کہی کے رنگ میں ہوں ‘ اَن کہی کا آدمی ہوں
میں شور کرتی ہوئی خامشی کا آدمی ہوں
میں ایک شعر ہوں سِینہ بہ سِینہ چلتا ہوا
کسی کے دل میں ہوں لیکن کسی کا آدمی ہوں
یہ دین و دُنیا مرے راستے میں پڑتے ہیں
یہ جانتے ہیں کہ مَیں کس گلی کا آدمی ہوں
کسی زمانے میں موسیٰ کے ساتھ دیکھا گیا
اور اِن دنوں مَیں کسی سامری کا آدمی ہوں
میں انتظار ہوں گلیوں میں خوار ہوتا ہوا
میں ایک بھول ہوں ‘ یاد آوری کا آدمی ہوں
فرشتے دیکھ کے حیران ہو رہے ہیں مجھے
خُدا کے ساتھ ہوں اور آدمی کا آدمی ہوں
میں ایک پھول ہوں کیچڑ میں مسکراتا ہوا
میں سانس لیتی ہوئی زندگی کا آدمی ہوں
یہ قبل و بعد کے قصے فضول قصے ہیں
ہر ایک عہد میں تھا ‘ ہر صدی کا آدمی ہوں
یقیں دِلاتا پھروں کس لیے تجھے ‘ عامی
ترے گمان میں جو ہے’ اُسی کا آدمی ہوں
عمران عامی