- Advertisement -

ابابیل

ایک اردو افسانہ از خواجہ احمد عباس

ابابیل

اس کا نام تو رحیم خان تھا مگر اس جیسا ظالم بھی شاید ہی کوئی ہو۔ گاؤں بھر اس کے نام سے کانپتا تھا۔ نہ آدمی پر ترس کھائے نہ جانور پر۔ ایک دن راہو کہار کے بچے نے اس کے بیل کی دم میں کانٹے باندھ دیے تو مارتے مارتے اس کو ادھ مُوا کر دیا۔ اگلے دن ذیلدار کی گھوڑی اس کے کھیت میں گھس آئی۔ لاٹھی لے کر اتنا مارا کہ لہولہان کر دیا۔ لوگ کہتے تھے کہ کم بخت کو خدا کا خوف بھی تو نہیں ہے، معصوم بچوں اور بے زبان جانوروں تک کو معاف نہیں کرتا۔ یہ ضرور جہنم میں جلے گا۔ مگر یہ سب اس کی پیٹھ کے پیچھے کہا جاتا، سامنے زبان ہلانے کی ہمت کوئی نہیں کرتا تھا۔

ایک دن بندو کی جو شامت آئی تو کہہ دیا ’’اے بھئی رحیم خان! تو کیوں بچوں کو مارتا ہے؟‘‘

رحیم نے بس اس غریب کی وہ درگت بنائی کہ اس دن سے لوگوں نے اس سے بات کرنی بھی چھوڑ دی کہ معلوم نہیں، کس بات پر بگڑ پڑے۔ بعض کا خیال تھا کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے، اسے پاگل خانے بھیجنا چاہیے۔ کوئی کہتا تھا، اب کے کسی کو مارے تو تھانے میں رپٹ لکھوا دو۔ مگر کس کی مجال تھی کہ اس کے خلاف گواہی دے کر اس سے دشمنی مول لیتا۔

گاؤں بھر نے اس سے بات کرنی چھوڑ دی مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ صبح سویرے وہ ہل کندھے پر دھرے اپنے کھیت کی طرف جاتا دکھائی دیتا۔ راستے میں کسی سے نہ بولتا، کھیت میں جا کر بیلوں سے آدمیوں کی طرح باتیں کرتا۔ اس نے دونوں کے نام رکھے ہوئے تھے۔ ایک کو کہتا نتھو، دوسرے کو چھدو۔ ہل چلاتے ہوئے بولتا جاتا۔ ’’کیوں بے نتھو! تو سیدھا نہیں چلتا؟ یہ کھیت آج تیرا باپ پورا کرے گا؟‘‘

یا ’’ابے چھدو! تیری بھی شامت آئی ہے کیا؟‘‘ اور پھر ان غریبوں کی شامت ہی آ جاتی۔ سوت کی رسی کی مار کے باعث دونوں بیلوں کی کمر پر زخم پڑ گئے تھے۔

شام کو گھر آتا تو وہاں اپنے بیوی بچوں پر غصہ اتارتا۔ دال یا ساگ میں نمک زیادہ ہے، تو بیوی کو ادھیڑ ڈالا۔ کوئی بچہ شرارت کر رہا ہے، اسے الٹا لٹکا کر بیلوں والی رسی سے مارتے مارتے بے ہوش کر دیا۔ غرض ہر روز ایک آفت بپا رہتی تھی۔ آس پاس کے جھونپڑوں والے روز رات کو رحیم خان کی گالیوں اور اس کی بیوی اور بچوں کی مار کھانے اور رونے کی آواز سنتے مگر بے چارے کیا کر سکتے تھے۔ اگر کوئی منع کرنے جائے تو وہ بھی مار کھائے۔

مار کھاتے کھاتے بیوی غریب تو ادھ موئی ہو گئی تھی۔ چالیس برس کی عمر میں ساٹھ کی معلوم ہوتی تھی۔ بچے جب چھوٹے چھوٹے تھے تو پٹتے رہے۔ بڑا جب بارہ برس کا ہوا، تو ایک دن مار کھا کر جو بھاگا تو واپس نہ لوٹا۔ قریب کے گاؤں میں رشتے کا ایک چچا رہتا تھا، اس نے اپنے پاس رکھ لیا۔

بیوی نے ایک دن ڈرتے ڈرتے کہا ’’بلاس پور کی طرف جاؤ‘ تو ذرا انور کو لیتے آنا۔‘‘

بس پھر کیا تھا‘ آگ بگولا ہو گیا۔ بولا ’’میں اس بدمعاش کو لینے جاؤں؟ اب وہ خود بھی آیا تو ٹانگیں چیر کر پھینک دوں گا۔‘‘

ظاہر ہے وہ بدمعاش کیوں موت کے منہ میں واپس آنے لگا تھا؟ دو سال بعد چھوٹا لڑکا بندو بھی بھاگ گیا اور بھائی کے پاس رہنے لگا۔

رحیم خان کے پاس غصہ اتارنے کے لیے فقط بیوی رہ گئی تھی، سو وہ غریب اتنی پٹ چکی تھی کہ اب عادی ہو چلی تھی۔ مگر ایک دن اس کو اتنا مارا کہ اس سے بھی نہ رہا گیا اور موقع پا کر جب رحیم خان کھیت پر گیا ہوا تھا، وہ اپنے بھائی کو بلا کر اس کے ساتھ اپنی ماں کے ہاں چلی گئی۔ ہمسائے کی عورت سے کہہ گئی ’’آئیں تو کہہ دینا کہ میں چند روز کے لیے اپنی ماں کے پاس رام نگر جا رہی ہوں۔‘‘

شام کو رحیم خان بیلوں کو لیے واپس آیا‘ تو پڑوسن نے ڈرتے ڈرتے بتایا کہ اس کی بیوی اپنی ماں کے ہاں چند روز کے لیے گئی ہے۔ رحیم خان نے خلاف معمول خاموشی سے بات سنی اور بیل باندھنے چلا گیا۔ اسے یقین تھا کہ اس کی بیوی اب کبھی نہیں آئے گی۔

احاطے میں بیل باندھ کر جھونپڑے کے اندر گیا تو ایک بلی میاؤں میاؤں کر رہی تھی۔ کوئی اور نظر نہ آیا تو اس کی دم پکڑ کر دروازے سے باہر پھینک دیا۔ چولھا جا کر دیکھا تو ٹھنڈا پڑا ہوا تھا۔ آگ جلا کر روٹی کون ڈالتا؟ کچھ کھائے پیے بغیر ہی پڑ کر سو رہا۔

اگلے دن رحیم خان جب سو کر اٹھا تو دن چڑھ چکا تھا لیکن آج اسے کھیت پر جانے کی جلدی نہیں تھی۔ بکریوں کا دودھ دھو کر پیا اور حقہ بھر کر پلنگ پر بیٹھ گیا۔ اب جھونپڑے میں دھوپ بھر آئی تھی۔ ایک کونے میں دیکھا تو جالے لگے ہوئے تھے۔ سوچا کہ لاؤ صفائی ہی کر ڈالوں۔ ایک بانس میں کپڑا باندھ کر جالے اتار رہا تھا کہ کھپریل میں ابابیلوں کا ایک گھونسلا نظر آیا۔ دو ابابیلیں کبھی اندر جاتی، کبھی باہر آتی تھیں۔

پہلے اس نے ارادہ کیا کہ بانس سے گھونسلا توڑ ڈالے، پھر معلوم نہیں کیا سوچا، ایک گھڑونچی لا کر اس پر چڑھا اور گھونسلے میں جھانک کر دیکھا۔ اندر لال بوٹی سے دو بچے پڑے چوں چوں کر رہے تھے اور ان کے ماں باپ اپنی اولاد کی حفاظت کے لیے اس کے سر پر منڈلا رہے تھے۔ گھونسلے کی طرف اس نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ مادہ ابابیل چونچ سے اس پر حملہ آور ہوئی۔

’’اری، آنکھ پھوڑے گی۔‘‘ اس نے خوفناک قہقہہ لگایا اور گھڑونچی سے اتر آیا۔ ابابیلوں کا گھونسلا سلامت رہا۔

اگلے دن سے وہ پھر کھیت جانے لگا۔ گاؤں والوں میں سے اب کوئی اس سے بات نہ کرتا۔ وہ دن بھر ہل چلاتا، پانی دیتا یا کھیتی کاٹتا لیکن شام کو سورج چھپنے سے کچھ پہلے ہی گھر آ جاتا۔ حقہ بھر کر پلنگ کے پاس لیٹ کر ابابیلوں کے گھونسلے کی طرف دیکھتا رہتا۔ اب دونوں بچے بھی اڑنے کے قابل ہو گئے تھے۔ اس نے ان دونوں کے نام اپنے بچوں کے نام پر نورو اور بندو رکھ دیے تھے۔ اب دنیا میں اس کے دوست یہ چار ابابیل ہی رہ گئے تھے لیکن لوگوں کو یہ حیرت ضرور تھی کہ مدت سے کبھی کسی نے اسے اپنے بیلوں کو مارتے نہیں دیکھا تھا۔ نتھو اور چھدو بھی خوش تھے۔ ان کی کمروں سے زخموں کے نشان بھی تقریباً غائب ہو گئے تھے۔

رحیم خاں ایک دن کھیت سے ذرا سویرے چلا آ رہا تھا کہ چند بچے سڑک پر کبڈی کھیلتے ہوئے ملے۔ اسے دیکھنا تھا کہ سب اپنے جوتے چھوڑ کر بھاگ گئے۔ وہ کہتا ہی رہا ’’ارے میں کوئی مارتا تھوڑا ہی ہوں۔‘‘

آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ وہ جلدی جلدی بیلوں کو ہنکاتا ہوا گھر لایا۔ ابھی انہیں باندھا ہی تھا کہ بادل زور سے گرجا اور بارش شروع ہو گئی۔

اندر آ کر کواڑ بند کیے، چراغ جلا کر اجالا کیا اور حسب معمول باسی روٹی کے ٹکڑے کر کے ابابیلوں کے گھونسلے کے قریب ایک طاق میں ڈال دیے۔

’’ارے بندو! ارے بندو!‘‘ اس نے پکار کر کہا مگر وہ نہ نکلے۔ گھونسلے میں جو جھانکا تو چاروں اپنے پروں میں سر دیے بیٹھے تھے۔ عین جس جگہ چھت میں گھونسلا تھا، وہاں ایک سوراخ تھا اور بارش کا پانی ٹپک رہا تھا، اگر کچھ دیر یہ پانی اسی طرح آتا رہا، تو گھونسلا تباہ ہو جائے گا اور ابابیلیں بے چاری بے گھر ہو جائیں گی۔ یہ سوچ کر اس نے کواڑ کھولے اور موسلا دھار بارش میں سیڑھی لگا کر چھت پر چڑھ گیا۔

جب تک مٹی ڈال کر سوراخ بند کر کے وہ اترا، پانی میں شرابور ہو چکا تھا۔ پلنگ پر جا کر بیٹھا تو کئی چھینکیں آئیں مگر اس نے پروا نہ کی اور گیلے کپڑے نچوڑ چادر اوڑھ کر سو گیا۔ اگلے دن صبح اٹھا تو تمام بدن میں درد اور سخت بخار تھا۔ کون حال پوچھتا اور کون دوا لاتا؟ دو دن اسی حالت میں پڑا رہا۔

جب دو دن اسے کھیت پر جاتے ہوئے نہ دیکھا تو گاؤں والوں کو تشویش ہوئی۔ کالو ذیلدار اور کئی کسان شام کو اسے جھونپڑے میں دیکھنے آئے۔ جھانک کر دیکھا تو وہ پلنگ پر پڑا آپ ہی آپ باتیں کر رہا تھا۔ ’’ارے بندو! ارے نورو! کہاں مر گئے؟ آج کون کھانا دے گا۔‘‘

انہوں نے دیکھا کہ چند ابابیلیں کمرے میں پھڑپھڑا رہی تھیں۔

’’بے چارہ پاگل ہو گیا ہے۔‘‘ کالو ذیل دار نے سر ہلا کر کہا۔ ’’صبح شفا خانے والوں کو پتہ دیں گے کہ پاگل خانے بھجوا دیں۔‘‘

اگلے دن صبح جب اس کے پڑوسی شفا خانے والوں کو لے کر آئے اور اس کے جھونپڑے کا دروازہ کھولا تو وہ مر چکا تھا۔ اس کے پائنتی پر چار ابابیلیں سر جھکائے خاموش بیٹھی تھیں۔

٭٭٭

خواجہ احمد عباس

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو افسانہ از خواجہ احمد عباس