صداقت کی دکانوں کی کہاں گاہک رہی تھی
یہ دنیا جھوٹ کی تازہ پنجیری پھک رہی تھی
جواں جذبوں کی دھونی سے بدن دہکا ہوا تھا
اسی اگنی پہ عشقے کی کڑاہی پک رہی تھی
بہت سادہ تھی وہ اور لوگ چالیں چل رہے تھے
سو اب دنیا سےڈر کر بھاگنے میں تھک رہی تھی
وہ اس کے کان بھرتی جا رہی تھی میرے بارے
مجھے معلوم ہے سب کچھ جلن میں بک رہی تھی
بس اک پل کے لیے اس نے چھوا تھا ہاتھ میرا
مگر سینے میں کتنی دیر دھک دھک دھک رہی تھی
ملے تو روح کے اطراف میں اس کو لپیٹوں
وہی چنی جو بچپن میں مرا گلک رہی تھی
کسی کے لوٹ کر آنے کا کچھ امکاں نہیں تھا
تو وہ کھڑکی سے لگ کر کس کا رستہ تک رہی تھی ؟
ہماری کم نصیبی، ساکنان کوچہ ء جاں
در دل پر تو متواتر وہ اک دستک رہی تھی
فرح گوندل