- Advertisement -

آنکھ میں مقدارِ خوش بینی زیادہ کیجیے

ایک اردو سفرنامہ از ڈاکٹر محمد اقبال ہما

آنکھ میں مقدارِ خوش بینی زیادہ کیجیے

A lake carries you into recesses of feeling otherwise impenetrable
William Wordsworth
جھیل احساسات کی اُن گہرائیوں سے آشنا کرتی ہے جو کسی اور ذریعے سے قابلِ رسائی نہیں
ولیم ورڈز ورتھ

گلگت سے نکلتے نکلتے گیارہ بج گئے۔ہم نے دریائے گلگت کا پل عبور کیا، دائیں جانب مڑ کر دریائے گلگت اور ہنزہ کے سنگم پر پہنچے ا ور دریائے ہنزہ کے دائیں کنارے کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے تقریباً تیس منٹ بعد نومل کی دلکش فضاؤں میں داخل ہوئے۔
گلگت سے پچیس کلومیٹر دور نومل ایک روایتی پہاڑی قصبہ ہے لیکن سڑکوں پر دوڑنے بھاگنے والے بچوں کا لباس اور اطوار دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ فطرت کدہ روشن خیالی کی دنیا میں قدم رکھ چکا ہے۔ نل تر کی آبادی دریا کے کنارے کے ساتھ ساتھ کافی ’’لمبائی‘‘ میں پھیلی ہوئی ہے اور سڑک کے دونوں جانب لگائے گئے درخت نومل کی فطری خوبصورتی میں دلکش اضافہ کرتے ہیں۔ نومل کے نزدیک نل تر نالا دریائے ہنزہ میں شامل ہو جاتا ہے۔ ہم نے دریائے ہنزہ کو خدا حافظ کہا اور نل تر نالے کے ساتھ ہولیے۔ نومل سے آگے اس نالے پر بنایا گیا پاور پراجیکٹ ایک خوبصورت ’’پکچر پوائنٹ‘‘ کی مانند نظر آتا ہے۔
نومل سے سات کلومیٹر دور نل تر پائیں ہے جسے مقامی زبان میں ’’کلینی نل تر‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ چھوٹا سا گاؤں شیعانِ علی کا گڑھ ہے۔ نل تر پائیں پہنچتے ہی میٹل روڈ اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔ ہم نل تر پائیں میں داخل ہوئے تو ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو چکی تھی۔ دائیں جانب پھولوں سے لدی ہوئی انتہائی سرسبز پہاڑی پر چند درخت زرد رنگ کا لبادہ اوڑھے کھڑے تھے۔یہ خوبانیاں تھیں۔ ہماری للچائی ہوئی نظریں دیکھ کر عالم خان بندر کی طرح چھلانگیں لگاتے ہوئے پہاڑی کی ٹاپ پر پہنچا اور خوبانیاں توڑ کر نیچے ٹپکانا شروع کر دیں۔ ہم نے اس شغل کو باقاعدہ مقابلے کی شکل دی اور کوئی کیچ ڈراپ نہیں ہونے دیا۔ شاپر خوبانیوں سے بھر گیا اور عالم خان شکست فاش سے دو چار ہوا۔ طاہر اور بھٹہ صاحب خوبانیاں دھونے کے لئے پانی تلاش کرتے رہے، میں نے اور عرفان نے یہ تکلف کئے بغیر اپنے حصے کی خوبانیاں ٹھکانے لگا دیں۔ بے شک یہ خوبانیاں انتہائی خوش ذائقہ تھیں لیکن اُس شیرینی اور لذت سے محروم تھیں جو وادیِ شگر کی خوبانیوں کا طرہ امتیاز ہے۔
اس بچگانہ شغل نے احساس دلایا کہ آزاد فضاؤں نے ہمیں رسمی تکلفات سے بے نیاز کر دیا ہے اور فطرت نہایت فراخدلی سے رس بھری خوبانیوں کی صورت میں اپنی شیریں رعنائیاں نچھاور کر کے ہمیں خوش آمدید کہہ رہی ہے۔
نل تر پائیں کے بعد چڑھائی نسبتاً عمودی ہو جاتی ہے اور سات کلومیٹر کے فاصلے پر نل تر بالا … یا اپر نل تر … یا اجینی نل تر … اور عرف عام میں صرف نل تر خوش آمدید کہتا ہے۔ نل تر پوری وادی کا نام ہے اور وہ مقام جسے نل تر کہا جاتا ہے در اصل جا گوٹ نامی بستی کی اضافت ہے۔اس وادی کے دوسرے قصبوں میں ناگر، گومت، کھیوٹ، چھوتی،دلان،چمارسو، بشاگری اور بدلو شامل ہیں۔ ان بستیوں کی بیش تر آبادی گوجر ہے،سنی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے اور گوجری زبان بولتی ہے۔ یہ لوگ سوات کے مختلف علاقوں سے آ کر یہاں آباد ہوئے۔ ہنزہ اور نگر سے نقل مکانی کر کے آنے والے باشندے بھی کافی تعداد میں آباد ہیں اور شینا زبان بولتے ہیں۔ نل تر وادیِ گلگت کی خوبصورت ترین وادیوں میں شامل ہے اور اسے برطانوی دورِ حکومت میں گلگت کی ’’شدید‘‘ گرمی سے بچاؤ کیلئے ہل سٹیشن کے طور پر آباد کیا گیا تھا۔تقریباً بیس کلومیٹر طویل اس وادی کا کل رقبہ سولہ ہزار آٹھ سو بیا لیس ہیکٹر ہے اور یہاں اوسطاً چارسو دس ملی میٹر سالانہ بارش (گلگت سے تین گنا زیادہ) ریکارڈ کی گئی ہے۔ نل تر سکائی انگ کے شوقین حضرات کی جنت کہلاتا ہے اور یہاں موسم سرما میں نیشنل سکائی انگ چمپین شپ، سعدیہ خان سکائی انگ چمپین شپ، شاہ خان کپ اور چیئرمین جائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی سکائی انگ چمپین شپ باقاعدگی سے منعقد ہوتی ہیں۔ سکائی انگ فیڈریشن آف پاکستان … پاکستان ایئر فورس سکائی انگ ریسورٹ کے تعاون سے ان ٹورنامنٹ کا انعقاد کرتی ہے۔ اس فیڈریشن کا قیام ۱۹۹۰؁ ء میں عمل میں لایا گیا۔
نل تر یا جاگوٹ ہمارا لنچ سٹاپ تھا۔
نل تر اپنے قدیم نام ’’نیلو در‘‘ (نیلودر= سر سبز خطہ)کی ترمیم شدہ شکل ہے اور نام کی مناسبت سے ایک سرسبز و شاداب اور پر رونق قصبہ ہے۔ چھوٹی چھوٹی خوبصورت عمارتیں اور حد نظر تک پھیلے ہوئے آلو کے کھیت ایک خوبصورت منظر نامہ تشکیل دیتے ہیں۔ آلو کے کھیت بنفشی مائل گلابی پھولوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ مجھے علم ہی نہیں تھا کہ آلوؤ ں کے کھردرے اور مٹیالے پس منظر میں اتنے سندر اور رنگا رنگ پھول کھلتے ہیں۔ نل تر عمدہ قسم کے آلوؤں کی پیداوار کیلئے مشہور ہے اور مارکیٹ میں نل تر کے آلو نسبتاً زیادہ قیمت پاتے ہیں۔
ہم نے ہل ٹاپ ہوٹل اینڈ ریستوران دوپہر کے کھانے کے لئے منتخب کیا۔ ہل ٹاپ کے کچن میں اس وقت صرف نل تر کے تر و تازہ آلو دستیاب تھے، لیکن کھانے کی فہرست میں پوٹیٹو فرائی، پوٹیٹوکری، پوٹیٹو مسالا اور پوٹیٹو چپس جیسی ’’کئی‘‘ ڈشیں گنوائی گئیں۔ ہل ٹاپ ہوٹل اینڈ ریستوران کا چھوٹا سا سر سبز لان نل تر نالے کے کنارے پر بنایا گیا ہے۔ کھانے کی میز اور نل تر نالے کے جھلملاتے پانیوں کے درمیان صرف جیپ ٹریک حائل تھا۔نل تر نالے کے اُس پار پاکستان ایئر فورس کے زیرِ اہتمام سکائی انگ سکول قائم کیا گیا ہے جہاں سکائی انگ اور دوسرے برفانی کھیلوں کے علاوہ ’’ونٹر سروائیول‘‘ کی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ یہاں دو عدد سکائی لفٹس موجود ہیں جن سے صرف آرمی آفیسرز لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور اپنے دوست احباب کو مستفید کرا سکتے ہیں۔ افسوس صد افسوس، ہمارے لنگوٹیا یاروں میں کوئی ’’وڈا‘‘ آرمی آفسرس شامل نہیں (کرنل کامران نواز بھارہ سے معذرت کے ساتھ … ایک تو ہم انھیں وڈا نہیں سمجھتے دوسرے وہ ہمیں لفٹ کرانے سے پہلے بہت زیادہ سوچ بچار کرتے ہیں ) اس لئے ان لفٹس کے بارے میں سوچتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ اس سکول کا سرسری دورہ ہمارے پروگرام میں شامل تھا جو ’’سامان بندھائی‘‘ اور ’’جوتا تلاشی‘‘ جیسی اہم ترین مصروفیات کے باعث منسوخ کر دیا گیا۔
کھانا تیار ہونے کا وقفہ ایک گھنٹے پر محیط ہو گیا اور ہم نے یہ وقت نل تر کے ارد گرد بکھری ہوئی خوبصورت چوٹیوں کے مناظر کی تصاویر بناتے ہوئے گزارا۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ نل تر کے آلو موروثی طور پر خوش ذائقہ تھے یا شدید بھوک کے احترام میں بھرپور لذت کا مظاہرہ کر رہے تھے، لیکن یہ طے ہے کہ ہم نے بے مسالا ہونے کے باوجود اتنے خوشبودار اور لذت سے بھرپور آلو پہلے کبھی نہیں کھائے تھے۔ ان میں ایک خاص تازگی اور مہک پائی جاتی تھی جو دنیا کے دوسرے آلوؤں میں نہیں پائی جاتی۔ ایک ایک پلیٹ پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد ہم نے مزید آلوؤں کی فرمائش کی اور انھیں چمچ کی مدد سے براہِ راست سے نوش فرمایا۔آلو طاہر کی پسندیدہ ترین ڈش ہے،وہ نل تر کے آلوؤں کی تعریف میں رطب اللسان تھا اور اُس کی تجویز تھی کہ آلو بھرے نل تر کا نام ’’آلو تر‘‘ رکھ دینا چاہیے۔
لنچ کے بعد کچھ دیر لان پر قیلولہ کیا گیا اور تقریباً سوا دو بجے ہم نل تر جھیل کے لئے روانہ ہوئے۔ جھیل بستی سے بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ چند سال پہلے جھیل تک جیپ ٹریک نہیں تھا۔ قصبے ہی سے ٹریکنگ کا آغاز ہوتا تھا اور دو تین گھنٹے کی ٹریکنگ جھیل تک پہنچاتی تھی۔آج کل ایک باقاعدہ جیپ ٹریک پہاڑی ندی نالے عبور کر کے نل تر جھیل پہنچتا ہے۔ بیش تر نالوں پرپل وغیرہ بنانے کی کوشش نہیں کی گئی، جیپ ان نالوں سے ’’شراپڑ شراپڑ‘‘ گزرتی ہے۔نل تر بالا سے نو کلو میٹر دور دریائے نل تر پر بنایا گیا پل عبور کر کے جیپ ٹریک بنگلا نامی بستی میں داخل ہوتا ہے۔ بنگلا ایک عارضی بستی ہے جہاں بکروال موسمِ گرما کے چند مہینے گزارتے ہیں۔ یہ لوگ معاوضے پر مقامی باشندوں کے پالتو مویشی دور دراز چراگاہوں میں لے جاتے ہیں اور سردیاں شروع ہوتے ہی انھیں مالکان کے حوالے کر کے اپنے مستقل ٹھکانوں (نل تر بالا اور ارد گرد کی بستیاں) کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔
وادیِ نل تر کو وادیِ پونیال سے ملانے والا بھچر پاس ٹریک(Bhichchar Pass) بنگلا سے شروع ہوتا ہے۔ اس ٹریک کا ارادہ ہو تو جھیل کے بجائے بنگلا میں کیمپنگ کی جا سکتی ہے۔ بھچر پاس دو دن (ہمت ہو تو صرف ایک دن ) کا نسبتاً آسان لیکن گمنام ٹریک ہے۔ نل تر جھیل پر پکنک کے لیے آنے والے اسے گلگت واپسی کے لیے متبادل راستے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں بشرطیکہ ایک دن کی کیمپنگ اور تھوڑی سی مشقت برداشت کرنے کی ہمت رکھتے ہوں۔
بنگلا سے آگے صنوبر، دیودار اور بھوج پتر کے خوبصورت جنگلات سے گزرتے ہوئے ہم پونے تین بجے نل تر جھیل پر پہنچے۔ یہ جھیل ’’بشکری جھیل‘‘ یا ’’کوتی‘‘ جھیل بھی کہلاتی ہے۔ اس جگہ جیپ روڈ کا اختتام اور پیدل ٹریک کا آغاز ہوتا ہے۔
نل تر جھیل کی پہلی نظر نے مجھے مایوس کیا۔
سکر دو کی کتپنا کے بعد دوسری جھیل جس کی پہلی نظر نے مایوس کیا۔
نل تر جھیل کے کنارے پہنچنے کے باوجود مجھے احساس نہیں ہوا کہ میں جذبات و احساسات کی نازک گہرائیوں سے آشنا کرنے والے طلسم کدے میں قدم رکھ چکا ہوں۔ جھیل میں پانی کی مقدار بہت کم تھی اور اس کی تہہ میں نظر آنے والے پتھروں پر جمی ہوئی کائی صاف نظر آ رہی تھی۔ جھیل کا ’’سرسبز پانی‘‘ اسی کائی کے رنگوں کا کمال تھا۔ فشنگ کے شوقین حضرات کے لیے جھیل کے وسط میں ایک مصنوعی چبوترہ بنایا گیا ہے اور اردگرد کے درختوں پر رنگین جھنڈے لہرا کر ماحول کی دل کشی میں اضافہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انسانی ہاتھوں سے کی گئی مصنوعی آرائش و زیبائش نے جھیل کے حسن میں اضافہ نہیں کیا، اس کی فطری معصومیت کو داغ دار کر دیا ہے۔ گلگت آنے کے باوجود نل تر جھیل کا درشن نہ کرنے کی میٹھی میٹھی خلش کئی برس سے میرے ذہن پر چھائی ہوئی تھی۔ افسوس کہ یہ خوبصورت خلش نل تر جھیل کے کنارے پہنچ کر دور ہو گئی۔ حسرتوں اور محرومیوں کے پردے میں چھپی ہوئی رعنائیاں لاشعور کے پردے پر نہایت ہیجان خیز منظر نامہ تحریر کرتی ہیں، پردہ اٹھتے ہی بھید کھل جاتا ہے اور تصویر کے رنگ مدھم ہو جاتے ہیں۔ میں نے نل تر جیلہ کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کر دیا۔
’’آپ بد ذوق نہیں، بد ذوقی کے عالمی چمپئن ہیں۔ ‘‘ عرفان نے فیصلہ دیا۔ ’’اطلاعاً عرض ہے کہ ہر سال دنیا کے گوشے گوشے سے آنے والے سینکڑوں کوہ نورد نل تر جھیل کے حسن کے قصیدے پڑھتے ہوئے واپس جاتے ہیں۔ ‘‘
’’کون سے حسن کے؟‘‘ میں نے طنزیہ لہجے میں دریافت کیا۔
’’اس حسن کے جو جمالِ یار کا دیدار کرنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے۔ اس بارے میں انور مسعود نے ایک مشورہ دیا ہے۔اجازت ہو تو عرض کروں ؟‘‘
’’فرمائیے؟‘‘
’’کچھ جمالِ زیست سے بھی استفادہ کیجیے
آنکھ میں مقدارِ خوش بینی زیادہ کیجیے‘‘
’’انور مسعود کے ساتھ آپ کو بھی علم ہونا چاہیے کہ جمالِ زیست آنکھیں چکا چوند کر دیتا ہے، خوش بینی کا محتاج نہیں ہوتا۔‘‘
’’حسن ہمیشہ ہی خوش بینی کا محتاج ہوتا ہے۔ بہرحال آپ اپنا تبصرہ محفوظ رکھیں۔ نل تر جھیل کا اصل حسن آپ کو شانی جاتے ہوئے نظر آئے گا۔‘‘
’’اُس وقت یہ ایشوریا رائے کا بھیس بدل لے گی؟‘‘
’’اللہ نہ کرے یہ ایشوریا رائے جیسی بوسیدہ خاتون کا روپ دھارے۔کترینہ کیف کی کوئی فلم نہیں دیکھی آپ نے؟‘‘
’’کیٹ ونسلٹ کا خمار اتر گیا؟‘‘
’’اجازت ہو تو اس کا جواب بھی بزبانِ شاعر پیش کروں ؟‘‘
’’ضرور کریں۔ ‘‘
’’بہت گڑ بڑ گھٹالا ہو گیا ہے
صنم اب بچی والا ہو گیا ہے‘‘
’’بہت افسوس ہوا، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کترینہ کیف کے پہلو میں رات گزارنے کا پروگرام کیوں نہیں بنایا گیا؟ میرا خیال ہے تمام آئٹی نریری یہاں کیمپنگ کی سفارش کرتی ہیں۔ ‘‘
’’ٹریکنگ کا پہلا اصول ہے کہ بنائے گئے شیڈول میں بلاوجہ ترمیم نہ کی جائے۔ جھیل کی خوبصورتی میں کوئی شک نہیں، لیکن لوئر شانی کے مناظر بھی اپنا جواب نہیں رکھتے۔ہم آج لوئر شانی پہنچ کر چشمے کے کنارے کیمپنگ کریں گے۔‘‘
’’تو پھر چلیں ؟‘‘
’’اب اتنی بھی ایمرجنسی نہیں ہے۔آپ کے پاس تقریباً ایک گھنٹا ہے۔ عالم خان پورٹرز کا بندوبست کرے گا،سامان تقسیم کرے گا،پھر ہم روانہ ہوں گے۔‘‘
’’یہاں پورٹرز کہاں سے آئیں گے؟‘‘
’’یہ عالم خان کا درد سر ہے۔آپ ذرا اِدھر اُدھر کا جائزہ لے لیں۔ جھیل کے علاوہ بھی یہاں بہت سی دلچسپیاں ہیں۔ ‘‘
یہ دلچسپیاں کہاں تھیں ؟
جھیل سے کچھ دور ایک خاکی رنگ کا خیمہ نصب تھا، نل تر جھیل کا اکلوتا ہو ٹل جو سیزن کے دنوں میں قائم ہوتا ہے اور سیزن ختم ہوتے ہی لپیٹ دیا جاتا ہے۔ ہم نے اس ہوٹل کے ’’لان‘‘ میں ڈیرے ڈال دیئے۔
ہوٹل سے چند قدم کے فاصلے پر ایک سرسبز قطعے میں آنچل لہراتی ہو ئی کچھ رنگین دلچسپیاں کھنکھناتے ہوئے قہقہے بکھیر رہی تھیں۔ ایک جانب کڑاہی میں کچھ فرائی کیا جا رہا تھا اور جو کچھ فرائی کیا جا رہا تھا اس کی اشتہا انگیز مہک دور دور تک پھیل رہی تھی۔ دوسری جانب ایک دو حضرات تشریف فرما تھے لیکن وہ آنچلوں کے رکھوالے کے بجائے ڈرائیور یا خدمت گار معلوم ہوتے تھے۔ تیسری جانب چند بچے فٹ بال کھیل رہے تھے اور نل تر کی فضائیں اُن کی معصوم قلقاریوں سے گونج رہی تھیں۔ یہ غالباً مقامی ’’جمال و اطفال‘‘ کا گروپ تھا جو پکنک منانے گلگت سے نل تر تشریف لایا تھا۔
’’ڈاکٹر صاحب کڑاہی میں کیا تلا جا رہا ہے؟مجھے دوبارہ بھوک محسوس ہو رہی ہے۔‘‘ عرفان نے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سوال کیا۔
’’جا کر دیکھ آئیں۔ ‘‘ میں نے مشورہ دیا۔
’’کسے؟ … فرائی کرنے والی کو … یا فرائی ہونے والے کو؟‘‘
’’دونوں کو۔‘‘
فرائی کرنے والی کے خط و خال نظر نہیں آرہے تھے … البتہ ’’رنگ و روغن‘‘ کے لشکارے آنکھیں چکا چوند کر رہے تھے۔ عرفان کو شہہ ملی تو وہ اونٹ کی طرح منہ اٹھائے نیلی ترپال کی طرف چل دیا۔
’’یہ کیا مذاق ہے؟عرفان کہاں جا رہا ہے؟‘‘ بھٹہ صاحب نے بوکھلا کر سوال کیا۔
’’فرائی کرنے والی کا دیدار کرنے۔‘‘ میں نے سادگی سے جواب دیا۔
’’یہ انتہائی غیر اخلاقی حرکت ہے جو خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔غیر ملکی خواتین کی بات اور ہے۔ ان علاقوں کے باشندے اجنبی لوگوں کو اپنی خواتین سے گفتگو کی اجازت نہیں دیتے۔یہ عرفان کیسا ٹیم لیڈر ہے جو پہلے ہی سٹاپ پر جوتے پڑوانے کا انتظام کر رہا ہے۔‘‘ طاہر نے بھٹہ صاحب کا ساتھ دیا۔
’’جس کے پاس ٹریکنگ کے جوتے نہ ہوں اُسے جوتے پڑوانا غیر اخلاقی حرکت نہیں، اخلاقی اصولوں کے عین مطابق ہے۔‘‘
’’یہ مذاق کی بات نہیں۔ اجنبی جگہ پر اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ حرکت کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’یار تم عرفان کو اتنا بے وقوف کیوں سمجھتے ہو کہ وہ خواہ مخواہ کوئی مصیبت مول لے گا؟ اُس نے بے شمار ٹریک کیے ہیں اور ٹریکنگ کی اخلاقیات سے اچھی طرح واقف ہے۔‘‘
’’پھر وہ نا محرم خواتین کے پاس کیا لینے گیا ہے؟‘‘ بھٹہ صاحب نے اعتراض کیا۔
’’عاقل و بالغ حضرات نا محرم خواتین کے پاس کیا لینے جاتے ہیں ؟‘‘
’’آپ سے سنجیدگی کی توقع فضول ہے،اور مجھے خواہ مخواہ شرمندگی ہو رہی ہے کہ وہ معزز خواتین ہمارے کردار کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گی۔ اجنبی خواتین سے بلاوجہ گفتگو کرنے کی کوشش انتہائی چھچھوری اور اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے۔ہمارا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا، اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہوتے ہیں‘‘ شوکت علی بھٹہ صاحب نے موقع میسر آتے ہی رسمِ استادی نبھانے کی عادت پوری کی۔
’’میرا خیال ہے معزز خاتون اخلاق سے گری ہوئی حرکت پر اعتراض کرنے کے بجائے نہایت پر سکون انداز میں گپ شپ کر رہی ہے۔‘‘
فرائی کرنے والی عرفان کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی اور اس کا اندازِ بے نیازی اتنی دور سے بھی محسوس کیا جا سکتا تھا۔بھٹہ صاحب سخت حیران ہوئے۔
’’اس قسم کی خواتین ہی جہنم کا ایندھن بنیں گی۔‘‘ ان کے لہجے میں جہنم کی آگ کے شعلے رقص کر رہے تھے۔
’’سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔‘‘ میں نے اختلاف کیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’اتنی حسین و جمیل خواتین جہنم کی آگ کا ایندھن نہیں بن سکتیں۔ ‘‘
’’کیوں نہیں بن سکتیں ؟‘‘
’’سر جی مردانہ ایندھن کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے اہلِ بہشت بھی دوزخ میں تبادلے کی درخواست جمع کرا دیں۔ میرا خیال ہے اللہ تعالیٰ عالمِ بالا کا نظم و نسق درہم برہم کرنا پسند نہیں فرمائیں گے۔‘‘
’’استغفر اللہ۔ڈاکٹر صاحب فوراً توبہ کریں۔ مذہبی معاملات میں تبصرہ کرتے وقت محتاط رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ بے راہ روی پسند نہیں فرماتے اور ان کی گرفت بہت سخت ہوتی ہے۔‘‘
’’بھٹہ صاحب پلیز!بے راہ رویاں وہاڑی اور فیصل آباد ہی میں میسر آسکتی ہیں، ان کے لیے دئینتر پاس جیسے کمر توڑ پروگرام بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ ٹریک پر مختلف گروپس سے تعارف اور گپ شپ ٹریکنگ کا حصہ ہے۔خواتین کی جگہ مرد ہوتے تو ان سے بھی تعارف حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی۔ اللہ تعالیٰ بذاتِ خود ’’سیرو فی الارض‘‘ کا حکم دے رہا ہے تو اس کی رحمت سے امید رکھنی چاہیے کہ چھوٹی موٹی بے قاعدگی پر ناراض نہیں ہو گا۔میرا مشورہ ہے آپ بھی شریکِ محفل ہو جائیں، موڈ خوشگوار ہو جائے گا۔‘‘
’’معاذ اللہ۔‘‘ بھٹہ صاحب نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔اس اثنا میں عرفان واپس آگیا۔
’’لیں جناب،آنٹی پتوڑی کے ہاتھ کی بنی ہوئی پتوڑیاں نوش فرمائیں۔ ‘‘ اُس نے شاپر ہماری طرف بڑھایا۔
’’یہ کیا بلا ہے؟‘‘ طاہر نے شاپر تھامتے ہوئے دریافت کیا۔
’’پتوڑیاں۔ ‘‘
’’پکوڑے ؟‘‘ طاہر نے شاپر میں جھانکا۔
’’جی نہیں، جادو کی پتوڑیاں … جن کی وجہ سے مجھے ایک خوبصورت خاتون کے حسن کی تعریف کرنے کا موقع ملا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’میں خاتون کے قریب پہنچ کر سوچ رہا تھا کہ اسے کس بہانے مخاطب کیا جائے۔ ایک شریر قسم کا بچہ دوڑتا ہوا آیا اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر آنٹی پتوڑیاں … آنٹی پتوڑیاں … کی گردان کرنے لگا۔میں نے خاتون سے سوال کر دیا کہ یہ کون بدتمیز بچہ ہے جو آپ جیسی خوبصورت آنٹی کو پتوڑیاں کہہ رہا ہے۔‘‘
’’اور خاتون نے مائنڈ نہیں کیا؟‘‘
’’اس میں مائنڈ کرنے والی کیا بات تھی؟وہ نہایت خوشدلی سے ہنسی اور وضاحت کی کہ بچہ اُسے مخاطب نہیں کر رہا،اپنی توتلی زبان میں اُن پکوڑیوں کی فرمائش کر رہا ہے جو دہی بھلوں میں ڈالنے کے لیے فرائی کی جا رہی تھیں۔ ‘‘
’’آپ سو فیصد بکواس فرما رہے ہیں۔ پاکستان میں ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ میں نے دوستانہ بے تکلفی سے تردید کی۔
’’کیوں نہیں ہو سکتا؟‘‘ عرفان مسکرایا۔
’’بس نہیں ہو سکتا۔افسانہ طرازی چھوڑیں اور یہ بتائیں کہ اُن کا پروگرام کیا ہے۔‘‘
’’مجھے کیا پتا؟میں تو آنٹی پتوڑی کے درشن کرنے گیا تھا۔‘‘
’’ہرگز نہیں، آپ صرف یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ وہ لوگ جھیل پر رات گزاریں گے یا واپس چلے جائیں گے۔‘‘ میں نے وثوق سے کہا۔
’’واپس چلے جائیں گے۔‘‘ عرفان نے منہ لٹکا کر جواب دیا۔
’’اُن کے پروگرام سے ہمارا کیا تعلق؟‘‘ بھٹہ صاحب نے سوال کیا۔
’’بہت گہرا تعلق ہے۔وہ رات کی کیمپنگ کرتے تو کیمپ فائر بھی مناتے، کمپن فائر میں گانا شانا،ڈانس وانس معمول کا شغل ہے۔تھوڑا ہلا گلا ہو جاتا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ہمارے پروگرام میں یہاں کیمپنگ شامل نہیں ہے،اور ہوتی بھی تو وہ اپنے کیمپ فائر میں ہمیں کیوں شامل کرتے؟‘‘
’’اُن کا ارادہ یہاں رات گزارنے کا ہوتا توکیمپنگ خود بہ خود ہمارے پروگرام میں شامل ہو جاتی۔ کیمپ فائر میں کسی کو شامل ہونے کی دعوت نہیں دی جاتی، آپ میں صلاحیت ہو تو آپ کسی بھی کیمپ فائر میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ‘‘
’’مجھے اب تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ نل تر جھیل پر کیمپنگ ہمارے پروگرام میں شامل کیوں نہیں کی گئی؟ ہم روز روز ادھر نہیں آئیں گے۔نل تر جھیل اگر مقامی لوگوں کے لیے پکنک پوائنٹ ہے تو ہمیں بھی ایک دن نل تر جھیل پر ضرور گزارنا چاہیے تھا۔ہو سکتا ہے شام تک کوئی اور گروپ یہاں آ جائے …۔ ‘‘
’’جو صرف خواتین پر مشتمل ہو؟‘‘ بھٹہ صاحب نے طاہر کی بات کاٹی۔
’’بات مردوں یا عورتوں کی نہیں۔ عالم خان بتا رہا تھا کہ ہمارا گروپ سیزن کا پہلا گروپ ہے جو دئینتر پاس ٹریک کے لیے آیا ہے۔اس کا مطلب ہے اگلی تمام کیمپنگ سائٹس پر الو بول رہے ہوں گے اور نل تر جھیل غالباً آخری مقام ہے جہاں کسی ملکی یا غیر ملکی گروپ سے ملاقات کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ اس صورت میں ٹریک کی واحد با رونق کیمپنگ سائٹ نظرانداز کرنے میں کیا مصلحت تھی؟‘‘
’’اجازت ہو تو اس سوال کا جواب میں عرض کروں ؟‘‘ بھٹہ صاحب نے ہاتھ کھڑا کیا۔
’’فرمائیے۔‘‘ عرفان نے اجازت دے دی۔
’’مصلحت یہ ہے کہ پروگرام ترتیب دینے والا نہ صرف نل تر جھیل بلکہ لوئر شانی پر بھی کیمپنگ کر چکا ہے۔ اسے صرف لوئر شانی سے آگے والی سائٹس میں دلچسپی ہے،نل تر جھیل پر رات گزارنا وقت ضائع کرنے کے مترادف معلوم ہوتا ہے۔‘‘
’’یہ سراسر زیادتی ہے۔‘‘ عرفان نے احتجاج کیا۔’’میں جلد از جلد دئینتر پاس عبور کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے علاوہ کوئی بات نہیں۔ ‘‘
’’یعنی آپ انجوائے منٹ سے زیادہ اچیومنٹ کے چکر میں ہیں ؟‘‘
’’ٹریک کی انجوائے منٹ نل تر جھیل کیمپنگ میں پوشیدہ ہے تو ہم اپنا پروگرام تبدیل کر لیتے ہیں۔ شانی کے لیے کل روانہ ہو جائیں گے۔‘‘
’’میرا خیال ہے اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔ نل تر جھیل ہم دیکھ چکے ہیں، مزید کیا دیکھیں گے؟آپ یہ فرمائیں کہ آنٹی پتوڑی کا حدود اربعہ کیا ہے اور ان کے ساتھ مرد کیوں نہیں ہیں ؟‘‘ میں نے بحث کا رخ تبدیل کرنے کی کوشش کی۔
’’آنٹی پتوڑیوں کا حدود اربعہ بیان نہیں کیا جاتا،دریافت کیا جاتا ہے۔ بائی دا وے ارادے کیا ہیں جناب کے؟‘‘
’’ارادوں سے کیا ہوتا ہے؟‘‘ میں نے حسرت آمیز لہجے میں کہا۔’’میں اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ دئینتر پاس ٹریک کے دوران نظر آنے والے پہلے یا شاید آخری گروپ کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات حاصل کرنا اخلاقی فرض ہے۔‘‘
’’یہ گلگت کے ایک پرائیویٹ سکول کی استانیاں ہیں۔ آنٹی پتوڑی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ وہ اپنی سہیلیوں کو ٹریٹ دینے یہاں لائی ہے۔‘‘
’’آنٹی کی شادی ہو چکی ہے؟‘‘ طاہر نے مایوسانہ لہجے میں دریافت کیا۔
’’تازہ تازہ۔ دو ہفتے پہلے۔‘‘
’’اسے اتنی جلدی شادی کرانے کی کیا ضرورت تھی؟سارے رومان کا بیڑہ غرق کر دیا۔ اب اپنا کیا پروگرام ہے؟‘‘ طاہر نے مصنوعی بے زاری کا اظہار کیا۔
’’ایک سے ایک نہلے پہ دہلا ہے۔‘‘ بھٹہ صاحب نے زیرِ لب تبصرہ کیا۔
’’ہمیں اب روانہ ہو جانا چاہیے۔ عالم خان پتا نہیں کہاں د فان ہو گیا۔‘‘ عرفان نے کہا۔
’’ہم ادھر ہے سر،آپ کا بات سنتا ہے۔‘‘ ہمارے عقب سے آواز آئی۔
عالم خان سامان کے ڈھیر کی اوٹ میں رک سیک سے ٹیک لگائے نیم دراز تھا۔
’’باتیں کیوں سنتا ہے؟آگے روانہ کیوں نہیں ہوتا۔‘‘ عرفان نے ڈانٹ پلائی۔
’’پورٹر اب پہنچا ہے ناں۔ بس اب چلتا ہے۔‘‘
’’پورٹر؟کہاں ہیں۔ پورٹرز؟‘‘
’’وہ سامنے آتا ہے۔‘‘
دو عدد بزرگ ہماری جانب تشریف لا رہے تھے۔اُن کی کمر جھکی ہوئی تھی اور وہ شہتوت کی ٹیڑھی میڑھی لاٹھیوں کے سہارے اپنے جسم بہ مشکل گھسیٹ رہے تھے۔ دونوں حضرات فاقہ زدہ ہڈیوں اور بھاری بھرکم داڑھیوں کا ملغوبہ تھے۔یہ بزرگانِ نل تر ہمارے قریب پہنچے تو ایک صاحب پر کھانسی کا دورہ پڑ گیا جو کئی منٹ جاری رہا۔ کھانسی رکی تو سیٹیاں بجنے کا عمل شروع ہو گیا، آواز میں اتنی خرخراہٹ تھی کہ میں باقاعدہ خوفزدہ ہو گیا۔
’’عالم خان یہ کس قسم کا مذاق ہے۔‘‘ میں نے سہمی ہوئی آواز میں سوال کیا۔
’’یہ مذاق نہیں ہے سر۔ہمارا پورٹر ہے۔‘‘ عالم خان نے متانت سے جواب دیا۔
’’مذاق نہیں تو اور کیا ہے عالم خان؟‘‘ عرفان بھی سخت غصے میں تھا۔’’یہ بوڑھے آدمی جو اپنا آپ نہیں سنبھال سکتے ہمارا سامان اٹھا کر دئینتر پاس عبور کر لیں گے؟ میں نے آج تک اتنے قبر رسیدہ پورٹرز نہیں دیکھے۔‘‘
’’سامان یہ نہیں لے جائے گا تو ہم لے جائے گا ناں۔ عمر کا بھی فکر مت کرو۔ یہ لوگ شانی پہنچتا ہے تو جوان ہو جاتا ہے۔‘‘ عالم خان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’جوان کیسے ہو سکتے ہیں ؟تم ہمیں چڑا رہے ہو؟‘‘ عرفان گرجا۔
’’راستے میں جوان کرنے والا پانی آتا ہے سر۔ یہ لوگ وہ پانی پی لے گا اور جوان ہو جائے گا۔آپ خواہ مخواہ فکر کرتا ہے۔‘‘ عالم خان بدستور مسکراتا رہا۔
’’میں بھی وہ پانی پیوں گا۔‘‘ میں نے اشتیاق ظاہر کیا۔
’’آپ کس کی باتوں میں آرہے ہیں ڈاکٹر صاحب!یہ شخص ہمارے ساتھ فراڈ کر رہا ہے۔آپ نے پورٹرز کی کہانیاں نہیں سنیں ؟ اس کے منتخب کردہ پورٹرز کسی جگہ سامان پھینک پھانک کر واپس آ جائیں گے۔‘‘
’’تو آپ ہم کو کوئی پیسا مت دینا سر۔‘‘ عالم خان سنجیدہ ہو گیا
’’پیسے کی بات نہیں، ہمارا ٹریک خراب ہو جائے گا۔ جہاں یہ لوگ سامان چھوڑیں گے وہاں کوئی پورٹر نہیں ہو گا۔ تم لوگ ہمیں بلیک میل کرو گے اور طرح طرح کے مطالبات پیش کر کے اپنی پسند کا معاوضہ حاصل کرنے کی کوشش کرو گے۔‘‘
’’سر آپ خواہ مخواہ شک کرتا ہے۔ایسا کوئی بات نہیں ہو گا۔آپ خود بول رہا تھا کہ شانی سے بکروال پکڑ لے گا۔ بکر وال آپ کو ہر جگہ سے ملتا ہے۔ بیس کیمپ سے بھی مل جاتا ہے۔پھر ہم آپ کو بلیک میل کیسے کرے گا؟‘‘
’’مگر … یہ لوگ سامان کیسے اٹھائیں گے؟‘‘ عرفان کچھ مطمئن ہو گیا۔
’’ابھی آپ آرام سے بیٹھو، پھر دیکھو کیسے اٹھاتا ہے۔‘‘
عالم خان نے سامان تین حصوں میں تقسیم کیا۔دو حصے ’’باباجیز‘‘ کے حوالے کئے، ایک اپنے لئے منتخب کیا اور چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔بابا جیز کی خمیدہ کمریں کچھ اور ٹیڑھی ہو گئیں۔
’’عالم خان خیموں کا تھیلا کس کے پاس ہے؟‘‘ عرفان نے چند قدم چلنے کے بعد پورٹرز پر لدے ہوئے سامان کا جائزہ لیتے ہوئے سوال کیا۔
’’تھیلا؟کون سا تھیلا؟ہم نے اِدھر کوئی تھیلا نہیں دیکھا۔‘‘
’’ہمارے ٹینٹ پلاسٹک کے سفید تھیلے میں تھے۔وہ کس کے پاس ہے؟‘‘
’’ایسا تھیلا کسی کے پاس نہیں ہے۔ہم نے سارا سامان چیک کر کے پورٹر کے حوالے کیا ہے۔‘‘ عالم خان نے پورے اعتماد سے جواب دیا۔
’’او ہ مائی گاڈ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے؟میں نے وہ تھیلا خود جیپ میں رکھا تھا۔‘‘
’’اتارا بھی تھا؟‘‘ بھٹہ صاحب نے دریافت کیا۔
’’سامان اکٹھا ہی اتارا گیا تھا۔‘‘ عرفان نے بے یقینی سے جواب دیا۔
’’ہو سکتا ہے وہ تھیلا اتارا نہ جا سکا ہو اور جیپ کے ساتھ ہی واپس چلا گیا ہو۔‘‘
’’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ محمود علی کی نیت خراب ہو گئی ہو اور وہ جان بوجھ کر لے گیا ہو۔‘‘ طاہر نے خیال آرائی کی۔
’’آپ لوگ ہر بات میں شک کیوں کرتا ہے سر۔‘‘ عالم خان نے احتجاج کیا۔’’ہم نے جیپ پر اچھی طرح نظر ڈال لیا تھا۔اُس میں کوئی چیز نہیں چھوڑا تھا۔‘‘
’’مگر،تھیلا جا کہاں جا سکتا ہے؟اور چلا گیا ہے تو ہم آگے جا کر کیا کریں گے؟ بہت بڑا پھڈا ہو گیا ہے سر جی۔ سارا پروگرام درہم برہم ہو جائے گا۔‘‘
’’انا للہ کا ورد کریں بیس مرتبہ۔‘‘ بھٹہ صاحب نے ارشاد فرمایا۔
’’تھیلا تلاش نہ کریں ؟‘‘ عرفان نے جلے کٹے لہجے میں سوال کیا۔
’’ضرور تلاش کریں، اور یہ بھی بتا دیں کہ کہاں تلاش کریں ؟‘‘
یہ انتخاب واقعی مشکل تھا کہ خیموں کا تھیلا کہاں تلاش کیا جائے؟یہاں کوئی پوشیدہ یا خفیہ گوشہ تو تھا نہیں، نل تر جھیل کے ارد گرد کا سارا منظر نظروں کے سامنے تھا۔ اس کے باوجود ہم اپنے رک سیک نیچے رکھ کر ادھر ادھر پھیل گئے اور تھیلے کی تلاش شروع کر دی۔ میں اور عرفان نیلی ترپال کے عقب میں ایک چھوٹی سی بلندی تک پہنچے جہاں کھڑے ہو کر ہم نے فوٹو گرافی کی تھی۔ تھیلا وہاں نہیں تھا،اور ہونے کی توقع بھی نہیں تھی۔ ہم صرف رسمِ تلاشی نبھانے یہاں تک آ گئے تھے۔ تھیلا گم ہونے کے نتائج و عواقب پر گفتگو کرتے ہوئے ہم نیلی ترپال کے قریب سے گزرے اور ایک سریلی آواز نے ہمیں مخاطب کیا۔
’’ایکسکیوز می،آپ کچھ تلاش کر رہے ہیں ؟‘‘
’’نہ جانے کہاں دل کھو گیا؟‘‘ عرفان نہایت دھیمی آواز میں گنگنایا۔
’’جی؟‘‘ آنٹی پتوڑی چونک اٹھیں۔
’’وہ … دراصل ہمارا ایک انتہائی اہم تھیلا گم ہو گیا ہے۔اُس میں ٹینٹ تھے اور ٹینٹ کے بغیر ٹریک مکمل نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
’’کھاد والا تھیلا؟‘‘
’’جی بالکل۔آپ نے کہیں دیکھا ہے؟‘‘
’’ہمارے سامان کے پاس ایک ایسا تھیلا موجود ہے جس کے بارے میں ہم سب پریشان ہیں کہ وہ کس کا ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کا ہو۔‘‘
’’یقیناً ہمارا ہو گا۔ پلیز مجھے دکھائیں۔ ‘‘
ہم ان کے سامان کے پاس آئے اور آنٹی پتوڑی نے ایک تھیلے کی طرف اشارہ کیا۔ عرفان نے لپک کر تھیلا اٹھایا اور اُس بے تاب ماں کی طرح سینے سے چمٹا لیا جس کا گمشدہ سپوت ایک طویل عرصے بعد گھر لوٹ آیا ہو۔
’’اس تھیلے میں سچ مچ آپ کا دل ہے؟‘‘ آنٹی پتوڑی نے نہایت سادگی سے سوال کر کے آگا ہ کیا کہ وہ عرفان کی فقرہ بازی سے لا علم نہیں تھی۔
’’وہ … میرا مطلب ہے‘‘ عرفان بری طرح بوکھلا گیا۔’’ٹریکنگ کے سامان میں خیمے کی اہمیت دل سے کم نہیں ہوتی۔ خیموں کے بغیر پانچ دن کا ٹریک کیسے کیا جا سکتا ہے ؟اور ٹریک مکمل نہ کرنے کی اذیت آپ کسی ٹریکر کے دل سے پوچھیں۔ بہرحال آپ کا بہت بہت شکریہ، بلکہ دو مرتبہ شکریہ۔‘‘
’’دو مرتبہ کیوں ؟‘‘
’’ایک تھیلا تلاش کرنے کا اور دوسرا گرما گرم پکوڑے کھلانے کا۔‘‘
’’پکوڑے؟ آپ نے کھا لیے تھے؟‘‘ آنٹی نہ جانے کیوں بے حد حیران ہوئیں۔
’’آپ کے ہاتھوں سے بنے ہوئے پکوڑے نہ کھا نا کفرانِ نعمت ہے۔ہم بھلا اس کے مرتکب کیسے ہو سکتے تھے؟‘‘
’’کمال ہے۔‘‘ آنٹی مزید حیران ہوئیں۔
’’اس میں کمال کی کیا بات ہے؟‘‘
’’چند منٹ پہلے عدیل جھیل کی طرف گیا اور پکوڑوں والا شاپر واپس لے آیا۔ اس کا کہنا تھا کہ انکل لوگ پکوڑیاں یہیں بھول کر آگے چلے گئے ہیں۔ آپ لوگوں نے پکوڑے کھا لیے، اس کے باوجود شاپر بدستور بھرا رہا۔اس سے بڑا کمال اور کیا ہو سکتا ہے؟‘‘
’’وہ … وہ … میرا مطلب ہے … میرا مطلب ہے …۔ ‘‘ عرفان کو شاید سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس کمال کی کیا تاویل پیش کرے۔
’’میں آپ کا مطلب اچھی طرح سمجھ چکی ہوں۔ اللہ کرے آپ کا ٹریک کامیاب رہے۔‘‘ اُس نے ایک طنزیہ مسکراہٹ نچھاور کی اور واپس چلی گئی۔
’’الو کی پٹھی … آمین۔‘‘ عرفان نے دانت کچکچاتے ہوئے زیرِ لب ارشاد فرمایا۔
ڈاکٹر محمد اقبال ہما

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو سفرنامہ از ڈاکٹر محمد اقبال ہما