- Advertisement -

ایک پرائی گڑیا کے نام

روبینہ فیصل کی ایک اردو نظم

ایک پرائی گڑیا کے نام

وہ اکیلی بیٹھی ہو تی تو میں اس کے ساتھ جا بیٹھتی
اور ہم مل کے ستاروں میں اس کی گمشدہ ماں کو ڈھونڈتے
نیند کی پریاں اسے بلاتیں
تو وہ میرے بازو پر سر رکھ کر سو جاتی
اسے ممتا کی طلب ہو تی
تو میرے سے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر اسے چوم لیتی
اسے بھوک ستاتی تو
میں اسے بٹر سلائس اور انڈا کھلادیتی
اس کو گرمی لگتی تو
میں اس کو اپنے ہاتھوں سے نہلا دیتی
اس کو مجھ پر لاڈ آتا تو
وہ دیوانوں کی طرح میرے ہاتھوں کو چومتی
لوگوں کے ہجوم میں گھبراتی تو
میری گود میں آکر چھپ جاتی
اس پر زمانے کی تیز دھوپ پڑتی تو
وہ میرے ہاتھوں کے سایے میں آبیٹھتی
اس کے پاؤں سے جوتی اترتی
تو میرے ہاتھوں پر آکر اپنے پاؤں رکھ دیتی
اسے جھولا جھولناہو تا تو
میری انگلی تھامے پارک لے جاتی
مجھے کہانی سنانے کا کہتی تو
میں کہانی کے سارے جن بھوت اپنے اندر اتار لیتی
اوراسے صرف پریوں کی کہانی سناتی
وہ تھوڑی سی بھی مایوس نظر آتی
میں اپنی آنکھوں کے سارے ستارے
اس کی معصوم آنکھوں میں بھر دیتی
اور پھر ایک دن ایسا بھی آیا
وہ میری آنکھوں کی ساری چمک لے کر
کالی دنیا میں کہیں گم ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔
میری گڑیا تھی وہ ۔۔مگر نہ جانے کہاں گم ہو گئی

روبینہ فیصل

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
حمیدہ گل کا ایک اردو کالم