کیا ملے گی ہمیں خبر اپنی
ہے گراں خود پہ اک نظر اپنی
دوسروں کے بھلے میں بھی اے دوست
فکر ہوتی ہے بیشتر اپنی
اک سحر ظلمت جہاں سے دور
کہہ سکیں ہم جسے سحر اپنی
کارواں ہے قریب منزل کے
اب کرے فکر راہبر اپنی
پوچھتے ہیں جہاں کی ہم باقیؔ
اور کہتا ہے چارہ گر اپنی
باقی صدیقی