- Advertisement -

سفرنامہ بھارت – پانچویں قسط

ایک سفرنامہ از حسن عباسی

سفرنامہ بھارت

سکندر لودھی نے جب سولہویں صدی کی ابتدا میں دریائے جمنا کے مغربی کنارے پر آباد آگرہ کو اپنا پایہ تخت بنایا تو اس کے خواب وخیال میںبھی نہ ہو گا کہ آگے چل کر یہ شہر مغلیہ جاہ وجلال کی ایک علامت بن جائے گا۔ بابر اور ہمایوں نے بھی یہاں کچھ تعمیرات کیں لیکن اکبر اعظم کے دور میں اس شہر نے خصوصی اہمیت حاصل کی۔ اس میں کچھ دخل اکبر کے پایہ ¿ تخت فتح پور سیکری اور آگرہ کی قربت کو بھی ہو گا۔ لاہور سے واپسی پر تو اکبر آگرہ ہی میں قیام پذیر ہوا اور اپنی وفات تک یہاں رہا۔

جہانگیر کشمیر کا عاشق تھا سو آگرہ کو زیادہ توجہ نہ دی لیکن شاہ جہاں کا نام تو آگرہ کے ساتھ لازم وملزوم ہو گیا۔ آگرہ کے قلعے کی بیش تر تعمیرات اور جامع مسجد اپنی جگہ لیکن”تاج محل“ کا کیا کہیے۔ درالحکومت تو ۸۳۶۱ءمیں دہلی منتقل ہو گیا مگر تاج کی بدولت آگرہ کو جو خصوصی اہمیت حاصل ہوئی وہ آج تک برقرار ہے۔

۱۶۷۱ میں جاٹوں اور ۰۷۷۱ میں مراٹھوں کے ہاتھوں اس شہر پر مشکل وقت بھی آئے لیکن اس شہر کی یادگاریں یہ امتحان جھیل ہی گئیں۔ ۷۵۸۱ کی جنگ آزادی میں بھی آگرہ ایک اہم محاذ تھا۔

——٭٭٭——

کیا اسیری تھی کیا رہائی تھی!

آگرہ پہنچ کر میری حالت اُس غریب عاشق جیسی تھی جسے کسی شہزادی سے عشق ہو گیا ہو اور آج ان کی پہلی ملاقات ہو۔ میں جتنا خوش تھا اُتنا گھبرایا ہوا بھی تھا۔ محبت کرنے والے میرے دل کی کیفیت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ صرف وہ شخص میری آنکھوں کی بے قراری کو سمجھ سکتا ہے جس نے برسوں کسی کی راہ دیکھی ہو۔

صدیوں کسی کا انتظار کیا ہو مجھے بھی یوں لگ رہا تھا جیسے میں صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا ہوں۔ ہم آگرہ شہر سے گذر کر تاج محل کے دروازے تک پہنچے تھے۔ مگر میںآگرہ کیا دیکھتا آنکھیں تاج محل کی طرح سفید ہو گئیں تھیں۔ کچھ اوردیکھنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ ٹریفک سے بھری بھری سڑکیں گزری ہوں گی۔ بازراوں میں چہل پہل بھی ہوگی۔ دوکانوں میںرونق بھی ہوگی۔ پارکوں میں فطرت کا حسن بھی ہوگا۔ سب جگہ لوگ بھی ہوں گے۔ مگر میری آنکھوں میں تو صرف ایک منظر سما گیا تھا۔ وہ منظر تاج محل کا۔

بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوئے تو باغ ہی باغ محل کہیں نظر نہ آتا تھا۔ ہر طرف درخت تھے، سبزہ تھا، پھول تھے، سیاحوں کا ہجوم تھا۔ محبت کی اس یاد گار کو دیکھنے دنیا کے کونے کونے سے لوگ یہاں آئے ہوئے تھے۔

سب دلوں میں ایک خواہش تھی سب آنکھوں میں ایک سپنا تھا تاج محل کو ایک بار دیکھنے کی خواہش تاج محل کو ایک بار چھونے کا سپنا اندرونی دروازے تک پہنچنے کا راستہ یا تو واقعی طویل تھا یا شوق نظارہ نے اسے طویل کر دیا تھا۔

نہ تو باغیچے ختم ہوتے تھے اور نہ ہی بے قراری۔ اندرونی دروازہ دور سے نظر آیا تو سب چہروں پر خوشی پھیل گئی۔ ویسی خوشی جو انسان کو خوبصورت بناتی ہے۔ دورازے کے قریب پہنچنے کی دیر تھی کہ فوٹو گرافروں کے ہجوم نے گھیر لیا چونکہ ان کا تعلق کسی اخبار سے نہ تھا اس لےے ہم نے اُنھیں اپنی تصویر بنانے کی اجازت نہ دی بلکہ اپنا کیمرہ گلے میں ڈال لیا تا کہ حجت تمام ہو جائے۔

اپنا کیمرہ لےے بغیر تاج محل دیکھنے آنا ایسے ہی ہے جیسے نظر کی عینک گھر بھول کر کسی لائبریری میںمطالعہ کے لےے جانا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ سب لوگ یہاں تاج محل کے ساتھ تصویر بنوانے ہی آتے ہیں تاکہ واپس جا کر اپنے رشتہ داروں، احباب اور دوستوں کو فخریہ انداز میں دکھا سکیں کہ دیکھو ہم تاج محل دیکھ کر آئے ہیں۔

حکمران یہاںآئیں یا عوام…….

سب کے دلوں میں ایک اُمنگ ضرور ہوتی ہے، تاج محل کے پہلو میں ایک یاد گار تصویر۔ دروازے کی ساخت اور بناوٹ ایسی ہے کہ پہلے ڈیوڑھی نما دروازے سے گذر کر چند قدم چلنا پڑتا ہے۔ تاج محل آہستہ آہستہ آنکھوں کے سامنے آشکار ہوتا ہے پہلے دائیں طرف کے مینار پھر عمارت اور گنبد ان کے بعد بائیں طرف کے مینار جیسے چلمن کی اوٹ سے کوئی ماہ جبیں شرماتی ہوئی سامنے آجائے۔

اس میں شاید یہ مصلحت ہو کہ دیکھنے والا اچانک اس قدر خوبصورت منظر دیکھ کر پاگل نہ ہو جائے یا اہل محبت میں سے کوئی مر نہ جائے بقول: ادریس بابر

میں کسی وقت بھی مر سکتا ہوں

دوست اندر سے محبت ہے مجھے

میں نے پہلی نظر تاج محل پر ڈالی تو یوں لگا جیسے مجھے ابھی ابھی آنکھیں ملی ہیں اور میں زندگی کا حُسن پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ میں نے تو سوچا تھا جیسے ہی تاج محل پر میں پہلی نظر ڈالوں گا میرے دل کی دھڑکن رک جائے گی اور مجھے بھی شاہجہاں اور ممتاز محل کے ساتھ اس میں ابدی آرام کے لےے جگہ مل جائے گی مگر مجھے تو یوں لگا۔ جیسے دل آج پہلی بار دھڑکا ہو۔

ترے نزدیک آکر سوچتا ہوں

میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں

سچ مچ یوں لگ رہا تھا جیسے میں ابھی زندہ ہوا ہوں۔ تاج محل کو دیکھ کر آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔

فضائے صبحِ تبسم بہار تھی لیکن

پہنچ کے منزلِ جاناں پہ آنکھ بھر آئی

تاج محل کی خوبصورتی کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا حُسن تو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

جو دیکھے گا وہی اس کی سندرتا کو جان سکتا ہے جس طرح محبت کے بارے میں بتانا مشکل ہے کہ محبت کیا ہے؟

جانتا ہوں سو بتا سکتا نہیں

ہے محبت کیا؟ یہ پوچھا مت کرو

جیسے محبت اپنا اپنا تجربہ ہے۔

محبت کی اس یادگار کو دیکھنے کا بھی ہر شخص کا زوایہ ¿ نگاہ الگ ہے۔

تیراکی پر کوئی اچھی سی کتاب پڑھ لینے یا لیکچر سن لینے سے تیراکی نہیں آتی اس کے لےے تو پانی میں اُترنا پڑتا ہے تب جا کر پتہ چلتا ہے۔ یہی معاملہ محبت اور محبت کی اس یادگار کا ہے۔

تاج محل کو جب تک جاگتی آنکھوں سے نہ دیکھا جائے اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ کیسا ہو گا۔

تصویر میں تو اس کے حُسن کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ محبت کی طرح محبت کی یاد گار بھی ہوش اُڑانے والی، اردگرد سے بیگانہ کر دینے والی اور اپنے حُسن کا اسیر بنانے والی ہے۔ نظریں ہٹانا تو دور کی بات پلکیں جھپکنے کو جی نہیں چاہتا۔ تصویریں دیکھ کر میں نے اپنے ذہن میں تاج محل کا جو خاکہ بنایا ہوا تھا یہ تو اس سے بالکل مختلف اور جدا تھا۔

تاج محل کے مینار آسمان سے باتیں کر رہے تھے یا آسمان تاج کا بوسہ لینے کے لےے جھکا ہوا تھا۔

یہ ایک معمّا تھا۔

تاج محل کی سنگ مرمر کی عمارت کے سامنے سب کچھ میلا میلا سا لگ رہا تھا۔

کیا زمین۔

کیا آسمان۔

کیا سورج۔

میرے خیال میں تاج محل دنیا کا آٹھواں نہیں بلکہ پہلا اور آخری عجوبہ ہے۔

تاج محل کے پہلے نظارہ نے ہی مجھے اپنا اسیر بنا لیا۔ محاورةً بھی اور حقیقت میں بھی ”انڈین انٹیلی جینس نے ہمیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا“ اگر آپ بھی پہلی بار تاج محل دیکھنے جا رہے ہیں اور تھانے میں اپنی آمد کی رپورٹ بھی درج نہیں کرائی۔ فارنرز والی طویل لائن میں بھی نہیں لگنا چاہتے۔ 750 روپے کی بجائے 20 روپے والا ٹکٹ جو کہ انڈین کے لےے ہے لے کر داخل ہونا چاہتے ہیں تو میں آپ سے بنتی (درخواست) کرتا ہوں کہ اپنے ساتھ پاکستانی سگریٹ خاص کر گولڈ لیف کی ڈبی ضرور لے کر جائیں اور اپنا ثقافتی لباس شلوار قمیض پہن کر جائیں تا کہ آپ بھی تاج محل کی محبت میں آسانی سے گرفتار ہو سکیں۔ ہمارے ساتھیوں نے بھی یہی کیا تھا تلاشی کے دوران ایک کی جیب سے گولڈ لیف کی ڈبی نکلی۔ انٹیلی جینس والوں نے ریکی کی۔ شلوار قمیض میں ملبوس عنایت اللہ عاجز پکڑا گیا۔

تاج محل کو دیکھ کر جو خوشی ہوئی تھی وہ ایک لمحے میں ہوا ہو گئی مگر دوسرے ہی لمحے کچھ حوصلہ ہوا انٹیلی جینس آفیسر نے کہا ”آپ سب آرام سے جب تک چاہیں تاج محل دیکھیں مگر واپس جانے کا خیال دل سے نکال دیں“۔

ہم سب کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہیں تھیں۔ میں نے پاس کھڑے ہوئے عابد گوندل سے اس جرم کی سزا پوچھی تو اس نے دانت پیستے ہوئے کہا:

”چھ ماہ قید با مشقت“۔

تاج محل کو دیکھنے کی یہ قیمت تو کچھ بھی نہ تھی۔ ہم نے یہاں کچھ تصویریں بنائیں اور پھر تاج محل کی طرف چل پڑے۔

البتہ اس واقعہ کی وجہ سے نہ تو دل کی دھڑکن متوزان تھی اور نہ ہی چال۔ ایک بار دل تاج محل کے جمال سے دھڑکتا تھا اور دوسری بار جیل کے خیال سے بجھ جاتا تھا۔

کیا اسیری تھی کیا رہائی تھی!

سیڑھیاں چڑھ کر میں تاج محل کے احاطہ میں پہنچا تو جیسے ایک جنت سے دوسری میں آگیا یقین نہیں آرہا تھا۔

کچھ خواب بھی حقیقت جیسے لگتے ہیں اور کچھ حقیقتیں بھی خواب جیسی ہوتی ہیں۔

یہ حقیقت بھی خواب جیسی تھی۔ ہر قدم پر آنکھ کھل جانے کا دھڑکا لاحق تھا۔ سنگ مرمر سے بنا بے داغ بے جوڑ تاج محل میرے سامنے تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اللہ کی تخلیقات میں انسان سب سے اعلیٰ تخلیق ہے تو انسان کی تخلیقات میں تاج محل سے اچھی اور کوئی تخلیق نہیں ہو سکتی۔

مجھے لڑکپن کے دن یاد آرہے تھے۔ اپنا شہر، نہر، اسٹیشن اور تاج محل کی طرف جانے والا راستہ یاد آرہا تھا۔ اس راستے کے رنگ برنگے سانپوںجیسے پتھر یاد آرہے تھے۔ اپنا جنون، ولولہ اور شوق یاد آرہا تھا۔ اپنے ماموں کی باتیں یاد آرہیں تھیں جو وہ تاج محل کے بارے میں سنایا کرتے تھے اور میرے شوق کو مہمیز ملتی تھی۔ میں اِنھی یادوں میں گم نجانے کتنی دیر سے تاج محل کے سامنے کھڑا تھا کہ اچانک میرے کانوں میں کسی نے سرگوشی کی۔

”اسٹیشن ماسٹر کی بیٹی تاج محل سے بھی زیادہ خوبصورت تھی“۔

مجھے اسٹیشن ماسٹر کا کوارٹر اور پلیٹ فارم پر پڑا وہ خستہ حال بنچ یاد آگیا جس پر میں بیٹھ کر کوارٹر کے دروازے کی طرف گھنٹوں دیکھتا رہتا مگر وہ تاج محل سے بھی خوبصورت لڑکی کبھی نظر نہ آئی۔

اگر حُسن توازن کا نام ہے تو تاج محل روئے زمین پر اس کی سب سے بڑی مثال کے طور پر ایستادہ ہے۔ محل کے دونوں طرف سرخ پتھر سے بنی عمارتیں اس کے حُسن اور دلکشی میں اضافہ کرتی ہیں۔ جمناندی مجھے شاہ جہاں کے دور کی کوئی کنیز لگ رہی تھی جس نے تاج کو ایک نظر دیکھا اور اس پر دل وجان سے فدا ہو گئی۔ اس کے رستے میں بچھ بچھ گئی۔ شرم وحیا کے پردے چاک کر کے اس کے پہلو میں بڑے مزے سے لیٹ گئی ساڑھے چار سو سال ہونے کو آئے ابھی تک لیٹی ہوئی ہے۔ اس عرصہ میں نہ تو اس نے پہلو بدلا اور نہ ہی اپنی نظریں تاج پر سے ہٹائیں اب تو وہ اس کے جسم کا حصہ بن چکی ہے۔

چاندنی راتوں میں جب تاج محل کا عکس اس کے پانیوں میں پڑتا ہے تو اس کے من کی سب مرادیں پوری ہو جاتی ہیں۔

میں جمنا ندی کی قسمت پر رشک کر رہا تھا اور میرے سامنے تاج محل پورے غرور کے ساتھ جلوہ فگن تھا۔ غرور بھی دل موہ لینے والا

غرور جچتا نہیں کسی کو

مگر تمھارا غلط نہیں ہے

تاج محل کا غرور درست ہے۔ اس غرور اور تمکنت سے ہی اس کا حُسن مکمل ہوتا ہے۔ ہر لمحہ اس کی رنگت بدل جاتی۔ نئی خوبصورتی اور حُسن آشکار ہو جاتا ہے آج مجھے پہلی بار یقین آیا تھا کہ سفید رنگ میں سات رنگ ہوتے ہیں۔ میں نے اس کی سفیدی میں کئی قوس وقزح دیکھے۔ تاج محل کو جس طرف سے بھی دیکھیں ایک جیسا نظر آئے گا ایسے لگتا ہے جیسے زمین پر ابھی ابھی کھلا ہو۔ تروتازہ سفید گلاب کی طرح یا پھر آسمان سے فرشتے اسے بھی ابھی زمین پر لے کر آئے ہوں۔

انسانی ہاتھوں کا بنایا ہوا تو بالکل نہیں لگتا۔

اچانک میرے کانوں میں پھر کسی نے آہستگی سے کہا:

”وہ تاج محل سے بھی زیادہ خوبصورت اور دلکش تھی“۔

تاج محل کے پہلو سے ایک چہرہ نمودار ہوا اور غائب ہو گیا۔

بس ایک نگاہ میں لٹتا ہے قافلہ دل کا

یہ میرا وہم تھا یا حقیقت؟

کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ میں اس کونے کی جانب تیزی سے بڑھنے لگا وہاں پہنچا تو صرف خوشبو تھی بالکل ویسی خوشبو جیسی بارش کے بعد کچی مٹی کے بدن سے فضا میں بکھر جاتی ہے۔ میری نظریں بے ساختہ اسے ادھر اُدھر ڈھونڈ رہیں تھیں کہ گھنی سیاہ زلفیں شانوں پر بکھرائے وہ محل کے دوسرے سرے سے نمودار ہوئی وارث شاہ نے جو ہیر کا سراپا اپنے اشعار میں بیان کیا ہے اس کی عملی تصویر۔

وہ جتنی تیزی سے نمودار ہوتی اتنی ہی تیزی سے غائب بھی ہو جاتی۔ اب مجھے یقین ہو گیا سچ مچ وہاں کوئی ہے۔ میں دوڑ کر اس سرے پر پہنچا تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ سیاحوں کا ہجوم تھا۔ اس کو اس ہجوم میں پہچاننا بہت آسان تھا مگر وہ کہیں دکھائی نہ دی میں کافی دیر تک تاج محل کے چاروں طرف گھومتا رہا میں اب محل کو بھول کر اس ممتاز محل کو ڈھونڈنے میں مگن تھا جو مجھے اس کی اوٹ میں نظر آئی تھی کافی دیر بعد بھی جب وہ کہیں نظر نہ آئی تو میں تھک کر تاج محل کے پہلو میں بیٹھ گیا۔

باہر انڈین انٹیلی جینس کے جوان ہمیں گرفتار کرنے کے منتظر تھے۔ اِدھر تاج محل کی دلکشی نے ہمیں جکڑ رکھا تھا اور اب وہ اجنبی گھنی سیاہ زلفیں بھی ہمیں اپنا اسیر کر چکی تھیں۔ پھر بھی دل کو عجیب سا سکون اور اطمینان تھا شاعر نے شاید ایسی ہی صورتحال میں کہا ہو گا۔

گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے۔

تاج محل کے پہلو میں واقعی بہت آرام تھا۔ بہت سکون تھا وہی سکون وآرام جو عبادت گاہوں میں ہوتا ہے۔ میری آنکھ لگنے ہی والی تھی کہ مدھر ہنسی فضا میں بکھرتی گئی میں نے آنکھیں کھولیں تو وہ تاج محل کے پہلو میں کھڑی ہنس رہی تھی سفید آنچل کی اوٹ سے اس کا چہرہ صاف دکھائی دیتا تھا۔

یوں لگتا تھا جیسے تاج محل کے پہلو سے ایک اور تاج محل نکل آیا ہو۔ ساڑھے چار سو سال پرانا نہیں بالکل تروتازہ جیسے ابھی مکمل ہوا ہو۔ سراپا کیا تھا بقول میر:

سراپا پہ جس جا نظر کیجئے

وہیں عمر ساری بسر کیجئے

وہ سچ مچ تاج محل سے کہیں زیادہ سندر تھی۔

اس کے اندر روح تھی

اور تاج محل بے روح

اس کو دیکھ کر میری آنکھوںمیں تاج محل کا طلسم ٹوٹ رہا تھا۔

میری خواہش تھی کہ میں تاج محل کے سائے میں بیٹھ کر اُن سب لوگوں کو یاد کروں جو مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ ان سب کو دیر تک سوچوں جن سے میں محبت کرتا ہوں۔

تاج محل جیسی ایک خوبصورت نظم لکھوں مگر اس سے کہیں زیادہ پیاری نظم تو میرے آس پاس تھی ہنستی، مسکراتی، شرماتی، جادو جگاتی۔

اچانک مجھے خیال آیا کہ جس کے لےے تاج محل بنایا گیا ہے وہ خود کتنی سندر ہوگی۔

میرا دل زور سے دھڑکنے لگا۔

کہیں یہ ارجمند بانو کی روح تو نہیں سیر کر رہی، کہیں یہ ممتاز محل تو نہیں جو شاہ جہاں کے دل پر حکومت کرتی رہی ہے۔

کہیں یہ وہ لڑکی تو نہیں جس نے ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے۔

اس نے پہلی بار ایک نظر میری طرف دیکھا اور مسکرا دی مجھے اپنے سوالوں کا جواب مل چکا تھا میرا شک یقین میںبدل گیا تھا۔

وہ ممتاز محل کی مسکراہٹ تھی۔

ایک طرف ہیں دونوں جہان

ایک طرف تیری مسکان

گوری تیرے جوبن پر

لاکھوں تاج محل قربان

ان آنکھوں کی خاموشی

جیسے بارش کا امکان

ان ہونٹوں کی لرزش سے

اُٹھتے ہیں کیا کیا طوفان

ان پلکوں کی جنبش سے

مردہ دلوں میں آئے جان

جب میں یہ ٹوٹے پھوٹے شعر ارجمند بانو کے قدموں میں رکھنے کے لےے لکھ رہا تھا قریب بیٹھی ایک خاتون ٹیچر اپنے طلبا کو تاج محل کی کہانی سنا رہی تھی۔

”ہندوستان کے ایک عظیم بادشاہ شاہ جہاں اور ارجمند بانو کی شادی 1612ءمیں ہوئی۔ ممتاز محل اس وقت خوبصورتی اور حُسن میںاپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ شاہ جہاں بھی اپنی ملکہ پر لاکھ دل وجان سے فدا تھا وہ ہر وقت ارجمند بانو کو اپنے ساتھ رکھتا۔

اسے ممتاز محل کے کھو جانے کا ایک دھڑکا سا لگا رہتا جیسے وہ کوئی چھوٹی سی معصوم بچی ہو وہ تو واقعی معصوم تھی جوانی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی وہ شاہ جہاں کی مضبوط بانہوں میں آگئی تھی اور اٹھارہ سال تک بادشاہ نے اسے اپنی بانہوں سے باہر نہیں آنے دیا یہاں تک کہ وہ فوجی مہمات کے دوران بھی اُسے اپنے ساتھ رکھتا تھا۔

1630ءمیں ملکہ جب آخری بچے کو جنم دیتے ہوئے بہت بیمار ہو گئی تو انتقال سے قبل اس نے شاہجہاں کی بانہوں میں اس سے دو وعدے لیے ایک یہ کہ اس کی وفات کے بعد اس کا ایک شاندار مقبرہ تعمیر کیا جائے جو اپنی مثال آپ ہو دوسرا کسی اور سے شادی نہ کرنے کا۔ شاہ جہاں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اور اپنے آنسوﺅں کو گواہ بناتے ہوئے دونوں وعدے کر لیے ممتاز محل کو شاہ جہاں کے وعدوں پر اعتبار تھا اس نے بڑے اطمینان اور سکون کے ساتھ اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی شاہ جہاں نے اپنے دونوں وعدے پورے کےے۔

ایک تو اس نے عمر بھر پھر شادی نہیں کی دوسرا ممتاز محل کی وفات کے فوراً بعد ہی اس کی خواہش کے احترام میں مقبرہ کی تعمیر شروع کرا دی اور ممتاز محل سے اپنی محبت کو تاج محل کی صورت میں امر کر دیا۔ فنِ تعمیر کا یہ نادر نمونہ دروازہ، باغیچہ، مسجد، آرام گاہ اور روضہ پر مشتمل ہے اس کی تعمیر میں ایران اور یورپ کے ماہر تعمیرات نے اپنے فن کا جادو جگایا۔ سترہ مختلف مقامات جن میں بغداد اور یمن کے علاقے شامل تھے اس کے لےے سنگِ مرمر منگوایا گیا۔

سترہ سال کی مدت میں تاج محل تعمیر ہوا جس پر 6 کروڑ 52 لاکھ 321 روپے دس آنے لاگت آئی۔ یہ ایک بہت بڑے مستطیل باغ میں بنایا گیا۔ اس کے چاروں طرف سرخ ریت کی دیوار ہے باغ کے دوسرے سرے پر ایک دروازہ ہے جس میں قیمتی پتھر جڑے ہیں اور سنگ مرمر میں قرآنی آیات کی دلکش خطاطی کی گئی ہے۔ اس باغ کو جیومیٹریکل ڈائزین میں ایران کے باغات کے طرز پر اس طرح بنایا گیا ہے کہ یہ باغ پورا کا پورا مقبرہ کا ایک حصہ نظر آتا ہے۔ سنگ مرمر کی دو نہریں جو اس مربع نما باغ کے درمیان میں آپس میں ملتی ہیں اس باغ کو چار برابر حصوںمیں تقسیم کرتی ہیں۔ گنبد اور مرکزی راستے کے درمیان سنگ مرمر کا بنا مچھلیوں کا تالاب ہے جس میں ہر وقت مقبرہ کا عکس منعکس ہوتا رہتا ہے۔ بنیادی طور پر تاج محل ایک مربع نما عمارت ہے۔ اس کے چار کونوں پر شاندار خوبصورت مینار ہیں۔ اس عمارت میں سب سے دلکش اس کا گنبد ہے جو اس عمارت کے درمیان سے اُبھرا ہوا نظر آتا ہے۔ گنبد کا قطر 70 فٹ اور پوری عمارت 120 فٹ بلند ہے۔ اس کے چار کونوں پر چار چھوٹے گنبد ہیں۔ عمارت کی ہر سمت پر مخروطی محرابیں مقبرہ کے لےے ایک شاندار دروازہ بناتی ہیں۔

مرکزی دروازہ کی محرابوں کے ساتھ چھوٹی محرابیں ہیں جو ایک دوسرے کے اوپر بنی ہوئی ہیں اس کا فرش شطرنج کی بساط کی مانند سفید اور سیاہ ماربل سے بنایا گیا ہے جو بہت متاثر کن ہے۔

قرآن کی آیات اس مقبرہ پر لکھ دی گئی ہیں جو کہ اس کی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ کرتی ہیں خطاطی کا یہ اہم ترین کام شیراز (ایران) کے ماہر خطاط امانت خان نے کیا تھا۔ امانت خان شیرازی کا نام ہی وہ واحد نام ہے جو تاج محل کے گنبد کے اندرونی طرف لکھا ہوا ہے۔ جو اس نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔ تاج محل کی تعمیر کو اگر دیکھا جائے تو اس میں بڑی خوبصورتی سے مغلیہ طرز تعمیر میں ایرانی، وسطی ایشیائی اور اسلامی رنگ شامل کیا گیا ہے۔ محرابوں پر قرآنی آیات کندہ ہیں۔

تاج محل کے مرکزی کمرے میں ممتاز محل اور شاہجہاں کے پتھر کے تابوت رکھے ہیںجن پر بڑے نفیس اور باریک نقش ونگار بنے ہیں۔ ان کے جسم بہت نیچے قبروں میں دفن ہیں۔ شاہ جہاں اور ممتاز محل کے ان نمائشی تابوتوں پر پچی کاری کا دلکش کام کیا گیا ہے۔ جن میں بہت سے قیمتی پتھر جڑے ہیں اور دلکش خطّاطی میں اللہ تعالیٰ، ملکہ اور بادشاہ کی تعریف کی گئی ہے۔ تاج محل کی دوسرے جانب سرخ ریت کے پتھر سے بنی تین گنبدوں والی ایک مسجد بھی ہے۔

طلباءکی آنکھوں میں شوق اور دلچسپی کے ستارے دیکھ کر خاتون ٹیچر نے اپنی کہانی کو مزید دلچسپ بنا لیا کچھ یوں۔

”ارجمند بانو، ملکہ نور جہاں کے بھائی آصف خان کی صاحبزادی تھی۔ ملکہ نور جہاں نہیں چاہتی تھی کہ ارجمند بانو کی شادی شاہ جہاں سے ہو جو اس وقت مغل بادشاہ جہانگیر کا ولی عہد تھا۔ ملکہ نور جہاں کی خواہش تھی کہ شاہ جہاں کی بجائے اس کے داماد شہر یار کو ولی عہد بنایا جائے اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کے لےے اس نے شاہ جہاں کے خلاف سازش کی اور شہنشاہ جہانگیر کو کہہ کر اسے حیدر آباد دکن فتح کرنے بھیج دیا جہاں سے شاہ جہاں کی واپسی کے امکانات بہت کم تھے لیکن ہوا یوں کہ شاہ جہاں نے دکن فتح کر لیا جب یہ اطلاع دارالحکومت پہنچی تو ملکہ نور جہاں نے اپنے بھائی آصف خان کو بلا کر تنبیہہ کی کہ وہ شاہ جہاں کے ساتھ ارجمند بانو کی شادی نہ کرے۔ آصف خان نے لیت ولعل سے کام لیا تو نور جہاں نے اسے خبردار کیا کہ وہ شاہ جہاں کو واپس آنے ہی نہیں دے گی۔ جس کے بعد نور جہاں نے شہنشاہ جہانگیر کو کہہ کر شاہ جہاں کو نائب السلطنت کا خطاب دلوا دیا کہ یہ اسے حیدر آباد دکن فتح کرنے کی خوشی میں دیا جا رہا ہے اور اب اسے واپس آنے کی ضرورت نہیں وہ راستے سے ہی واپس لوٹ کر حیدر آباد دکن کا انتظام سنبھال لے۔ شاہ جہاں نے شاہی حکم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سفر جاری رکھا شاہی محل میں جب وہ ارجمند بانو سے گفتگو کر رہا تھا ”کہ میں اپنی ایک شرط پوری ہونے تک حیدر آباد دکن واپس نہیں جاﺅں گا“۔

شہنشاہ جہانگیر موجود تھا۔ اس نے شرط پوچھی تو شاہ جہاں نے کہا۔

”ارجمند بانو سے شادی“۔

چنانچہ جہانگیر نے دونوں کی شادی کرادی یوں ملکہ نور جہاں کی کوششیں رائیگاں گئیں۔

حسن عباسی
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک سفرنامہ از حسن عباسی