- Advertisement -

اللہ دتا

ایک افسانہ از سعادت حسن منٹو

اللہ دتا

دو بھائی تھے۔ اللہ رکھا اور اللہ دتا۔ دوست ریاست پٹیالہ کے باشندے تھے۔ ان کے آباؤ اجاد البتہ لاہور کے تھے مگر جب ان دو بھائیوں کا دادا ملازمت کی تلاش میں پٹیالہ آیا تو وہیں کا ہورہا۔ اللہ رکھا اور اللہ دتا دونوں سرکاری ملازم تھے۔ ایک چیف سیکرٹری صاحب بہادر کا اردلی تھا، دوسرا کنٹرولر آف اسٹورز کے دفتر کا چپڑاسی۔

دونوں بھائی ایک ساتھ رہتے تھے تاکہ خرچ کم ہو۔ بڑی اچھی گزر رہی تھی۔ ایک صرف اللہ رکھا کو جو بڑا تھا، اپنے چھوٹے بھائی کے چال چلن کے متعلق شکایت تھی۔ وہ شراب پیتا تھا۔ رشوت لیتا تھا اور کبھی کبھی کسی غریب اور نادار عورت کو پھانس بھی لیا کرتا تھا۔ مگر اللہ رکھا نے ہمیشہ چشم پوشی سے کام لیا تھا کہ گھرکا امن و سکون درہم برہم نہ ہو۔

دونوں شادی شدہ تھے۔ اللہ رکھا کی دو لڑکیاں تھیں۔ ایک بیاہی جا چکی تھی اور اپنے گھر میں خوش تھی۔دوسری جس کا نام صغریٰ تھا، تیرہ برس کی تھی اور پرائمری اسکول میں پڑھتی تھی۔

اللہ دتا کی ایک لڑکی تھی۔۔۔۔۔۔زینب۔۔۔۔۔۔ اس کی شادی ہوچکی تھی مگر اپنے گھرمیں اتنی خوش نہیں تھی۔ اس لیے کہ اس کا خاوند اوباش تھا۔ پھر بھی وہ جوں توں نبھائے جارہی تھی۔ زینت اپنے بھائی طفیل سے تین سال بڑی تھی۔ اس حساب سے طفیل کی عمر اٹھارہ انیس برس کے قریب ہوتی تھی۔ وہ لوہے کے ایک چھوٹے سے کارخانے میں کام سیکھ رہا تھا۔ لڑکا ذہین تھا، چنانچہ کام سیکھنے کے دوران میں بھی پندرہ روپے ماہوار اسے مل جاتے تھے۔ دونوں بھائیوں کی بیویاں بڑی اطاعت شعار، محنتی اور عبادت گزار عورتیں تھیں۔ انھوں نے اپنے شوہروں کوکبھی شکایت کا موقع نہیں دیا تھا۔

زندگی بڑی ہموار گزر رہی تھی کہ ایکا ایکی ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے ۔ دونوں بھائیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کے مال و جان اورعزت و آبرو پر حملہ ہوگا اور انھیں افراتفری اور کسمپرسی کے عالم میں ریاست پٹیالہ چھوڑنا پڑے گی۔۔۔۔۔۔ مگر ایسا ہوا۔

دونوں بھائیوں کو قطعاً معلوم نہیں کہ اس خونیں طوفان میں کون سا درخت گرا، کون سے درخت سے کون سی ٹہنی ٹوٹی۔۔۔۔۔۔ جب ہوش و حواس کسی قدر درست ہوئے تو چند حقیقتیں سامنے آئیں اور وہ لرز گئے۔ اللہ رکھا کی لڑکی کا شوہر شہید کردیا گیا تھا اور اس کی بیوی کو بلوائیوں نے بڑی بے دردی سے ہلاک کردیا تھا۔ اللہ دتا کی بیوی کو بھی سکھوں نے کرپانوں سے کاٹ ڈالا تھا۔ اسکی لڑکی زینب۔۔۔۔۔۔ کا بدچلن شوہربھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔

رونا دھونا بیکار تھا۔ صبر شکرکے بیٹھ رہے۔۔۔۔۔۔ پہلے تو کیمپوں میں گلتے سڑتے رہے۔ پھر گلی کوچوں میں بھیک مانگا کیے۔ آخر خدا نے سنی۔ اللہ دتا کو گوجرانوالہ میں ایک چھوٹا سا شکستہ مکان سر چھپانے کو مل گیا۔ طفیل نے دوڑ دھوپ کی تو اسے کام مل گیا۔

اللہ رکھا لاہور ہی میں دیر تک دربدر پھرتا رہا۔جوان لڑکی ساتھ تھی۔ گویا ایک پہاڑ کا پہاڑ اس کے سرپر تھا۔ یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ اس غریب نے کس طرح ڈیڑھ برس گزارا۔ بیوی اور بڑی لڑکی کا غم وہ بالکل بھول چکا تھا۔ قریب تھا کہ وہ کوئی خطرناک قدم اٹھائے کہ اسے ریاست پٹیالہ کے ایک بڑے افسر مل گئے جو اس کے بڑے مہربان تھے۔ اس نے ان کو اپنی حالت زار الف سے لے کر یے تک کہہ سنائی۔ آدمی رحم دل تھا۔ اس کو بڑی دقتوں کے بعد لاہور کے ایک عارضی دفتر میں اچھی ملازمت مل گئی تھی، چنانچہ انھوں نے دوسرے روز ہی اس کو چالیس روپیہ ماہوار پر ملازم رکھ لیا اور ایک چھوٹا سا کوارٹر بھی رہائش کے لیے دلوا دیا۔

اللہ رکھا نے خدا کا شکر ادا کیا جس نے اس کی مشکلات دور کیں۔ اب وہ آرام سے سانس لے سکتا تھا اور مستقبل کے متعلق اطمینان سے سوچ سکتا تھا۔ صغریٰ بڑے سلیقے والی سگھڑ لڑکی تھی، سارا دن گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی۔ ادھر ادھر سے لکڑیاں چن کے لاتی۔ چولہا سلگاتی اور مٹی کی ہنڈیا میں ہر روز اتنا سالن پکاتی جو دو وقت کے لیے پورا ہو جائے۔ آٹا گوندھتی۔ پاس ہی تنور تھا، وہاں جا کر روٹیاں لگوا لیتی۔

تنہائی میں آدمی کیا کچھ نہیں سوچتا۔ طرح طرح کے خیالات آتے یں۔ صغریٰ عام طور پر دن میں تنہا ہوتی تھی اور اپنی بہن اور ماں کو یاد کرکے آنسو بہاتی رہتی تھی، پر جب باپ آتا تو وہ اپنی آنکھوں میں سارے آنشو خشک کرلیتی تھی تاکہ اس کے زخم ہرے نہ ہوں۔ لیکن وہ اتنا جانتی تھی کہ اس کا باپ اندرہی اندر گھلا جارہا ہے۔ اس کا دل ہر وقت روتا رہتا ہے مگر وہ کسی سے کہتا نہیں۔ صغریٰ سے بھی اس نے کبھی اس کی ماں اور بہن کا ذکر نہیں کیا تھا۔

زندگی افتاں و خیزاں گزر رہی تھی۔ ادھر گوجرانوالہ میں اللہ دتا اپنے بھائی کے مقابلے میں کسی قدرخوش حال تھا، کیوں کہ اسے بھی ملازمت مل گئی تھی اور زینب بھی تھوڑا بہت سلائی کا کام کرلیتی تھی۔ مل ملا کے کوئی ایک سو روپے ماہوار ہو جاتے تھے جو تینوں کے لیے بہت کافی تھے۔

مکان چھوٹا تھا، مگر ٹھیک تھا۔ اوپر کی منزل میں طفیل رہتا تھا، نچلی منزل میں زینب اور اس کا باپ۔ دونوں ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اللہ دتا اسے زیادہ کام نہیں کرنے دیتا تھا۔ چنانچہ منہ ادھیرے اٹھ کروہ صحن میں جھاڑو دے کر چولہا سلگا دیتا تھا کہ زینت کا کام کچھ ہلکا ہو جائے۔ وقت ملتا تو دو تین گھڑے بھر کرگھڑونچی پر رکھ دیتا تھا۔

زینت نے اپنے شہید خاوند کو کبھی یاد نہیں کیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اس کی زندگی میں کبھی تھا ہی نہیں۔ وہ خوش تھی۔ اپنے باپ کے ساتھ بہت خوش تھی۔ بعض اوقات وہ اس سے لپٹ جاتی تھی۔۔۔۔۔۔طفیل کے سامنے بھی۔ اور اس کو خوب چومتی تھی۔

صغریٰ اپنے باپ سے ایسے چہل نہیں کرتی تھی۔۔۔۔۔۔ اگر ممکن ہوتا تو وہ اس سے پردہ کرتی۔ اس لیے نہیں کہ وہ کوئی نامحرم تھا۔ نہیں۔۔۔۔۔۔ صرف احترام کے لیے۔۔۔۔۔۔ اس کے دل سے کئی دفعہ یہ دعا اٹھتی تھی۔’’ یا پروردگار۔۔۔۔۔۔ میرا باپ میرا جنازہ اٹھائے۔‘‘

بعض اوقات کئی دعائیں الٹی ثابت ہوتی ہیں۔ جو خدا کو منظور تھا، وہی ہونا تھا۔ غریب صغریٰ کے سر پر غم و اندوہ کا ایک اور پہاڑ ٹوٹنا تھا۔ جون کے مہینے دوپہر کو دفتر کے کسی کام پر جاتے ہوئے تپتی ہوئی سڑک پر اللہ رکھا کو ایسی لُو لگی کہ بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ لوگوں نے اٹھایا۔ ہسپتال پہنچایا مگر دوا دارو نے کوئی کام نہ کیا۔ صغریٰ باپ کی موت کے صدمے سے نیم پاگل ہوگئی۔ اس نے قریب قریب آدھے بال نوچ ڈالے۔ ہمسایوں نے بہت دم دلاسا دیا مگر یہ کارگر کیسے ہوتا۔۔۔۔۔۔ وہ تو ایسی کشتی کے مانند تھی جو اس کا بادبان ہو نہ کوئی پتوار اور بیج منجدھار کے آن پھنسی ہوئی۔

پٹیالہ کے وہ افسر جنہوں نے مرحوم اللہ رکھا کو ملازمت دلوائی تھی، فرشتہ رحمت ثابت ہوئے۔ ان کو جب اطلاع ملی تو دوڑے آئے۔ سب سے پہلے انھوں نے یہ کام کیا کہ صغریٰ کو موٹر میں بٹھا کر گھر چھوڑ آئے اور بیوی سے کہا کہ وہ اس کا خیال رکھے۔ پھر ہسپتال میں جا کر انھوں نے اللہ رکھا کے غسل وغیرہ کا وہیں انتظام کیا اور دفتر والوں سے کہا کہ وہ اس کو دفنا آئیں۔

اللہ دتا کو اپنے بھائی کے انتقال کی خبر بڑی دیر کے بعد ملی۔ بہر، وہ لاہور آیا اور پوچھتا پاچھتا وہاں پہنچ گیا جہاں صغریٰ تھی۔ اس نے اپنی بھتیجی کو بہت دم دلاسا دیا، بہلایا۔ سینے کے ساتھ لگایا، پیار کیا۔ دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کیا۔ بہادر بننے کو کہا، مگرصغریٰ کے پھٹے ہوئے دل پر ان تمام باتوں کا کیا اثر ہوتا۔ غریب خاموش اپنے آنسو دوپٹے میں خشک کرتی رہی۔

اللہ دتا نے افسر صاحب سے آخر میں کہا۔’’ میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں۔ میری گردن آپ کے احسانوں تلے ہمیشہ دبی رہے گی۔ مرحوم کی تجہیز و تکفین کا آپ نے بندوبست کیا۔ پھر یہ بچی جو بالکل بے آسرا رہ گئی تھی، اس کو آپ نے اپنے گھر میں جگہ دی۔۔۔۔۔۔ خدا آپ کو اس کا اجر دے۔۔۔۔۔۔ اب میں اسے اپنے ساتھ لیے جاتا ہوں۔ میرے بھائی کی بڑی قیمتی نشانی ہے۔‘‘

افسر صاحب نے کہا۔’’ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن تم ابھی اسے کچھ دیر اور یہاں رہنے دو۔۔۔۔۔۔ طبیعت سنبھل جائے تو لے جانا۔‘‘ اللہ دتا نے کہا۔’’حضور! میں نے ارادہ کیا ہے کہ اس کی شادی اپنے لڑکے سے کروں گا اور بہت جلد!‘‘ افسر صاحب بہت خوش ہوئے۔’’بڑا نیک ارادہ ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن اس صورت میں جب کہ تم اس کی شادی اپنے لڑکے سے کرنے والے ہو، اس کا اس گھر میں رہنا مناسب نہیں۔ تم شادی کا بندوبست کرو۔ مجھے تاریخ سے مطلع کردینا۔ خدا کے فضل و کرم سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

بات درست تھی۔ اللہ دتا واپس گوجرانوالہ چلا گیا۔ زینب اس کی غیر موجودگی میں بڑی اداس ہوگئی تھی۔ جب وہ گھر میں داخل ہوا تو وہ اس سے لپٹ گئی اور کہنے لگی کہ اس نے اتنی دیر کیوں لگائی؟

اللہ دتا نے پیار سے اسے ایک طرف ہٹایا۔’’ارے بایا، آنا جانا کیا ہے۔۔۔۔۔۔ قبر پر فاتحہ پڑھنی تھی۔ صغریٰ سے ملنا تھا، اسے یہاں لانا تھا۔‘‘ زینب نہ معلوم کیا سوچنے لگی۔’’صغریٰ کو یہاں لانا تھا۔‘‘ ایک دم چونک کر۔’’ہاں۔۔۔۔۔۔ صغریٰ کو یہاں لانا تھا۔ پر وہ کہاں ہے؟‘‘ ’’وہیں ہے۔۔۔۔۔۔ پٹیالے کے ایک بڑے نیک دل افسر ہیں، ان کے پاس ہے۔ انھوں نے کہا جب تم اس کی شادی کا بندوبست کرلو گے تو لے جانا‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے بیڑی سلگائی۔

زینب نے بڑی دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔’’ اس کی شادی کا بندوبست کررہے ہو۔۔۔۔۔۔ کوئی لڑکا ہے تمہاری نظر میں؟‘‘ اللہ دتہ نے زور کا کش لگایا۔’’ارے بھئی، اپنا طفیل۔۔۔۔۔۔ میرے بڑے بھائی کی صرف ایک ہی نشانی تو ہے۔۔۔۔۔۔ میں اسے کیا غیروں کے حوالے کردوں گا؟‘‘ زینب نے ٹھنڈی سانس بھری۔’’تو صغریٰ کی شادی تم طفیل سے کروگے؟‘‘ اللہ دتا نے جواب دیا۔’’ہاں۔۔۔۔۔۔ کیا تمہیں کوئی اعتراض ہے؟‘‘
زینب نے بڑے مضبوط لہجے میں کہا۔’’ہاں۔۔۔۔۔۔ اور تم جانتے ہو، کیوں ہے۔۔۔۔۔۔ یہ شادی ہرگز نہیں ہوگی!‘‘

اللہ دتا مسکرایا۔ زینب کی ٹھوڑی پکڑ کر اس نے اس کا منہ چوما۔’’پگلی۔۔۔۔۔۔ ہر بات پر شک کرتی ہے۔۔۔۔۔۔ اور باتوں کو چھوڑ، آخر میں تمہارا باپ ہوں۔‘‘ زینب نے بڑے زور سے ہونہہ کی۔’’باپ!‘‘ اور اندر کمرے میں جا کر رونے لگی۔ اللہ دتا اس کے پیچھے گیا اور اس کو پچکارنے لگا۔

دن گزرتے گئے۔ طفیل فرمانبردار لڑکا تھا۔ جب اس کے باپ نے صغریٰ کی بات تو وہ فوراً مان گیا۔ آخر تین چار مہینے کے بعد تاریخ مقرر ہوگئی۔۔۔۔۔۔ افسر صاحب نے فوراً صغریٰ کے لیے ایک بہت اچھا جوڑا سلوایا جو اسے شادی کے دن پہننا تھا۔ ایک انگوٹھی بھی لے دی۔ پھر اس نے محلے والوں سے اپیل کی کہ وہ ایک یتیم لڑکی کی شادی کے لیے جو بالکل بے سہارا ہے، حسب توفیق کچھ دیں۔

صغریٰ کو قریب قریب سبھی جانتے تھے اور اس کے حالات سے واقف تھے، چنانچہ انھوں نے مل ملا کر اس کے لیے بڑا اچھا جہیز تیار کردیا۔ صغریٰ دلہن بنی تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ تمام دکھ جمع ہوگئے ہیں اور اس کوپیس رہے ہیں۔ بہر حال، وہ اپنے سسرال پہنچی جہاں اس کا استقبال زینب نے کیا، کچھ اس طرح کہ صغریٰ کو اسی وقت معلوم ہوگیا کہ وہ اس کے ساتھ بہنوں کا سا سلوک نہیں کرے گی بلکہ ساس کی طرح پیش آئے گی۔

صغریٰ کا اندیشہ درست تھا۔ اس کے ہاتھوں کی مہندی ابھی اچھی طرح اترنے بھی نہ پائی تھی کہ زینب نے اس سے نوکروں کے کام لینے شروع کردیے۔ جھاڑو وہ دیتی۔ برتن وہ مانجھتی۔ چولہا وہ جھونکتی۔ پانی وہ بھرتی۔ یہ سب کام وہ بڑی پھرتی اور بڑے سلیقے سے کرتی، لیکن پھر بھی زینب خوش نہ ہوتی۔ بات بات پر اس کو ڈانٹتی ڈپٹتی، جھڑکتی رہی۔

صغریٰ نے دل میں تہیہ کرلیا تھا،وہ یہ سب کچھ برداشت کرے گی اور کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لائے گی، کیوں کہ اگر اسے یہاں سے دھکّا مل گیا تو اس کے لیے اور کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اللہ دتا کاسلوک البتہ اس سے برا نہیں تھا۔ زینب کی نظر بچا کر کبھی کبھار وہ اس کو پیار کرلیتا تھا اور کہتا تھا کہ وہ کچھ فکر نہ کرے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔

صغریٰ کو اس سے بہت ڈھارس ہوتی۔ زینب جب کبھی اپنی کسی سہیلی کے ہاں جاتی اور اللہ دتا اتفاق سے گھر پر ہوتا تو وہ اس سے دل کھول کرپیار کرتا۔ اس سے بڑی میٹھی میٹھی باتیں کرتا۔ کام میں اس کا ہاتھ بٹاتا۔ اس کے واسطے اس نے جو چیزیں چھپا کر رکھی ہوتی تھیں، دیتا اور سینے کے ساتھ لگا کر اس سے کہا۔’’صغریٰ، تم بڑی پیاری ہو!‘‘

صغریٰ جھینپ جاتی۔ دراصل وہ اتنے پُرجوش پیار کی عادی نہیں تھی۔ اس کا مرحوم باپ اگر کبھی اسے پیار کرنا چاہتا تھا تو صرف اس کے سر پرہاتھ پھیر دیا کرتا تھا یا اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ دعا دیا کرتا تھا۔’’خدا میری بیٹی کے نصیب اچھے کرے۔‘‘

صغریٰ طفیل سے بہت خوش تھی۔ وہ بڑا اچھا خاوند تھا۔جو کماتا تھا، اس کے حوالے کردیتا تھا، مگر صغریٰ زینب کودے دیتی تھی، اس لیے کہ وہ اس کے قہر و غضب سے ڈرتی تھی۔

طفیل سے صغریٰ نے زینت کی بدسلوکی اور اس کے ساس ایسے برتاؤ کا کبھی ذکر نہیں کیا تھا۔ وہ صلح کل تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے باعث گھرمیں کسی قسم کی بدمزگی پیدا ہو۔ اور بھی کئی باتیں تھیں جو وہ طفیل سے کہنا چاہتی تو کہہ دیتی مگر اسے ڈر تھا کہ طوفان برپا ہو جائے گا۔ اور تو اس میں سے بچ کر نکل جائیں گے مگر وہ اکیلی اس میں پھنس جائے گی ، اور اس کی تاب نہ لاسکے گی۔

یہ خاص باتیں اسے چند روز ہوئے معلوم ہوئی تھیں اور وہ کانپ کانپ گئی تھی۔ اب اللہ دتا اسے پیار کرنا چاہتا تووہ الگ ہٹ جاتی، یادوڑ کر اوپر چلی جاتی، جہاں وہ اور طفیل رہتے تھے۔

طفیل کو جمعہ کی چھٹی ہوتی تھی۔ اللہ دتا کو اتوار کی۔ اگر زینب گھر پر ہوتی تو وہ جلدی جلدی کام کاج ختم کرکے اوپر چلی جاتی۔اگر اتفاق سے اتوار کو زینب کہیں باہر گئی ہوتی تو صغریٰ کی جان پر بنی رہتی۔ ڈر کے مارے اس سے کام نہ ہوتا، لیکن زینب کا خیال آتا تو اسے مجبوراً کانپتے ہاتھوں سے دھڑکتے دل سے طوعاًوکرہاً سب کچھ کرنا پڑتا۔ اگر وہ کھانا وقت پرنہ پکائے تو اس کا خاوند بھوکا رہے کیوں کہ وہ ٹھیک بارہ بجے اپنا شاگرد روٹی کے بھیج دیتا تھا۔

ایک دن اتوار کو جب کہ زینب گھر پر نہیں تھی، اور وہ آٹا گوندھ رہی تھی، اللہ دتا پیچھے سے دبے پاؤں آیا اور کھلنڈرے انداز میں اس کی آنکھوں پرہاتھ رکھ دیے۔ وہ تڑپ کر اٹھی، مگر اللہ دتا نے اسے اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا۔

صغریٰ نے چیخنا شروع کردیامگر وہاں سننے والا کون تھا۔ اللہ دتا نے کہا۔’’شور مت مچاؤ۔ یہ سب بے فائدہ ہے۔۔۔۔۔۔ چلو آؤ!‘‘ وہ چاہتا تھا کہ صغریٰ کو اٹھا کر اندر لے جائے۔ کمزور تھی مگر خدا جانے اس میں کہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ اللہ دتا کی گرفت سے نکل گئی اور ہانپتی کانپتی اوپر پہنچ گئی۔ کمرے میں داخل ہو کر اس نے اندر سے کنڈی چڑھا دی۔

تھوڑی دیر کے بعد زینب آگئی۔ اللہ دتا کی طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ اندر کمرے میں لیٹ کر اس نے زینب کو پکارا۔ وہ آئی تو اس سے کہا۔’’ادھر آؤ، میری ٹانگیں دباؤ۔۔۔۔۔۔ زینب اچک کر پلنگ پر بیٹھ گئی اور اپنے باپ کی ٹانگیں دبانے لگیں۔۔۔۔۔۔ تھوڑ ی دیر کے بعد دونوں کے سانس تیز تیز چلنے لگے۔ زینب نے اللہ دتا سے پوچھا۔’’کیابات ہے؟ آج تم اپنے آپ میں نہیں ہو؟‘‘

اللہ دتا نے سوچا کہ زینب سے چھپانا فضول ہے، چنانچہ اس نے سارا ماجرا بیان کردیا۔ زینب آگ بگولا ہوگئی۔’’کیا ایک کافی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔ تمہیں تو شرم نہ آئی، پر اب تو آنی چاہیے تھی۔۔۔۔۔۔ مجھے معلوم تھا کہ ایسا ہوگا، اسی لیے میں شادی کے خلاف تھی۔۔۔۔۔۔ اب سن لو کہ صغریٰ اس گھر میں نہیں رہے گی!‘‘

اللہ دتا نے بڑے مسکین لہجے میں پوچھا۔’’کیوں؟‘‘ زینب نے کھلے طور پر کہا۔’’ میں اس گھر میں اپنی سوتن دیکھتا نہیں چاہتی!‘‘ اللہ دتا کا حلق خشک ہوگیا۔ اس کے منہ سے کوئی بات نہ نکل سکی۔ زینب باہر نکلی تو اس نے دیکھا کہ صغریٰ صحن میں جھاڑو دے رہی ہے۔ چاہتی تھی کہ اس سے کچھ کہے مگر خاموش رہی۔

اس واقعے کو دو مہینے گزر گئے۔۔۔۔۔۔ صغریٰ نے محسوس کیا کہ طفیل اس سے کھچا کھچا رہتا تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر اس کو شک کی نگاہوں سے دیکھتا تھا۔آخر ایک دن آیا کہ اس نے طلاق نامہ اس کے ہاتھ میں دیا اور گھر سے باہر نکال دیا۔

سعادت حسن منٹو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک افسانہ از سعادت حسن منٹو