ہوش والوں کو کہاں علم کہ کیا دشت میں ہے
چل اے آشفتہ سری تیرا مزہ دشت میں ہے
شہر میں ردِ دعا سے جو اُداسی پھیلی
پھر کسی نے یہ بتایا کہ خُدا دشت میں ہے
آج کی شام بِلا خوف چراغاں ہوگا
کیونکہ وحشت کے تعاقب میں ہوا دشت میں ہے
جا فقیرا تیرا ہونا یہاں ناکافی ہے
تو چلا آیا ہے پر تیری صدا دشت میں ہے
بزم میں رکھی گئی ہے نئی گفتار کی شرط
اب وہی بات کرے جس کا پتا دشت میں ہے
عمران سیفی