بھارتی بے بسی کے نام – اقبالؒ کا پیغام!
عابد ضمیر ہاشمی کا اردو کالم
بھارتی بے بسی کے نام‘ اقبالؒ کا پیغام!
مودی سرکار کی کشمیر ی قیادت سے ملاقات‘ بھارت کی اپنی جماعتوں کا وادیِ کشمیر کی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ‘مودی سرکار اپنی روایتی ہٹ دھرمی ‘ بے حسی کے ہاتھوں مجبور‘ کشمیر کی حیثیت بحالی سے انکار‘ الیکشن کروانے پر آمادگی‘ مودی کے کل جماعتی اجلاس کا ڈرامہ فلاپ ہو چکا‘دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی کشمیری رہنماؤں سے ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے عالمی میڈیا کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پاکستان سے بات چیت کے لئے بھارت پر دباؤ ہے۔طاقت کے زور پر کشمیریوں کی آواز کو دبانے کی کوشش ناکام ہو چکی‘ یہ بات مودی سرکار پر عیاں ہو چکی ہے کہ کشمیریوں کی آواز کو دبانا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہو چکا۔یہ آج کا نہیں بلکہ ایک قدیم مسئلہ ہے۔ جموں و کشمیر کی آزادی کی تحریک در اصل انیس سو اکتیس ہی میں شروع ہو چکی تھی لیکن تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ اقبال ؒکشمیر کے سیاسی جغرافیے کی بساط اُلٹ جانے کی پیش گوئی بہت پہلے کر چکے تھے۔مودی سرکار جو نشے‘ اقتدار میں بدمست ہو چکی‘ اور اپنے زورِبازو سے کشمیریوں کی رائے کو دبانے کی ناکام کوشش میں مگن ہے‘ ان کے لیے علامہ اقبالؒ نے بہت پہلے آگاہ کر دِیا تھا‘علامہ اقبال نے یوم ِکشمیر پر اپنی تقریر میں فرمایا:
تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ تلوار سے کسی ملک کو فتح کرتے ہیں ان کی حکومت بھی رعایا کی خوشنودی کے بغیر نہیں چل سکتی۔ بادشاہی خریدنے سے نہیں چل سکتی۔ اس لیے ہر ملک کے حکام کے لیے ضروری ہے کہ رعایا کی رضا جوئی حاصل کریں۔اُنھوں نے 21مارچ1932 کو لاہور میں ہونے والے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں خطاب کے دوران مسئلہ کشمیر کو ان الفاظ میں اجاگر کیا ”کشمیر اس وقت قیامت کا منظر پیش کر رہا ہے‘ کشمیری عوام حق پر ہیں‘ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تحریک ناصرف کشمیر بلکہ پورے ہندوستان کے لیے قوت کا باعث بنے گی۔ ان کے احتجاج کو فرقہ ورانہ رنگ دینا لغو ہے‘ تشدد میں تسلسل‘ ریاست میں لاقانونیت کو جنم دے گا۔“
کشمیر‘ہندوسان سے الگ ایک خطہ وجدا ریاست ہے اور اسکی اپنی تمدنی و تہذیبی اور ثقافتی شناخت ہے جوہندوستانی سماج میں سما ہی نہیں سکتی۔علامہ اقبالؒ نے کشمیر کی اس جداگانہ شناخت کو بحال رکھنے اور منوانے کے لیے‘ بذات خود پنجاب کے شہر لاہور میں تب کے کشمیریوں کی قائم کردہ ”انجمن کشمیری مسلمانان“ کے ابتدائی دنوں ہی میں اس میں شمولیت کی اور جلد ہی اُن کو انجمن کشمیری مسلمانان کا سیکریٹری جنرل بنادیا گیا۔ اپنے اس منصب کے حوالے سے اور جنت ارضی‘ جموں و کشمیر سے قلبی محبت کے ناطے‘ اقبالؒ نے کشمیر کے اندر اور پنجاب کے ساتھ ساتھ ہندوستان بھر میں کشمیریوں کی حالت زار بہتر بنانے اور انہیں آزاد شہریوں کے حقوق دلوانے کے لیے جدوجہد تیز کردی۔ اقبالؒ کا مطالبہ تھا کہ زبر دستی بے وطن اور بے گھر کر دیئے گئے کشمیریوں کوریاست میں اپنے گھروں کو واپس جانے‘ وہاں آباد ہونے اور اپنی املاک کے خود مالک ہونے کا حق دیا جائے۔ اقبالؒ کی‘ انجمن کشمیری مسلمانان میں شمولیت کے باعث کشمیریوں میں اپنی خود شناسی کے جذبے نے لہر لی اور بذات خود ان میں حب الوطنی کا احساس جاگا۔ اقبال ؒکشمیر کو، طور و سینا سے بھی مقدس اور قابل احترام و شرف سمجھتے ہوئے کہتے ہیں سامنے ایسے‘ گلستان کے کبھی گھر نکلے حبیب خجلت سے سرِ طور نہ باہر نکلے ہے جو ہر لحظہ تجلّی گہ مولائے خلیل عرش و کشمیر کے اعداد برابر نکلے اقبالؒ ہی کی تحریک پر‘ انجمن کشمیری مسلمانان‘نے جموں و کشمیر کے مہاراجہ پرتاپ سنگھ کو لاہور بلایا اور اُن سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیریوں پر اپنے فوجیوں کے ظلم و ستم رکوائیں اور کشمیریوں کو اپنی مذہبی و سماجی اور تمدنی و ثقافتی اقدارو رسومات پورا کرنے کی آزادی کی راہ میں روڑے نہ اٹکائیں۔
مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے اس موقع پر اقبالؒ کو یاد دلایا کہ کشمیر اقبالؒ کا آبائی وطن ہے اور کہا کہ انہیں کشمیر کا دورہ کرنا چاہیے۔ اقبال نے برجستہ مہاراجہ کو جواب دیا ” ہم نے کشمیر کو فراموش ہی کب کیا ہے جو آپ ہمیں یاد دلاتے ہیں‘ ہم اس وقت آپ کے سامنے سرتاپا‘ کشمیرہی کشمیر ہیں ”۔ اقبالؒ بعد میں کشمیر گئے لیکن دعوت کے باوجود وہ مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے مہمان نہیں تھے۔ یہ دورہ انہوں نے 1921ء میں کیا تھا۔ اور اپنے سرکاری کام کاج سے فارغ ہو کراقبال ؒکشمیر میں کچھ عرصے کے لیے ٹھہرے اور مختلف شہروں‘ قصبوں اور دیہاتوں میں بھی‘وہاں کے قدرتی حسن کا ہی نہیں روزمرہ کی زندگی اور مسلمانان کشمیر کے شب و روز کی مصیبتوں کا خود جائزہ لیا۔
اس کے بعد تو پھر اقبالؒ اور کشمیر کبھی آپس میں جدا ہی نہیں ہوئے۔ اقبالؒ کہتے ہیں تنم گلے زخیابانِ جنت ِکشمیردلم ز خاکِ حجاز و نواز شیراز استی عنی کہ: میرا بدن، گلستان کشمیر کا ایک پھول ہے اور میرا دل ارض حجاز سے اورمیری صدا شیراز سے ہے۔ اور لاہور میں انہوں نیانجمن کشمیری مسلمانان کے ایک سالانہ اجلاس میں اپنے اس خواب کو یوں بیان کیا تھا ”ہم کشمیر میں سیاست کی میز اُلٹ جانے کو دیکھ رہے ہیں‘ میں دیکھ رہا ہوں کہ کشمیری جو روایتی طور پر محکوم اور مظلوم ہیں اور جن کے بت معبود تھے ان کے دلوں میں اب ایمان کے شرارے پھوٹ رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر آج کی کہانی نہیں‘نہ ہی دو ممالک کا ذاتی مسئلہ یا زمین کا تنازعہ ہر گز نہیں ہے۔کشمیر کے حوالہ سے قائد اعظمؒ اور علامہ اقبال ؒنے کس درد کا اظہار کیا وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔کشمیر سے اپنے تعلق پر اقبال ہمیشہ فخر کرتے اور کشمیرسے جدائی کا احساس رکھتے تھے‘ وہ خود کہتے ہیں کشمیر کا چمن جو مجھے دلپذیر ہ ہے اس باغِ جان فزا کا یہ بلبل آسیر ہیورثے میں ہم کو آئی ہے آدم کی جائیدادجو ہے وطن ہمارا وہ جنت نظیر ہے موتی عدن سے لعل ہوا ہے یمن سے دوریانافہ غزال ہوا ہے ختن سے دورہندوستان میں آئے ہیں کشمیر چھوڑ کربلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دوراقبال یہاں ” ہندوستان میں آئے ہیں ” کہہ کر جب کشمیر سے ہجرت کا ذکر کرتے ہیں تو وہ دراصل وادی کشمیر کی‘ ہندوستان کے جغرافیے‘ سیاست اور ماحول و سماج سے ایک الگ منفرد حیثیت کو ابھارتے اور نمایاں کرتے ہیں۔
1933 میں جب کشمیری حکومت کے فیصلے کے نتیجے میں مسلم سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی تو علامہ اقبال نے اپنے7 جون1933کے بیان میں احتجاج کے دوران عورتوں اور بچوں پر لاٹھی چارج اور گولی چلانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ اس بیان میں انھوں نے برطانوی حکومت کو خبردار کیا کہ عوام پرعزم ہیں اور وہ آپ کے جھوٹے دعوں میں نہیں آئیں گے۔ انھوں نے کشمیری مسلمانوں کو متحد رہنے کی اپیل کی۔
کشمیر میں عرصے سے جو مظالم برپا ہیں ان کی موجودگی میں ضروری تھا کہ وہاں کے عوام بھی اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کرتی۔وہ وادیِ کشمیر جو جنت نظیر وادی ہے علامہ اقبال ؒ کے وقت سے بھی پہلے کے بھارتی ظلم کی داستانیں رقم ہیں‘ لیکن مودی سرکار نے ظلم کے سارے ریکارڈ ہی توڑتے ہوئے‘وادی کشمیر کو دُنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کردِیا‘انسانیت سوز پالیسوں‘ تشدد‘ غیر انسانی سلوک کے بدترین تاریخ رقم کرنے کے بعد تاریخ کا طویل ترین لاک ڈاؤن‘ جبری پابندیوں میں انسانیت کو شرما دینے والے واقعات نے عالمی ضمیر کی بے حسی کو بار ہا مرتبہ جاگنے کی کوشش کی لیکن تاحال یہ خاموشی نہ ٹوٹ سکی‘ نہ ہی بھارتی ظلم‘ انسانیت سوز پالیسوں کا نوٹس لیا گیا۔کورونا وائرس نے جہاں دُنیا پر عیاں کر دیا ہے کہ لاک ڈاؤن‘ گھروں میں محصور ہونا کس قدر اذیت ناک ہے۔ بایں ہمہ دُنیا مقبوضہ کشمیر کے جبری لاک ڈاؤن جو کہ اگست سے تاحال جاری ہے‘ سے بے خبر ہے۔ اوربھارت عالمی اَمن کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔مودی سرکار اگر آج بھی بادشاہی کرنا چاہتی ہے توفلسفہ اقبالؒ اپنانتے ہوئے رعایا کی رائے کو مقدم رکھنا ہو گا۔
عابد ہاشمی