نیام زد بھی ہوا ہوں تو خوش دلی سے ہوا
وہ اس لیے کہ ترے دستِ دائمی سے ہوا
میانِ حرف تھے اور لوح پر کنندہ تھے
تمہارا سامنا کس طرح آدمی سے ہوا
ہوائے شامِ الم چل پڑی تو سنتے ہیں
جو کام تیغ سے ہوتا تھا روشنی سے ہوا
کلام پاک تھا، کچھ گفتگو کی چھینٹ نہ تھی
سو بے نیاز سماعت کی ان سنی سے ہوا
مثالِ اسپ مجھے سجدہ گاہ نے کھینچا
میں با مہار ہوا اور بڑی خوشی سے ہوا
ترے جمال کا صحبت شناس لوگوں پر
اثر ہوا بھی تو کس درجہ سادگی سے ہوا
وہ کارِ عقل ہے سو کر رہے ہیں اکثر و بیش
یہ کارِ عشق ہے دیکھو گے بس ہمی سے ہوا
نکل کے شعر سے تجھ غار کی طرف دوڑا
جو بدگمان بہت اپنی پختگی سے ہوا
نگیں کا حق ہے کہ انگشتری کی زینت ہو
جمال زادی کا رشتہ تھا، عسکری سے ہوا
ماہ نور رانا