سمجھ میں آتے جو دل کے معاملات اُسے
ایک اردو غزل از ارشاد نیازی
سمجھ میں آتے جو دل کے معاملات اُسے
دکھائی دیتے مرے زخم , اٹھے ہاتھ اُسے
میں جانتا ہوں جلائے گا وہ پڑھے گا نہیں
سو میں نے بھیحی ہے ماچس بھی خط کے ساتھ اُسے
بچھڑتے وقت مری سانس تھم بھی سکتی ہے
نہ روک پائے جو گہرے تعلقات اُسے
یقینِ صبح کے جھرمٹ کی خامشی سے پرے
صدائیں دیتی ہے اب تک گماں کی رات اُسے
بجھا رہا جو پرندوں کی پیاس برسوں سے
دعائیں دیتے ہیں بوڑھے شجر کے پات اُسے
وہ خوش ہے کاٹ کے ہر بار کال رستے میں
میں فون کر کے ہوں افسردہ پانچ سات اُسے
سلجھ نہ پائے گا تجھ سے یہ ہجر کا دھاگا
بدن کے چرخے پہ دن رات یوں نہ کات اُسے
تم اپنے بچے کے ہاتھوں سے چھین کر پسٹل
برا نہ مانو دلا دو قلم دوات اُسے
میں رات دیر گئے گھر پہنچتا ہوں کیونکر
کوئی بتائے سرِ طور مشکلات اُسے
یہ لازمی نہیں تلوار کا اٹھاؤں بوجھ
مرا خلوص اگر دے رہا ہے مات اُسے
مری زبان پہ رکھ دے وہ کوئلہ ارشاد
بُری لگی ہے اگر کوئی میری بات اُسے
ارشاد نیازی