منظروں کی ڈھیری پر شام کا بسیرا ہے
ایک اردو سفرنامہ از ڈاکٹر محمد اقبال ہما
منظروں کی ڈھیری پر شام کا بسیرا ہے
What humbugs we are, pretend to live for Beauty, never see the Dawn
Logan Pearsall Smith
ہم کتنے احمق ہیں، خوبصورتی کی تلاش میں زندگی گزار دیتے ہیں اور طلوعِ آفتاب کا منظر نہیں دیکھتے
لوگن پیئرسل سمتھ
گوپا سے آگے راستہ دوبارہ ’’اے بیوٹی فل پائن فارسٹ‘‘ کا عنوان بن گیا۔سرسبز جھاڑیوں اور خوش رنگ پھولوں سے گھرے ہوئے اس راستے پر پھسلنے کا کوئی خطرہ نہیں تھا، اس لیے میں ٹاٹا اینڈ بائی بائی کے انداز میں ہاتھ ہلاتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے آگے نکل گیا اور نل تر نالے کے جلترنگ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے لوئر شانی کی طرف بڑھتا رہا۔میری بے خودی میں عالم خان کی چیخ و پکار خلل انداز ہوئی جو ایک سرسبز بلندی کی چوٹی کے قریب پہنچ کر مجھے اپنی جانب آنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ میں اتنی ہموار چہل قدمی کے بعد کوہ پیمائی کے موڈ میں نہیں تھا اس لیے ٹھٹک گیا۔ عالم خان کو میرا رکنا پسند نہ آیا اور اس نے اشارے سے تیز تیز چلنے کا حکم دیا۔ حکمِ گائیڈ مرگِ مفاجات پر عمل کرتے ہوئے میں نے بلندی کا سفر شروع کر دیا۔یہ چڑھائی اتنی عمودی تھی کہ چند منٹ بعد ہی میری ’’بس‘‘ ہو گئی اور میں نے ایک پتھر پر بیٹھ کر ہانپنا شروع کر دیا۔ عالم خان نے ایک مرتبہ پھر مجھے قریب آنے کا اشارہ کیا لیکن میں نے کوئی توجہ نہ دی۔میرا خیال تھا کہ ساتھیوں کی معیت میں یہ سفر نسبتاً آسان ہو جائے گا۔طاہر اور بھٹہ صاحب نے میری تقلید کی اور ایک نزدیکی پتھر پر تشریف فرما ہو کر عرفان کا انتظار کرنے لگے۔ عرفان چند کوہستانی پھولوں کی دلکشی سے متاثر ہو کر ان کی تصاویر بنانے کے چکر میں پیچھے رہ گیا تھا۔ وہ منظر نامے میں داخل ہوا اور ہماری طرف توجہ دیے بغیر نظروں سے اوجھل ہونے لگا۔ ہم نے با جماعت شور مچا کر اسے سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش کی۔
’’سر جی … اِدھر … اِدھر۔‘‘
عرفان رک گیا۔
’’آپ کہاں جا رہے ہیں ؟‘‘ اس نے حیرانی سے سوال کیا۔
’’لوئر شانی۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’لوئر شانی کیمپنگ سائٹ سامنے نظر آ رہی ہے۔وہاں جانے کے لیے آسمان پر ٹنگنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’عالم خان اور پورٹرز اسی طرف گئے ہیں۔ ‘‘
’’انھیں جانے دیں۔ میں یہاں سے گزر چکا ہوں اور مجھے علم ہے کہ یہ پگڈنڈی سیدھی لوئر شانی جاتی ہے۔‘‘
’’سر جی، پہاڑی راستے بدلتے رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے آجکل لوئر شانی جانے کے لیے اس پہاڑی پر سے گزرنا ضروری ہو۔‘‘
’’جی نہیں !لوئر شانی پہنچنے کے لیے کسی چکر پھیری کی ضرورت نہیں۔ آپ بے فکر ہو کر میرے ساتھ آئیں۔ یہاں راستہ بھولنے کا کوئی امکان نہیں۔ ‘‘
عالم خان بے شک ہمارا گائیڈ تھا، لیکن عرفان ایک آسان اور سیدھا راستہ دکھا رہا تھا۔ ہم نے بلندی کا جائزہ لیا اور گائیڈ کی راہنمائی مسترد کر کے عرفان کے ساتھ ہو لیے۔ عالم خان نے چیخ و پکار کر کے ہمیں کچھ سمجھانے کی کوشش کی لیکن ہم نے کان نہ دھرے۔ تقریباً چھ بجے ہم ایک پتھریلے لیکن انتہائی سرسبز میدان (Meadow)میں پہنچے۔ اس میدان کی خوبصورتی نے قدموں میں بیڑیاں ڈال دیں۔ لشکارے مارتی ہوئی گھاس میں رنگ رنگ کے پھول کھلے تھے اور بہتے پانیوں کے صاف و شفاف دھارے سبزہ زار کو باغیچہ نما قطعات میں تقسیم کرتے تھے۔ میدان کی غیر متوقع ہمواری دعوتِ قیام دیتی تھی۔ٹریک کے پہلے دن جسم طویل واک کا عادی نہیں ہوتا اور پٹھوں میں غیر معمولی کھنچاؤ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اس لیے تین گھنٹے کی مسلسل واک کے بعد اس فطری قیام گاہ سے صرفِ نظر کر کے گزر جانا آسان کام نہیں تھا۔
’’یہ لوئر شانی ہے؟‘‘ میں نے کاندھوں پر لدے ہوئے رک سیک کے بوجھ سے آزاد ہوتے ہوئے ُپر شوق انداز میں سوال کیا۔
’’یہ لوئر شانی نہیں ہے۔‘‘ عرفان نے نہایت رکھائی سے جواب دیا۔’’لوئر شانی ابھی کافی دور ہے۔نیت خراب کرنے سے بہتر ہے سفر جاری رکھا جائے۔‘‘
’’فطرت کے ُپر کیف سراپے پر نیت خراب کرنا کترینہ کیف پر نیت خراب کرنے سے ہزار درجہ بہتر ہے۔‘‘
’’عمر کی نصف سنچری مکمل کرنے کے بعد میں بھی اسی قسم کے ’’کھسروانہ‘‘ اقوالِ زریں نشر کروں گا۔‘‘ عرفان نے نہایت خلوص سے وعدہ کیا۔
’’عرفان صاحب مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ ہم ٹریکنگ کے لیے نکلے ہیں یا دئینتر پاس کراس کرنے کی اولمپک چمپئن شپ میں حصہ لے رہے ہیں ؟بے شک منزل دئینتر پاس ہی ہے، لیکن ہمارے پاس اگر اتنے خوبصورت مقام پر چند لمحے گزارنے کا وقت نہیں تو ہم ٹریک کی لطافت سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اس کی مشقت سمیٹنے میں مصروف ہیں جو کوہ نوردی کے پہلے اصول کے سخت خلاف ہے۔‘‘
عرفان میری سنجیدگی پر حیران ہوا، اور جواب دینے کے بجائے اپنا رک سیک ایک پتھر کے سہارے ٹکا کر سبزے کے فرش پر نیم دراز ہو گیا۔
یہ سبزہ زار چاروں طرف سے سبز پوش چوٹیوں میں گھرا ہوا تھا۔ندیا کے اس پار برفیلی بلندیوں سے کئی آبشار جنم لیتے تھے جو فضا میں موسیقی کی جھنکار پیدا کرتے ہوئے جھرنوں میں تبدیل ہوتے تھے اور نل تر نالے کے پانیوں میں گم ہو جاتے تھے۔طاہر کو بھی یہ منظر کافی پسند آیا اور اس نے مووی کیمرہ نصب کر کے آبشاروں اور جھرنوں کی فلم بندی شروع کر دی۔ میں اور بھٹہ صاحب سٹل فوٹوگرافی میں مصروف ہو گئے۔
اس منظر کی پُر کیف فضائیں ایک بے ہنگم شور سے بری طرح متاثر ہوئیں۔ یہ عالم خان تھا جو ہمیں متوجہ کرنے کے لیے ایک کنگ سائز کفگیر کی مدد سے ٹیڑھی میڑھی بالٹی پر تھاپ دے کر ’’طبلہ‘‘ بجا رہا تھا۔
ہمارے نزدیک پہنچ کر اس نے بالٹی زمین پر رکھی اور ہانک لگائی:
’’چائے پی لیں سر۔‘‘
ویرانوں کی برفیلی شام میں، تھکاوٹ سے چور جسم شدت سے ایک کپ چائے یا کافی کا طلب گار ہو، آس پاس بندہ نہ بندے کی ذات ہو،چائے بنانے اور نوش فرمانے کے لوازمات نیلے ڈرم اور بوریوں میں بند ہوں، انھیں اٹھانے والے پورٹرز نہ جانے کہاں غائب ہوں، اور آپ ’’چائے پی لیں سر‘‘ کی نوید سن رہے ہوں تو یقین کر لینا چاہیے کہ بھاپ اڑاتی ہوئی یہ چائے فطرت کی طرف سے استقبالیہ کے طور پر پیش کی جا رہی ہے۔
ہم عالم خان کا ’’تاخیر زدہ فرار‘‘ بھول کر بالٹی کے گرد اکٹھے ہو گئے۔
’’یہ چائے پی کیسے جائے گی؟کپ سامان میں پیک ہیں۔ ‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’کپ ہمارے پاس ہے نا سر۔‘‘ عالم خان نے کہا اور چمچ بالٹی میں گھما کر یکے بعد دیگرے چار عدد کپ برآمد کیے۔اس سے پہلے کہ ہم اس حرکت پر تبصرہ کر سکیں وہ کپ دھونے کے لیے نالے کی طرف چلا گیا۔
’’یہ چائے ہے یا گندے مندے کپوں کا جوس؟‘‘ میں نے بھنا کر کہا۔’’کون بے وقوف یہ چائے پینا پسند گا؟‘‘
’’جسے اس وقت چائے کی طلب ہو رہی ہے۔‘‘ عرفان نے کہا۔
’’اس نان سنس کو اتنی بھی تمیز نہیں کہ کپ الگ شاپر میں باندھ لاتا۔‘‘
’’کیسے لاتا سر؟ہمارے دو ہاتھ ہیں تو تین چیزیں کیسے اٹھا لاتا؟‘‘ عالم خان کپ دھونے کے بجائے انھیں ٹھنڈے پانی میں غوطہ دے کر واپس آ چکا تھا۔
’’عقل استعمال کر کے۔ چمچ تو چائے میں ڈالنا ہی تھا، تم اسے بالٹی میں ڈال لیتے۔ کپ الگ شاپر میں باندھے جا سکتے تھے۔‘‘ عرفان نے سمجھایا۔
’’پھر ہم بالٹی کیسے بجاتا؟‘‘ عالم خان کے لہجے میں ہلکا سا اکھڑ پن جھلکنے لگا۔
’’بالٹی بجانا کیوں ضروری تھا۔‘‘ میں نے غصے سے پوچھا۔
’’تاکہ آپ کو علم ہو سکے کہ عالم خان آپ کے لیے چائے لاتا ہے۔‘‘
’’بالٹی کی آواز سن کر ہمیں بالکل اندازہ نہیں ہوا کہ تم چائے لا رہے ہو۔‘‘
’’آپ کی جگہ گورا لوگ ہوتا تو فوراً سمجھ جاتا کہ گائیڈ بالٹی کھڑکاتا ہے تو چائے لاتا ہے، اور کیا لا سکتا ہے؟‘‘
میں عالم خان کی پیش کردہ چائے پینے سے کسی حد تک گریزاں تھا۔عالم خان نے میرے تذبذب کا اندازہ لگایا اور چائے کی تعریف میں رطب اللسان ہوا۔
’’یہ خالص دودھ کا چائے ہے سر اور ہم نے اس میں تازہ مکھن بھی شامل کیا ہے۔ اسے ہمارے علاقے کا خاص تحفہ سمجھو۔ ہم بڑے شوق سے بنوا کر لایا ہے۔ آپ لوگ نہیں پیتا ہے تو ہم کو بہت افسوس ہو تا ہے۔‘‘
میں نے چائے کا کپ ہونٹوں سے لگا لیا۔ذائقہ واقعی نرالا تھا۔
عالم خان کے بقول اس نادر و نایاب چائے میں زو کے تازہ دودھ کا تراوٹ تھا، گھر میں بنائے گئے مکھن کا چکناہٹ تھا، مقامی جڑی بوٹیوں کا مہک تھا اور عالم خان کے خلوص کا نمک تھا، چینی بالکل نہیں تھا۔ابتدائی چند چسکیوں پر طرح طرح کے منہ بنانے کے بعد میں اس پہاڑی ذائقے سے اس قدر متاثر ہوا کہ ٹریک کے بقیہ دنوں میں کئی مرتبہ اس کی فرمائش کی اور عالم خان نہ جانے کہاں کہاں سے اجزا فراہم کر کے میری فرمایش پوری کرتا رہا۔چائے کے بعد عرفان نے عالم خان سے باز پرس شروع کی۔
’’تم غائب کہاں ہو گئے تھے؟‘‘
’’آپ کو چائے پلانا تھا او رپورٹر کو جوان بنانا تھا،اس لیے بستی میں چلا گیا تھا۔‘‘ اُس نے کھلکھلاتے ہوئے جواب دیا۔
’’پورٹر جوان ہو گئے؟مگر کیسے؟‘‘ میں نے حیرانی سے سوال کیا۔
’’ہم نے بولا تھا کہ ان کو جوان ہونے والا پانی پلائے گا تو وہ جوان ہو جائے گا۔ ہم نے پانی پلایا اور وہ جوان ہو گیا۔‘‘
’’مجھے کیوں نہیں پلایا وہ پانی؟‘‘
’’ہم آپ کو بلاتا تھا۔آپ آیا نہیں تو پانی کیسے پلاتا؟‘‘
’’مجھے عرفان صاحب نے منع کر دیا تھا۔‘‘
’’عرفان صاحب نہیں چاہتا ہو گا کہ آپ جوان بن جاؤ۔‘‘
’’یہ کیا بکواس ہے۔‘‘ عرفان بگڑ کر بولا۔’’ڈاکٹر صاحب اس کے ساتھ بہت زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ نے پورٹرز دیکھے بغیر اس کی بات پر یقین کر لیا؟آخر وہ جواں شدہ پورٹرز ہیں کہاں ؟‘‘
’’وہ آتا ہے ناں۔ ‘‘ عالم خان نے اُس جانب اشارہ کیا جدھر سے وہ آیا تھا۔
ہمارے عقب والی بلند پہاڑی سے دو پورٹرز اتر رہے تھے جن کے شانوں پر سامان لدا ہوا تھا۔وہ ابھی کافی دور تھے لیکن صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ نہ صرف جوان بلکہ نوجوان ہیں۔
’’یہ تو سچ مچ کمال ہو گیا،ریشماں جوان ہو گیا۔عالم خان تم فٹافٹ واپس جاؤ اور میرے لیے آبِ جوانی کی بوتل بھر لاؤ۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب پلیز!آپ ا چھی طرح جانتے ہیں کہ پورٹرز جوان نہیں ہوئے، تبدیل ہو گئے ہیں۔ یہ اُن بزرگوں کے بیٹے یا بھتیجے ہوں گے۔عالم خان تم مسخرہ پن ختم کر کے چلنے کی تیاری کرو۔ وقت بہت کم ہے۔‘‘
’’اب کدھر جاتا ہے ؟اس جگہ کیمپ کرتا ہے ناں۔ ‘‘ عالم خاں نے اعلان کیا۔
’’کیمپ لوئر شانی پہنچ کر ہو گا۔‘‘ عرفان نے جوابی اعلان کیا۔
’’لوئر شانی تقریباً دو تین گھنٹے کا دوری پر ہے۔ آ پ دیکھتا ہے کہ اندھیرا پھیل رہا ہے اور موسم بہت خراب ہے۔بارش شروع ہو گیا تو بہت زیادہ گڑبڑ ہو گا۔ ہمارا خیال ہے ادھر کیمپ لگانا زیادہ ٹھیک رہے گا۔‘‘
’’کل بھی بارش ہو گئی تو کیا ہو گا؟‘‘ عرفان نے اعتراض کیا۔
’’سر روشنی تو ہو گا ناں۔ اب تھوڑا دیر میں اندھیرا ہوتا ہے اور کچھ نظر نہیں آتا۔‘‘
’’لیکن اس طرح کل کی سٹیج لمبی ہو جائے گی۔‘‘ عرفان پریشان ہو گیا۔
’’کتنا لمبا ہو جائے گا؟کل اگر سات بجے بھی نکلتا ہے تو شام سے پہلے بیس کیمپ پہنچتا ہے۔ آج آپ نے خواہ مخواہ دیر کیا۔‘‘
عرفان نے قیام کا فیصلہ کرنے سے پہلے ہمیں اعتماد میں لینا مناسب سمجھا۔ہم اس سلسلے میں کہاں کے دانا تھے ؟کس ہنر میں یکتا تھے کہ کوئی مشورہ دیتے۔اپنی ’’نا اہلیت‘‘ چھپا نے کے لیے اُس کی اہلیت پر شک و شبہ کا اظہار کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ ایسے ٹیم لیڈر کو لیڈری چھوڑ کر ’’بن باس‘‘ لے لینا چاہیے جو یہ فیصلہ بھی نہ کر سکے کہ ٹریک کا پہلا پڑاؤ کہاں کیا جائے؟ عرفان کے چہرے پر شاہانہ جاہ و جلال کے تاثرات ابھرے اور اس نے فیصلہ صادر کیا کہ اس جگہ سے فوراً بوریا بستر لپیٹ لیا جائے۔ پہلا پڑاؤ لوئر شانی ہی میں ہو گا۔
’’جلالی کیفیت میں کیے گئے اکثر و بیش تر فیصلے غلط ثابت ہوتے ہیں۔ ‘‘ میں نے نہایت اطمینان سے تبصرہ کیا۔
’’آپ آخر چاہتے کیا ہیں ؟ میری بات مان رہے ہیں، نہ خود کوئی مشورہ دیتے ہیں۔ ‘‘ عرفان زچ ہو گیا۔
’’ناراض نہ ہوں تو عرض کروں کہ پر تھوی راج کپور کے ’’مغل اعظمی‘‘ لہجے کے بجائے اپنی منظورِ نظر کترینہ کپور کے دلبرانہ لہجے میں حکم صادر فرمائیں تاکہ بے ترتیب دھڑکنیں اعتدال پر آئیں۔ آپ کے لہجے کی گھن گرج پہلے سے کانپتی ہوئی ٹانگوں کو مزید لرزا رہی ہے، لوئر شانی تک سفر کیسے کٹے گا؟‘‘
عرفان کے چہرے پر تناؤ کی جگہ ایک لمبی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
’‘ کترینہ کپور نہیں کترینہ کیف … اور …۔ ‘‘
’’کترینہ کیف نہیں، کرینہ کپور۔‘‘ میں نے پینترا بدلا۔
’’ایک ہی بات ہے۔آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ان دونوں کے نام پر دل کی دھڑکنیں مزید تیز اور بے ترتیب ہو جاتی ہیں۔ انھیں اعتدال پر لانا چاہتے ہیں تو اپنے جیسے سال خوردہ چہرے کا تصور کریں۔ ‘‘
’’مثلاً۔‘‘ میں نے عرفان کی خیال آفرینی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سوال کیا۔
’’میرے خیال میں مسرت نذیر مناسب رہے گی بشرطیکہ تصور کرنے سے پہلے جھریاں چھپانے کے لیے استعمال کیا گیا سرخی پوڈر صاف کر لیا جائے۔‘‘
’’ہوشیار … خبردار … لپ سٹک ہاتھ سے صاف کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘ بھٹہ صاحب نے شرط عائد کی۔
’’پھر کیسے صاف کی جائے؟‘‘ عرفان نے دریافت کیا۔
’’ڈاکٹر صاحب اتنے بچے بھی نہیں ہیں کہ ہاتھ استعمال کیے بغیر لپ سٹک صاف کرنے کے طریقے نہ جانتے ہوں۔ ‘‘ بھٹہ صاحب نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
’’استادِ محترم!یہ آپ بول رہے ہیں ؟‘‘ میں حیران ہو۔
’’صحبت کا اثر ہے۔‘‘ بھٹہ صاحب نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
’’مگر … اس طرح تو ڈاکٹر صاحب خدا نخواستہ شادیِ مرگ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ‘‘ عرفان نے شرارت آمیز انداز میں تشویش ظاہر کی۔
میں ابھی اس تابڑ توڑ فقرے بازی کے جواب میں کچھ کہنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ نئے پورٹرز تشریف لے آئے اور زوردار انداز میں السلام علیکم کہنے کے بعد زبردستی گلے ملنا شروع کر دیا۔ عالم خان نے رسمِ تعارف نبھائی۔
’’یہ میر عالم ہے اور یہ شیر احمد۔‘‘
’’یہ شیر احمد ہے یا شیر بیگم؟‘‘ عرفان نے دورانِ بغل گیری شیر احمد کے نرم و نازک جسم پر پیار بھرے انداز میں ہاتھ پھیرتے ہوئے وضاحت چاہی۔
عرفان کا مشاہدہ سو فیصد درست تھا۔شیر احمد کے لچکیلے اور نازک اندام جسم سے بھرپور نسوانیت پھوٹ رہی تھی۔رہی سہی کسر اس نے نیل پالش اور لپ سٹک سے استفادہ کر کے اور نہ جانے کس کی فرمائش پر کالا چولا ’’پا‘‘ کے پوری کر دی تھی۔عالم خان تعارف نہ کراتا تو ہم اس خاتون نما نوجوان کو شیر احمد کے بجائے شیر بیگم سمجھ کر ’’جپھی‘‘ کا دورانیہ اچھا خاصا طویل کر دیتے۔میر عالم اور شیر احمد شاید عرفان کا طنز سمجھ نہیں سکے۔ انھوں نے ایک مصنوعی اور بے تکی ہنسی کے ساتھ ملنے ملانے کا شغل جاری رکھا۔عالم خان نے بھی ایک عدد مسکراہٹ سے زیادہ کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔
عرفان نے اپنا رک سیک اٹھانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ دو عدد مزید السلام علیکم تشریف لے آئے۔یہ وہی ’’بابا جیز‘‘ تھے جو نل تر جھیل سے بطور پورٹر ہمارے ساتھ آئے تھے۔ وہ اپنی ٹیڑھی میڑھی لاٹھیوں کے سہارے ہانپتے کانپتے ایک ٹیلے کی اوٹ سے نمودار ہوئے۔ ہمیں روانگی کے لیے تیار ہوتا دیکھ کر انھوں نے بیک زبان ایک مختصر لیکچر دیا اور اپنے نوے سالہ تجربے کی بنیاد پر مشورہ دیا کہ موسم اور راستے کے حالات اس وقت لوئر شانی جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ اُن کا فرمانا تھا کہ کل دوپہر تک با آسانی بیس کیمپ پہنچا جا سکتا ہے تو اس وقت خطرہ مول لینے کی کیا ضرورت ہے؟
’’ٹھیک ہے … لیکن اس فیصلے کی وجہ سے کل کی سٹیج بہت لمبی ہو گئی اور ہم شام تک بیس کیمپ نہ پہنچ سکے تو عالم خان اور پورٹرز کی ایک سٹیج کی اجرت کاٹ لی جائے گی۔‘‘ عرفان نے مشروط آمادگی کا اظہار کیا۔
’’آپ چلتا رہتا ہے تو ضرور پہنچتا ہے،چلتا ہی نہیں ہے تو کیسے پہنچتا ہے؟‘‘ عالم خان نے حسبِ عادت ٹانگ اڑائی۔
’’ہم اسی انداز میں چلیں گے جیسے آج چلے ہیں۔ ‘‘
’’پھر آپ ظہر کے بعد نہیں پہنچتا تو ہمارا بیٹا آپ سے کل کا سٹیج کا کوئی پیسا نہیں لے گا۔‘‘ بابا جی نے چیلنج قبول کیا اور عرفان نے رک سیک دوبارہ زمین پر رکھ دیا۔
’’او۔کے۔آج یہیں کیمپنگ ہو گی۔اس جگہ کا نام کیا ہے؟‘‘
’’ڈھیری۔‘‘
’’ڈھیری؟کس چیز کی ڈھیری؟‘‘
’’خوبصورتی کا ڈھیری صاب۔نظاروں کا ڈھیری۔ہم لوگ اس کو نیلو لوٹ بولتا ہے جس کا مطلب ہے سبزے کا ڈھیری۔‘‘ بابا جی نے جواب دیا۔
نیلو لوٹ اسم با مسمّٰی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہم مناظر کی ڈھیری بلکہ ڈھیر پر تشریف فرما تھے۔
غروب ہوتے ہوئے سورج کی کرنیں برف پوش چوٹیوں پر رنگ و نور کی پھوار بن کر ایک طلسماتی منظر نامہ تشکیل دے رہی تھیں۔ قریب سے گزرنے والے نالے نے ایک چھوٹے سے گہرے اور ہموار نشیب میں ننھی منی جھیل کی شکل اختیار کر لی تھی اور اس جھیل کے صاف و شفاف اور سراپا آئینہ پانیوں میں برف کا لبادہ اوڑھے سرسبز چوٹیاں رقص کر رہی تھیں۔ ٹوئن ہیڈ(جڑواں ) پیک اور شانی پیک کی بلندیوں سے اترنے والے رُپہلے گلیشئرز ہمیں مسحور کرتے تھے۔ یہ دن کے اجالے اور رات کے اندھیرے کے ملاپ کا بہترین منظر تھا:
منظروں کی ڈھیری پر شام کا بسیرا ہے
سرمئی اجالا ہے چمپئی اندھیرا ہے
قیام کا فیصلہ سنتے ہی ہم لوگ بڑے بڑے پتھروں اور صاف ستھرے سبزے پر لمبے لیٹ ہو گئے۔ پورٹرز نے خیمے نصب کرنے شروع کر دیے۔عرفان کو ہماری ’’بیکاری‘‘ پسند نہ آئی اور اس نے حکم جاری کیا کہ خیمے خود لگائے جائیں تاکہ ٹیم کا ہر ممبر کیمپ لگانے میں ماہر ہو جائے۔ ہم اس وقت کیمپنگ کی سپیشلائزین کرنے کے موڈ میں نہیں تھے اس لیے عرفان کا حکم ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیا۔ اس نے اپنے حکم کی لاج رکھنے کے لیے خود پورٹرز کی مدد کرنا شروع کر دی۔ اُسے ’’غیر ذمہ دارانہ‘‘ حرکت میں مبتلا دیکھ کر ہمیں بھی بہ شرم و حضوری ہاتھ پاؤں ہلانے پڑے اور ہم نے خیمے کی طنابیں کس کر ان کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کی۔خیمے نصب ہو چکے تو میں نے اپنے پہلے ٹریک کی پہلی کیمپنگ سائٹ کا تفصیلی جائزہ لیا۔
ہمارے خیموں سے چند قدم کے فاصلے پر درختوں کے بوسیدہ تنوں کا بے ہنگم ڈھیر لگا ہوا تھا۔ میرا خیال تھا کہ یہ جلانے والی لکڑیوں کا ڈھیر ہے اور کیمپ فائر کے لیے ایندھن کا کام دے سکتا ہے۔ ایک بزرگ نے انکشاف فرمایا کہ یہ بہک ہے اور اسکی لکڑی جلانا بہت بڑا معاشرتی اور اخلاقی جرم سمجھا جاتا ہے۔
’’بہک کا کیا کرتے کیا ہیں ؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’آپ کا مرضی ہے صاب۔ اس میں سو سکتا ہے، نماز پڑھ سکتا ہے، بارش سے بچ سکتا ہے۔آپ لوگ اندر چل کر دیکھواور کھانا مانا ادھر ہی کھاؤ۔‘‘
’’اندر کیسے جائیں ؟راستہ تو نظر نہیں آ رہا۔‘‘
’’آپ ادھر چلو گے تو راستہ نظر آئے گا ناں۔ ‘‘
ہم بہک کے قریب آئے۔ بھوج پتر کے کئی درجن تنے ڈیڑھ دو فٹ گہرے نشیب کے گرد اس انداز میں کھڑے کیے گئے تھے کہ اوپر والے سرے ایک دوسرے سے مل کر مخروطی شامیانے کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ جنوب مشرقی کونے میں دو تنوں کے درمیان تھوڑا سا خلا چھوڑ دیا گیا تھا جو دروازے کا کام دیتا تھا۔ اس دروازے میں سے کھڑے ہو کر گزرنا ممکن نہیں تھا، بیٹھ کر بلکہ رینگ کر ہی بہک کے اندر داخل ہُوا جا سکتا تھا۔اس قسم کی کثیر المقاصد ’’تنا گاہیں‘‘ (شیفرڈ ہٹس) بکروالوں کی پیشہ ورانہ زندگی کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ ہیں اور آبادیوں سے دور واقع سرسبز چراگاہوں میں عام پائی جاتی ہیں۔ عالم خان نے پورٹرز کو حکم دیا کہ کچن کا سامان بہک میں منتقل کر دیا جائے۔ہم کتنے خوش نصیب ٹھہرے کہ بکروالوں کے افسانوی جھونپڑے میں رات کے کھانے کا شرف حاصل کرنے والے تھے۔
عالم خان کچن سجانے میں مشغول ہوا اور ہم ڈھیری کے طلسماتی ماحول سے سرمستی کی شراب کشید کرنے کی کوشش کرنے لگے۔طاہر ٹوئن ہیڈ پیک او شانی پیک کا پینوراما فلمبند کرنے میں مصروف ہو گیا۔ میں، عرفان اور بھٹہ صاحب آبشار کے پانیوں کی رم جھم سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ سرد ہواؤں کی شوریدہ سری ناقابلِ برداشت ہو گئی تو ہم نے بہک کے گرم ماحول میں پناہ حاصل کی جہاں عالم خان ارد گرد سے چنی گئی لکڑیوں کی مدد سے الاؤ روشن کر چکا تھا۔ اس الاؤ کے گرد پتھروں سے بنائی گئی دیواروں پر ایک عدد ساس پین ’’چڑھا‘‘ ہوا تھا جس میں چکن ہاٹ اینڈ ساور سوپ تیار ہو رہا تھا۔
بہک کی گرم فضا اور ڈھیری کی سرد ہوا کے تضاد میں نوش کیے گئے گرما گرم سوپ کا اپنا مزا ہے جو ڈھیری آئے بغیر چکھا ہی نہیں جا سکتا۔ آپ نے یہ ذائقہ نہیں چکھا تو یقین کیجیے کہ زندگی کے ایک ان مول ’’سواد‘‘ سے محروم رہ گئے ہیں۔
سوپ کے بعد کھانے کی باری تھی۔ہمارا کھانا ڈبوں میں پیک تھا جو عالم خان کے حوالے کر دیا گیا۔عالم خاں ڈبہ پیک کھانے کا سسٹم اور بغیر لیبل ڈبوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔
’’یہ ڈبہ کس کمپنی کا ہے؟‘‘ اس نے کھانے کا جائزہ لیتے ہوئے سوال کیا۔
’’کسی کمپنی کا نہیں ہے۔کھانا گھر میں پکا کر ڈبوں میں پیک کروایا گیا ہے۔‘‘
’’یہ ہمارے پیٹ پر لات مارنے والا سسٹم ہے۔‘‘ اس نے ڈبہ ڈھولکی کی طرح بجایا۔
’’کیا مطلب! تم نے پہلے یہ سسٹم نہیں دیکھا؟‘‘ ہم بھی حیران ہوئے۔
’’سسٹم دیکھا ہے۔اس میں گھر کا کھانا نہیں دیکھا۔ڈ بے والا کھانا اچھا نہیں ہوتا اس لیے ٹیمیں ایک آدھ ڈبہ ہی ساتھ لاتی ہیں۔ آپ بولتے ہو کہ گھر کا کھانا پیک کروایا ہے۔ سارا لوگ گھر کا کھانا لاتا ہے تو ہم کیا کرے گا؟‘‘
’’تم صبر کرے گا۔‘‘ بھٹہ صاحب نے تلقین کی۔
’’پارٹی خشک راشن ساتھ لائے اور ہم کھانا پکائے تو اتنا کھانا ضرور بچ جاتا ہے کہ ہمارا گزارا بھی ہو جاتا ہے۔‘‘
’’بچ جاتا ہے یا تم پکاتے اتنا ہو کہ بچ جائے۔‘‘ عرفان نے سوال کیا۔
’’خودبخود پک جاتا ہے ناں سر۔‘‘ عالم خان نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’آپ گن گن کر ڈبے کھولے گا تو ہمارا کیا بنے گا ؟‘‘
’’ہمارے پاس ڈبوں کی کمی نہیں، تمہارا گزارا ہو جائے گا۔‘‘
’’شکریہ سر۔یہ ڈبہ کیسے کھلے گا؟‘‘
’’عالم خان تم کک ہونے کے دعوے دار ہو اور اتنا بھی نہیں جانتے کہ ڈبے کا ڈھکن ٹن کٹر سے کاٹا جاتا ہے۔‘‘ عرفان نے جھاڑ پلائی۔
’’ہم جانتا ہے سر۔مگر یہ نہیں جانتا کہ ٹن کٹر کدھر ہے؟‘‘
ٹن کٹر کہاں ہے؟
ہم نے ٹن کٹر خریدا ہی نہیں تھا تو کیسے بتا سکتے تھے کہ ٹن کٹر کہا ں ہے؟ ڈبہ کاٹنے کے لیے متبادل ذرائع تلاش کیے گئے لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔
’’ٹریکنگ کا پہلا اصول ہے کہ ایکوئپمنٹ پورا ہونا چاہیے۔ماچس اور ٹن کٹر جیسی معمولی چیزیں ٹریکنگ ایکوئپمنٹ کا انتہائی اہم جز ہیں۔ ‘‘ عرفان نے کہا۔
’’یہ اصول گلگت میں بتایا جانا چاہیے تھا۔‘‘ میں نے اعتراض کیا۔
’’بتایا تھا۔میں نے ذاتی سامان کی فہرست میں کثیر المقاصد چاقو لکھا تھا۔ آپ لوگوں نے اسے اجتماعی سامان میں شامل کیا اور خریدنے کی زحمت نہیں کی۔‘‘
’’کوشش کی تھی،دکاندار کو کثیر المقاصد کے معنی نہیں آتے تھے۔‘‘ میں نے بہانا بنایا۔
’’آپ ملٹی پرپز نائف یا ملٹی نائف کہتے تو وہ سمجھ جاتا۔‘‘
’’کثیر المقاصد کو اردو میں ملٹی پرپز کہتے ہیں ؟‘‘ میں نے تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کیا۔
’’سبحان اللہ!‘‘ بھٹہ صاحب نے فرمایا۔
ڈبے کا ڈھکن کاٹنا ٹینشن کا باعث بننے لگا تو عرفان نے ڈبہ ایک صاف ستھرے شاپر میں لپیٹ کر پتھر پر رکھا اور انتہائی محتاط انداز میں دوسرے پتھر سے ضرب لگائی۔ شاپر کھولا گیا تو ڈبے کا ڈھکن اکھڑ چکا تھا، جسے با آسانی ڈبے سے الگ کر دیا گیا۔
شیر احمد نے فنکارانہ انداز میں تالی بجا کر عرفان کی فنکاری کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
ڈبہ ’’توڑنے‘‘ کا یہی طریقہ پورے ٹریک کے دوران استعمال کیا جاتا رہا۔
کھانا نسبتاً خاموشی سے کھایا گیا اور کھانے کے بعد بہک کے اندر کیمپ فائر منعقد کرنے کی کوشش کی گئی۔شیر احمد کی نسوانیت کا احترام کرتے ہوئے درخواست کی گئی کہ وہ علاقائی رقص کا نمونہ پیش کرے۔شیر احمد نے یہ درخواست دلبرانہ انداز میں مسترد کر دی۔ اس کا فرمانا تھا کہ گانے کے بغیر ڈانس وانس نہیں کیا جا سکتا۔
’’تم ڈانس وانس کرو۔ گانے کا بندوبست ہو جائے گا۔‘‘ عرفان نے وعدہ کیا۔
’’کیسے ہو جائے گا؟‘‘ بھٹہ صاحب نے تفتیش کی۔
’’ڈاکٹر صاحب نہ صرف گلوکار بلکہ شاعر بھی ہیں۔ غزل کہنا اور ترنم سے سنانا ان کا مرغوب مشغلہ ہے۔‘‘ عرفان نے شرارت آمیز انداز میں کہا۔
’’میں ؟کون کہتا ہے کہ میں شاعر یا گلوکار ہوں ؟‘‘ میں نے چونک کر کہا۔
’’آپ کا اپنا ارشادِ گرامی ہے۔‘‘ عرفان نے اطمینان سے جواب دیا۔
’’میں نے یہ احمقانہ ارشاد کب نشر کیا تھا؟‘‘
’’ذرا شیوسار جھیل تک پڑھی ہے آپ نے؟‘‘
’’وہ صرف شغل میلہ تھا اور گلوکاری پر جو داد ملی، اب تک یاد ہے۔ دیوسائی کے بعد ڈھیری میں ہوٹ ہونے کا میرا کوئی ارادہ نہیں۔ ‘‘
’’ہم صدقِ دل سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہوٹنگ وغیرہ نہیں کریں گے۔‘‘ اُن تینوں نے ہاتھ بلند کرتے ہوئے وعدہ کیا۔
’’آپ کی گذشتہ حرکات کے پیش نظر اس وعدے پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے گانے کی زحمت مجھ جیسے اناڑی کو اُٹھانا پڑے گی۔‘‘ عرفان نے بظاہر مایوسی کا اظہار کیا۔
’’جزاک اللہ!‘‘ بھٹہ صاحب نے نعرہ بلند کیا۔
عرفان نے گذشتہ سے پیوستہ سال آرمی پبلک سکول سکر دو کے ہوسٹل میں محمد رفیع کا گایا ہوا ایک سدا بہار نغمہ سنایا تھا۔میرا خیال تھا کہ وہ اسی قسم کا گانا سنائے گا،لیکن ڈھیری کی مست مست فضائیں کسی سنجیدہ نغمے کے لیے مناسب نہیں تھیں۔ عرفان نے شرارت آمیز انداز میں ابرارالحق کے لوک گیت کا حشر نشر کیا:
جٹ چڑھیا دئینتر … بلے بلے
ایہدی پاٹے گی نیکر … بلے بلے
جیپاں ٹُرگیاں نل تروں خالی
تے گٹے وچہ موچ آ گئی
نیلا پنا وے عالما تیرا
جے خیروخیری پار لنگھ جائیں
نئی تے ہو جائیں توں اندر … بلے بلے
جٹ چڑھیا دئینتر … بلے بلے
ایہدی پاٹے گی نیکر … بلے بلے
ترجمہ: جٹ صاحب دئینتر پاس عبور کرنے نکلے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ اس پنگے میں ان کی نیکر پھٹ جائے گی( عرفان یقیناً نیکر کے بجائے کچھ ’’اور‘‘ کہنا چاہتا ہو گا لیکن تہذیب اور ردیف اجازت نہیں دیتے تھے)۔جیپ نل تر سے واپس جا چکی ہے اور جٹ صاحب کے پاؤں میں موچ آ گئی ہے۔عالم خان تم اگر ان دشواریوں کے باوجود بہ خیر و عافیت دئینتر پاس ٹریک مکمل کرا دو تو نیلا نوٹ تمہیں بطور انعام پیش کیا جائے گا۔ناکام ہونے کی صورت میں دلی دعا ہے کہ تم سیدھے جیل جاؤ اور کبھی واپس نہ آؤ۔
شیر احمد نے نازک نازک ٹھمکے لگا تے ہوئے،عالم خان نے بے ہنگم انداز میں چمچ سے ساس پین پر تھاپ دیتے ہوئے، اور ہم تینوں نے بلے بلے کی سنگت پر والہانہ انداز میں تالیاں بجا تے ہوئے عرفان کی تک بندی کا بھر پور ساتھ دیا۔میر عالم نے شوقین مزاج تماش بین کی طرح شیر احمد کی اداؤں پر نوٹ نچھاور کرنے کی کامیاب ایکٹنگ کی۔اُس نے شیر احمد کو آغوش میں لے کر عرفان ہاشمی کی فلم کے سین ری پلے کرنے کی بھی ’’منہ زور‘‘ کوشش کی لیکن شیر احمد نے لچکیلے انداز میں یہ کوشش ناکام بنا دی۔ڈھیری کی بے نام بہک کی راحت بخش فضائیں ’’بلے بلے‘‘ کے مستانہ نعرے عرصہ دراز تک یاد رکھیں گی اور ہم اس بہک میں گزارے گئے چند لمحات شاید کبھی نہ بھول پائیں کہ شادمانی کے تاروں سے گندھا ہوا یہ پُرکیف ہنگامہ دئینتر پاس ٹریک کا انمول تحفہ ہے۔
ہے کوئی جو یہ بیش قیمت تحفہ مفتا مفتی حاصل کرنا چاہتا ہے؟
کھانے اور ہلے گلے کے بعد ظاہر ہے سونے کی باری تھی اور ٹریکنگ لائف کی پہلی کیمپنگ نائٹ ہونے کے ناتے میرے لیے یہ ایک یادگار رات تھی۔ بے شک میں نے پچھلے سال عرفان کے ساتھ اسکولی میں ایک رات کیمپنگ کی تھی، لیکن وہاں ہم نے ایک پرائیویٹ کیمپنگ سائٹ کے بنے سنورے لان میں خیمے نصب کیے تھے۔ نیلولوٹ بے تحاشہ پتھریلا سبزہ زار تھا اور ہمیں بمشکل چند مربع فٹ ہموار قطعہ میسر آیا جس کے پتھر چن کر خیمے لگانے کے قابل بنایا گیا۔ اس چھوٹے سے قطعے پر بے شمار جنگلی پھول نازِ عروساں کے منتظر تھے۔ان بے چاروں کو علم نہیں تھا کہ ان کی قسمت میں سیجِ عروس کے بجائے ہم جیسے ٹریکرز کے خیموں تلے روندا جانا لکھ دیا گیا ہے۔یہ پھول بد قسمت ہو سکتے ہیں، ہماری خوش نصیبی میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں ڈھیری جیسے ویرانے میں پھولوں کی سیج نصیب ہوئی … کہاں میں کہاں ڈھیری کے پھول اللہ اللہ
میں اور عرفان ایک خیمے میں، طاہر اور بھٹہ صاحب دوسرے خیمے میں تھے۔ ٹریکنگ کے دوران پہلے دن کا اختتام ہمیشہ تھکا دینے والا ہوتا ہے، ہم شاید کچھ زیادہ ہی تھک گئے تھے کہ پتھروں کا بستر مولٹی فوم کے میٹریس سے زیادہ نرم و ملائم لگ رہا تھا۔ کوہساروں کی بھیگی بھیگی رات کا سکوت اور گنگناتے جھرنوں کی لوریاں مجھے نیند کی وادی میں پہنچانے ہی والی تھیں کہ دوسرے خیمے سے آنے والی طاہر کی کپکپاتی ہوئی آواز نے چونکا دیا:
’’ڈاکٹر صاحب! ذرا باہر نکل کر دیکھنا۔مجھے لگتا ہے کوئی نامعقول جانور ہمارے خیمے کی رسیوں سے الجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘
جانور؟ یہاں کونسا جانور آ سکتا ہے؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔
’’بھٹہ صاحب کا سلیپنگ بیگ چیک کر لیں۔ ہو سکتا ہے وہ خیمے سے باہر نکل گئے ہوں۔ ‘‘ عرفان نے بلند آواز میں مشورہ دیا۔
’’میں اندر ای آں۔ ‘‘ بھٹہ صاحب کی کپکپاتی ہوئی آواز بلند ہوئی۔
’’عرفان صاحب مذاق نہ کریں۔ ہمارا خیمہ بہت زور زور سے ہل رہا ہے۔ سچ مچ کوئی گڑبڑ ہے۔ پلیز باہر نکل کر دیکھیں۔ ‘‘ طاہر نے دوبارہ فرمائش کی۔
میں نے کیمپ کی دیوار میں لگی ہوئی جالی کی زپ کھول کر اُن کے خیمے کے اطراف کا جائزہ لیا۔ باہر بیکراں سناٹے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
’’او یار کچھ نہیں ہے۔ سو جاؤ آرام سے۔‘‘
’’ دوسری طرف آ کر دیکھیں ادھر ضرور کچھ ہے۔‘‘
’’تمہارا مطلب ہے کہ تمہارے خیمے کا باقاعدہ طواف کیا جائے؟ تم خود اپنے سلیپنگ بیگ سے باہر کیوں نہیں نکلتے؟‘‘
’’وہ … باہر … پتا نہیں کیا گڑ بڑ ہو؟‘‘
’’اس علاقے میں برفانی ریچھ اور چیتے بھی پائے جاتے ہیں۔ ‘‘ عرفان نے ایک مرتبہ پھر زوردار انداز میں ہانک لگائی۔
’’آپ کو مذاق سوجھ رہا ہے،ہماری جان پر بنی ہے۔‘‘
طاہر نے خفگی آمیز لہجے میں کہا اور خاموش ہو گیا۔ میں نے بھی کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ مجھے اطمینان تھا کہ ان علاقوں میں ریچھ یا چیتے نہیں پائے جاتے۔عرفان نے صرف شوشا چھوڑا تھا،ہو سکتا ہے کوئی زو یا بھیڑ بکری قریب آ گئی ہو اور خیمے کی طنابوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہی ہو۔ میں بہرحال سلیپنگ بیگ میں داخل ہو نے کے بعد خیمے سے باہر چلنے والی انتہائی تیز اور سرد ہوا کا سامنا کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ چند منٹ خاموشی طاری رہی تو میں نے سمجھ لیا کہ طاہر کا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔نیند کی دیوی ایک مرتبہ پھر مہربان ہونے والی تھی کہ بھٹہ صاحب کی چہکتی ہوئی آواز آئی:
’’ڈاکٹر صاحب پریشان نہ ہوں یہاں کچھ نہیں ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟ وہ گڑ بڑ کہاں چلی گئی؟‘‘ میرے بجائے عرفان نے سوال کیا۔
’’کوئی گڑ بڑ شڑ بڑ نہیں ہے جی۔خیمے کی ایک رسی ڈھیلی تھی اور تیز ہوا کی وجہ سے پھڑپھڑا رہی تھی۔ ہم سمجھے کوئی جن بھوت ہمیں ڈرانے کی کوشش کرہا ہے۔‘‘
’’ویری گڈ۔‘‘ عرفان نے دھیمی آواز میں کہا۔’’ڈاکٹر صاحب آپ کس قسم کے نمونے ساتھ لائے ہیں ؟ بھوتوں سے ڈرنے والے اس ویرانے میں سکون کی نیند کیسے سوئیں گے؟ اور نیند پوری نہ ہو سکی تو ٹریک کیسے کریں گے؟‘‘
’’میں خود ان نمونوں کا حصہ ہوں، اور یہی نمونے چلیں گے تو روشنی ہو گی۔ میرا مطلب ہے یہ نمونے آپ کو حیران کر دیں گے۔‘‘
’’ابھی اور حیران کریں گے؟‘‘ عرفان نے مصنوعی حیرانی سے کہا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’میں پہلے ہی آپ حضرات کے اندازِ ٹریکنگ پر بہت حیران ہوں۔ مزید حیران ہونے کی گنجائش کہاں سے لاؤں ؟‘‘
’’بجھارتیں نہ ڈالیں۔ سیدھی طرح بتائیں آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ ‘‘
’’ٹریکنگ کا پہلا اصول ہے کہ ٹیم لیڈر کی ہدایات پر عمل کیا جائے۔میں نے خیمے خود لگانے کی تجویز پیش کی تو آپ لوگوں نے مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ہمارا گروپ لیڈر بہت سخت ہے۔ نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر ڈانٹ شانٹ پلا دیتا ہے۔‘‘
’’ہم اتنے بنیاد پرست ٹریکر نہیں ہیں۔ ڈانٹ شانٹ پلانے سے اجتناب کریں اور خیال رکھیں کہ آپ کے خلاف تحریک اعتماد بھی آسکتی ہے۔ووٹنگ ہوئی تو آپ کی لیڈری انا للہ ہو جائے گی اور تین نمونوں میں سے کو ئی ایک ٹیم کا سربراہ منتخب ہو جائے گا۔‘‘
’’ہو چکا دئینتر پاس۔‘‘ عرفان نے ٹھنڈی سانس لی۔
’’پاس واس کا شوق آپ کو ہو گا، ہم پاس عبور کیے بغیر واپس چلے گئے تب بھی ہماری شان میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔‘‘
’’آئی ایم سوری۔ آپ جو دل چاہے کریں، مگر چلتے رہیں۔ میں کسی قیمت پر دئینتر پاس ٹریک کی قربانی کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔‘‘
’’ٹریک انشاء اللہ ضرور مکمل ہو گا۔ میں نے جو کچھ کہا ہے شدید نیند کی حالت میں کہا ہے۔ اس لیے کہا سنا معاف اور شب بخیر۔‘‘
میں نے سلیپنگ بیگ کے کنٹوپ کی زپ بند کر لی۔
نیند گہری ہونے سے پہلے احساس ہوا کہ باہر طوفانی بارش ہو رہی ہے۔ میں نے اس احساس کو خواب سمجھا اور سونے کی کوشش جاری رکھی۔ یہ کوشش ایک زوردار گڑگڑاہٹ نے ناکام بنا دی تو میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ عرفان نے سوال کیا۔
’’سر میں ہلکا ہلکا درد ہو رہا ہے اور ڈراؤنے خواب آرہے ہیں۔ ‘‘
’’برفانی چیتے کے؟‘‘ عرفان ہنسا۔
’’جی نہیں۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ خیمے کے باہر شدید بارش ہو رہی ہے اور شاید آسمانی بجلی بھی گری ہے۔‘‘
’’بارش سچ مچ ہو رہی ہے۔بجلی کڑک رہی ہے اور لینڈ سلائیڈنگ کا شور قیامت ڈھا رہا ہے۔میں خود کافی دیر سے جاگ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں لینڈ سلائیڈنگ کا رخ ہمارے خیموں کی طرف ہو گیا تو کیا ہو گا۔‘‘
’’بارش کہاں سے آ گئی؟شام کے وقت بارش کا سان و گمان تک نہیں تھا۔‘‘
’’ان علاقوں میں بارش کی کیفیت انتہائی غیر یقینی ہوتی ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے ہمارے خیمے کے نیچے پانی جمع ہو رہا ہو گا، تھوڑی دیر تک میٹریس اور سلیپنگ بیگ گیلے ہو کر سونے کے قابل نہیں رہیں گے۔پھر کیا ہو گا؟‘‘
’’خیمے کے نیچے پانی جمع نہیں ہو گا اور میٹریس انشاء اللہ خشک رہیں گے۔‘‘
’’اتنی بارش کے با وجود؟‘‘
’’جی جناب۔ یہ جگہ منتخب کرنے کے فن کا کمال ہے۔ خیمے ایسی جگہ نصب کیے گئے ہیں جہاں پانی ٹھہر نے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بارش کا پانی اردگرد سے گزر جائے گا خیمے کا فرش انشاء اللہ خشک ہی رہے گا۔‘‘
’’یہ فن کہاں سے سیکھا آپ نے؟‘‘
’’یہ فن سیکھنے کیلئے پورٹرز سے خیمے نصب کروانے کے بجائے خود زحمت اٹھانا پڑتی ہے۔فی الحال خیمہ لگانے کی باریکیاں سمجھنے کے بجائے دعا کریں کہ کیمپنگ سائٹ کے اوپر چھائے ہوئے سنگلاخ پر لینڈ سلائیڈنگ نہ ہو۔‘‘
’’انا للہ کا ورد کریں، بیس مرتبہ۔‘‘ میں نے بھٹہ صاحب کا کلیہ آزمایا۔
’’یہ ورد نیلو لوٹ کے باسی کریں گے۔لینڈ سلائیڈ کے بعد۔‘‘
میں کچھ دیر بارش کے شور اور بادلوں کی گڑگڑاہٹ سے خوفزدہ رہا،پھر کان اس موسیقی کے عادی ہو گئے اور تھکے ماندے جسم پر نیند کی دیوی پوری طرح حاوی ہو گئی۔
صبح آنکھ کھلی تو مطلع صاف تھا۔
آسمان دیکھ کر یقین نہیں آتا تھا کہ چند گھنٹے قبل طوفانی بارش ہوئی ہو گی۔ طاہر اور بھٹہ صاحب کا بیان تھا کہ وہ ساری رات جاگتے رہے ہیں۔ خیمے سے باہر کے حالات دیکھ کر یقین آگیا کہ خیمہ لگانے کیلئے جگہ تلاش کرنا ایک فن ہے۔ ہمارے خیموں کے اردگرد جل تھل کی کیفیت تھی، خیموں کے نیچے والے پتھر قریب قریب خشک تھے۔ہم ان جل تھل پانیوں سے گزرتے ہوئے بہک تک گئے تاکہ اپنے پورٹرز کی حالت زار ملاحظہ کر سکیں۔ بہک خالی تھی۔عالم خان اور پورٹرز غالباً کسی اور جگہ منتقل ہو گئے تھے۔ بہک کے اندر کا جائزہ لینے پر احساس ہوا کہ بہک بنانے والے بہت بڑے فنکار ہیں۔ بہک چھت سے بے نیاز تھی اور درختوں کے تنوں کے درمیان اچھا خاصا خلا تھا۔بارش کا پانی بہک کے اندر داخل ہونے میں بہ ظاہر کوئی رکاوٹ نہیں تھی،لیکن درختوں کے تنے کھڑے کرنے میں جیومیٹری کے نہ جانے کون سے اصول مد نظر رکھے گئے تھے کہ بہک کا فرش تقریباً خشک تھا۔اس کے اندر سونے والا یقیناً بارش سے محفوظ رہتا ہو گا۔ہمیں حیرانی تھی کہ عالم خان وغیرہ اتنی محفوظ پناہ گاہ چھوڑ کر کہیں اور کیوں چلے گئے؟ بعد میں علم ہوا کہ اُن لوگوں نے رات بہک ہی میں گزاری تھی اور ہمارے بیدار ہونے سے پہلے ناشتے کا بندوبست کرنے نیلو لوٹ تشریف لے گئے تھے۔
’’ڈاکٹر صاحب یہاں کہیں ٹائلٹ ہو گا؟‘‘ بھٹہ صاحب نے سوال کیا۔
’’کیوں نہیں ؟ میرے ساتھ تشریف لائیں۔ ‘‘
میں بھٹہ صاحب کا بازو تھام کر بہک سے باہر آیا اور بارش سے پیدا شدہ جھیلوں سے بچتے بچاتے ایک ٹیلے کے کنارے پہنچ کر رک گیا۔
’’وہ گلیشئر نظر آ رہا ہے ناں ؟شانی گلیشئر کہلاتا ہے اور غالباً آٹھ دس کلومیٹر طویل ہے۔‘‘ میں نے سامنے اشارہ کیا۔
’’میں نے گلیشئر نہیں ٹائلٹ کے بارے میں دریافت کیا تھا۔‘‘
’’میں آپ کو ٹائلٹ ہی دکھا رہا ہوں۔ یہاں سے وہاں تک،اور وہاں سے شانی کی چوٹی تک ٹائلٹ ہی ٹائلٹ ہے۔‘‘
’’بہت بہت شکریہ۔‘‘
بھٹہ صاحب نے نہایت اطمینان سے جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پانچ روپے کا سکہ نکال کر مجھے تھما دیا۔
’’اس کا کیا کروں ؟‘‘ میں حیران ہوا۔
’’مجھے کیا پتا ٹائلٹ کے رکھوالے پانچ روپے کا کیا کرتے ہیں۔ ‘‘ بھٹہ صاحب نے پر وقار انداز سے فرمایا اور آگے روانہ ہو گئے۔
میں بُری طرح بولڈ آؤٹ ہو گیا اور جھینپے ہوئے انداز میں سکے سے بھٹہ صاحب کے سرکو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ وفادار سکہ بھٹہ صاحب کے سر کو زحمت دیئے بغیر پرواز کا رخ تبدیل کر کے پتھروں کے درمیان لینڈ کر گیا۔بھٹہ صاحب نظروں سے اوجھل ہو گئے اور میں نے مخالف سمت کا رخ کیا۔
ڈھیری کے یخ بستہ پانیوں میں منہ ہاتھ منہ دھوتے اور برش کرتے وقت باقاعدہ کپکپی طاری ہو گئی۔ میں نے نالے کے کنارے پتھر پر تشریف فرما ہو کر شیو بنانے کا ارادہ کیا تو عرفان نے اعتراض کیا:
’’ڈاکٹر صاحب آپ ٹریک پر ہیں یا کسی کانفرنس میں تشریف لائے ہیں ؟ ٹریک پر شیو وغیرہ کا تکلف نہیں کیا جاتا۔‘‘
’’کیوں نہیں کیا جاتا؟‘‘ میں نے بھٹہ صاحب کی طرح آستینیں چڑھائیں۔
’’بس ایسے ہی،میرا مطلب ہے یہاں دیکھنے والا کون ہے؟‘‘
’’شیو کیے بغیر دن تبدیل ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔‘‘
’’یعنی آپ روزانہ شیو کریں گے ؟‘‘
’’آپ کو کیا اعتراض ہے؟‘‘
’’اعتراض تو کوئی نہیں … مگر … مگر … ٹریکنگ کا پہلا اصول ہے کہ ٹریک پر بناؤ سنگھار سے پرہیز کیا جائے۔ہم یہاں فطرت سے لطف اندوز ہونے آئے ہیں اس لیے فطرت کے قریب ترین طرزِ زندگی اختیار کرنا چاہیے۔ہمارا امیر ٹریک کے دوران شیونگ وغیرہ کو فطرت کی توہین قرار دیتا ہے۔‘‘
’’آپ اپنے امیر کو وہاڑی لائیں۔ میں اس کا دماغی معائنہ کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘
میں نے یخ بستہ پانی سے شیو کی، عرفان نے یہ ’’غیر شریفانہ‘‘ حرکت اپنے کیمرے میں محفوظ کر لی، اس اعلان کے ساتھ کہ وہ اپنے فطرت پسند امیر کو دکھانا چاہتا ہے کہ ٹریکنگ کی دنیا میں کس قسم کے غیر فطری نمونے پائے جاتے ہیں۔
عالم خان، میر عالم اور شیر احمد ناشتے سے لدے پھندے وارد ہوئے اور بہک میں تشریف لے گئے۔ہم نے بہک کی طرف چلنا شروع کیا ہی تھا کہ مشرقی پہاڑیوں کی اوٹ سے آفتاب ابھرا جس کی کرنیں رنگ و نور کی برسات کر رہی تھیں۔ ابھی نیلو لوٹ کی چمپئی شام کا نشہ نہیں اترا تھا،کہ سرمئی اجالے میں ابھرتے ہوئے سورج کی کرنوں نے ’’شرابِ ظہور‘‘ کے جام لنڈھانے شروع کر دیے۔ و الشمس و ضحٰحا … قسم ہے سورج کی اور اس کی کرنوں کی۔جو مفسرین اس آیت میں پوشیدہ اللہ تعالیٰ کی صناعی اور قدرت کے اظہار کا عملی مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں، انھیں چاہیے کہ نیلو لوٹ میں طلوعِ آفتاب کے منظر سے محروم نہ رہیں۔ یہ خوبصورت منظر فطرت کدوں میں پہلی رات گزارنے پر قدرت کی طرف سے پیش کیا گیا انمول تحفہ تھا۔صرف میں نہیں، میرے تینوں ساتھی بھی طلسم نور افشانی کا شکار ہو چکے تھے اور نورانی کرنیں روح کی گہرائیوں میں اجالے بکھیر رہی تھیں۔ شمالی علاقہ جات پر تحریر کی گئی کوئی کتاب نیلو لوٹ کی صبح کا جادو بیان نہیں کر سکتی۔
کون کر سکتا ہے؟
مجھے اللہ تعالیٰ سے شکوہ ہے کہ مناظر سے لطف اندوز ہونے اور الفاظ کا جامہ پہنانے کا ذوق عطا کیا ہے تو منظر نگاری کے فن پر مکمل عبور حاصل کرنے کی توفیق کیوں نہیں بخشی؟ کاش میں سورج کی شعاعوں کے بوسوں کے جواب میں شرماتی لجاتی ٹوئین پیک اور شانی پیک کے بدلتے رنگوں کا حسن بیان کر سکتا:
صبحِ ’’ٹوئین پیک‘‘ کے جادو کو دیکھ کر
ہم نے نظر سے اپنی چھپائی ہوئی ہے رات
نیلو لوٹ کی صبح کے اعزاز میں اتنا کہنا کافی ہے کہ مجھے ٹریک کے پہلے دن اتنی خوبصورت صبح دیکھنے کی توقع نہیں تھی۔ ایسے مناظر ٹریک کی سختیاں اور کٹھنائیاں جھیلنے کے بعد نظر آتے ہیں۔ ابھی ہم پکنک کے خمار میں تھے، بلندیاں طے نہیں کیں تھیں، پہلے دن کی متوقع منزل تک نہیں پہنچ پائے تھے،اور قدرت نے نہایت فراخدلی سے ہمیں ایک خوبصورت مارننگ شو کا تحفہ عطا کر دیا تھا۔ ہم بخوبی اندازہ کر سکتے تھے کہ دئینتر پاس کی بلندیوں پر کتنی عنایات ہماری منتظر ہوں گی۔دئینتر پاس کی شراب اتنی بھی پھیکی نہیں تھی۔
سورج کی روشنی پھیلنے لگی اور ہم نے سفید براق بلندیوں پر لہراتے ہوئے ماورائی رنگ تصاویر کے البم میں قید کرنے کی کوشش کی،لیکن منظر جتنا دلکش تھا، اتنا ہی غیر یقینی تھا۔چند رنگین ساعتوں کا مسحور کن کھیل، اس کے بعد ڈھیری کی بہک میں ’’زو‘‘ کے تازہ دودھ، ڈھیری کی ہوم میڈ ڈبل روٹی اور کارن فلیکس جیسے قوت بخش اجزا پر مشتمل ناشتا،میں نے مقامی مکھن کی فرمائش کی لیکن عالم خان نے معذرت کر لی۔ ناشتے کے دوران عالم خان سے سوال کیا گیا کہ اُن لوگوں نے رات کہاں بسر کی ؟
’’ادھر ہی تھا ناں۔ آپ کے جاگنے سے پہلے ناشتا لینے نکل گیا تھا۔ مگر میر عالم رات کو بستی پہنچ گیا تھا، اس کو ماشوقہ کے بغیر نیند نہیں آتا۔‘‘
’’لاحول ولا قوۃ الابا اللہ۔ معشوقہ کے گھر والے اعتراض نہیں کرتے ؟‘‘ بھٹہ صاحب شدید غصے میں آ گئے۔
’’اعتراض کیوں کرے گا؟‘‘ میر عالم حیران ہوا
’’اس علاقے میں شادی کے بغیر رات گزارنے پر کوئی اعتراض … ‘‘
’’آپ کو کس نے بولا کہ ان کا شاد ی نہیں ہوا؟‘‘ عالم خان نے بات کاٹی۔
’’اس مرتبہ میری طرف سے لاحول ولا قوۃ الابا اللہ۔‘‘ عرفان نے دخل اندازی کی۔’’شادی ہو گئی ہے تو بیوی کہو،معشوقہ کیوں کہہ رہے ہو؟‘‘
’’بیوی ماشوقہ نہیں ہو سکتا؟‘‘
’’نہیں ہو سکتا۔شادی کے بعد معشوقہ چند دن کے لیے بیگم بنتی ہے پھر ہانڈی چولھے کو پیاری ہو کر منے کی اماں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔‘‘
’’میر عالم کا بیوی تین بچوں کا ماں ہے،پھر بھی اس کا ماشوقہ ہے۔‘‘
عالم خان ٹھیک کہہ رہا تھا تو میر عالم کی بیوی دنیا کی خوش قسمت ترین خاتون تھی۔
’’تم بیوی کے بغیر سو نہیں سکتے تو اگلے تین چار دن کیسے گزارو گے۔‘‘ بھٹہ صاحب نے تجسس آمیز لہجے میں میر عالم سے سوال کیا۔
’’گزار لوں گا سر۔‘‘ میر عالم نے معنی خیز انداز میں شیر احمد کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’کیسے گزار لو گے؟‘‘ عرفان بھی تجسس کا شکار ہو گیا۔
’’شیر احمد ہے ناں سر۔اس کے ساتھ سو جائے گا۔‘‘
’’کیا مطلب؟ یہ شیر احمد اے یا سچ مچ شیر بیگم ہے۔‘‘ بھٹہ صاحب چونکے۔
’’ام شیر احمد ہے صاب، بیگم ویگم مت بولو۔‘‘ شیر احمد نے نازک سا احتجاج کیا۔
’’پھر میر عالم تمھارے ساتھ کیسے سو سکتا ہے؟‘‘ بھٹہ صاحب نے اعتراض کیا۔
’’سر آپ ناراض ہوتا ا ے تو ام آپ کے پاس لیٹ جاتا اے۔‘‘
’’اوئے کی بکواس کر دا پیا ایں۔ ‘‘ بھٹہ صاحب کا پارہ شانی پیک کی بلندی عبور کر گیا۔ ’’عرفان صاحب آپ کس قسم کے بندے پکڑ لائے ہیں جنھیں بات کرنے کی بھی تمیز نہیں۔ میں اس قسم کی خرافات برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘
’’آپ خواہ مخواہ ناراض ہوتا اے ناں صاب۔ام نے آپ کے ساتھ کون سا خرافات کیا اے؟‘‘ شیر احمد نے عاجزی سے سوال کیا۔
’’یہ بے چارہ تو اپنے ساتھ خرافات کرنے کی دعوت دے رہا تھا۔‘‘ میں نے وضاحت کی۔
’’اس سے بات نہ کریں سر۔ کوئی بات برا لگا ہے تو ہم معافی چاہتا ہے۔یہ آپ کا بات ٹھیک طرح نہیں سمجھتا اس لیے گڑبڑ ہو جاتا ہے۔ آپ دل صاف رکھو۔یہ لوگ آپ کے ساتھ بدتمیزی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘ عالم خان نے معذرت کی۔
بھٹہ صاحب خاموش ہو گئے۔
ناشتے کے بعد ہم نے خیمے لپیٹے۔ عرفان نے چاکلیٹ، نمکو، بسکٹ اور ڈرائی فروٹ کا یومیہ کوٹہ تقسیم کیا۔ ٹریک پر باقاعدہ لنچ کا کوئی تصور نہیں، کم از کم عرفان کے ’’سنگلاخ‘‘ ذہن میں بالکل ہی نہیں۔ تقسیم شدہ سامان ہمارا موبائل لنچ تھا۔مقدار اور وزن صنم کی کمر جیسی … توانائی اور حرارت صنم کی … میرا مطلب ہے ہلکا پھلکا اور قوت بخش۔
ڈاکٹر محمد اقبال ہما