اردو تحاریراردو سفر نامے

یہ پربتوں کا عکس ہے

ایک اردو سفرنامہ از ڈاکٹر محمد اقبال ہما

یہ پربتوں کا عکس ہے

May your trails be crooked, winding, lonesome and dangerous
leading to the most amazing view.
wolf dyke Edward

خدا کرے تمھارے راستے انتہائی کٹھن،پیچیدہ، تنہا اور خطرناک ہوں تاکہ تم کائنات کے خوبصورت ترین مناظر تک رسائی حاصل کر سکو
ولف ڈائک ایڈورڈ

صبح آنکھ کھلی تو سورج کے ساتھ ساتھ عالم خان اور اُس کے حواری طلوع ہو چکے تھے۔ تینوں حضرات کافی نکھرے نکھرے نظر آرہے تھے، صاف ظاہر تھا کہ انھوں نے ایک آرام دہ اور پُر سکون رات گزاری ہے۔
’’رات کیسا گزرا سر؟‘‘ عالم خان نے آتے ہی دریافت کیا۔
’’فرسٹ کلاس۔ تم اپنی سناؤ ؟‘‘ میں نے جوابی مزاج پرسی کی
’’ہمیں ایک زبردست بہک مل گیا تھا سر۔مگر سلیپنگ بیگ نہیں ملا۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’ہمارے پاس دو چادر تھا ناں۔ ایک ہم نے لیا، ایک ان دونوں کو دے دیا۔‘‘
’’میر عالم نے ہم چادری کا فائدہ اٹھا کر شیر احمد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ تو نہیں کی؟ نیلو لوٹ کی بہک میں یہ اچھا خاصا بہکا ہوا نظر آتا تھا۔‘‘
’’ام نے کبی اپنا ماشوق سے چھیڑ چھاڑ نہیں کیا،اس سے کیوں کرتا؟بس اس کے اوپر ٹانگ رکھ کے سو گیا تھا۔‘‘ میر عالم نے شوخ لہجے میں جواب دیا۔
’’اسے ٹھنڈے پانی سے بالکل ڈر نہیں لگتا۔‘‘ عالم خان نے انکشاف کیا۔
’’ڈاکٹر صاحب خدا کا خوف کریں، ’’ہم چادری‘‘ کے نتائج سے چسکے لینے کے بجائے آیت الکرسی یا درود شریف کی تسبیح کر لیں۔ دادی جان مرحوم و مغفور فرمایا کرتی تھیں کہ نور کے تڑکے اللہ محمد کا نام لینا چاہیے تاکہ دن کی مصروفیات میں اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال رہے۔ ہمیں آج کے مرحلے سے گزرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد کی سخت ضرورت ہے۔‘‘ عرفان نے مربیانہ لہجے میں مہذبانہ قسم کی ڈانٹ پھٹکار کی۔
’’انا للہ کا ورد ضرور کریں، بیس مرتبہ۔‘‘ بھٹہ صاحب نے نصیحت فرمائی۔
’’لگتا ہے جب تک پورے ٹریک پر انا للہ نہیں پڑھ لی جاتی تمھیں چین نہیں آئے گا۔‘‘ طاہر نے تشویشناک انداز میں میرے خیالات کی ترجمانی کی۔
ہمیں بحث میں الجھا دیکھ کر عالم خان اور شیر احمد نے ’’کچن‘‘ کا رخ کیا اور چولھا گرم کرنے کی کوشش میں مصروف ہو گئے۔ میر عالم نے خیمے اکھاڑنے کا فریضہ سنبھالا اور ہم سنو ڈوم و مہربانی پیک کی برفیلی بلندیوں سے آنے والے یخ بستہ ندی نالوں کے نزدیک پائے جانے والے ’’اوپن ایئر واش رومز‘‘ کی طرف روانہ ہو گئے۔
ناشتا گرما گرم دودھ پر مشتمل تھا جس میں شہد، گلوکوز، چاکلیٹ اور پتا نہیں کیا کیا الا بلا گھول کر کارن فلیکس کا تڑکا لگا دیا گیا تھا۔ اس عجیب و غریب اور خود ساختہ ملغوبے کے بارے میں عرفان کا فرمانا تھا کہ غذائیت سے بھرپور مشروب کا ایک گلاس چار تا چھ گھنٹے کے لیے کھانے کی ضرورت سے بے نیاز کر سکتا ہے۔ہم نے اس جناتی مشروب کے دو گلاس فی کس نوش جاں کیے اور سطح سمندر سے ساڑھے پندرہ ہزار فٹ بلند دئینتر پاس ٹاپ کی دو ہزار فٹ (بیس کیمپ تا دئینتر پاس ٹاپ) سے زائد بلندی تسخیر کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ آج کی سٹیج چھ تا آٹھ گھنٹے پر مشتمل تھی۔پہلا مرحلہ دئینتر پاس ٹاپ کی بلندی سر کرنا تھا اور دوسرے مرحلے میں تقریباً چار ہزار فٹ گہری گھاٹی ( ٹاپ تا طولی بری) سے گزر کر وادیِ دئینتر کے قصبے طولی بری (Toliberi) کی کیمپنگ سائٹ پر ٹریک کا آخری پڑاؤ کرنا تھا۔
حسبِ عادت سات کے بجائے آٹھ بجے بیس کیمپ سے روانگی ہوئی۔
آخری سٹیج کا ابتدائی مرحلہ نسبتاً آسان ثابت ہوا۔راستہ ہموار تھا اور دائیں جانب موجود وادیِ نل تر کی سرسبز گھاٹیاں غیر معمولی شرافت کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ یہ آسانی صرف ایک گھنٹے میں اختتام کو پہنچی۔ گہرائیاں عمیق سے عمیق تر اور نام نہاد راستہ بلند سے بلند تر ہوتا گیا،پھسلنے کی گنجائش ختم ہو گئی۔
میر عالم او ر شیر احمد خان فراٹے بھرتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے۔ وہ ٹاپ تک پہنچنے کے لیے کوئی شارٹ کٹ دریافت کرنا چاہتے تھے۔
عالم خان بطور گائیڈ سب سے آگے تھا اور آسان راستہ دریافت کرنے کی کامیاب اداکاری کر رہا تھا۔ وہ جگہ جگہ پتھروں کے چھوٹے چھوٹے مینار بناتا ہوا چل رہا تھا۔ یہ مینار پیچھے آنے والوں کے لیے راستے کی نشاندہی کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ میں عالم خان کا ساتھ دینے کی کوشش کر رہا تھا اور میں نے محسوس کیا کہ عالم خان راستے سے پوری طرح واقف نہیں، وہ کئی جگہ بلا وجہ راستہ بدلتا اور چکر کاٹ کر پرانے راستے پر واپس آ جاتا۔ طاہر نے چڑھائی کا آغاز ہوتے ہی ’’دس منٹ واک اینڈ دس منٹ ٹاک‘‘ کی پالیسی اپنا لی تھی اور کافی پیچھے رہ گیا تھا۔ عرفان ٹیم کی بھاری بھرکم دُم سنبھالنے کا فریضہ سر انجام دینے کے لیے سب سے پیچھے چلنے پر مجبور تھا۔ بھٹہ صاحب آزاد منش لوٹے کی طرح کبھی ہم سے آگے نکل جاتے، کبھی عرفان کے ساتھ گپ شپ کرنے لگتے۔
کچھ دیر بعد راستے کے تیور ایک مرتبہ پھر بدلنے لگے۔
لینڈ سلائیڈنگ اور گلیشئر سلائیڈنگ کا علاقہ شروع ہوا جو سنگریزوں پر مشتمل عمودی ڈھلان تھی اور قدموں سے شروع ہو کر دئینتر پاس ٹاپ تک پہنچتی تھی۔ اس ڈھلواں راستے کے ایک حصے میں تقریباً پچاس میٹر طویل گلیشئر تشریف فرما تھا۔عالم خان کا اندازہ تھا کہ کچھ روز پہلے تک پوری ڈھلان برف سے ڈھکی ہو گی۔سورج کی حرارت سے برف کا بیش تر حصہ پگھل گیا، گلیشئر کے مقام پر برف کی تہہ بہت زیادہ ’’صحتمند‘‘ تھی اس لیے پگھلنے سے محفوظ رہی۔یہ محفوظ حصہ میرے لئے انتہائی غیر محفوظ صورتِ حال کا باعث بن رہا تھا کیونکہ ڈھلواں اور چمکدار سطح پر ٹریکنگ شوز بار بار پھسلتے تھے۔ گلیشئر کی دراڑیں بظاہر خطرناک نہیں تھیں لیکن عالم خان نے نرم و ملائم برف میں پوشیدہ دراڑوں کے ’’پھندوں‘‘ سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی اور برف پر چلنے کی تکنیک کا عملی مظاہرہ کیا۔وہ ایک پاؤں قدرے ترچھا رکھتے ہوئے ایڑی کا پہلو برف میں دھنسانے کے بعد دوسرا قدم آگے بڑھاتا تھا۔میں چلا عالم خان کی چال، اپنی چال بھول گیا۔ اس بھول چوک کا نتیجہ بے تکے انداز میں زمین بوس ہونے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا تھا؟
عالم خان نے گرج دار قہقہہ لگایا۔
’’ڈاکٹر صاحب ہم نے کہا تھا ناں دئینتر بہت مشکل ہے۔اب یقین آیا؟‘‘
’’عالم خان مجھے پہلے ہی یقین تھا کہ دئینتر پاس بہت مشکل ٹریک ہے۔اب تمھیں یقین آ جانا چاہیے کہ اسے با آسانی عبور کر لیا جائے گا۔ ہم اتنے کمزور ہوتے جتنے تم سمجھ رہے ہو تو دئینتر پاس ٹریک کا ارادہ ہی نہ کرتے۔میں خوف زدہ ہو کر نہیں، عادت سے مجبور ہو کر دشواری اور بیزاری کا شور مچاتا رہتا ہوں۔ سچ مچ خوف زدہ ہوتا تو کب کا واپس جا چکا ہوتا۔ اس شور شرابے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ عرفان سٹیجز کا تعین کرتے وقت ہماری نا تجربہ کاری مد نظر رکھے۔ وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تم بطور گائیڈ ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آئے۔ ایک ایسے وقت، دوچار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا، حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے واپس جانے کا سبق پڑھانے پر تلے ہوئے ہو۔ آخر کیوں ؟‘‘
عالم خان کے پاس ’’آخر کیوں‘‘ کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اُس نے شدید بے چینی کے عالم میں ’’دئینتر چھوڑ‘‘ تبلیغ کے خلاف تقریر سنی، چند لمحے خالی خالی نظروں سے میری طرف دیکھتا رہا اور گردن جھٹک کر آگے بڑھ گیا۔
جوں توں گلیشئر عبور کر لیا گیا۔گلیشئر کے بعد ایک چھوٹا سا سکری زدہ ہموار قطعہ تھا۔
’’یہاں کیمپنگ نہیں ہو سکتی ؟‘‘ میں نے عالم خان کو مخاطب کیا۔
’’ہو سکتا ہے سر۔کیوں نہیں ہو سکتا؟‘‘ عالم خان نے بد دلی سے جواب دیا۔
’’ہم نے کل یہاں پہنچ کر کیمپنگ کیوں نہیں کی؟ ہمارے پاس کافی وقت تھا۔کل یہاں پہنچ جاتے تو آج کا ٹریک مختصر ہو جاتا۔‘‘
’’یہ گلیشئر پھسلتا ہے۔‘‘
’’اس قسم کے گلیشئر بھی پھسلتے ہیں ؟‘‘
’’بالکل پھسلتا ہے۔ ایک مہینا پہلے یہاں بہت زیادہ برف موجود تھا جو گرمی سے پگھل کر نالے میں پہنچ گیا۔‘‘
’’گلیشئرپھسلتا ہے تو پھسلتا رہے۔ خیمے گلیشئر سے ہٹ کر لگائے جا سکتے تھے۔‘‘
’’وہ اوپر والا گلیشئر بھی کھسکتا ہے ناں۔ ‘‘ اُس نے بلندی کی طرف اشارہ کیا۔
میں نے اشارے کا تعاقب کیا۔ ایک وسیع و عریض گلیشئر ہموار میدان کے سر پر مسلط تھا۔ یہ گلیشئر پھسلتا تو میدان کی سکری اور اس پر نصب خیمے نشیب میں بہنے والے نالے کے راستے نل تر جھیل میں پہنچ جاتے۔
میں نے بلندی پر نظر آنے والے گلیشئر کی تصویر لی۔ مجھے محسوس ہو ا کہ اس بے داغ سفیدی کے وسط میں نیلگوں پانی سے لبریز کٹورا رکھ دیا گیا ہے۔
’’عالم خان اس گلیشئر پر کوئی جھیل ہے؟‘‘
’’گلیشئر پر جھیل؟ہم نے نہیں سنا۔‘‘
عالم خان نے نہ سنا ہو۔میں عثمان ڈار کی زبانی گلیشئرز پگھلنے کے نتیجے میں بننے والی چھوٹی بڑی جھیلوں کے بارے میں سن چکا تھا۔ اُس نے نانگا پربت ہائی کیمپ پر ایک گلیشئریائی جھیل کے بارے میں بتایا تھا۔ اُس جھیل تک نارسائی کی کسک ا بھی باقی تھی۔
’’میں اس گلیشئر تک جانا چاہتا ہوں۔ ‘‘ میں نے عالم خان سے فرمائش کی۔
عالم خان بدک گیا۔
’’سیدھے رستے پر آپ گرتا پڑتا چلتا ہے۔گلیشئر تک کیسے پہنچے گا۔‘‘
’’میں اس گلیشئر تک جانا چاہتا ہوں۔ ‘‘ میں نے میکانکی انداز میں فرمائش دہرائی۔
’’ٹھیک ہے سر۔ہمیں اصل راستے سے ہٹنا پڑے گا۔ابھی ادھر انتظار کرو۔آپ کا ساتھی پہنچ جائے پھر چلتا ہے۔‘‘
’’میں اپنے ساتھیوں کے یہاں پہنچنے سے پہلے گلیشئر تک جانا چاہتا ہوں۔ عرفان راستہ بدلنے پر رضامند نہیں ہو گا۔‘‘
عالم خان چند سیکنڈ اس انداز میں گھورتا رہا جیسے میری دماغی صحت کے بارے میں شک و شبہے کا شکار ہو۔میرے چہرے پر مستقل مزاجی کے آثار دیکھ کر اُس نے راستہ بدل دیا۔
’’او۔کے سر۔مگر تھوڑا تیز چلو۔‘‘
میں نے رینگتے ہوئے گلیشئر تک جانے والی چڑھائی سر کی اور اپنی ٹریکنگ لائف کی پہلی گلیشریائی جھیل دیکھی۔ جھیل کے پانی میں چاندی رنگ ذرات تیرتے تھے اور نقرئی لہریں فوارے کی مانند اچھلتی تھیں۔ پانی کی رنگت اور بہاؤ دونوں انوکھے تھے۔ اس ننھی منی جھیل کی گہرائی میں ہلکورے لینے والا سنوڈوم کا عکس گلیشئر تک پہنچنے کے لیے اُٹھائی گئی مشقت کا بیش قیمت انعام تھا:
یہ پربتوں کا عکس ہے
کہ چاندنی سے حاشیے پہ جھیل کے
یہ سنو ڈوم کا رقص ہے
ان مناظر کا عادی ہونے کے باوجود عالم خان جھیل کے پانیوں میں تیرتے ہوئے چمکیلے ذرات دیکھ کر حیران تھا۔اس کا خیال تھا کہ گلیشئر کی تہہ سے کو ئی چشمہ پھوٹتا ہے اور یہ عجیب و غریب ذرات چشمے کے پانی میں موجود کسی دھات کا کرشمہ ہیں۔ گلیشریائی ہونے کے ناتے جھیل کی زندگی کے دن بہت تھوڑے تھے۔ گلیشئر پگھلنے کے ساتھ اس کا وجود مٹ جاتا۔کل یہ جھیل رہے نہ رہے، آج اس کا وجود میرے شوقِ آوارگی کے لیے ایک بیش قیمت اثاثہ تھا۔کون کہہ سکتا تھا کہ میں ایک ا ور گلیشریائی جھیل دیکھنے کا موقع حاصل کر پاؤں گا؟
میں نے جھیل کا کلوز اپ لیا۔ دئینتر پاس ٹریک کی یادیں تازہ کرتے وقت اس بے نام جھیل کے آئینہ در آئینہ پانیوں میں سنو ڈوم کا عکس دیکھ کر طاہر اور بھٹہ صاحب سوال کرتے ہیں کہ یہ تصویر آپ نے کہاں سے چرائی تھی؟ اس قسم کی کوئی جھیل ہمارے راستے میں آئی ہی نہیں۔ میں چٹخارے لے لے کر اس نادر الوجود جھیل کا محل وقوع سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ نمک مرچ لگا کر اس کے نقرئی ذرات سے منعکس ہونے والی نورانی کرنوں کی تصویر کشی کرتا ہوں، اس کی تہہ سے اچھلنے والے جادوئی چشمے کے کرشمے بیان کرتا ہوں، سنو ڈوم کے رقص پر غزل کہنے کی کوشش کرتا ہوں اور ان کے چہروں پر رقص کرنے والی حسرت سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ یہ بے نام و نشان جھیل ایک پر اسرار منظر کی حیثیت سے ہمارے تصویری البم میں محفوظ ہے، دئینتر پاس ٹریک پر شاید معدوم ہو چکی ہو۔
لینڈ سلائیڈنگ اور گلیشریائی علاقے سے گزرنے کے بعد دئینتر پاس سنگلاخ کی ’’خالص‘‘ چڑھائی شروع ہوئی جسے ٹریکنگ کے سخت ترین درجے میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس پر قدم رکھتے ہی احساس ہو ا کہ کلائمبنگ کا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ ہم گذشتہ دو روز سے بلندی کی جانب گامزن تھے اور کئی بلندیاں عبور کر چکے تھے۔ ان چڑھائیوں میں قسم قسم کے سبزہ زار اور ہموار میدانوں کی’’ملاوٹ‘‘ پائی جاتی تھی جو پھولی ہوئی سانسیں معمول پر لانے اور تھکاوٹ زدہ جسم کو تسکین پہنچانے کے کام آتی تھی۔ آج حالات یکسر مختلف تھے۔ آرام کا وقفہ کرتے وقت ایک قدم نیچے والے پتھر پر اور دوسرا اس سے اوپر والے پتھر پر رکھا جاتا تھا۔ بعض اوقات کسی جگہ تشریف ٹکا کر دم لینے کا موقع ملتا بھی تھاتو اگلے چند قدم اس عیاشی کا ازالہ کر دیتے تھے۔ ان سب باتوں کے باوجود یہ خالص چڑھائی اتنی بے رنگ یا بیزار کن نہیں تھی جتنی بیس کیمپ سے دیکھے جانے پر نظر آتی تھی۔ سنگین دراڑوں میں اگنے والے جنگلی پھول سرمئی ماحول میں رنگینیاں بکھیرتے تھے اور پتھرائی ہوئی نظروں کے لیے تسکین کے اسباب پیدا کرتے تھے۔میں نے ان پھولوں کی تصویر لینے کے بہانے کئی مرتبہ آرام کا وقفہ کیا۔
اس عمودی کلائمبنگ کے بعض مراحل سے گزرتے ہوئے کبھی کبھی احساس ہو جا تا تھا کہ یہ عام ٹریک نہیں ’’پاس کراسنگ‘‘ ہے۔ اس قسم کے ایک مقام پر مجھے رکنا پڑا۔ چند قدم کا یہ فاصلہ انتہائی ترچھا تھا اور اس کے دائیں پہلو میں موجود گھاٹی کی گہرائی نظر نہیں آتی تھی۔میں نے ادھر ادھر دیکھا، عالم خان اگلے موڑ سے گزر کر نظروں سے غائب ہو چکا تھا اور دور دور تک کسی ذی روح کا نام و نشان نہیں تھا۔ میں اگر یہاں پھسل جاتا ہوں تو کسی کو علم نہیں ہو گا کہ ڈاکٹر صاحب دئینتر پاس سے گزرنے کے چکر میں عالمِ بالا کے پاس سے گزر چکے ہیں۔ میں نے عالم خان کو آواز دی، اور جو منمناہٹ برآمد ہوئی اس پر خود مجھے ہنسی آ گئی۔ دوسری کوشش کامیاب رہی اور عالم خاں واپس آ گیا۔ میں نے اسے دیکھتے ہی ڈھلواں راستے پر قدم رکھ دیا اور عالم خان کے قریب آنے سے پہلے عبور کر لیا۔
’’کیا ہوا سر؟‘‘ عالم خاں نے تشویش زدہ انداز میں سوال کیا۔
’’کچھ نہیں۔ ‘‘ میں نے نہایت معصومیت سے جواب دیا۔
’’آپ نے آواز نہیں دیا تھا؟‘‘
’’نہیں تو،میں پل صراط عبور کرنے سے بالکل نہیں ڈرتا۔تمھیں مدد کے لیے آواز کیوں دیتا؟‘‘ میں نے ڈھلوانی راستے کی طرف اشارہ کیا۔
عالم خاں ہنسنے لگا۔
’’سوری سر۔ ہمیں خیال نہیں رہا تھا کہ ادھر سے گزرتے ہوئے آپ ڈرے گا۔‘‘
’’ہم یہاں سے گزرتے ہوئے ہرگز نہیں ڈرے۔‘‘ میں نے سینہ پھلانے کی کوشش کی،لیکن اس نے مزید پھولنے سے معذرت کر لی۔
عالم خان نے مسکراتے ہوئے دوبارہ سفر شروع کر دیا اور کچھ دور چلنے کے بعد ایک بڑے پتھر پر لمبے لیٹ ہو کر آرام کے وقفے کا اعلان کیا۔اس پتھر پر لیٹے لیٹے میں نے موبائل لنچ تناول فرمایا۔ہمیں اپنے ساتھیوں کا انتظار تھا لیکن اُن کے بجائے میر عالم نمودار ہوا۔ میرا خیال تھا کہ میر عالم اور شیر احمد کافی آگے جا چکے ہوں گے۔ میر صاحب نے بتایا کہ جو راستہ انھوں نے اختیار کیا تھا اس کی ایک گھاٹی ناقابل عبور تھی اس لیے انھیں واپس آنا پڑا۔ وہ عرفان اور طاہر کا پیغام عالم خان تک پہنچانے کے لیے تشریف لائے تھے۔ فرمان میں یاد دہانی کرائی گئی تھی کہ عالم خان پورے گروپ کا گائیڈ ہے۔اُسے صرف ڈاکٹر صاحب کی ’’ٹی۔سی‘‘ کرنے کے بجائے سب کے ساتھ چلنا چاہیے۔اُس کا رویہ تبدیل نہ ہوا تو ٹیم لیڈر اس کا معاوضہ بحق ’’متاثرین‘‘ ضبط کرنے کے جملہ حقوق محفوظ رکھتا ہے۔
عالم خان اس ہدایت پر ہتھے سے اکھڑ گیا۔
اُس نے جوابی پیغام دیا کہ عالم خان کسی کی ٹی سی۔وی سی نہیں کرتا، اور وہ ڈاکٹر صاحب کو پیٹھ پر اٹھا کر آگے نہیں لے جا رہا۔ اُس کا کام صرف کھانا بنانا اور بوجھ اٹھانا ہے۔ وہ گائیڈ کے طور پر ساتھ نہیں آیا اس کے باوجود راستہ بنانے اور ٹیم کی راہنمائی کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔عرفان صاحب ناراض ہو تا ہے تو وہ اسی جگہ رک جاتا ہے۔موسم خراب ہو گیا یا راستے میں اندھیرا ہو گیا تو عرفان صاحب خود ذمہ دار ہو گا۔
میں نے یاد دلایا کہ ایک ہزار روپے کا انعام عرفان کا صوابدیدی اختیار ہے اور عالم خان کے رویے اور اضافی خدمات سے مشروط ہے،اس کا لہجہ فوراً تبدیل ہو گیا۔
’’سر آپ خود بولو ہم کیا کرے؟ آپ جانتا ہے کہ ہم آپ کو ساتھ لے کے نہیں چلتا۔ ہم نے کسی جگہ رک کر آپ کا انتظار کیا؟ آپ ہمارا ساتھ دیتا ہے تو ہم کیسے روکے؟ وہ لوگ ہمارا ساتھ دے گا تو ہم اُن کو بھی نہیں روکے گا۔ابھی ٹھیک ہے،ہم ادھر رک جاتا ہے۔ عرفان صاحب آتا ہے تو آگے چلتا ہے۔‘‘
’’وہ ابھی بوت دور ہوتا اے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے میں ادھر پہنچتا اے۔‘‘ میر عالم نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔دو گھنٹے میں پہنچتا ہے،دو گھنٹے آرام کرتا ہے اور اللہ کو منظور ہوتا ہے تو رات تک ٹاپ پر پہنچ جاتا ہے۔‘‘ عالم خان نے بے نیازی کا مظاہرہ کیا۔
’’ٹاپ پرکیمپنگ نہیں ہو سکتی ؟‘‘
اس سوال کا جواب عالم خان کے بجائے میر عالم نے دیا اور نہایت روانی سے دئینتر پاس ٹاپ پر کی جانے والی کیمپنگ کی منظر کشی کی۔
’’کیوں نہیں ہو سکتا؟ ٹاپ پر پہنچ کر گلیشئر کے اوپر ٹینٹ لگاتا اے۔ پانی کی جگہ برف استعمال کرتا اے۔آپ لوگ کیمپ میں سلیپنگ بیگ کے اندر سوتا اے۔ میر عالم گلیشئر پر بستر کے بغیر سوتا اے۔ رات کو برف والا ہوا چلتا اے۔ صبح تک میر عالم برف بنتا اے۔ آپ اپنا سامان خود اٹھاتا اے۔ میر عالم کو ماشوق اٹھا تا اے۔سیدھا قبرستان لے جاتا اے۔‘‘
حالات غالباً ٹھیک ڈگر پر نہیں جا رہے تھے۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ عالم خان راستہ دریافت کرنے میں کافی وقت صرف کر رہا تھا اور اس کا اندازہ درست تھا کہ پوری ٹیم ساتھ ہوئی تو ٹاپ تک پہنچتے پہنچتے رات ہو جائے گی۔ میں نے دخل اندازی کا فیصلہ کیا اور تجویز پیش کی کہ میر عالم واپس جا کر عرفان وغیرہ کو صورتِ حال سمجھائے اور تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اُن کا ساتھ دینے کا فریضہ سنبھالے تاکہ انھیں تنہائی کا احساس نہ ہو۔ عالم خان میری فکر چھوڑے اور راہنمائی کرنے والے مینار بناتا ہوا فٹا فٹ ٹاپ پر پہنچے۔ ٹاپ کی بلندی سے ٹیم کی حالت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور ضرورت محسوس ہو تو عالم خان واپس جا کر ٹیم کی راہنمائی کا فریضہ سنبھال سکتا ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ عالم خان کا ساتھ دوں، کسی وجہ سے پیچھے رہ گیا تو اس کے بنائے ہوئے میناروں کے سہارے ٹاپ تک پہنچ جاؤں گا۔عالم خان نے میری ذمہ داری پر اس تجویز سے اتفاق کیا اور میر عالم اپنا بوجھ وہیں چھوڑ کر واپس چلا گیا۔
عام تاثر کے بر عکس ہمارے پورٹرز نہایت مخلص اور تعاون کرنے والے تھے۔
میں نے ایک کالا کلوٹا سنگلاخ عبور کیا جس کے نشیب میں ایک تیز رفتار پہاڑی نالا چٹانوں سے ٹکرا کر جھلملاتے ہوئے قطروں کے نقرئی موتی اچھالتا ہوا بہتا تھا۔یہ خوبصورت تضاد دل پر نقش ہو جاتا اگر طوفانی نالا عبور کرنے کا مرحلہ درپیش نہ ہوتا۔ بظاہر اسے عبور کرنے میں کوئی دشواری نہیں تھی لیکن کناروں پر جمے ہوئے پتھر حسبِ معمول بہت زیادہ پھسلواں اور لڑھکیلے معلوم ہوتے تھے۔میں دل کے کیلکو لیٹر پر حساب کتاب کر رہا تھا کہ اس مقام سے ’’نکل جانے‘‘ کے امکانات زیادہ ہیں یا ’’گزر جانے‘‘ کے؟
عالم خان میرا تذبذب دیکھ کر حیران تھا۔
’’سر ویسے تو آپ ٹھیک ٹھاک چلتا ہے،نالے پر آ کر کیا ہو جاتا ہے؟‘‘
’’نالے پر آ کر اسکولی ہو جاتا ہے۔‘‘
’’اسکولی؟‘‘ عالم خان مزید حیران ہوا۔’’آپ کنکارڈیا کر چکا ہے؟‘‘
’’میں کنکارڈیا جا سکتا ہوں ؟‘‘
’’کیوں نہیں جا سکتا؟آج کل فوج کا خچر لوگ بھی کنکارڈیا پہنچ جاتا ہے۔‘‘
’’میں خچر لوگ نہیں ہوں۔ ‘‘
’’آپ کنکارڈیا نہیں گیا تو اسکولی کیا لینے گیا تھا؟‘‘
’’بس چلا گیا تھا۔تم یہ بتاؤ نالا کیسے عبور کیا جائے؟‘‘
’’سیدھا چھلانگ لگاؤ۔‘‘
میں نے سیدھی چھلانگ لگانے کی کوشش کی جو خودبخود ٹیڑھی ہو گئی اور میں ایک مرتبہ پھر گرتے گرتے بچا۔کنارے کا پتھر لڑھک کر نالے میں پہنچ گیا۔ عالم خان کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے گھبراہٹ طاری ہوئی لیکن مجھے سنبھلتے دیکھ کر وہ مطمئن ہو گیا۔
’’ہم دیکھ رہا تھا آپ کا قصور نہیں ہے۔یہ پتھر کا بچہ بہت حرامی تھا۔‘‘
نالے کے فوراً بعد ایک ننھا منا چٹانی سلسلہ سر اٹھائے کھڑا تھا۔اس کے دیو قامت پتھر ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر تھے۔اس سلسلے کو لمبی لمبی چھلانگیں لگاتے ہوئے عبور کیا۔کچھ دیر بعد پتھروں کا سائز اور فاصلہ کم ہونے لگا اور انھوں نے ایک قدرتی سیڑھی کی شکل اختیار کر لی جو ایک سرمئی سنگلاخ کی چوٹی تک پہنچتی تھی۔یہ زیادہ سے پچاس میٹر کا فاصلہ ہو گا جسے عبور کرتے ہوئے سچ مچ مزا آ گیا۔ چوٹی پر پہنچ کر محسوس ہو ا کہ چڑھائی دائیں جانب موڑ کاٹ رہی ہے اور سامنے صرف اترائی ہے۔ میں نے راہنما میناروں کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔ میناروں کے بجائے عالم خان نظر آیا جو ایک بہت بڑے پتھر سے ٹیک لگا کر آرام فرما رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی لپک کر میری طرف آیا اور مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا:
’’مبارک ہو سر۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے ہاتھ تھامتے ہوئے تجسس آمیز لہجے میں وضاحت چاہی۔
’’یہ دئینتر پاس ٹاپ ہے ناں سر۔‘‘
’’یہ ٹاپ ہے؟‘‘ میرے لہجے میں بے یقینی،حیرت،مسرت، جوش اور نہ جانے کون کون سے جذبات چھپے ہوئے تھے۔
’’ہاں ناں۔ ‘‘
میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔
دئینتر پاس ٹاپ پر قدم رکھ کر میں باقاعدہ ٹریکر کے عہدے پر فائز ہو گیا تھا۔
میں شروع سے ہی دئینتر پاس عبور کرنے کے بارے میں بے یقینی کا شکار تھا۔ یہ بہت چھوٹی بلندی تھی۔صرف چار ہزار سات سو میٹر،پندرہ ہزار پانچ سو فٹ، لیکن مجھ جیسے نام نہاد ٹریکر کیلئے نانگا پربت سے کم نہیں تھی۔ مجھے علم تھا کہ ٹریک ابھی اختتام کو نہیں پہنچا اور ایک انتہائی دشوار گزار اترائی باقی ہے، لیکن بے یقینی کی کیفیت اختتام پذیر ہو چکی تھی۔ٹاپ پر قدم رکھتے ہی واپسی کا سوال ختم ہو چکا تھا۔
میں نے نہایت پُر جوش انداز میں ایک مرتبہ پھر عالم خاں سے مصافحہ بلکہ معانقہ کیا، شکریہ ادا کیا اور اعتراف کیا کہ اسکی راہنمائی اور مدد کے بغیر میں اتنی آسانی سے ٹاپ تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ عالم خان نے فخریہ انداز میں باچھیں پھیلاتے ہوئے میرے اعتراف نامے کو شرفِ قبولیت بخشا اور تکلفاً بھی یہ کہنے کی زحمت نہیں کی کہ ٹاپ تک پہنچنے میں میری اپنی ہمت اور حوصلے کا کوئی عمل دخل تھا۔
دئینتر پاس ٹاپ کی پہلی جھلک سنسنی خیز ثابت نہیں ہوئی۔مجھے توقع تھی کی ٹاپ سے نظر آنے والا منظر ششدر کر دے گا۔ جس جانب نظر اُٹھے گی ’’پتھر کے صنم‘‘ اپنے جلوے دکھانے کے لیے اٹین شن کھڑے ہونگے، لیکن فی الحال آسمان گھنگھور گھٹاؤں کے نرغے میں تھا اور برف پوش بلندیاں چمکیلے غبار میں پوشیدہ تھیں۔
دئینتر پاس ٹاپ کا اصل سرمایہ سنو ڈوم (برفانی گنبد) نامی خوبصورت چوٹی کی قربت ہے۔ اس برفانی گنبد کی چوٹی دئینتر پاس ٹاپ سے بظاہر چند قدم کے فاصلے پر دکھائی دیتی ہے اور دونوں کے بیچ صرف تین سو تیس میٹر کی بلندی حائل ہے۔ میں نے ابھی تک پانچ ہزار میٹر سے زائد بلند ’’سمٹ‘‘ (Summit) اتنے قریب سے نہیں دیکھی تھی۔ میرا خیال ہے آئس ایکس اور کریمپونز کے استعمال سے واقفیت رکھنے والے ٹریکرز سنوڈوم سر کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن اس سلسلے میں تکنیکی معلومات کا حصول بہت ضروری ہے۔ سنو ڈوم کی چوٹی سے دئینتر پاس ٹاپ تک پھیلا ہوا سفید براق گلیشئر ایک خوبصورت برفانی شاہراہ کا منظر پیش کرتا ہے۔میں اس برفانی شاہراہ کی دل کشی میں کھو گیا۔
’’یہ پری لوگ کا راستہ ہے سر۔‘‘ عالم خان نے مجھے برفانی گنبد کے منظر میں دلچسپی لیتے دیکھ کر انکشاف کیا۔
’’پریوں کا راستہ؟وہ کہاں سے آتی ہیں اور کہاں جاتی ہیں ؟‘‘
’’آس پاس کا سارا ٹاپ پری لوگ کے رہنے کی جگہ ہے سر۔ سب سے زیادہ پری لوگ سنوڈوم پر رہتا ہے۔‘‘
’’تمھارا مطلب ہے آس پاس کی چوٹیوں پر بسیرا کرنے والی پریاں اس مقام پر اتر آتی ہیں جہاں ہم کھڑے ہیں ؟‘‘
’’بالکل اترتا ہے سر۔یہاں نہیں اترے گا تو کہاں اترے گا؟ ہمارا بزرگ بتاتا ہے کہ پری لوگ رات کے وقت سنوڈوم سے اتر کر ڈانس وانس کرتا ہے اور آنکھ مچولی کھیلتا ہے۔ آپ لوگ دیکھنا چاہتا ہے تو آج رات ادھر کیمپ کرو۔‘‘
’’بہت بہت شکریہ۔میر عالم یہاں کیمپ کرنے کے نتائج سے آگاہ کر چکا ہے۔ پریاں کتنی بھی خوبصورت ہوں اُن کے لیے برف میں تبدیل ہونے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ تم گپیں ہانکنے کے بجائے واپس کیوں نہیں جاتے؟ہو سکتا ہے عرفان وغیرہ تمھاری ضرورت محسوس کر رہے ہوں۔ ‘‘ میں نے عالم خان کو یاد دلایا۔
’’سب ٹھیک ہے سر۔ہم نے ٹاپ پر پہنچتے ہی نیچے نظر ڈالا تھا۔وہ لوگ آرام سے چلتا ہے اور تھوڑی دیر میں اِدھر پہنچتا ہے۔‘‘
میں نے ٹاپ کے کنارے پر پہنچ کر نشیب میں جھانکا اور بوکھلا کر پیچھے ہٹ آیا۔
’’اچھا؟میں یہاں سے گزر کر ٹاپ تک پہنچا ہوں ؟‘‘
میرے ساتھی چہروں کے بجائے لباس کی وجہ سے شناخت کیے جا سکتے تھے۔ عرفان کی سرخ شرٹ سب سے آگے تھی۔ وہ سر جھکائے ’’مائل بہ پرواز‘‘ تھا اور اس کے قدموں تلے آنے والے پتھر لڑھک لڑھک کر نشیب کا رخ کر رہے تھے۔ بھٹہ صاحب کی کالی اور طاہر کی نیلی جیکٹ پتھروں پر تشریف فرما ہو کر عمودی چڑھائی سر کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھیں۔ میں نے اپنا ہیٹ لہرا کر انھیں خوش آمدید کہا۔طاہر نے پیپسی کی خالی بوتل ایک خاص انداز میں بلند کی۔ میں اس اشارے کی ’’بیہودگی‘‘ سے پوری طرح متفق تھا۔ دئینتر پاس ٹیم اپنی مہم میں کامیاب تھی، لیکن پتا نہیں کہاں کہاں سے ’’پاٹ‘‘ گئی تھی۔
مہم کی کامیابی کا یقین ہونے کے بعد مجھے دئینتر پاس ٹریک کی تفصیلات میں ایک حوصلہ افزا ’’خامی‘‘ کا احساس ہوا۔
دئینتر پاس ٹریک ہوّا بن کر ذہن پر سوار ہو گیا تھا۔میں اس لیے طاہر وغیرہ سے آگے نہیں چل رہا تھا کہ سب سے پہلے ٹاپ پر پہنچنے کا شرف حاصل کرنا چاہتا تھا۔ پیش روی کا مقصد صرف اتنا تھا کہ کسی مقام پر تھک کر لڑھک جاؤں تو مددگار میسر آسکیں۔ میں اُن مراحل کا انتظار ہی کرتا رہ گیا جن کی بنیاد پر دئینتر پاس سخت ترین ٹریک کہلاتا ہے، انتظار ختم ہونے سے پہلے دئینتر پاس آ گیا اور مجھے مستند ٹریکر بنا گیا۔
پہنچ کے ٹاپ پر ہم کتنے معتبر ٹھہرے
اگرچہ رَہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا
دئینتر پاس ٹریک کی شراب اتنی پھیکی نہیں جتنی بیان کی جاتی ہے۔
ایک کوہ نورد ٹریک کی مشقت جھیل کر کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟
اس سوال کا جواب الفاظ میں دینا ممکن نہیں، لیکن وہ جو کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے، بیس کیمپ سے ٹاپ تک پہنچتے پہنچتے اُس سے کئی گنا زیادہ حاصل کر لیتا ہے۔ دئینتر پاس ٹریک اتنا کٹھن یا خطرناک بھی نہیں جتنا بدنام کر دیا گیا ہے۔ سخت ترین (Strenous) ٹریک اگر دئینتر پاس جیسا ہوتا ہے تو ’’سخت ترینی‘‘ کی ایسی تیسی!میں کنکارڈیا کیوں نہیں جا سکتا؟ غونڈو غورو میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ اسے صرف عرفان عبور کر سکتا ہے؟
میں خوش فہمی کی دنیا میں نہ جانے کون کون سے ٹریک بھگتا ڈالتا کہ عالم خان کی آواز حقیقت کی دنیا میں واپس لے آئی۔
’’سر آپ کو اذان دینا آتا ہے ناں ؟ٹاپ پر پہنچ کر اذان دینا ضروری ہے۔‘‘
’’گورے دیتے ہیں اذان؟‘‘
’’گورا لوگ دعا پڑھتا ہے، کراس بناتا ہے۔‘‘
’’عرفان وغیرہ آ جائیں تو اذان دے لیں گے۔ مووی بھی بن جائے گی۔‘‘
’’سر مووی کیلئے دوبارہ اذان دے لینا۔ ٹاپ پر پہنچ کر رک سیک اتارتے ہی اذان دینا بہت ضروری ہے ورنہ نیچے اترتے وقت کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔‘‘
’’نماز کا وقت نہ ہو تب بھی اذان دینا ضروری ہے؟‘‘
’’ہاں ناں۔ ‘‘
پتا نہیں عالم خان کس حد تک درست کہہ رہا تھا،لیکن میں نیچے اترتے وقت کسی قسم کا مسئلہ کھڑا ہونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا اس لیے گلیشئر کے ٹھنڈے ٹھار پانی سے وضو کر کے ٹاپ کے بلند ترین مقام پر کھڑے ہو کر اذان دی۔اذان کے بعد نماز واجب ہو گئی، اور اسی پتھر پر دو نفل ادا کیے گئے۔ ٹاپ پر تشریف لے آنے کے بعد عرفان وغیرہ ناراض ہوئے کہ اُن کے آنے سے پہلے اذان کیوں دی گئی؟ میں نے عالم خان کے فتوے کے بارے میں بتا یا تو عرفان نے وضاحت کی کہ اذان کسی ڈر یا خوف کی وجہ سے نہیں دی جاتی۔ اس حدیث کی روشنی میں دی جاتی کہ بلندی کی جانب سفر کرتے ہوئے تکبیر بلند کی جائے تو اللہ تعالیٰ سفر کی دشواریاں آسان کر دیتے ہیں۔ ٹاپ پر پہنچ کر اذان دینا ایک روایت بن چکی ہے، اسے ضعیف الاعتقادی کا رنگ دینا مناسب نہیں۔
ہمارے بعد میر عالم اور شیر احمد ٹاپ پر پہنچے۔
میں نے ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دی کہ فیصلے کے مطابق انھیں عرفان وغیرہ کے ساتھ رہنا چاہیے تھا،وہ آگے کیوں نکل آئے ہیں ؟انھوں نے بتایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ پوری ٹیم بخیر و عافیت دئینتر پاس کی آخری چڑھائی کے دامن تک پہنچ گئی ہے اور تھوڑی دیر میں ٹاپ پر پہنچ کر جشن منا رہی ہو گی۔
سرخ جیکٹ تقریباً چالیس منٹ بعد دئینتر پاس ٹاپ پر جلوہ افروز ہوئی۔
عرفان نے آتے ہی باقاعدہ ’’جپھا‘‘ ڈالا اور مجھے زمین سے اونچا اٹھا کر گھمانے کی کوشش کی۔ میری ’’کمریا‘‘ ماشا ء اللہ اتنی وسیع و عریض ہے کہ اس کا جپھا ادھورا رہا اور وہ تھک ہار کر یہ کہنے پر مجبور ہو گیا:
تجھے اٹھانے کی کوششیں بھی تمام ناکام ہو چکی ہیں
تیری کمریا کو تھامنے میں نہ جانے یہ کیا مقام آیا
’’بہت بہت مبارک ہو ڈاکٹر صاحب۔یہ دئینتر پاس ٹاپ ہے جہاں پہنچنا آپ کے لیے ممکن نہیں تھا۔‘‘ عرفان نے طائرانہ نظروں سے پاس کے دونوں جانب نظر آنے والے منظر کا جائزہ لیا۔اُس کی بلوری آنکھیں جوشِ مسرت سے جگمگا رہی۔
’’مبارک باد کے مستحق آپ ہیں۔ میں سارے راستے آپ کو برا بھلا کہتا آیا ہوں۔ ‘‘
’’اب کیا خیال ہے؟‘‘ اُس نے سنو ڈوم کے برفانی گنبد کی طرف اشارہ کیا۔
’’یہ اعجاز ہے حسنِ ’’عرفانگی‘‘ کا … دئینتر پہ ہم داستاں چھوڑ آئے۔‘‘
’’انجوائے کیا؟‘‘
’’بہت زیادہ۔فنٹاسٹک۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے فائیو سٹار ہوٹل میں ڈنر کنفرم؟‘‘
’’فائیو سٹار ہوٹل میں پھجے کے سری پائے ملتے ہیں ؟‘‘
’’سر جی ادھر آئیں۔ ‘‘ عالم خان نے دخل اندازی کی۔
’’کیوں ؟‘‘ میں نے وضاحت چاہی۔
’’میرے ساتھ مل کر بیٹھ جائیں، چولہا جلا کر چائے بنانا ہے۔‘‘
’’چائے کے لیے پانی کہاں سے آئے گا؟بوتلوں کا پانی کب کا ختم ہو چکا ہے۔‘‘
’’گلیشئر پر بیٹھ کر پانی کا فکر مت کرو۔ پانی ہم ابھی بنا لیتا ہے۔‘‘
میر عالم اور شیر احمد سٹیل کے ڈونگے کی مدد سے گلیشئر کی برف کھرچ کھرچ کر ساس پین میں جمع کر رہے تھے۔ عالم خان ایک پتھر کی آڑ لے کر چولھا جلانے کی کوشش میں مصروف تھا اور تند و تیز ہواؤں کی وجہ سے بری طرح ناکام ہو رہا تھا۔ٹاپ پر ہوا کی شدت ناقابلِ یقین حد تک طوفانی تھی۔ عالم خان اور شیر احمد کے مفلر جھنڈے کی طرح لہرا رہے تھے۔ عرفان نے اس منظر کی تصویر بنائی، تصویر میں عالم خاں کی انگلیاں ’’وی‘‘ کا نشان بنا رہی ہیں تو وہ ہواؤں پر وکٹری حاصل کرنے کی خوشی میں ہے، دئینتر پاس ٹاپ پر پہنچنے کی خوشی میں نہیں ہے۔ دائیں بائیں، آگے پیچھے،اوپر نیچے نظر آنے والے گلیشئرز کی برفابی سے بھرپور ہواؤں کے تیور دیکھ کر باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ رات کے وقت ان کی شوریدہ سری کیا قیامت ڈھاتی ہو گی۔ مجھے سو فیصد یقین آ گیا کہ میر عالم کی ’’مثنوی برف البیان‘‘ مبالغہ آرائی پر مبنی نہیں تھی۔
چائے تیار ہونے تک طاہر اور بھٹہ صاحب بھی پہنچ گئے۔
طاہر کسی حد تک ان مناظر کا عادی تھا بھٹہ صاحب ٹاپ کا منظر دیکھ کر ہوش و حواس کھو بیٹھے۔انھیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ پاکستان میں اتنے خوبصورت مناظر پائے جا تے ہیں۔ وہ ’’پریوں کی پھسلن گاہ‘‘ پر نظر ڈالتے، دئینتر کی گہرائیوں میں اترنے والے سبزہ زاروں کا جائزہ لیتے، نل تر کی رنگینیوں پر حیران ہوتے، اور سبحان اللہ کا ورد شروع کر دیتے۔
عالم خان نے چائے تیار ہونے کا اعلان کیا۔
ہم چائے کی چسکیاں لے رہے تھے کہ ہلکی پھلکی برف باری شروع ہو گئی۔ آج صبح جب ہم نے ٹریک آغاز کیا آسمان پر بادلوں کا نام و نشان تک نہ تھا اور سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ٹریک کے دوران قدموں سے نظر ہٹا کر آسمان کی طرف دیکھنے کی مہلت ہی نہ ملی اور نہ جانے کب نیلے نیلے امبر پر گھنگھور گھٹائیں چھا گئیں۔ یہ گھٹائیں سفید گلاب کی پتیوں جیسے نرم و ملائم برف کے گالے نچھاور کر کے رسمِ استقبال نبھا رہی تھیں اور خوشیوں کے بیش بہا خزانے لٹا رہی تھیں۔
دئینتر پاس ٹاپ کے لیے یہ ایک آئیڈیل موسم تھا۔
ہم نے بچوں کی طرح یہ موسم یہ مست نظارے انجوائے کیے۔عرفان نے سنو مین بنانے کی کوشش کی لیکن گلیشئر کی برف انتہائی سخت تھی اور تازہ برف کی مقدار اتنی نہیں تھی کہ اسے سنو مین کی شکل دی جا سکتی۔برف کے ننھے منے گولے ایک دوسرے کی طرف اچھالے جا سکتے تھے، لہٰذا بے تحاشہ اچھالے گئے۔پریوں کے ’’سکائی انگ فیلڈ‘‘ پر بے تکے انداز میں سکائی انگ کرتے ہوئے سنو ڈوم کے دامن تک پہنچنے کی کوشش کی گئی لیکن برف کی سخت اور پھسلواں سطح پر ’’کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا‘‘ کے نتیجے میں یہ کوشش ترک کر دی گئی۔
برف باری آہستہ آہستہ اختتام کو پہنچی لیکن مطلع بدستور ابر آلود تھا اور ہم جس منظر نامے کا خواب آنکھوں میں بسائے ٹاپ تک پہنچے تھے اُس کی تعبیر سے محروم رہے۔موسم کی رنگینی دھیرے دھیرے سنگین ہوتی جا رہی تھی۔
‘‘ یہ سراسر فاؤل ہے۔ٹاپ پر پہنچا کر دئینتر پاس کے جلووں سے محروم رکھنا کہاں کا انصاف ہے؟‘‘ میں نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے فریاد کی۔
’’شکوے کے بجائے شکر کریں کہ ٹاپ پر پہنچ گئے ہیں۔ ‘‘ بھٹہ صاحب نے نصیحت کی۔
’’کچھ نظر آئے گا تو ضرور شکر کروں گا۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب اتنا پیارا موسم آپ کو پسند نہیں آتا ہے؟ دئینتر پاس پر ایسا موسم قسمت والے کو ملتا ہے۔‘‘ عالم خان نے حسبِ عادت ٹانگ اڑائی۔
’’پیارے اللہ میاں جی،آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم اس موسم کا نظارہ کرنے نہیں آئے۔ یہ بادل وادل ہٹا لیں فٹا فٹ۔آپ کی عین نوازش ہو گی۔‘‘
’’انا للہ کا ورد کریں۔ بیس مرتبہ۔‘‘ بھٹہ صاحب نے آزمودہ نسخہ بتایا۔
شیڈول کے مطابق ہم مزید ایک گھنٹہ ٹاپ پر گزار سکتے تھے۔ اس دوران فوٹو گرافی کی کوشش کی گئی، لیکن روشنی ناکافی تھی، اس لیے رک سیک کا تکیہ بنا کر برف آمیز سکری کے فرش پر دراز ہو گئے اور ہلکی ہلکی برف باری سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
روانگی سے پندرہ بیس منٹ پہلے پیارے اللہ میاں جی نے ہماری عاجزانہ درخواست قبول فرما لی۔ برف باری آہستہ آہستہ رک گئی اور یخ بستہ ہوائیں بادلوں کی فوج ظفر موج مشرق کی سمت اُڑا لے گئیں۔ سورج کی کرنوں نے گھٹاؤں کی چلمن ہٹا کر ماورائی رنگ بکھیرنے شروع کر دیئے۔ ماحول گرم ہوتا گیا اور دئینتر پاس منظر نامے کے برفیلے خط و خال واضح ہونے لگے۔ ہم نے اپنے قیام میں ایک گھنٹے کا اضافہ کر دیا۔
دئینتر پاس منظر نامہ ایک ایسے نقشین پیالے کی مانند ہے جو وادیِ دئینتر اور وادیِ نل تر کی برف پوش بلندیوں اور سبز پوش پستیوں کے ملاپ سے تخلیق کیا گیا ہے۔ اس پیالے کے نشیب میں وادیِ نل تر اور وادیِ دئینتر کے گل زار کسی مصور کے شاہکار کی مانند نظر آتے ہیں۔ منظر کے وسط سے وہ پہاڑی سلسلہ گزرتا ہے جو پیالے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے اور جس کے ’’پاس‘‘ پر کھڑے ہو کر ہم فطرت کی کاری گری کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ مغربی جانب وادیِ نل تر اور مشرقی جانب وادیِ دئینتر۔ سنوڈوم اور مہربانی پیک دونوں وادیوں کو تقسیم کرنے والے سلسلے کا حصہ ہیں اور بے داغ سپید دردیوں میں ملبوس سرحدی محافظ کا فریضہ سر انجام دیتی ہیں۔ ٹوئین پیک، شانی پیک اور مہربانی پیک پورے ٹریک کے دوران ہماری نظروں کے سامنے رہی تھیں۔ وادیِ دئینتر کی جانب نظر آنے والی بلندیاں … جو نل تر کی بلندیوں سے مل کر ’’پیالہ‘‘ بناتی ہیں … ہم سے بہت دور تھیں اور کسی کھلونے کی مانند نظر آتی تھیں۔ عرفان اور عالم خان ان بلندیوں میں ’’بتورا پیک‘‘ اور ’’شسپر پیک‘‘ کی نشاندہی کرنے کی انگلی توڑ کوشش کر رہے تھے۔مجھے یہ پورا سلسلہ ایک برفانی پٹی کی مانند نظر آتا تھا اور میں پوری کوشش کے باوجود افق پر چھائی ہوئی سفیدی میں بتورا پیک یا شسپر پیک جیسے مشہورِ عالم پتھر کے صنم ’’تراشنے‘‘ میں کامیاب نہ ہو سکا۔
عرفان اس منظر کی برفابی، نیل آبی،گلکاری اور سنگلاخی کے تضاد سے جنم لینے والی ’’بیوٹی‘‘ پر رواں تبصرہ نشر کر رہا تھا۔بھٹہ صاحب مبہوت ہو کر ’’بھٹہ میاں دیوانے‘‘ بن جانے کی کوشش فرما رہے تھے۔ طاہر کی آنکھیں مسلسل گردش میں تھیں لیکن وہ خود کیم روبوٹ کی مانند ساکت و جامد کھڑا تھا … اور میں ؟
میرا ذوقِ تماشا میرے جسم کی طرح زوال کا شکار تھا یا میں دئینتر ٹاپ پر پہنچ کر اس سے کہیں زیادہ دلکش، انمول اور سنسنی خیز انعام کی توقع کر رہا تھا؟
میں نے اپنے جذبات کا اظہار کر دیا اور عرفان کے چہرے پر زلزلے کے آثار نظر آئے۔
’’آپ کے دماغ کی چولیں ڈھیلی ہو گئی ہیں، اگلے سال ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے تشریف لے جائیں، خود بہ خود ٹھکانے پر آ جائیں گی۔‘‘
’’کے۔ٹو اور نانگا پربت ایک ہی سیزن میں نمٹا ڈالوں تو کیسا رہے گا؟‘‘ میں نے عرفان کی جھلاہٹ سے محظوظ ہوتے ہوئے نہایت خلوص سے اجازت چاہی۔
’’بوتھا ویکھیا ای اپنا؟‘‘ طاہر بھنا گیا۔’’عرفان بھائی آپ ان کی چالاکی سمجھ نہیں رہے۔ پسند نا پسند کا چکر چلا کر فائیو سٹار ہو ٹل میں ڈنر دینے کے وعدے سے مکرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘
’’سر جی گلگت پہنچ کر ہم کو گرین ڈریگن میں چائنیز کھانا کھلاؤ۔ آپ لوگوں کو ٹاپ پر لانے میں ہمارا بہت محنت ہوا ہے۔‘‘ عالم خان نے فرمایش کی۔
’’خاک محنت ہوا ہے۔ تمھیں گرین ڈریگن میں چائنیز کھانا کھلانے کے بجائے سینما بازار میں دیسی جوتے کھلانے چاہئیں۔ ‘‘ طاہر بھڑک اٹھا۔
’’کیوں سر جی؟‘‘ عالم خان دم بخود رہ گیا۔
’’تم دو دن سے ہماری برین واشنگ کر رہے تھے کہ دئینتر پاس ٹریک ہمارے بس کا روگ نہیں۔ ہمیں پکھورا یا حایول پاس کراس کرنا چاہیے۔‘‘
’’سراب تو ٹاپ پہ پہنچ گیا ہے۔‘‘
’’تمھارا کیا کردار ہے اس میں، حوصلہ شکنی کرنے کے علاوہ؟‘‘
’’ہم آپ کو آسان راستے سے اِدھر لایا ہے۔‘‘ عالم خان بوکھلا گیا۔
’’آسان سے نہیں، غلط سلط راستے سے۔مجھے پتا ہے تم نے کتنی مرتبہ راستہ تبدیل کیا ہے۔‘‘ میں نے توتا چشمی کا مظاہرہ کیا۔
’’سر آپ کھانا بے شک مت کھلاؤ، ہمارا محنت کا خانہ خراب نہ کرو۔ آپ سمجھتا نہیں ہے کہ ٹاپ پر پہنچ کر ہمارا کتنا نقصان ہو گیا ہے۔‘‘
’’ٹاپ پر پہنچ کر نقصان،وہ کیسے؟‘‘ عرفان چونک گیا۔
’’’ہم سچی بات بولے گا تو آپ ناراض ہو گا۔‘‘
’’خواہ مخواہ سسپنس پیدا کرنے کی کوشش مت کرو۔سیدھی طرح بتاؤ بات کیا ہے؟‘‘
’’سر آپ ہمیں ایک پورٹر کے نام کا دو ہزار دے گا ؟‘‘ عالم خان نے تصدیق چاہی۔
’’ظاہر ہے۔جو طے ہوا ہے وہی دیں گے۔‘‘
’’ہم ان دونوں کو پانچ ہزار دے گا۔‘‘ اُس نے افسردگی سے بتایا۔
’’شیر احمد کی لپ اسٹک پر نچھاور کرو گے یا نیل پالش کا صدقہ اتارو گے؟‘‘ میں نے معنی خیز انداز میں سوال کیا۔
’’یہ مذاق کا بات نہیں ہے سر۔آپ یہ کیوں نہیں دیکھتا کہ آپ لوگوں نے تین پورٹر ڈیمانڈ کیا، ہم نے صرف دو ہائر کیا۔‘‘
’’تم پوری بات کیوں نہیں بتاتے؟ پورٹر کم ہونے سے ہمارا فائدہ ہو سکتا ہے، تمھارا کیا نقصان ہے؟تم نے فی پورٹر مزدوری دو ہزار طے کی تھی تو انھیں چار ہزار کے بجائے پانچ ہزار کیوں دو گے؟‘‘ عرفان نے وضاحت چاہی۔
’’پورا بات یہ ہے سر کہ ہمارا دماغ خراب ہو گیا تھا۔ ہم نے ان کو بولا کہ ٹاپ کراس ہوتا ہے تو دونوں کو اڑھائی اڑھائی ہزار دے گا،نہیں ہوتا تو تین سو روپیا روز دے گا۔اب ان کو پانچ ہزار دیتا ہے تو ہمارے پاس کیا بچتا ہے؟صرف دو ہزار ناں۔ انعام والا روپیا تو یہ لوگ لے جاتا ہے۔پھر ہمارا نقصان ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا؟‘‘
’’پتا نہیں ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا۔مجھے تمھاری کوئی بات سمجھ نہیں آئی۔‘‘
‘‘ سمجھ آ جائے گا جب ہم بتائے گا کہ ہمیں ٹاپ پر پہنچنے کا امید نہیں تھا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ عرفان چونک اُٹھا۔
’’ہمارا خیال تھا کہ لوئر شانی سے آگے آپ ڈھیلا پڑ جائے گا اور بیس کیمپ پہنچنے سے پہلے بالکل ٹھس ہو کر واپس آ جائے گا۔‘‘
’’یعنی ٹریک صرف دو دن چلے گا۔تم ان دونوں کو بارہ سو روپے دو گے اور باقی اٹھائیس سو اپنی جیب میں ڈال کر بغلیں بجاتے ہوئے گھر چلے جاؤ گے؟‘‘
’’ہاں ناں۔ ‘‘
’’تم نے ہماری ٹیم سے اتنی اعلیٰ کارکردگی کی توقعات کیوں وابستہ کی تھیں ؟‘‘
’’ ڈھیری کے بہک میں ہم نے کافی دیر تک آپ کے بارے میں بات چیت کیا تھا۔‘‘
’’اچھا ؟ہمارے بارے میں بات کرتے رہے تھے؟ میرا خیال تھا تم نے وہ قیمتی وقت شیر احمد کے ساتھ دل پشوری کرتے ہوئے گزارا ہو گا۔میر عالم تو گھر چلا گیا تھا۔‘‘ عرفان کے لبوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
’’آپ پھر مذاق کرتا ہے، ہمدردی نہیں کرتا۔‘‘ عالم خان نے رونے والے انداز میں کہا۔
’’ہمدردی بھی کریں گے اگر تم صاف صاف بتا دو کہ ہمیں اتنا کمزور اور نکما کیوں سمجھ رہے تھے۔تمھارے خیال میں ہم یہاں جھک مارنے آئے تھے؟‘‘ عرفان سنجیدہ ہو گیا۔
’’اب ہم کیا بتائے سر؟وہ لاہور والا گروپ تھا ناں، اُس نے ہمارا دماغ خراب کیا۔ ہم نے سوچا اتنا فٹ فاٹ لوگ اپر شانی نہیں پہنچا تو ڈاکٹر صاحب اور طاہر صاحب جیسا ان فٹ لوگ دئینتر ٹاپ تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟‘‘
’’مگر یہ پہنچ گیا۔‘‘ عرفان نے مصنوعی تاسف اور مایوسی کا اظہار کیا۔
’’اب آپ انصاف سے بولو کہ ہمارا بیڑا غرق ہوا کہ نہیں ہوا؟اوپر سے یہ دونوں کھانا کھلانے کی بات پے ناراض ہوتا ہے۔‘‘
’’اور جوتا مارنے کی بات کرتا ہے۔‘‘ عرفان نے مزید مایوسی کا اظہار کیا۔
’’ہاں ناں۔ ‘‘ عالم خان کے چہرے کی فطری یتیمی میں اضافہ ہو گیا۔
عالم خان کے بے ساختہ اعترافِ جرم نے اُس کے حوصلہ شکن رویے اور غیر متوقع فیصلوں کی وضاحت کر دی۔لوئر شانی کے بجائے نیلولوٹ پر کیمپ کر کے اس نے ایک تیر سے دو شکار کئے۔ نل تر جھیل سے نیلولوٹ تک سامان لانے والے بابا صاحبان کو اس نے آدھی سٹیج کی اجرت ادا کی ہو گی۔اس غیر روایتی پڑاؤ کی وجہ سے دوسرے دن کی سٹیج بہت زیادہ طویل اور بہت زیادہ ’’بلند‘‘ ہو گئی۔ عالم خان کا خیال ہو گا کہ ہم لوئر شانی والی چڑھائی سر کرنے کے فوراً بعد ایک عدد مزید چڑھائی کے متحمل نہیں ہو سکیں گے اور لاہوری گروپ کی طرح ’’ٹھس‘‘ ہو کر واپسی کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ بیس کیمپ سے دئینتر پاس ٹاپ کے سفر کے دوران راستہ بنانے کے بہانے اُس نے ایک مرتبہ پھر ہمیں غیر ضروری چکر پھیریوں میں ڈال کر بد دل کرنے کی کوشش کی، لیکن ہماری سست رفتار پالیسی اور عرفان کی موقع بہ موقع حوصلہ افزائی نے اُس کی سازشوں کا جال تار تار کر دیا۔ اعترافِ جرم کی بنیاد پر عالم خان کو شرمندہ کرنے اور اس کا انعام بحق سرکار ضبط کرنے کی کوشش کی جا سکتی تھی، لیکن عالم خان کے خود غرض ارادے ماضی کا حصہ بن چکے تھے اور اس کی خدمات سے استفادے کی ضرورت باقی تھی۔ اس لیے ایک متفقہ قرار داد کے ذریعے عالم خان کی سازش صدقِ دل سے معاف کر دی گئی اور کامیابی کی خوشی میں ایک ہزار روپے اضافی انعام کا اعلان کیا گیا۔
وادیِ دئینتر کی اترائی پر پہلا قدم رکھتے ہی وادیِ نل تر ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو جانے والی تھی۔ ہم نے اس کے دل نواز نشیب و فراز پر آخری نظر ڈالی:
وادیِ نلتر کی اے رنگیں بہارو الوداع
کوہسارو مرغزارو آبشارو الوداع

ڈاکٹر محمد اقبال ہما

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button