مائی تاجو ہر رات کو ایک گھنٹے تو ضرور سو لیتی تھی لیکن اس رات غصے نے اسے اتنا سا بھی سونے کی مہلت نہ دی۔ پو پھٹے جب وہ کھاٹ پر سے اتر کر پانی پینے کے لیے گھڑے کی طرف جانے لگی تو دوسرے ہی قدم پر اسے چکر آ گیا تھا اور وہ گر پڑی تھی۔ گرتے ہوئےاس کا سر کھاٹ کے پائے سے ٹکرا گیا تھااور وہ بے ہوش ہو گئی تھی۔
یہ بڑا عجیب منظر تھا۔ رات کے اندھیرے میں صبح ہولے ہولے گھل رہی تھی۔ چڑیاں ایک دوسرے کو رات کے خواب سنانے لگی تھیں۔ بعض پرندے پر ہلائے بغیر فضا میں یوں تیر رہے تھے جیسے مصنوعی ہیں اور کوک ختم ہوگئی تو گر پڑیں گے۔ ہوا بہت نرم تھی اور اس میں ہلکی ہلکی لطیف سی خنکی تھی۔ مسجد میں وارث علی اذان دے رہا تھا۔
یہ وہی سریلی اذان تھی جس کے بارے میں ایک سکھ سمگلر نے یہ کہہ کر پورے گاؤں کو ہنسا دیا تھا کہ اگر میں نے وارث علی کی تین چار اذانیں اور سن لیں تو واہگو رو کی قسم کھاکے کہتا ہوں کہ میرے مسلمان ہوجانے کا خطرہ ہے۔ اذان کی آواز پر گھروں میں گھمر گھمر چلتی ہوئی مدھانیاں روک لی گئی تھیں۔ چاروں طرف صرف اذان حکمران تھی اور اس ماحول میں مائی تاجو اپنی کھاٹ کے پاس ڈھیر پڑی تھی۔ اس کی کنپٹی کے پاس اس کے سفید بال اپنے ہی خون سے لال ہورہے تھے۔
مگر یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی، مائی تاجو کو تو جیسے بے ہوش ہونے کی عادت تھی۔ ہر آٹھویں دسویں روز وہ صبح کو کھاٹ سے اٹھتے ہی بے ہوش ہوجاتی تھی۔ ایک بار تو وہ صبح سے دوپہر تک بے ہوش پڑی رہی تھی اور چند چیونٹیاں بھی اسے مردہ سمجھ کر اس پر چڑھ آئی تھیں اور اس کی جھریوں میں بھٹکنے لگی تھیں۔ تب پڑوس سے چودھری فتح دین کی بیٹی راحتاں پنجوں کے بل کھڑی ہو کر دیوار پر سے جھانکی تھی اور پوچھا تھا، ’’مائی! آج لسّی نہیں لوگی کیا؟‘‘ پھر اس کی نظر بے ہوش مائی پر پڑی تھی اور اس کی چیخ سن کر اس کا باپ اور بھائی دیوار پھاند کر آئے تھے اور مائی کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مار مار کر اور اس کے منہ میں شکر ڈال ڈال کر خاصی دیر کے بعد اسے ہوش میں لائے تھے۔ حکیم منور علی کی تشخیص یہ تھی کہ مائی خالی پیٹ سوتی ہے۔
اس دن سے راحتاں کا معمول ہوگیا تھا کہ وہ شام کو ایک روٹی پر دال ترکاری رکھ کر لاتی اور جب تک مائی کھانے سے فارغ نہ ہوجاتی، وہیں پر بیٹھی مائی کی باتیں سنتی رہتی۔ ایک دن مائی نے کہا تھا:’’میں تو ہر وقت تیار رہتی ہوں بیٹی کہ جانے کب اوپر سے بلاوا آجائے۔ جس دن میں صبح کو تمھارے گھر لسّی لینے نہ آئی تو سمجھ لینا میں چلی گئی۔ تب تم آنا اور اُدھر وہ چارپائی تلے صندوق رکھا ہے نا، اس میں سے میرا کفن نکال لینا،کبھی دکھاؤں گی تمھیں۔ وارث علی سے کہہ کہ مولوی عبدالمجید سے اس پر خاکِ پاک سے کلمہ شہادت بھی لکھوا لیا تھا۔ ڈرتی ہوں اسے بار بار نکالوں گی تو کہیں خاک ِ پاک جھڑ ہی نہ جائے۔ بس یوں سمجھ لو کہ یہ وہ لٹھا ہے جس سے بادشاہ زادیاں برقعے سلاتی ہوں گی۔ کپاس کے خاص پھولوں کی روئی سے تیار ہوتاہے یہ کپڑا۔ ٹین کے پترے کی طرح کھڑ کھڑ بولتا ہے۔ چکی پیس پیس کر کمایا ہے۔ میں لوگوں کو عمر بھر آٹا دیتی رہی ہوں اور ان سے کفن لیتی رہی ہوں۔ کیوں بیٹی! یہ کوئی گھاٹے کا سودا تھا؟ نہیں تھانا!میں ڈرتی ہوں کہ کہیں کھدر کا کفن پہن کر جاؤں تو لوگ جنت میں بھی مجھ سے چکی ہی نہ پسوانے لگیں۔‘‘ پھر اپنے پوپلے منہ سے مسکراکر اس نے پوچھا تھا، ’’تمھیں دکھاؤں؟‘‘
’’نامائی!‘‘ راحتاں نے ڈر کر کہا تھا ’’خاکِ پاک جھڑ گئی تو!‘‘ پھر اس نے موضوع بدلنے کی کوشش کی، ’’ابھی تو تم بیس سال اور جیو گی۔ تمھارے ماتھے پر تو پانچ لکیریں ہیں۔ پانچ بیسیاں سَو۔‘‘
مائی کا ہاتھ فوراً اپنے ماتھے کی طرف اٹھ گیا، ’’ہائے پانچ کہاں ہیں بیٹی،کل چار ہیں۔ پانچویں تو یہاں سے ٹوٹی ہوئی ہے۔ تو چھری کی نوک سے دونوں ٹکڑوں کو ملادے تو شاید ذرا سا اور جی لوں۔ تیرے گھر کی لسّی تھوڑی سی اور پی لوں۔‘‘ مائی کے پوپلے منہ پر ایک بار پھر گول سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ اس پر راحتاں نے زور سے ہنس کر آس پاس پھیلے ہوئے کفن اور کافور کی بُو سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی مگر کفن اور جنازے سے مفر نہ تھا۔ یہی تو مائی کے محبوب موضوع تھے۔
ویسے راحتاں کو مائی تاجو سے انس ہی اس لیے تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے مرنے ہی کی باتیں کرتی تھی جیسے مرنا ہی اس کی سب سے بڑی کامیابی ہو اور جب راحتاں نے ایک بار مذاق مذاق میں مائی سے وعدہ کیا تھا کہ اس کے مرنے کے بعد وہ اسے یہی کفن پہنا کر اپنے باپ کی منت کرے گی کہ مائی کا بڑا ہی شاندار جنازہ نکالا جائے تو مائی اتنی خوش ہوئی تھی کہ جیسے اسے نئی زندگی مل گئی ہے۔
راحتاں سوچتی تھی کہ یہ کیسی بدنصیب ہے جس کا پوری دنیا میں کوئی بھی اپنا نہیں ہے اور جب یہ مری تو کسی آنکھ سے ایک بھی تو آنسو نہیں ٹپکے گا۔ بعض موتیں کتنی آ باد اور بعض کتنی ویران ہوتی ہیں۔ خود راحتاں کا ننھا بھائی کنویں میں گر کر مرگیا تھا تو کیا شاندار ماتم ہوا تھا۔ کئی دن تک بین ہوتے رہے تھے اور گھر سے باہر چوپال پر دور دور سے فاتحہ خوانی کے لیے آنے والوں کے ٹھٹ لگے رہے تھے۔ اور پھر انھی دنوں کریمے نائی کا بچہ نمونیے سے مرا تو بس اتنا ہوا کہ اس روز کریمے کے گھر کا چولھا ٹھنڈا رہا اور تیسرے ہی روز وہ چوپال پر بیٹھا چودھری فتح دین کا خط بنا رہا تھا۔ موت میں ایسا فرق نہیں ہونا چاہیے۔ مرکر تو سب برابر ہوجاتے ہیں۔ سب مٹی میں دفن ہوتے ہیں۔ امیروں کی قبروں کے لیے مٹی ولایت سے تو نہیں منگائی جاتی، سب کے لیے یہی پاکستان کی مٹی ہوتی ہے۔
’’کیوں مائی؟‘‘ ایک دن راحتاں نے پوچھا تھا، ’’کیا اس دنیا میں سچ مچ تمہارا کوئی نہیں ہے؟‘‘
’’واہ! کیوں نہیں ہے!‘‘ مائی مسکرائی۔
’’اچھا!‘‘ راحتاں کو بڑی حیرت ہوئی۔
’’ہاں ایک ہے۔‘‘ مائی بولی۔
راحتاں بہت خوش ہوئی کہ مائی نے اسے ایک ایسا راز بتا دیا جس کا گاؤں کے بڑے بوڑھوں تک کو علم نہیں۔ ’’کہاں رہتا ہے وہ؟‘‘ اس نے بڑے شوق سے پوچھا۔
’’وہ؟‘‘مائی مسکرائے جا رہی تھی، ’’وہ یہاں بھی رہتا ہے وہاں بھی رہتا ہے۔ دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں وہ نہ رہتا ہو۔ وہ بارڈر کے ادھر بھی رہتا ہے بارڈر کے اِدھر بھی رہتا ہے۔ وہ تو۔۔۔‘‘
راحتاں نے بے قرار ہو کر مائی کی بات کاٹی، ’’ہائے ایسا کون ہے وہ؟‘‘ اور مائی نے اسی طرح مسکراتے ہوئے کہا، ’’خدا بیٹی، اور کون ہے!‘‘
راحتاں کو اس کے باپ کے ذریعے پتہ چلا تھا کہ آج سے کوئی آدھی صدی ادھر کی بات ہے، گاؤں کا ایک نوجوان پٹواری مائی تاجو کو یہاں لے آیا تھا۔ کہتے ہیں مائی تاجو ان دنوں اتنی خوبصورت تھی کہ اگر وہ بادشاہوں کا زمانہ ہوتا تو مائی ملکہ ہوتی۔ اس کے حسن کا چرچا پھیلا تو اس گاؤں سے نکل کر پٹواری کے آبائی گاؤں تک جا پہنچا جہاں سے اس کی پہلی بیوی اپنے دو بچوں کے ساتھ یہاں آدھمکی۔
پٹواری نے مائی تاجو کو دھوکا دیا تھا کہ وہ کنوارا ہے۔ تاجو نے اپنے باپ کی مرضی کے خلاف رو پیٹ کر اور نہر میں کود جانے کی دھمکی دے کر شادی کی تھی۔ اوپر سے پہلی بیوی نے جب اپنا سینہ دوہتڑوں سے پیٹنا شروع کیا اور ہر دوہتڑ پر تاجو کو ایک گندی بساندی گالی تھمادی تو تاجو چکنا چور ہوکر یہاں سے بھاگی اور اپنے گاؤں میں جاکر دم لیا۔ ماں نے تو اسے لپٹا لیا مگر باپ آیا تو اسے بازو سے پکڑ کر باہر صحن میں لے گیا اور بولا، ’’چاہے پٹواری کی تین بیویاں اور ہوں، تمھیں اسی کے ساتھ زندگی گزارنی ہے۔ تم نے اپنی مرضی کی شادی کی ہے، ہمارے لیے یہی بے عزتی بہت ہے۔ اب یہاں بیٹھنا ہے تو طلاق لے کر آؤ، ورنہ وہیں رہو چاہے نوکر انی بن کر رہو۔ ہمارے لیے تو تم اسی دن مرگئی تھیں جب تم نے پوری برادری کی عورتوں کے سامنے چھوکروں کی طرح اکڑ کر کہہ دیا تھا کہ شادی کروں گی تو پٹواری سے کروں گی ورنہ کنواری مروں گی۔ جاؤ ہم یہی سمجھیں گے کہ ہمارے ہاں کوئی اولاد ہی نہیں تھی۔‘‘
اس کی ماں روتی پیٹتی رہی مگر باپ نے ایک نہ مانی اور جب تاجو آدھی رات کو واپس اس گاؤں میں پہنچ کر پٹواری کے دروازے پر آئی تو اس میں تالا پڑا ہوا تھا۔ رات وہیں دروازے سے لگی بیٹھی رہی۔ صبح لوگوں نے اسے دیکھا تو پنچائت نے فیصلہ کیا کہ تاجو پٹواری کی باقاعدہ منکوحہ ہے اس لیے اس کا پٹواری کے گھر پرحق ہے اور اس لیے تالا توڑ دو۔ گاؤں والوں نے چند روز تک تو پٹواری کا انتظار کیا مگر اس کی جگہ ایک نیا پٹواری آگیا۔ معلوم ہوا کہ اس نے کسی اور گاؤں میں تبادلہ کرا لیا ہے۔ گائوں کے دو آدمی اسے ڈھونڈنے نکلے۔ اور جب وہ مل گیا تو پٹواری نے انھیں بتایا کہ اس نے ان کے گاؤں کا رخ کیا تو اس کی پہلی بیوی کے چھ فٹے بھائی اسے قتل کر دیں گے۔
’’میں نے یہ بات اپنی پہلی بیوی کو بھی نہیں بتائی کہ میں تمہارے گاؤں کے جس مکان میں رہتا تھا وہ میں نے خرید لیا تھا اور وہ میری ملکیت ہے۔ یہ مکان میں اپنی دوسری بیوی تاجو کے نام لکھ دیتا ہوں۔ میں اسے طلاق نہیں دوں گا۔ مجھے اس سے محبت ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ رونے لگا تھا۔
سو گاؤں والوں کی مہربانی سے پٹواری نے اسے طلاق کے بدلے مکان دے دیا اور وہ بھی صبر شکر کر کے بیٹھ گئی کیونکہ اس کے پیٹ میں بچہ تھا۔ یہ بچہ جب پیدا ہوا تو اس کا نام اس نے حسن دین رکھا۔ محنت مزدوری کر کے اسے پالتی پوستی رہی۔ مڈل تک پڑھایا بھی مگر اس کے بعد ہمت نہ رہی۔ تاجو کے حسن کی وجہ سے اس پر ترس تو سب کو آتا تھا مگر پٹواری سے جدا ہونے کے بعد وہ اپنی جوانی پر سانپ بن کر بیٹھ گئی تھی۔ ایک بھلے آدمی نے حسن دین کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا لالچ دے کر تاجو سے عقد کرنے کی خواہش ظاہر کی تو تاجو نے اس کی سات پشتوں کو توم ڈالا اور حسن دین کلھاڑی لے کر اس خدا ترس کے پیچھے پڑ گیا۔
اس کے بعد کسی کو کچھ کہنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ حسن دین چند برس آوارہ پھرتا رہا۔ پھر جب اس کے عشق کرنے کا زمانہ آیا تو وہ فوج میں بھرتی ہو گیا۔ اس کے بعد مائی تاجو کے چند برس اچھے گزرے۔ حسن دین حوالداری تک پہنچا۔ اس کے رشتے کی بھی بات ہوئی۔ مگر پھر دوسری جنگ چھڑ گئی اور حسن دین اُدھر بنِ غازی میں مارا گیا۔ تب مائی تاجو نے چکی پیسنی شروع کی اور اس وقت تک پیستی رہی جب وہ ایک دن چکی کے پاٹ پر سر رکھے بے ہوش پائی گئی۔ اس روز جب وہ ہوش میں آئی تھی تو حکیم کے ہاتھ کو چکی کی ہتھی سمجھ کر گھما دیا تھا۔ اگر اس کے پڑوس میں چودھری فتح دین کی بیٹی راحتاں نہ ہوتی تو وہ اپنی بار بار کی بےہوشیوں میں سے کسی بے ہوشی کے دوران کوچ کر جاتی۔ وہ راحتاں سے کہا کرتی تھی کہ، ’’بیٹی اگر میرا حسن دین ہوتا تو میں تجھے تیری شادی پر سونے کا ست لڑا ہار دیتی۔ اسے خدا نے اپنے پاس بلا لیا۔ سو اب میں ہر وقت تیرے لیے دعا کرتی ہوں کہ تو جُگ جُگ جیے اور شادی کے بعد اسی طرح سکھی رہے جیسی اپنے باپ کے گھر سکھی ہے۔‘‘
ایک رات مائی تاجو کو اس بات کا غصہ تھا کہ جب اندھیری شام تک راحتاں اس کی روزانہ کی روٹی نہ لائی تو وہ خود ہی لاٹھی ٹیکتی فتح دین کے گھر چلی گئی۔ فتح دین کی بیوی سے راحتاں کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ کسی سہیلی کی شادی میں گئی ہے اور آدھی رات تک واپس آئے گی۔ پھر اس نے روٹی مانگی تو راحتاں کی ماں نے صرف اتنا کہا، ’’دیتی ہوں۔ پہلے گھر والے تو کھا لیں۔‘‘
راحتاں کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو فتح دین کے گھر والوں ہی میں شامل سجھتی تھی۔ اس لیے ضبط نہ کر سکی۔ بولی، ’’تو بی بی کیا میں بھکارن ہوں؟‘‘
سونے کی بالیوں سے بھرے ہوئے کانوں والی بی بی کو بھی مائی تاجو کی سی مسکین عورت کے منہ سے یہ بات سن کر تکلیف ہوئی۔ اس نے کہا، ’’نہیں مائی بھکارن تو خیر نہیں ہو مگر محتاج تو ہو نا!‘‘ اور مائی کو کپکپی سی چھوٹ گئی۔ وہ وہاں سے اٹھ کر چلی آئی۔ ایک دو بار راحتاں کی ماں نے اسے پکارا بھی مگر اس کے کانوں میں تو شاں شاں ہو رہی تھی۔ گھر آ کر آنگن میں پڑی ہوئی کھاٹ پر گرپڑی اور روتی رہی۔ اور اپنی موت کو یوں پکارتی رہی جیسے وہ دیوار سے ادھر بیٹھی ہوئی اس کی باتیں سن رہی ہے۔
آدھی رات کو جب چاند زرد پڑ گیا تھا، دیوار سے راحتاں نے اسے پکارا، ’’مائی جاگ رہی ہو؟‘‘
’’میں سوتی کب ہوں بیٹی۔‘‘ اس نے کہا۔
’’اِدھر آ کر روٹی لے لو دیوار پر سے۔‘‘ راحتاں بولی۔
’’نہیں بیٹی!اب نہیں لوں گی۔‘‘ مائی کی آواز بھرانے لگی۔ ’’آدمی زندہ رہنے کے لیے کھاتا ہے نا۔ تو میں کب تک زندہ رہوں گی، جب کہ میں جدھرجاتی ہوں میری قبر میرے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ میں کیوں تمہارا اناج ضائع کروں بیٹی۔‘‘ راحتاں دیوار کے پاس کچھ دیر تک خاموش کھڑی رہی۔ پھر پنجوں کے بل ہو کر بڑی منت سے کہا، ’’لے لو مائی، میری خاطر اِسے لے لو۔‘‘
’’نہیں بیٹی۔‘‘ مائی اب کھل کر رو رہی تھی۔ ’’لے لیتی پر آج تمہاری ماں نے مجھے بتایا کہ میں محتاج ہوں اور چکی پیس پیس کر میرے ہاتھوں میں جو گٹے پڑ گیے ہیں وہ مجھے کچھ اور بتاتے ہیں۔ سو بیٹی! یہ روٹی میں نہیں لوں گی۔ اب کبھی نہیں لوں گی۔ تمھاری لائی ہوئی کل شام والی روٹی میری آخری روٹی تھی۔ یہ روٹی اپنے کتے کے آگے ڈال دو۔‘‘ اس کے بعد اس نے سنا کہ راحتاں اور اس کی ماں کے درمیان کچھ تیز تیز باتیں ہوئیں۔ پھرراحتاں رونے لگی اور ماں اسے ڈانٹنے لگی۔ اس کے بعد فتح دین کی آواز آئی، ’’سونے دو گی یا میں چوپال پر جا کر پڑ رہوں؟‘‘
پھر جب سب خاموش ہو گیے تو مائی تاجو اٹھ بیٹھی۔ اسے لگا کہ راحتاں اپنے بستر پر پڑی آنسو بہا رہی ہے۔ وہ دیوار تک گئی بھی مگر پھر فتح دین کے ڈر سے پلٹ آئی۔ گھڑے میں سے پانی پیا اور دیر تک ایلومینیم کا کٹورا اپنے چہرے پر پھیرتی رہی۔ آج وہ کتنی تپ رہی تھی اور یہ پیالہ کتنا ٹھنڈا تھا۔ اب گرمیاں ختم سمجھو۔ اسے اپنے لحاف کا خیال آیا جس کی روئی لکڑی کی طرح سخت ہو گئی تھی۔ اب کے اسے دھنو اؤں گی۔ پر اللہ کرے اس کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اللہ کرے اب کے لحاف کے بجائے میں اپنا کفن اوڑھوں۔
وہ گھڑے کے پاس سے اٹھ کر چارپائی پر آ گئی۔ کچھ دیر تک پاؤں لٹکائے بیٹھی رہی۔ پھر اسے ایک لمبی سانس سنائی دی۔ یہ راحتاں کی سانس ہو گی۔۔۔ ہائے خدا کرے وہ سدا سکھی رہے۔ ایسی پیاری بچی اس نک چڑھی کے ہاں کیسے پیدا ہو گئی! اسے تو میرے ہاں پیدا ہونا چاہیے تھا۔۔۔ اسے اپنا حسن دین یاد آ گیا اور وہ رونے لگی۔ پھر آنسو پونچھ کر لیٹی تو آسمان پر سے ستارے جیسے نیچے لٹک آئے اور ہوا کے جھونکوں کے ساتھ ہلنے لگے۔ فتح دین کا کتا غرا کر ایک بلی پر جھپٹا اور بلی دیوار پر سے پھاند کر اس کے سامنے سے گولی کی طرح نکل گئی۔ کسی گھر میں مرغے نے بانگ دی اور پھر بانگوں کا مقابلہ شروع ہو گیا۔
یکایک سب مرغے ایک دم یوں خاموش ہو گیےجیسے ان کے گلے ایک ساتھ گھونٹ دیے گیے ہیں۔ پورے گاؤں کے کتے بھونکنے لگے۔ پھر مشرق کی طرف سے ایسی آوازیں آئیں جیسے قریب قریب ہر رات آتی تھیں۔ بارڈر پر رینجرز سمگلروں کے تعاقب میں ہوں گے۔ پھر اس پر غنودگی سی چھانے لگی اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ پھر ایک دم کھول دیں۔
بڑی آئی وہاں سے مجھے محتاج کہنے والی۔ چکی پیستے پیستے ہاتھوں کی جلد ہڈی بن گئی ہے، اور مجھے محتاج کہتی ہے! قیامت کے دن شور مچاؤں گی کہ اسے پکڑو، اس نے مجھ پر بہتان باندھا ہے۔۔۔ مگر وہاں کہیں یہ میری راحتاں بیچ میں نہ بول پڑے۔ اٹھ کر اس نے پانی پیا اورواپس جا کر چارپائی پر پڑ رہی۔ پھر جب پوپھٹی تو اس کا حلق اس کے جوتے کے چمڑے کی طرح خشک ہو رہا تھا۔ وہ پھر پانی پینے کے لیے اٹھی مگر دوسرے ہی قدم پر چکرا کر گر پڑی۔ سر کھاٹ کے پائے سے ٹکرایا اور بے ہوش ہو گئی۔
جب مائی تاجو ہو ش میں آئی تو اسے پہلا احساس یہ ہوا کہ نماز قضا ہو گئی ہے۔ پھر ایک دم وہ ہڑ بڑا کر اٹھی اور دیوار کی طرف بھاگی۔ ہر طرف گولیاں چل رہی تھیں اور عورتیں چیخ رہی تھیں اور بچے بلبلا رہے تھے اور دھوپ میں جیسے سوراخ ہوگیے تھے جن میں سے دھواں داخل ہو رہا تھا۔ دور سے گڑگڑاہٹ اور دھماکوں کی مسلسل آوازیں آرہی تھیں اور گلی میں سے لوگ بھاگتے ہوئے گزر رہے تھے۔
’’راحتاں۔۔۔ اے بیٹی راحتاں!‘‘ وہ پکاری۔
راحتاں اندر کوٹھے سے نکلی۔ اس کا سنہرا رنگ مٹی ہو رہا تھا اور اس کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ اس کی آواز میں چیخیں اور آنسو اور کپکپی اور نہ جانے کیا کچھ تھا ’’جلدی سے نکل جاؤ مائی! گاؤں میں سے نکل جاؤ۔ لاہور کی طرف بھاگو۔ ہم بھی لاہور جا رہے ہیں، تم بھی لاہور چلو۔ ہندوستان کی فوج آگئی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر اندر بھاگ گئی۔ ہندوستان کی فوج آگئی ہے! یہاں ہمارے گاؤں میں کیوں آگئی ہے۔ بارڈر تو تین میل ادھر ہے۔
’’یہ فوج یہاں کیوں آئی ہے بیٹی؟‘‘ مائی حیران ہو کر پکاری، ’’کہیں غلطی سے تو نہیں آگئ۔ بھائی فتح دین کہاں ہے؟ اسے بھیجونا، وہ انھیں سمجھائے کہ یہ پاکستان ہے۔‘‘
مگر راحتاں کا کوئی جواب نہ آیا۔ شور بڑھ رہا تھا۔ مشرق کی طرف کوئی گھر جلنے بھی لگا تھا۔ چند گولیاں اس کے کوٹھے کے دروازے کے اوپر والے حصے میں تڑاخ تڑاخ سے لگیں اور مٹی کی لپائی کے بڑے بڑے ٹکڑے زمین پر آرہے۔ چند گولیاں ہوا کو چیر دینے والی سیٹیاں بجاتی چھت پر سے گزر گئیں۔ فتح دین کے صحن کی ٹاہلی پر سے پاگلوں کی طرح اڑتا ہوا ایک کوا اچانک ہوا میں لڑھکنیاں کھاتا ہوا آیا اور مائی تاجو کے گھڑے کے پاس پتھر کی طرح گر پڑا۔
پھر زور کا ایک دھماکا ہوا اور مائی تا جو دیوار سے ہٹ آئی تھی، پھر دیوار کی طرف بڑھی۔ ایک دم چودھری فتح دین کے دروازے کو کسی نے کوٹ ڈالا۔ پھر کواڑ دھڑام سے گرے۔ اکٹھی بہت سی گولیاں چلیں اور اکٹھی بہت سی چیخیں بلند ہوئیں۔ مائی نے ان میں سے راحتاں کی چیخ کو صاف پہچان لیا۔ ’’راحتاں بیٹی!‘‘ وہ چلائی۔ لاٹھی ٹیکتی ہوئی لپکی اور اپنے دروازے کی کنڈی کھول کر باہر گلی میں آگئی۔ گلی میں شہاب دین، نور دین، محمد بشیر، حیدر خاں اور جانے کس کس کی لاشیں پڑی تھیں۔ چودھری فتح دین کے گرے ہوئے دروازے کے پاس مولوی عبدالمجید مردہ پڑے تھے۔ ان کا آدھا چہرہ اڑ گیا تھا۔ مائی نے مولوی صاحب کو ان کی نورانی داڑھی سے پہچانا۔
چودھری فتح دین کے صحن میں خود فتح دین اور اس کے بیٹے مرے پڑے تھے۔ فتح دین کی بیوی کے بالیوں بھرے کان غائب تھے۔ اندر کوٹھوں میں اٹھا پٹخ مچی ہوئی تھی اور باہر راحتاں خوف سے فوجیوں میں گھری اپنی عمر سے چودہ پندرہ سال چھوٹے بچوں کی طرح چیخ رہی تھی۔ پھر ایک سپاہی نے اس کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر جھٹکا دیا تو کُرتا پھٹ گیا اور وہ ننگی ہو گئی۔ فوراً ہی وہ گٹھری سی بن کر بیٹھ گئی۔ مگر پھر ایک سپاہی نے اس کے کُرتے کا باقی حصہ بھی نوچ لیا اور قہقہے لگاتا ہوا اس سے اپنے جوتے پونچھنے لگا۔ پھر مائی تاجو آئی، راحتاں پر گر پڑی اور ایک عجیب سی آواز میں، جو اس کی اپنی نہ تھی، بولی ’’اللہ تیرا پردہ رکھے بیٹی، اللہ تیری حیا قائم رکھے۔‘‘
ایک سپاہی نے مائی کا سفید چونڈا پکڑ کر اسے راحتاں پر سے کھینچنا چاہا تو خون سے اس کا ہاتھ بھیگ گیا اور مائی، وہیں راحتاں کو ڈھانپے ہوئے بولی، ’’یہ لڑکی تم میں سے کسی کی بہن بیٹی ہوتی تو کیا تم جب بھی اس کے ساتھ یہی کرتے؟ یہ لڑکی تو۔۔۔‘‘
کسی نے یہ کہہ کر مائی تاجو کی پسلیوں میں زور کی ٹھوکر مار دی کہ ’’ہٹو یہاں سے، ہمیں دیر ہو رہی ہے اور ابھی دوپہر تک ہمیں لاہور پہنچنا ہے۔‘‘ اور مائی یوں ایک طرف لڑھک گئی جیسے چیتھڑوں سے بنی ہوئی گڑیا تھی۔ پھر سب کے ہاتھ راحتاں کی طرف بڑھے جو اب چیخ نہیں رہی تھی۔ اب وہ ننگی کھڑی تھی اور یوں کھڑی تھی جیسے کپڑے پہنے کھڑی ہے۔ اس کا رنگ مائی تاجو کے کفن کے لٹھے کا سا ہورہا تھا اور اس کی آنکھیں اتنی پھیل گئی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا ان میں پتلیاں کبھی تھیں ہی نہیں۔
مائی تاجو ہوش میں آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کے پاس وارث علی موذن کھڑا ہے۔ پھر اس نے ادھر اُدھر دیکھا، لاشوں کے چہرے ڈھنپے ہوئے تھے۔ ’’راحتاں کہاں ہے؟‘‘ وہ یوں چیخ کر بولی جیسے اس کے جسم کی دھجیاں اڑ گئی ہیں۔ وارث علی سرجھکائے ایک طرف جانے لگا، ’’میری راحتاں کہاں ہے؟‘‘ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور وارث علی کی طرف یوں قدم اٹھایا جیسے اسے قتل کرنے چلی ہے۔ ’’کہاں ہے وہ؟‘‘ وارث علی کے پاس آ کر وہ جیسے سن ہو کر رہ گئی۔ وارث علی کا چہرہ لہولہان ہو رہا تھا اور اس کے بازو پر سے گوشت ایک طرف کٹ کر لٹک رہا تھا۔ وہ بولا تو مائی تاجو نے دیکھا کہ اس کے ہونٹ بھی کٹے ہوئے ہیں اور اس کے منہ میں بھی خون ہے۔
’’کسی کو کچھ پتا نہیں مائی کہ کون کہاں گیا۔ بس اب تُو یہاں سے چلی جا۔ ہندوستانی فوج یہاں سے آگے نکل گئی ہے اور گاؤں کے گرد ان کے آدمی گھیرا ڈالے بیٹھے ہیں۔ تو کماد کے کھیتوں میں چھپتی چھپاتی لاہور کی طرف جا سکتی ہے تو چلی جا۔ وہاں مرے گی تو کوئی تیرا جنازہ توپڑھے گا۔ اب جا مجھے کام کرنے دے۔
’’دیکھ بیٹا!‘‘ مائی بولی ’’میں پانی لاتی ہوں، تو ذرا کُلی کر لے۔ تو موذن ہے اور منہ میں اتنا بہت سا خون لیے کھڑا ہے! خون تو حرام ہوتا ہے بیٹا۔‘‘
’’میں سب کر لوں گا۔‘‘ وارث علی چلایا مگر پھر ادھر اُدھر دیکھ کر آہستہ سے بولا، ’’خدا کے لیے مائی، اب چلی جا یہاں سے۔ میں نے اتنے بہت سے لوگ مرتے دیکھے ہیں کہ اب تو مرے گی تو میں سمجھوں گا پوری دنیا مر گئی۔ چلی جا خدا کے لیے۔‘‘
’’پہلے بتا میری راحتاں بیٹی کدھر گئی؟‘‘ مائی نے ضد کی۔
وارث علی نے پوچھا، ’’تجھے یاد ہے نا اسے ننگا کر دیا گیا تھا؟‘‘
’’ہاں!‘‘ ماں نے سر ہلایا۔ اور اس کی ایک خون آلود لٹ رسی کی طرح اس کے منہ پر لٹک آئی۔
’’تو پھر تو یہ کیوں پوچھتی ہے کہ وہ کدھر گئی۔‘‘
اور مائی نے اپنے سینے پر اس زور کا دوہتڑ مارا جیسے چودھری فتح دین کی حویلی کا دروازہ ٹوٹا ہے۔ وہ دھپ سے بیٹھ کر اونچی آواز میں رونے لگی۔ وارث علی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’کسی نے سن لیا تو آجائے گا۔‘‘ وہ بولا۔ پھر اسے بڑی مشکل سے کھینچ کر اٹھایا۔ ’’تُو میری حالت دیکھ رہی ہے مائی۔ میں صرف اپنے خدا کی قدرت اور اپنے ایمان کی طاقت سے زندہ ہوں ورنہ میرے اندر کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ میں گلیوں میں سے لاشیں گھسیٹ گھسیٹ کر ایک گڑھے میں جمع کر رہا ہوں۔ ابھی مجھے فتح دین اور لال دین اور نور الدین اور ماسی جنت کی لاشیں وہاں پہنچانی ہیں۔ پھر میں ان پر مٹی ڈال کر ان کا جنازہ پڑھوں گا اور مر جاؤں گا۔ مائی بے جنازہ نہ مر۔ لاہور چلی جا۔۔۔ ہندوستانی فوج ادھر سے آگئی ہے۔ تو ادھر کھیتوں میں چھپتی چھپاتی نکل جا میرے پاس بہت تھوڑا وقت ہے۔ دیکھ لو میرے تو جوتے بھی خون سے بھر گئے ہیں۔‘‘
ٹوٹے ہوئے دروازے پر سے گزرتے ہوئے وہ رک گئی۔ ’’وارث بیٹا!‘‘ وہ بولی، ’’لاہور تو چلا جا جنازہ میں پڑھ دوں گی۔ میں بچ گئی تو یونہی کسی کو روز ایک روٹی حرام کرنی پڑے گی۔ تُو مر گیا تو تیرے ساتھ اذان بھی مر جائے گی۔‘‘
’’نہیں مائی۔‘‘ وارث علی جلدی سے بولا، ’’اذان بھی کبھی مری ہے۔ خدا کے لیے اب تو چلی جا۔‘‘
گلی میں قدم رکھتے ہوئے اس نے پلٹ کر پوچھا، ’’تیرا کیا خیال ہے بیٹا! راحتاں کو انھوں نے مار تو نہیں ڈالا ہو گا؟‘‘ وارث علی نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا دی اور چودھری فتح دین کی لاش پر جھک گیا۔
مائی تاجو گلی میں سے گزر رہی تھی۔ اس نے ایک ہاتھ میں لاٹھی تھام رکھی تھی۔ دوسرا ہاتھ پیٹھ پر تھا اوہ وہ یوں جھکی ہوئی چل رہی تھیں جیسے بھوسے کے ڈھیر میں سے سوئی ڈھونڈنے نکلی ہے۔ مائی تاجو گاؤں کی آخری گلی میں سے نکل کر کھیت میں قدم رکھنے لگی تھی کہ جیسے ہر طرف سے گولیاں چلنے لگیں اور وہ ایک کھالے میں لڑھک کر لیٹ گئی۔ ہائے کہیں وہ وارث علی کو نہ مار رہے ہوں! مگر کیا ایک آدمی کو مارنے کے لیے اتنی بہت سی گولیوں کی ضرورت ہوتی ہے!
کھالے میں سے اس نے کھیت کے کئی گنے گولیوں کی زد میں آکرٹوٹتے ہوئے دیکھے۔ اس نے یہ تک دیکھا کہ جہاں سے گنا ٹوٹتا ہے وہاں سے رس کی ایک دھار نکل کر جڑ کی طرف بہنے لگتی ہے۔۔۔ اور اسے راحتاں یاد آگئی اور وہ کھالے میں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ایک گولا اس کے سر کے پاس سے گزر کر پیچھے ایک درخت کے تنے میں جا لگا اورپورا درخت جیسے جھرجھری لے کر رہ گیا۔ وہ پھر کھالے میں لیٹ گئی اوراسے ایسا لگا کہ وہ مر گئی ہے اور قبر میں پڑی ہے۔
تب اسے اپنا کفن یاد آیا اور وہ اتنی تیزی سے سے کھالے میں سے نکل کر گلی میں داخل ہوئی جیسے اس کے اندر کوئی مشین چلنے لگی ہے۔ اسے پہلی بار یاد آیا کہ وہ تو خالی ہاتھ لاہور جارہی تھی۔ وہ تو اپنی کمائی گھر ہی میں بھول آئی تھی۔ اس کا کفن تو وہیں بکسے میں رکھا رہ گیا تھا۔ زندگی سے اتنی محبت بھی کیا کہ انسان اسےبچانے کے لیے بھاگے تو اپنا کفن ہی بھول جائے اور یہ کفن اس نے کتنی مشقت سے تیار کیا تھا۔ اور اس پر کتنے چاؤ سے کلمہ شہادت لکھوایا تھا۔ خاکِ پاک سے۔ اچھے کفن اور اچھے جنازے ہی کے لیے تو وہ اب تک زندہ تھی۔
اب وہ اتنی تیزی سے چل رہی تھی کہ جوانی میں بھی یوں نہیں چلی ہو گی۔ اس کے قدم کا خم بھی ایک دم ٹھیک ہو گیا تھا اور لاٹھی کو ٹیکنے کی بجائے اسے تلوار کی طرح اٹھا رکھاتھا۔ راحتاں کے گھر کے سامنے سے بھی وہ آگے نکلی چلی گئی، مگر پھر جیسے اس کے قدم جکڑے گیے۔ پلٹی، ٹوٹے ہوئے دروازے میں سے جھانکا۔ وارث علی سب لاشیں سمیٹ لے گیا تھا۔ صرف راحتاں کے کرتے کی ایک دھجی ہوا کے جھونکوں کے ساتھ پورے صحن میں یہاں سے وہاں ایک بے چین روح کی طرح بھٹکتی پھرتی تھی۔
مائی تاجو کاجی چاہا کہ دوہتڑ مار کا اپنا سینہ ادھیڑ دے مگر ساتھ ہی اسے وارث علی یاد آ گیا جس نے کہا تھا۔۔۔ فوراً اسے اپنا کفن یاد آیا۔ اس کے کوٹھے کا دروازہ کھلا تھا۔ گھڑے کے پاس کوا اسی طرح پڑا تھا۔ اس کا کھٹولا اسی طرح بچھا تھا۔ اندر اس کا بکسا کھلا پڑا تھا مگر اس میں کفن موجود تھا۔ کیسی منہ کی کھائی ہو گی انھوں نے جب بکسا کھولا ہو گا اور اس میں سے صرف کفن نکلا ہو گا۔ مائی کفن کو سر کی چادر میں چھپا کر باہر آئی تو چوہدری فتح دین کا کتا بھاگتا ہوا آیا اوراس کے قدموں میں لوٹنے لگا۔ اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھاکہ وہ ہنس نہیں سکتا ورنہ خوب خوب ہنستا۔
’’چل ہٹ۔‘‘ مائی نے اسے ڈانٹا، ’’میرے نمازی کپڑے پلید نہ کر۔‘‘
کتا اٹھ کھڑا ہوا۔ مائی نے دوسری گلی میں مڑتے ہوئے پلٹ کردیکھا تو کتا وہیں کھڑا تھا اور اس طرح کھڑا تھا جیسے لکڑی کا بن کر رہ گیا ہے۔ ’’پچ پچ‘‘ مائی نے کتے کو اپنی طرف بلانا چاہامگر وہ پلٹا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا ایک دیوار کے سائے میں ایک دم یوں بیٹھ گیا جیسے گر پڑا ہے۔ ’’ہائے بے چارہ۔‘‘ مائی کا احساس جرم پکارا۔ مگر پھراوپر فضا میں اس زور کے دو دھماکے ہوئے کہ مائی تاجو کو زمین اپنے قدموں تلے ٹکڑے ٹکڑے ہوتی محسوس ہوئی۔ تیزی سے چلتی ہوئی وہ پھر سے کھالے میں جاگری۔ اب زمین ہل رہی تھی۔ فضا میں جیسے بہت سے شیر ایک ساتھ دہاڑے جارہے تھے اور دھماکوں اور گولیوں اور گڑگڑاہٹوں کا شور قریب آتا جارہا تھا۔
اب وہ کفن کو اپنے سینے سے چمٹائے کھالے میں رینگنے لگی۔ برسوں پہلے چراغوں کا میلہ دیکھنے کے لیے وہ گاؤں کی دوسری عورتوں کے ساتھ اسی کھالے کے کنارے کنارے چلتی ہوئی لاہور چھاؤنی میں جانکلی تھی۔ اور وہاں کیسا غضب ہوا تھا۔ بے چاری شہابی ایک ٹانگے کے پہیے تلے آ کر وہیں شالا مار کے دروازے پر ہی مر گئی تھی۔۔۔ تو کیا راحتاں مر گئی ہو گی؟ کیا راحتاں مرنے کے لائق تھی؟ لا بیٹی! میں تیرے ہاتھ کی روٹی واپس نہیں کروں گی۔ روٹھ مت مجھ سے راحتاں اے راحتاں بیٹی۔
اس نے سنا کہ وہ اونچی اونچی بول رہی ہے مگر اتنے شور میں اس کی آواز کون سنے گا، ’’راحتاں! اے میری اچھی، میری نیک، میری خوبصورت راحتاں!‘‘ ہائے یہ کپاس بھی عجیب پودا ہے۔ اس کے پھول کا رنگ کیسا الگ ہوتا ہے دوسرے پھولوں سے۔۔۔ راحتاں! اے راحتاں بیٹی۔‘‘
کھالے سے کپاس کے کھیت میں اور وہاں سے وہ گنے کے کھیت میں گھس گئی۔ دھماکے اتنے تیز ہو رہے تھے جیسے اس کے اندر ہو رہے ہیں۔ کہتے ہیں گولا لگے تو انسان گولے کی طرح پھٹ جاتا ہے۔ کون چُنتا پھرے گا میری ہڈیاں اور پھر میرا کفن جس پر خاکِ پاک سے کلمہ شہادت لکھا ہے۔ کتنا گھنا ہے گنے کا یہ کھیت! یہ چودھری فتح دین کا کھیت ہے۔ راحتاں اسی کھیت کے گنے چوس چوس کر کہتی تھی کہ مائی مجھے بڑھاپے سے صرف اس لیے ڈر لگتا ہے کہ منہ پوپلا ہو جاتا ہے اور گنا نہیں چوسا جا سکتا۔ مائی تاجو مسکرائی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگیے’’راحتاں بیٹی۔۔۔ اے میری راحتاں بیٹی!‘‘
’’مائی!‘‘ آواز جیسے پاتال سے آئی تھی۔
انسان بھی عجیب مخلوق ہے۔ چاہے زمین اور آسمان بج رہے ہوں مگر اس کے کان بجنے سے باز نہیں آتے۔
’’مائی!‘‘
ہائے یہ آواز تو جیسے میری پسلی سے آئی ہے۔
وہ کفن کو سینے سے چمٹا کر دبک گئی۔ اس کی انگلیوں نے محسوس کیا کہ اس کا دل اس کے سینے سے نکل کر کفن میں آگیا اور یوں دھڑک رہا ہے جیسے توپیں چل رہی ہیں۔
مائی ہڑبڑائی اور اوپر دیکھا۔ پھر وہ دیکھتی رہ گئی۔ کفن اس کی گرفت سے نکل کر گر گیا اور وہ دیکھتی چلی گئی۔
’’مائی!‘‘ راحتاں کہہ رہی تھی،تم تو میری طرف بس دیکھے ہی جا رہی ہو۔ دیکھتی نہیں ہو میں ننگی ہوں، مجھے کچھ دو۔‘‘
مائی نے زور زور سے ہنستے ہوئےاور زور زور سے روتے ہوئےراحتاں کو یوں اپنی گود میں کھینچ لیا جیسے ننھے سے حسن دین کو دودھ پلانے چلی ہے۔ اب دھماکے جیسے کھیتوں کی چاروں مینڈوں پر ہو رہے تھے، مگر مائی ان سے بے نیاز راحتاں کا ماتھا چومے جا رہی تھی۔ ’’ہائے مجھے یہ اپنا کفن کیسا فالتو سا لگنے لگا ہے۔‘‘
’’کفن۔‘‘ راحتاں تڑپ کر مائی کی گود سے نکلی۔ کفن اٹھا کر اسے جلدی سے کھولا اور اپنے جسم پر لپیٹ کر یوں مسکرائی جیسے وہ دیوار پر سے مائی کو روٹی تھمانے آئی ہے۔ اور مائی نے دیکھا کہ راحتاں اس کے کفن میں بڑی خوبصورت لگ رہی ہے۔
’’ہائے میری بیٹی! اللہ تیرا پردہ رکھے۔ اللہ تیری حیا قائم رکھے میری بیٹی۔‘‘
پھر راحتاں نے مائی کو بتایا کہ جب وہ اسے لے جا رہے تھےتو اوپر سے پاکستان کے ہوائی جہاز آئے اور وہ لوگ ادھر ادھر کھالوں میں جا دبکے۔ اور میں بھاگ آئی۔ مجھے پتہ تھا کہ میرے وطن کے جہاز مجھے پہچانتے ہیں۔ مجھے کچھ نہیں کہیں گے۔ تب میں گاؤں پار کرکے یہاں آ گئی اور جب سے یہیں بیٹھی ہوں۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ مری مائی مجھے پکار رہی ہے، ’’راحتاں۔۔۔ اے راحتاں بیٹی!‘‘
کفن پر جگہ جگہ خون کے دھبے نمایاں ہونے لگے تھے۔ نوچی کھسوٹی ہوئی راحتاں کا جسم اپنا کرب کفن کو منتقل کر رہا تھا اور خاک پاک نے اس خون کے لیے جگہ خالی کر دی تھی۔ اور لاہور کے کہیں آس پاس مائی نے کہا، ’’راحتاں بیٹی! تو کتنی سچی ہے! تو نے میرا شاندار جنازہ نکلنے کا وعدہ کیا تھا، تو ے یہ وعدہ سچ مچ پورا کیا۔ تو میرے کفن میں کتنی پیاری لگ رہی ہے۔ میری اچھی، میری نیک، میری خوبصورت راحتاں۔‘‘
احمد ندیم قاسمی