھے۔ہٹنے بچنے کے چکر میں ایک جگہ میرا ٹریکنگ شو دو پتھروں کے درمیانی خلا میں پھنس گیا۔ بدقسمتی سے خلا کے نیچے والے پتھر نے اپنی جگہ چھوڑ دی۔ میرے قدم بری طرح لڑکھڑائے اور توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں پورا جسم ’’ہاف ٹوئسٹ‘‘ ہو گیا۔ ٹوئسٹ کے اختتام پر ایک عدد کڑکڑاہٹ بلند ہوئی اور مجھے محسوس ہوا کہ کوئی جوڑ شکن حادثہ وقوع پذیر ہو چکا ہے،لہٰذا ہاتھوں کے توتے اڑ گئے۔چند لمحے ہلنے جلنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ ڈرتے ڈرتے قدم اٹھانے کی کوشش کی اور یہ دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا کہ پاؤں باآسانی گڑھے سے باہر آ گیا اور درد محسوس نہیں ہوا۔پھر یہ کڑکڑاہٹ کس چیز کی تھی؟
میں نے پاؤں کا تفصیلی جائزہ لینے کی کوشش کی تو عرفان وغیرہ نے سنجیدگی سے ہدایت کی کہ راستے سے ہٹ جاؤں ورنہ سچ مچ کسی پتھر کی زد میں آ جاؤں گا۔اس جگہ راستے سے ہٹنے کی گنجائش نہیں تھی۔ دونوں جانب اچھی خاصی گہرائیاں تھیں۔ میں نے بتا یا کہ میرے پاؤں کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو گیا ہے اس لیے وہ جہاں ہیں، جیسے ہیں کی بنیاد پر تھوڑی دیر کے لیے رک جائیں اور مجھے پاؤں کا معائنہ کرنے کی مہلت دیں۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ’’گوڈے گِٹّے‘‘ سو فیصد سلامت تھے اور میں انتہائی مضبوط سمجھے جانے والے ٹریکنگ شو کو حیرانی سے دیکھ رہا تھا جس کا امپورٹڈ سول داغِ مفارقت دے کر غالباً اسی خلا میں رہ گیا تھا جہاں میرا پاؤں پھنسا تھا۔
’’جی جناب؟کیا صورتِ حال ہے؟‘‘ عرفان نے دریافت کیا۔
’’جوتا بے کار ہو گیا ہے۔‘‘ میں نے انھیں جوتا دکھایا۔
’’اپنے جوگر نکال لیں۔ ‘‘ طاہر نے مشورہ دیا۔
’’کہاں سے نکال لوں ؟‘‘ میں نے پُر شوق لہجے میں دریافت کیا۔
’’کیا مطلب؟آپ کو پتا نہیں کہ آپ کے جوگرز کہاں ہیں ؟‘‘
’’مجھے پتا ہے کہ میرے جوگر گلگت کی کسی دکان میں رکھے ہیں۔ ‘‘
’’یعنی آپ جوگرز گلگت ہی میں چھوڑ آئے ہیں، فالتو سامان سمجھ کر؟‘‘ عرفان نے حیران ہو کر سوال کیا۔
’’آپ نے ٹریکنگ کا پہلا اصول بتاتے ہوئے پُر زور نصیحت کی تھی کہ ذاتی سامان کا وزن کم سے کم رکھا جائے۔‘‘
’’سر جی خدا کا خوف کریں۔ میں نے غیر ضروری سامان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی درخواست کی تھی۔یہ نہیں کہا تھا کہ جوگرز جیسا بنیادی ایکوئپمنٹ فالتو سامان کی فہرست میں شامل کر دیں۔ ٹریکنگ کا پہلا اصول ہے کہ مکمل … ۔‘‘
’’عرفان صاحب پلیز۔یہ ٹریکنگ کے اصول پڑھانے کا وقت نہیں ہے۔اس کے باوجود بور کرنا ہی چاہتے ہیں تو ٹریکنگ کا دوسرا اصول بتا دیں۔ پہلا اصول سن سن کر کان پک گئے ہیں۔ ‘‘ طاہر نے عرفان کی بات کاٹی۔
’’ٹریکنگ کا پہلا اصول ہے کہ مکمل ایکوئپمنٹ ساتھ لے کر چلیں۔ یہ بات میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں لیکن جب تک عملی تجربہ نہ ہو زبانی کلامی بتائے گئے اصول سمجھ نہیں آتے۔امید ہے اب اس اصول کی اہمیت پوری طرح اجاگر ہو جائے گی۔ایک اور پہلا اصول یہ ہے کہ ٹریکنگ شوز اور جوگرز کو ٹریکنگ ایکوئپمنٹ کا لازمی حصہ سمجھا جائے۔‘‘ عرفان نے طاہر کے اعتراض پر دھیان دیے بغیر خطاب پورا کیا۔
’’ڈاکٹر صاحب ادھر اُدھر ہو جائیں پلیز،میرا بیلنس خراب ہو رہا ہے۔ پھسل گیا تو نیچے جاتے جاتے آپ کو بھی ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘ طاہر نے کہا۔
ادھر ادھر ہونے کی جگہ کہاں تھی؟میں ایک نسبتاً بڑے پتھر کی آڑ میں ہو گیا۔ میرے ساتھی نیچے تشریف لائے،ٹریکنگ شو کی رحلت پر افسوس کا اظہار کیا اور بے پیندے کے جوتے یا چپل میں ٹریک جاری رکھنے کا مشورہ دے کر آگے روانہ ہو گئے۔ اصل سول غائب ہونے کے بعد سخت گتّے کا پیتابہ جوتے کا ’’پیندہ‘‘ بنا رہا تھا۔ جن پتھروں پر ٹریکنگ شوز کا اصل سول جواب دے گیا ہو وہاں اس گتے کی کیا حیثیت تھی؟ چند قدم بعد ہی بے چارے کا تیا پانچہ ہو گیا اور میرے پاس حیران و پریشان حالت میں ایک پتھر پر تشریف فرما ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ پتھروں کے میدان کا بیش تر حصہ عبور ہو چکا تھا، لیکن طولی بری بہت دور تھا۔ لینڈ سکیپ دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ طولی بری تک انتہائی نامعقول قسم کی اترائی ہے۔ چپل پہن کر اتنی طویل اترائی کے تصور سے خوف آتا تھا۔
مصائب اور تھے پر ’’شو‘‘ کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
اس سانحے کے بعد ٹریکنگ کا پہلا اصول ذہن پر نقش ہو گیا ہے۔اب ٹریک پر جاتے وقت جوگرز کو فالتو سامان سمجھنے کی غلطی نہیں کی جاتی، ممکن ہو تو ٹریکنگ شوز کے سول پر اضافی سلائی لگوائی جاتی ہے اور چپل کی جگہ ہلکے پھلکے کیمپ شوز منتخب کئے جاتے ہیں تا کہ ہنگامی صورتِ حالت میں جوگرز کی جگہ استعمال کئے جا سکیں۔
عالم خان الٰہ دین کے جن کی طرح نمودار ہوا۔
’’ڈاکٹر صاحب کیا مسئلہ بن گیا ہے؟‘‘
’’ٹریکنگ شوز ٹوٹ گئے ہیں۔ ‘‘
’’مجھے دکھائیں۔ ‘‘
میں نے ’’لیر و لیر‘‘ جوتا اس کے حوالے کر دیا۔اس نے جوتے کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد اسے پوری قوت سے گدلے پانی کی جھیل کی طرف اچھال دیا۔
’’آپ ہمارا جوگر استعمال کرو۔اپنا چپل ہمیں دو۔‘‘
عالم خان کا جوگر مجھے کسی حد تک چھوٹا تھا اور پنجے پر ناقابلِ برداشت حد تک دباؤ ڈالتا تھا،لیکن میرے پاس کوئی اور متبادل نہیں تھا۔جوگر پہن کر چلنا شروع کیا تو علم ہوا کہ تنگ جوتے پہن کر بے ڈھب اور لڑھکیلی سطح پر چلنا کتنا مشکل کام ہے۔ اترتے وقت جسم کا بیش تر بوجھ پاؤں کے انگوٹھے کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ میرا انگوٹھا عالم خان کے تنگ جوگرز کا مسلسل دباؤ برداشت نہ کر سکا اور درد کا احساس جگا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا شروع کر دیا۔ ابتدا میں معمولی محسوس ہونے والا درد رفتہ رفتہ بڑھتا گیا اور رفتار کم ہوتی گئی۔ کچھ دیر بعد میں باقاعدہ لنگڑانے لگا اور عرفان وغیرہ دور … بہت دور نکل گئے۔
جہانِ پتھراں ایک ہموار میدان کے کنارے پہنچ کر ختم ہوا تو میں نے پانی کے بہانے درد کش دوا کا وقفہ کیا۔اس میدان کی گھاس غیر معمولی حد تک سرسبز اور ہموار تھی۔ابھی تک ٹری لائن کی حد ختم نہیں ہوئی تھی اس لیے سبزہ زار میں درخت یا جھاڑیاں نہیں پائی جاتی تھیں۔ بے تحاشہ سبز گھاس کی نرم و نازک پتیوں کے درمیان رنگ رنگ کے پھول فرشِ زمین سے براہِ راست نمودار ہو رہے تھے۔یہ دیوسائی کا مِنی ایڈیشن تھا اور اردگرد کے بلیک اینڈ وائٹ(پتھر اور گلیشئر) لینڈ سکیپ میں سبز نگینے کی طرح جگمگا رہا تھا۔ یہ غالباً وہی سبزہ زار تھا جسے چرواہوں نے ’’دئیں۔ تر‘‘ (سر سبز میدان) کا خطاب دیا اور جو پوری وادی کے نام کی وجہ تسمیہ بنا۔ یہ سبزہ زار ایک قدرتی پڑاؤ ہے۔ دئینتر پاس ٹریک کی منفرد اور خوبصورت ترین کیمپنگ سائٹ۔ ایک طرف دئینتر پاس کی سرمئی بلندی، دوسری طرف سنوڈوم سے اترنے والے گلیشئر کی بے داغ سفیدی اور تیسری طرف وادی دئینتر کی سر سبز گہرائیاں، مجھے دلی افسوس ہوا کہ یہ مقام ہماری آئٹی نریری میں کیمپنگ سائٹ کے طور پر شامل کیوں نہیں کیا گیا؟
لینڈ سکیپ پر چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں نمودار ہونے لگیں تو احساس ہوا کہ ’’ٹری فری‘‘ زون ختم ہو چکا ہے۔ ماورائی رنگوں کے پھولوں سے لبریز جھاڑیاں بہاروں کی ملکہ کے دربار کی سیر کراتی تھیں۔ یہ بلا شبہ ایک یادگار سفر تھا۔ اتنا دلفریب کہ میں پاؤں کے انگوٹھے سے اٹھنے والی ٹیسیں نظر انداز کر کے دربارِ حسن کی رنگینیو ں میں کھو گیا۔دل کش سبزہ زار کا اختصار ہی اس کی انفرادیت تھی۔ نل تر اور دئینتر کی تمام بہاریں ایک چھوٹی سی جنتِ ارضی میں سمٹ آئی تھیں اور مجھے بجا طور پرفخر ہوا کہ یہ جنت میری اور صرف میری تنہائی کا مداوا کرنے کے لیے عرش سے فرش پر اتاری گئی ہے۔ اس کی رنگین بہاروں میں میرے ساتھیوں کا حصہ ہوتا تو وہ اس قدرتی پڑاو پر پانی کا وقفہ ضرور کرتے۔
دیکھ کر میرا دشت تنہائی
رنگ روئے بہار اترا ہے
میں رنگ روئے بہار کے جلووں میں گم ہو کر سچ مچ راستہ کھو بیٹھا۔ہر طرف رنگ برنگے پھولوں کے لبادے میں ملبوس سبز ’’پریاں‘‘ نظر آتی تھیں اور ہوش و حواس چھین لیتی تھیں۔ پوری کوشش کے باوجود آگے جانے کے لیے سمت کا تعین نہ ہو سکا تو میں نے دونوں ہاتھوں سے بھونپو بنا کر زوردار ’’کوک‘‘ نشر کی۔ چند سیکنڈ بعد کوک کا جواب آیا۔آواز غالباً عالم خان کی تھی۔ میں آواز کی سمت کا تعین نہ کر سکا اور ایک مرتبہ پھر کوک بلند کی۔اس کے جواب میں آنے والی آواز کافی بلند تھی۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ کس سمت جانا ہے۔مزید چند سیکنڈ بعد میں گل رنگ بھول بھلیاں عبور کر کے گلیشئر کے کنارے پہنچ چکا تھا اور مجھے اپنے ساتھیوں کی جیکٹیں نظر آنے لگی تھیں۔ میں نے انھیں چلتے رہنے کا اشارہ کیا اور نہایت سست رفتاری سے اترائی کا سفر طے کرنے لگا۔ ہر قدم پر درد کی شدت میں اضافہ ہو تا گیا اور کچھ دیر بعد یہ درد شدید اذیت میں تبدیل ہو گیا۔ مجھے شک ہوا کہ انگوٹھے کے ناخن کے نیچے خون رسنا شروع ہو گیا ہے۔ ناخن جوگر کے اوپر والے حصے سے ٹکراتا تو مجھے دانتوں پسینا آ جاتا۔میری کوشش تھی کہ چلنے کے دوران پاؤں کے انگوٹھے پر وزن نہ آئے اور ناخن جوگر کے کسی حصے سے نہ ٹکرائے۔ اس غیر فطری انداز کی وجہ سے پنڈلی کے وہ پٹھے بہت زیادہ استعمال ہوئے جو عام حالات میں استعمال نہیں ہوتے۔ ان پٹھوں کو مشقت برداشت کرنے کی عادت نہیں تھی اس لیے بہت جلد جواب دے گئے اور مجھے باقی سفر ایک عذاب کی مانند نظر آنے لگا۔ میری شدید خواہش تھی کہ سفر میں وقفہ کروں اور جوگرز اتار کر چپل پہن لوں۔ فی الحال دونوں باتیں ممکن نہیں تھیں اس لیے دعائیں مانگنا شروع کر دیں کہ میرے ساتھی میرے جتنی تھکاوٹ کا شکار ہو کر ایک طویل وقفہ کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ زخمی پاؤں کی فریاد رنگ لائی اور تھوڑی دیر بعد میں ایک ہموار خطے پر پہنچا جہاں عرفان وغیرہ ٹیڑھے میڑھے انداز میں فرشِ زمین پر استراحت فرما رہے تھے۔میں ان کے نزدیک پہنچ کر ’’اڑ ا ڑا دھم‘‘ ہو گیا۔
’’ڈاکٹر صاحب اس رفتار سے چلتا ہے تو کل نیچے پہنچتا ہے۔‘‘ عالم خان نے خبردار کیا۔
’’ڈاکٹر صاحب ا سی رفتار سے چلے گا۔‘‘ میں نے دھمکی آمیز لہجے میں جواب دیا۔
’’ہم آپ کو نہیں سب کو بولتا ہے۔‘‘
’’میں بھی اس سے تیز نہیں چل سکتا۔‘‘ طاہر نے میرا ساتھ دیا۔
’’کام خراب ہو جائے گا ناں۔ آدھی رات کو اُدھر پہنچے گا تو کیا کرے گا؟‘‘
’’ہمیں کیا پتا کیا کرے گا؟ گائیڈ تم ہو،تمھیں وقت کا اندازہ ہو نا چاہیے تھا۔‘‘ عرفان نے جواب دیا۔
’’سب لوگ اُدھر ایک دن میں پہنچتا ہے۔آپ بھی پہلے کی طرح چلے تو رات سے پہلے پہنچ جاتا ہے۔پتا نہیں آپ لوگ ایک دم سست کیو ں ہو گیا ہے۔‘‘
’’ہم لوگ کا بس ہو گیا ہے۔‘‘ میں نے مختصر جواب دیا۔
’’بس ہونے سے کام نہیں چلتا سر،آپ نہیں چل سکتا تو ایڈوانس پارٹی بھیجو۔‘‘
’’ایڈوانس پارٹی کیا کرے گی؟‘‘
’’ٹینٹ لگائے گا، کھانا تیار کرے گا اور روشنی کرے گا۔ ہم کیمپ سائٹ کا روشنی دیکھ کر اُدھر پہنچے گا۔اندھیرے میں اِدھر اُدھر ہوتا ہے تو چٹنی بن جاتا ہے۔‘‘
’’تم … راستے سے اِدھر اُدھر ہو سکتے ہو؟‘‘ عرفان نے بے یقینی سے سوال کیا۔
’’کیوں نہیں ہو سکتا؟ روز روز تو اِدھر نہیں آتا ناں۔ آس پاس کا نشانی دیکھ کے راستہ بناتا ہے۔اندھیرے میں کوئی چیز نظر نہیں آتا ہے تو ہم کیا کرتا ہے؟‘‘
’’ایڈوانس پارٹی کو راستہ کون بتائے گا؟‘‘
’’میر عالم اور شیر احمد ہے ناں۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے۔انھیں بھیج دو۔‘‘ عرفان نے اجازت دی۔
’’آپ لوگ میں سے کون ساتھ جائے گا؟‘
’’ہم؟ہم کیا کریں گے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ان کا مدد کرے گا سر۔یہ بے چارہ دو آدمی سارا کام نہیں کر سکتا۔‘‘
’’ہم بے چارہ چار آدمی آدھا کام بھی نہیں کر سکتا۔‘‘ میں نے مایوسی سے کہا۔
’’آپ اعتراض نہ کریں تو میں ان کے ساتھ چلا جاؤں ؟‘‘ بھٹہ صاحب نے اپنی رضاکارانہ خدمات پیش کیں۔
’’آپ؟آپ ان کا ساتھ دے سکتے ہیں ؟‘‘ میں حیران ہوا۔
’’میں ان سے پہلے وہاں پہنچوں گا،انشاء اللہ۔‘‘
’’میں بھی آپ کا ساتھ دے سکتا ہوں۔ ‘‘ عرفان نے اعلان کیا۔
’’ہرگز نہیں۔ آپ بھی چلے گئے تو ہم کس کے سہارے کیمپنگ سائٹ تک پہنچیں گے؟‘‘ میں نے احتجاج کیا۔
’’اللہ بڑا کار ساز ہے۔‘‘ عرفان نے کہا۔
بظاہر اُس نے میرے سوال کا جواب دیا تھا … لیکن بلوری آنکھوں میں امڈنے والی شرارت پکار رہی تھی کہ اصل مقصد کچھ اور ہے۔
’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے وضاحت چاہی۔
’’وہ … ابھی چند منٹ پہلے مجھے شدت سے گھریلو ماحول یاد آ رہا تھا۔‘‘
’’پھر؟‘‘ میں اس غیر متوقع جواب پر چونک گیا۔
’’آپ کے الفاظ اور انداز سے مجھے محسوس ہوا کہ منے کی اماں منے کے ابا کو پردیس جانے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ گھریلو ماحول کی اس سے بہتر جھلک اور کیا ہو سکتی ہے؟‘‘
’’لا حول ولا … ‘‘ میں بری طرح جھینپ گیا۔
’’سبحان اللہ۔‘‘ بھٹہ صاحب نے داڑھی کھجائی۔
عالم خان کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے بھٹہ صاحب،شیر احمد اور میر عالم پر مشتمل ایڈوانس پارٹی روانہ ہو گئی۔ میں نے جوگرز اتار کر پاؤں کا جائزہ لیا۔دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں کے نیچے خون جمنے کی تصدیق ہو گئی۔ میں نے چپل پہن کر چلنے کا تجربہ کیا۔یہ تجربہ شدید اذیت ناک ثابت ہوا کیونکہ چپل کی سامنے والی پٹی ناخن سے ٹکراتی تھی اور چپل پہن کر اس انداز میں چلنا ممکن ہی نہیں تھا کہ انگوٹھوں پر زور نہ پڑے۔مجبوراً عالم خان کے جوگرز ایک مرتبہ پھر پاؤں پر ’’چڑھا‘‘ لیے۔ درد کی شدت کم کرنے کے لیے میں نے فلو جن کی ڈبل خوراک استعمال کی اور سفر جاری رکھنے کے لیے تیار ہو گیا۔
اس سفر کے دوران برداشت کی جانے والی درد کی ٹیسوں کی شدت بیان کرنا ممکن نہیں۔ مجھے ایک ایک قدم اٹھانا دو بھر،معاف کیجئے گا،سو بھر محسوس ہو رہا تھا۔ کبھی کبھار اکھڑا ہوا ناخن کسی پتھر سے ٹھوکر کھاتا تھا تو … تو … تو کچھ بھی نہیں ہوتا تھا، میں نہایت اطمینان سے چلتا رہتا تھا۔ مجھے احساس ہو گیا ہے کہ میں سفر نامہ بیان کر رہا ہوں اذیت نامہ تحریر نہیں کر رہا۔ طاہر اپنی تمام تر سست روی کے باوجود عرفان کی معیت میں ’’فارورڈ بلاک‘‘ بنا کر بہت آگے جا چکا تھا۔ میرے اور ان کے درمیان ایک قسم کی آنکھ مچولی جا ری تھی۔طاہر اور عرفان آرام کرنے کے لیے کسی مقام پر تشریف فرما ہو کر میرے پہنچنے کا انتظار کرتے،میں ہانپتا کانپتا اُن تک پہنچتا اور وہ میری جھلک دیکھتے ہی آگے روانہ ہو جاتے۔ مجھے چار و ناچار ان کا ساتھ نبھانا پڑتا۔میری خواہش تھی کہ آرام کے وقفے ذرا طویل ہوں، عرفان چاہتا تھا کہ جلد از جلد طولی بری پہنچ جائیں۔ اس کھینچا تانی میں میرے رگ و پٹھے جواب دیتے جا رہے تھے۔ ایک مقام پر ہم تینوں اکٹھے ہوئے تو میں نے طویل اجتماعی آرام کی درخواست پیش کر دی۔ میرے لہجے میں اتنی بے چارگی، بے بسی اور لجاجت شامل تھی کہ خود مجھے ترس آ گیا۔ عرفان ایک روائتی پاکستانی راہنما ہے۔ عوام الناس پر ترس وغیرہ کھانا اُس کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔
’’ڈاکٹر صاحب چلتے رہیں۔ مغرب سے پہلے طولی بری پہنچنا بہت ضروری ہے۔‘‘
’’جان بوجھ کر آہستہ نہیں چل رہا۔ انگوٹھے کا ناخن اکھڑ نا شروع ہو گیا ہے جس کی وجہ سے چلنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔‘‘ میرے لہجے میں کسی حد تک جھلاہٹ تھی۔
’’ناخن پھر ناخن ہے اکھڑے گا تو جم جائے گا۔‘‘
’’بے شک جم جائے گا،جمنے سے پہلے کباڑا کر جائے گا۔‘‘
’’سر جی ناخن وغیرہ اترنا ٹریک کی سائڈ ڈش ہے۔ اس ٹیسٹ (Taste) کے بغیر ٹریکنگ کا نشہ پورا نہیں ہوتا۔‘‘
’’اس نشیلی ڈش میں درد کا تڑکا ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
’’انگوٹھا سلامت ہے ناں ؟ لنگڑے لولے بھی تو چلتے ہیں۔ ‘‘
میں ششدر رہ گیا۔بے شک لنگڑے لولے چلتے ہیں، لیکن وہ دئینتر پاس ٹریک کرنے کی حماقت نہیں فرماتے۔ ٹریکنگ شو پہلے ہی ٹوٹ گیا تھا،دل کا شیشہ عرفان کے لٹھ مار تبصرے نے چکنا چور کر دیا:
عجب ٹریک پرستوں سے واسطہ تھا مرا
کہ پاؤں میں وہ مرا خونِ جگر نہ دیکھ سکے
میں نے قدرے بوجھل دل کے ساتھ سفر جاری رکھا لیکن اپنی پوری کوشش کے باوجود تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہا۔ فارورڈ بلاک نظروں سے غائب ہو گیا اور میرا دماغ شیطانی خیالات کی آماجگاہ بننے لگا۔
یہ آخر کس قسم کی ٹریکنگ ہے؟میں نے صرف یہی درخواست کی ہے ناں کہ دس پندرہ منٹ آرام کا وقفہ کر لیں۔ وہ بھی اس لیے کہ راستہ واضح نہیں ہے اور بھٹک جانے کے امکانات رد نہیں کیے جا سکتے۔یہ سب لوگ اگر کیمپنگ سائٹ پر پہنچ جاتے ہیں اور میں راستے سے بھٹک کر کسی اور جانب نکل جاتا ہوں، طولی بری نہیں پہنچتا، تو فارورڈ بلاک کیا کرے گا؟ لمبی تان کر سو جائے گا؟عرفان کو ٹریکنگ کے سارے اصول آتے ہیں، وہ اس بنیادی اصول سے ناواقف کیسے ہو سکتا ہے کہ ٹریکنگ انفرادیت کا نہیں اجتماعیت کا درس دیتی ہے۔ ایک مرتبہ اُس نے ٹیم ورک پر لمبا چوڑا لیکچر دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ٹیم ایک اکائی کی مانند ہوتی ہے۔یہ کیسی اکائی ہے جس کا ایک سرا پاؤں گھسیٹ رہا ہے،دوسرا خود کو میراتھن میں شامل سمجھ رہا ہے۔ بیشک کوہ نورد پہاڑی راستوں پر تنہا ہوتا ہے،لیکن مسائل میں مبتلا کسی اجنبی ٹریکر کی ہر ممکن مدد کرتا ہے خواہ اس کی اپنی منزل کھوٹی ہو رہی ہو … وغیرہ وغیرہ … مزید وغیرہ
غم و غصے سے بھرپور خیالات کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ میں نے درد کی شدت سے بے نیاز ہو کر ایک قسط میں کافی فاصلہ طے کر لیا۔
افسوس، صد افسوس … جوں جوں بلندی کم ہوتی گئی جوشِ رفتار عرقِ ندامت میں ڈھلتا گیا، اپنے فاسد خیالات پر شرمندگی کا احساس ہونے لگا،جذبات کے ریلے میں بہہ کر تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے والے پٹھوں نے اپنی اوقات میں آ کر حرکت جاری رکھنے سے انکار کر دیا اور میں ایک بڑے پتھر پر لم لیٹ ہو کر بے حس و حرکت ہو گیا۔ورنہ … ورنہ … آپ کو یقین کیوں نہیں آتا کہ میں طولی بری کیمپنگ سائٹ پیچھے چھوڑ کر تالنگ پہنچ جاتا، فارورڈ بلاک اپنا سا منہ لے کے رہ جاتا۔
سورج دھیرے دھیرے بلندیوں کی اوٹ میں روپوش ہوتا جا رہا تھا اور چمکیلی سبز پوش پہاڑیاں گہرے مٹیالے رنگ میں رنگتی جا رہی تھیں۔ اس رومان پرور ماحول کا پُر کیف سناٹا نشہ بن کر رگ و پے میں اترنے لگا اور میں مدہوش ہو گیا۔ نہ جانے کتنی دیر بعد عالم خان نے بازو ہلا کر مجھے بیدار کرنے کی کوشش کی:
’’ڈاکٹر صاحب چلتا ہے یا رات ادھر ٹھہرتا ہے؟‘‘
’’ڈاکٹر صاحب بالکل نہیں چلتا،ادھر ٹھہرے گا۔تم میرا سلیپنگ بیگ یہیں لے آؤ۔‘‘ میں نے غنودگی سے بھرپور لہجے میں فرمائش کی۔
’’ٹھیک ہو گیا سر۔سانپ کاٹنے والا ٹیکہ تو ہو گا ناں آپ کے پاس؟‘‘
’’سانپ؟اوئے سانپ کا یہاں کا کام؟‘‘ میں نہایت پھرتی سے اٹھ بیٹھا۔
’’سانپ کا کام جھاڑی میں نہیں ہو تا ہے تو کدھر ہوتا ہے؟‘‘
’’وہ … سانپ … خطرناک … میرا مطلب ہے اس علاقے کا سانپ زہریلا تو نہیں ہوتا ؟‘‘ رُک سیک آٹومیٹک انداز میں میرے کاندھے پر سوار ہو گیا۔
’’زیادہ زہری نہیں ہوتا ناں۔ پانچ سات زو کو ڈس لے تو دو تین بچ جاتا ہے۔‘‘
’’اور تین چار؟‘‘
’’وہ مر جاتا ہے ناں۔ ‘‘
’’عالم خاں۔ ‘‘ میں نے شاہانہ لہجہ اختیار کیا۔
’’جی سر۔‘‘
’’سر نہیں، شہنشاہ گیتی پناہ کہو گستاخ گائیڈ … اور بقائمی ہوش و حواس گوش نشین کر لو کہ مابدولت بہت آزردہ خاطر ہوئے۔طاہر جیسے بندگانِ سست رفتار نے منزل کو جالیا … ہم محو نالہ دردِ بے سُرا رہے۔کیوں نہ تمھیں زندانِ تیرہ شب کا دائمی اسیر بنا دیا جائے؟‘‘
’’آپ ٹھیک تو ہے ناں سر؟پتا نہیں کیا بول رہا ہے۔‘‘ عالم خان پریشان ہو گیا۔
’’میں کہہ رہا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب چلتا نہیں دوڑتا ہے۔تم چلتے کیوں نہیں ؟‘‘
عالم خان ہنسنے لگا۔
’’سچ بولتا ہوں سر آپ نے ہمارا دماغ گھما دیا ہے۔‘‘
’’کیوں گھما دیا ہے؟‘‘
’’صبح کے ٹائم آپ نے طبعیت خوش کر دیا تھا۔ ہمارا خیال تھا آپ چڑھائی پر اتنا اچھا چلتا ہے تو اترتے وقت سب کو پیچھے چھوڑے گا۔مگر آپ تو بالکل ڈھے گیا ہے۔ آپ کی وجہ سے سب لوگ پریشان ہوتا ہے۔‘‘
’’تمھیں اندازہ ہے کہ پاؤں کے انگوٹھے کا ناخن اکھڑ جائے تو کتنا درد ہوتا ہے؟‘‘
’’ہم کو اندازہ نہیں ہے، مگر آپ کو بھی اندازہ نہیں ہے کہ راستے میں رات پڑتا ہے تو کتنا بڑا مصیبت پڑتا ہے۔اس لیے تھوڑا ہمت کرو۔‘‘
میں نے ہمت کرنا شروع کی لیکن بہت زیادہ ڈھلواں اترائی پر چیخیں نکلتی رہیں۔ عالم خان مجھے تیز چلانے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔ایک مقام پر اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر سہارا دینے بلکہ کھینچنے کی کوشش کی۔اس کا خیال تھا کہ میں خوف کی وجہ سے اترتے ہوئے جھجک رہا ہوں۔ میں نے اس کھینچا تانی کے خلاف مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو اس نے لاتعلقی سے گردن جھٹکی اور آگے روانہ ہو گیا۔
قافلہ منزل پہ پہنچا اور سارے ہم سفر
مثلِ گردِ کارواں اک میں بچھڑ کے رہ گیا
مجھے اب اترائی کا اختتام، اس اختتام پر بہنے والے پہاڑی نالے کے کنارے موجود دیو قامت پتھر اور نالے کے ساتھ ساتھ کیمپنگ سائٹ تک جانے والی پگڈنڈی نظر آنا شروع ہو گئی تھی۔ ابھی بہت راستہ باقی تھا لیکن بھٹکنے کے امکانات ختم ہونے کے ساتھ ہی ایک نئی ترنگ نے اپنا رنگ جمایا اور میں عالم خان کا ’’غدارانہ‘‘ فرار نظر انداز کر کے ارد گرد کے مناظر پر توجہ دینے لگا۔ مجھے سب سے زیادہ افسوس اس بات پر ہوا کہ سورج میری لا علمی میں غروب ہو گیا اور میں ’’غیر صحتمندانہ‘‘ سر گرمیوں میں الجھ کر اس خوبصورت منظر کی دلکشی سے محروم رہ گیا۔
اترائی کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے رات کے ساڑھے نو بج گئے۔چاروں طرف گھٹا ٹوپ اندھیرے کا راج تھا۔پہاڑی نالے کا شورِ قیامت تھا۔ دیو قامت پتھر تھے۔ پگڈنڈی نظر نہیں آ رہی تھی۔ آنتیں قل ھو اللہ پڑھ رہی تھیں۔ پٹھوں نے مزید ہلنے جلنے سے انکار کر دیا تھا۔ پیاس کی شدت سے حلق میں کانٹے پڑ رہے تھے۔میرا خیال تھا کہ نیچے پہنچوں گا تو کیمپ میں روشن ہونے والی آگ نظر آ جائے گی اور کیمپ تک پہنچنے میں دشواری نہیں ہو گی۔ کیمپ شاید کسی بلندی کی اوٹ میں تھا اس لیے وہاں ہونے والی روشنی نظروں سے اوجھل تھی۔مجھے یہ اطمینان ضرور تھا کہ کیمپ کہیں آس پاس ہی ہے اور اترائی ختم ہو چکی ہے۔میں نے رک سیک نیچے پٹخا اور نالے کے کنارے بیٹھ کر تھکے ہوئے جانور کی طرح پیاس بجھانے لگا۔
پانی پینے سے جان میں جان آئی۔
ایک روشنی مجھے اپنی جانب آتی نظر آئی تو مزید جان میں جان آئی۔یہ روشنی ایک ٹارچ سے پھوٹ رہی تھی اور ٹارچ کے دوسرے سرے پر میر عالم تھا۔
’’پہنچ گیا صاب؟کیا حال مال اے؟‘‘
’’ٹھیک ہے۔کیمپ کہاں ہے؟‘‘ میں کم سے کم الفاظ استعمال کرنا چاہتا تھا۔
’’اب تو پہنچ گیا ناں۔ بس پندرہ بیس منٹ اور چلے گا۔‘‘
’’پندرہ بیس منٹ؟‘‘
میر عالم کے پندرہ بیس منٹ میرے ایک گھنٹے سے زیادہ طویل ہو سکتے تھے۔
’’اب کیا فکر کرتا اے صاب۔بیس منٹ ایک سیکنڈ میں گزر جاتا اے۔‘‘
میں نے رک سیک اٹھانے کی کوشش کی لیکن میر عالم نے مجھے اس زحمت سے بچا لیا۔ رک سیک سے نجات حاصل کرنے کے باوجود میری چال ڈھال سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ میں عالم خان کے بقول پوری طرح ’’ڈھے‘‘ چکا ہوں اور قدم اٹھانے میں شدید دشواری ہو رہی ہے۔ میر عالم نے آفر کی:
’’سر چلا نہیں جا تا تو گدھا لائے آپ کے لیے؟‘‘
’’گدھا کہاں سے آئے گا؟‘‘
’’ کیمپ کے پاس بستی ہوتا اے ناں۔ اُدر ام نے کئی گدھا دیکھا اے۔‘‘
’’وہ میرے ساتھی ہوں گے۔‘‘
’’نئی صاب وہ گدھا اے۔‘‘ اس نے یقین دلایا۔
’’میرا خیال ہے تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔میں طولی بری پہنچتے ہی اپنے ساتھیوں کو بتا دوں گا کہ تم انھیں گدھا سمجھ رہے تھے۔‘‘
’’ابی خدا کا خوف کرو صاب۔ام ایسا بات کیوں بولے گا؟ام آپ کو یہ بتاتا اے کہ اُدر علاقے کا لوگ موجود اے۔ان کے ساتھ گدھا بی اے۔آپ بولتا اے تو ام گدھا لاتا اے۔ مگر آپ کدر پہنچ کر عرفان صاب کو بتانے کی بات کرتا اے؟‘‘
’’طولی بری؟‘‘ میں اس کے سوال پر حیران ہوا۔
’’یہ کدر ہوتا اے؟‘‘
’’جہاں ہم جا رہے ہیں۔ اس ٹریک کی آخری کیمپ سائٹ۔‘‘
’’ام تھولائی بر جاتا اے۔طولی بری وری نئی جاتا۔‘‘
’’کتابوں میں طولی بری لکھا ہے۔‘‘
’’ٹیک نئی لکھا ناں۔ ‘‘ اُس نے پورے اعتماد سے جواب دیا۔’’اب بولو گدھا لاتا اے کہ نئی لاتا۔‘‘
’’گدھا لانے اور لے جانے میں جتنا وقت لگے گا اتنی دیر میں طولی بری یا تھولائی بر پہنچ نہیں جائیں گے؟‘‘
’’آپ چلتا اے تو بڑے آرام سے پہنچتا اے۔‘‘
تھولائی بر پہنچ کر تصدیق ہو گئی کہToliberiیاTolyberi جیسے مرضی لکھا جاتا ہو، اس کا مقامی تلفظ تھولائی بر ہے۔ انٹرنیٹ سائٹس یا انگریزی میں لکھی ہوئی گائیڈ بکس سے حاصل کی گئی معلومات میں درست تلفظ کا پتا نہیں چلتا۔آپ کے ساتھ اگر گائیڈ نہیں ہے اور راستہ بھٹک گئے ہیں تو طولی بری طولی بری کرتے ہلکان ہو جائیں گے،کوئی شریف آدمی آپ کو تھولائی بر کا راستہ بتانے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکے گا۔
میں دس بجے کے لگ بھگ پاؤں میں چھالے لب پر نالے لیے ہوئے کیمپ سائٹ میں داخل ہوا:
پہنچا تھولائی بر میں جو میں اک سفر کے بعد
تو حال میرا دشت کے مجنوں سے کم نہ تھا
دشت کا مجنوں تھکا ہوا ضرور تھا لیکن کامیابی کے نشے سے مخمور تھا۔آج کا دن میری ٹریکنگ لائف کا سخت ترین دن تھا،لیکن یہ ایک یادگار دن بھی تھا۔ آج طاری ہونے والی تھکاوٹ کی شدت کو الفاظ میں ڈھالنا ممکن نہیں، محسوس ہوتا تھا کہ جسم کی ساری توانائی نچوڑ لی گئی ہے۔آج کے سفر کے دوران قدم قدم پر نصیب ہونے والی شادمانی اور سرشاری کو بھی الفاظ کا جامہ پہنانا ممکن نہیں، لگتا تھا فطرت نے اپنی تمام لطافتیں چن چن کر میرے ڈگمگاتے قدموں تلے بچھا دی ہیں۔ دئینتر پاس تیرا شکریہ … میں کہاں کہاں سے گزر گیا۔
عالم خان نے پاس عبور کرنے کی خوشی میں چکن کڑاہی کے کئی ڈبے توڑ ڈالے تھے اور انھیں مزید فرائی کرنے کے لیے بہک والوں سے تازہ مکھن اور دہی خریدا گیا تھا۔ کھانے کے بعد کیمپ فائر کا پروگرام تھا لیکن میں کسی قسم کی سرگرمی میں حصہ لینے کے قابل نہیں تھا،اس لیے درد کش دواؤں کی ڈبل خوراک لینے اور اکھڑے ہوئے ناخن پر سنی پلاسٹ لگانے کے بعد پیشگی نصب کیے گئے خیمے میں میٹریس بچھا کر چاروں شانے چت ہو گیا۔
سونے سے پہلے مجھے ایڈوانس پارٹی کی خدمات کا احساس ہوا۔میں طولی بری پہنچتا اور اُس کے بعد خیمے لگانے اور کھانا پکانے کے انتظامات شروع ہوتے تو؟ بھٹہ صاحب کے’’ذوقِ ایڈوانسیت‘‘ کو ڈھیروں سلام۔

ڈاکٹر محمد اقبال ہما

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button