لب ترے کی دل کشی سے ملتا ہے
پھول جب بھی تازگی سے ملتا ہے
تو نہ ہو جب بھی مقابل اس کے تو
آئنہ کب روشنی سے ملتا ہے
موت تجھ سے یوں ملوں گا ایک دن
جیسے کوئی زندگی سے ملتا ہے
تیری آنکھوں سے جو ملتا ہے سکوں
وہ نشہ کب مے کشی سے ملتا ہے
یہ ضرورت بھی عجب شے ہے وگرنہ
آدمی کب آدمی سے ملتا ہے