آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزیوسف صدیقی

بھارتی آبی جارحیت

ایک اردو تحریر از یوسف صدیقی

بھارتی آبی جارحیت اور پاکستان کا کڑا امتحان

پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ کشیدگی اور چالاکیوں سے بھرے رہے ہیں، مگر پانی کے مسئلے نے اس تنازع کو ایک نئی جہت دے دی ہے۔ بھارت نے نہ صرف ہمارے زمینی سرحدوں پر جارحیت کی بلکہ پانی جیسی بنیادی اور حیاتیاتی ضرورت کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ دریائے سندھ، جہلم اور چناب جیسے دریاؤں پر بھارت کی مسلسل منصوبہ بندی اور ڈیمز کی تعمیر نے پاکستان کی زرعی معیشت، مقامی آبادی اور پانی کے قدرتی بہاؤ کو شدید متاثر کیا ہے۔ یہ عمل صرف ایک سیاسی یا سفارتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی سلامتی کا بڑا چیلنج ہے، کیونکہ پانی کی کمی یا غیر متوقع بہاؤ سے ہماری زمین، کسان اور پورا ملک متاثر ہوتا ہے۔

بھارت کی یہ آبی جارحیت واضح طور پر یہ پیغام دیتی ہے کہ وہ پاکستان کو معاشی اور زرعی طور پر کمزور کرنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔ دریاؤں کے پانی کو ذخیرہ کر کے روکنا یا اچانک چھوڑنا پاکستان کے لیے ایک خطرناک تجربہ ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف فصلیں تباہ ہوتی ہیں بلکہ انسانی جانوں اور بنیادی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اس کا اثر معیشت، بجلی کی پیداوار اور عوامی زندگی پر براہِ راست پڑتا ہے۔ پانی کی کمی یا سیلاب کی صورت میں پیدا ہونے والے نقصان کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ یہ کسی معمولی آفت کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ ایک ملکی بحران کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

مزید برآں، بھارت کی یہ خاموش اور پر اثر جارحیت پاکستان کی قومی پالیسی، مقامی انتظامی صلاحیت اور ماحولیاتی تیاری کا امتحان بھی ہے۔ حکومت، فوج اور عوام سب کو اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ پانی کے مسئلے کو نظر انداز کرنا یا اسے معمولی سمجھنا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ یہ صرف زراعت یا معیشت کا مسئلہ نہیں بلکہ ہماری بقاء، قومی سلامتی اور آنے والی نسلوں کا حق ہے۔ پاکستان کو نہ صرف اس بحران کا فوری سامنا کرنا ہوگا بلکہ مستقبل میں ایسی منصوبہ بندی بھی کرنی ہوگی جس سے دریاؤں کا پانی محفوظ اور متوازن طریقے سے استعمال ہو، اور بھارت کی جارحیت کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔

بھارت — ایک پڑوسی یا ازلی دشمن؟

بھارت کبھی پاکستان کا خیرخواہ نہیں رہا۔ وہ ہمیشہ ہماری سلامتی کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔ کبھی سرحد پر گولیاں برساتا ہے، کبھی کشمیر میں ظلم ڈھاتا ہے، کبھی عالمی سطح پر پروپیگنڈہ کرتا ہے اور اب پانی جیسے بنیادی حق کو ہتھیار بنا چکا ہے۔ دنیا جان لے کہ بھارت ایک ایسا دشمن ہے جو ہمارے دریاؤں کا خون چوس کر ہمیں کمزور کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کی یہ آبی جارحیت کوئی وقتی چال نہیں، بلکہ طویل المیعاد منصوبہ ہے تاکہ پاکستان کو زرعی، معاشی اور معاشرتی طور پر معذور بنایا جا سکے۔ ایک ایسا دشمن جو پانی جیسی مقدس نعمت کو بھی اپنی نفرت اور انتقام کے لیے استعمال کرے، اس کی خباثت اور سفاکی میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔

سیلاب کا زخم

پاکستان کے عوام پر گزشتہ برسوں کے سیلاب نے جو قیامت ڈھائی، اس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔ لاکھوں گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے، کھیت کھلیان تباہ ہوئے، اسکول اور اسپتال پانی میں بہہ گئے۔ کروڑوں انسان بے گھر اور بے یار و مددگار ہو گئے۔ بچے بیماریوں اور بھوک کا شکار ہوئے۔ یہ زخم محض اعداد و شمار کا کھیل نہیں، بلکہ انسانی زندگیوں کی بربادی کی داستان ہے۔ عالمی اداروں کے مطابق انفراسٹرکچر کی تباہی اربوں ڈالر سے زیادہ کی ہے لیکن اصل نقصان ان خوابوں کا ہے جو غریب کسانوں کے کھیتوں میں ڈوب گئے اور ان امیدوں کا ہے جو خاندان اپنے گھروں کے ساتھ بہا لے گئے۔

ہماری کوتاہیاں

یہ بات درست ہے کہ بارشوں اور موسمیاتی تغیرات نے سیلاب کو شدت دی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے اپنی زمینوں اور شہروں کو خود تباہی کے دہانے پر کھڑا کر رکھا تھا۔ جنگلات کی کٹائی نے زمین کی قوتِ جذب ختم کر دی، دریاؤں کے کناروں پر تجاوزات نے پانی کے راستے بند کر دیے، اور ناقص نکاسیٔ آب نے شہروں کو دلدل میں بدل دیا۔ حفاظتی بند اور ڈیم بوسیدہ تھے، مگر کسی کو پرواہ نہیں ہوئی۔ وارننگ سسٹم موجود ضرور تھا لیکن مقامی سطح پر موثر نہیں تھا۔ یوں قدرتی آفت ہمارے لیے قومی المیہ بن گئی۔ یہ سیلاب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل تباہی آسمان سے نہیں بلکہ ہماری اپنی بدانتظامی سے نازل ہوئی۔

بھارت کی آبی چالیں

1960ء میں ہونے والا انڈس واٹر ٹریٹی بظاہر دونوں ممالک کے درمیان پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے تھا، لیکن بھارت نے کبھی بھی اس معاہدے کو دل سے قبول نہیں کیا۔ دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کرنے کے باوجود بھارت نے ان دریاؤں پر ڈیمز اور بیراج بنا کر پانی روکنا شروع کر دیا۔ کبھی ہمارے کھیت بنجر ہو جاتے ہیں کیونکہ پانی نہیں ملتا، اور کبھی اچانک پانی چھوڑ کر بستیاں بہا دی جاتی ہیں۔ یہ دشمن کی وہ جنگ ہے جس میں نہ بندوق چلتی ہے، نہ بارود پھٹتا ہے، مگر ہمارے کھیت، ہمارے کسان اور ہماری معیشت زخمی ہو جاتی ہے۔ بھارت نے آبی جارحیت کو ہتھیار بنا کر پاکستان کے خلاف ایک خاموش مگر مہلک جنگ چھیڑ رکھی ہے۔

وزیراعظم کی دوٹوک بات

چین کے حالیہ دورے کے دوران وزیراعظم نے بھارتی آبی جارحیت کو عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کیا۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان پانی کے مسئلے پر کسی جارحیت کو برداشت نہیں کرے گا۔ یہ بیان نہ صرف بھارت کے لیے ایک پیغام تھا بلکہ دنیا کے لیے بھی ایک انتباہ کہ پانی کو ہتھیار نہ بنایا جائے۔ وزیراعظم نے عالمی فورمز پر بھی زور دیا کہ بھارت کی یہ روش انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے کیونکہ پانی پر کسی قوم کا بنیادی حق چھینا نہیں جا سکتا۔ یہ بیانات حوصلہ افزا ہیں لیکن ضروری ہے کہ سفارتی اور قانونی محاذ پر بھی اسی شدت کے ساتھ کام ہو، ورنہ صرف الفاظ سے کچھ نہیں بدلے گا۔

معیشت پر کاری ضرب

سیلاب اور بھارت کی آبی جارحیت نے مل کر پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی، کپاس اور گندم کی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ کسان مقروض ہو گئے اور غذائی قلت نے عوام کو نڈھال کر دیا۔ برآمدات کم ہوئیں اور معیشت مزید دباؤ میں آ گئی۔ پانی کی کمی نے نہ صرف کھیتوں بلکہ بجلی کی پیداوار کو بھی متاثر کیا کیونکہ ہائیڈل منصوبے پانی پر منحصر ہیں۔ جب پانی کم ہوتا ہے تو بجلی کی پیداوار بھی گر جاتی ہے، اور یوں لوڈشیڈنگ کا عذاب بڑھ جاتا ہے۔ ایک طرف خوراک کی قلت، دوسری طرف توانائی کا بحران — یہ سب معیشت پر دہری مار ہیں۔

انسانی المیہ

سیلابی تباہی کا سب سے کربناک پہلو انسانی المیہ ہے۔ لاکھوں لوگ آج بھی عارضی کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بچے تعلیم سے محروم ہو گئے، خواتین صحت کی سہولتوں سے محروم ہیں، اور بزرگ بیماریوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ سیلاب کے بعد آنے والی بیماریاں، بھوک اور غربت نے کروڑوں پاکستانیوں کو ایک نہ ختم ہونے والی اذیت میں دھکیل دیا۔ یہ سب محض چند ماہ یا چند سال کا مسئلہ نہیں بلکہ طویل المیعاد اثرات ہیں جو آنے والی نسلوں تک جائیں گے۔ یہ انسانی المیہ اس وقت مزید سنگین ہو جاتا ہے جب بھارت اپنی آبی جارحیت سے ہمارے مسائل میں اضافہ کرتا ہے۔

سنبھلنے کا وقت

سوال یہ ہے کہ پاکستان کب سنبھلے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ اتنے بڑے نقصان سے نکلنے میں سالوں نہیں بلکہ دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ فوری طور پر متاثرین کو چھت اور خوراک دینا ضروری ہے، مگر اصل امتحان ان کی مستقل بحالی کا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے شفاف اور پائیدار منصوبہ بندی کی تو پانچ سے دس سال میں کسی حد تک بحالی ممکن ہے۔ لیکن اگر بدعنوانی اور ناقص منصوبہ بندی جاری رہی تو ہم اگلے سیلاب تک پھر اسی حال میں ہوں گے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ امداد کو قرضوں کے بجائے گرانٹس کی شکل میں حاصل کیا جائے، اور مقامی سطح پر عوام کو بحالی کے عمل میں شریک کیا جائے۔

آگے کا لائحہ عمل

اب ہمیں اپنی سمت درست کرنا ہوگی۔ سب سے پہلے جنگلات کی بحالی اور دریاؤں کے قدرتی راستوں کو محفوظ بنانا ہوگا۔ بڑے ڈیم اور چھوٹے ذخائر تعمیر کرنا ناگزیر ہیں تاکہ پانی کو محفوظ رکھا جا سکے۔ نکاسیٔ آب کے جدید نظام بنائے جائیں تاکہ شہروں کو بارشوں میں ڈوبنے سے بچایا جا سکے۔ بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف عالمی عدالتوں اور سفارتی فورمز پر بھرپور مقدمہ لڑا جائے۔ اور سب سے بڑھ کر عوامی شعور بیدار کیا جائے کہ پانی کا تحفظ ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اپنے گھروں، کھیتوں اور شہروں میں پانی کے بہتر استعمال کو یقینی بنانا ہوگا۔ یہی راستہ ہمیں تباہی سے بچا سکتا ہے۔

پانی کی جنگ، بقا کی جنگ

یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ آنے والی صدی پانی کی جنگوں کی صدی ہوگی۔ بھارت نے یہ جنگ پہلے ہی شروع کر دی ہے۔ وہ ہمارے دریاؤں پر قابض ہو کر ہمیں کمزور کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ پانی ہماری بقا ہے، اور اس کے تحفظ کے لیے ہر قربانی دینی ہوگی۔ سیلاب نے ہمیں دکھا دیا کہ ہماری کمزوریاں کتنی بڑی ہیں، اور بھارت نے ہمیں یہ باور کرا دیا کہ دشمن کبھی موقع نہیں چھوڑتا۔ اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم متحد ہو کر اپنی سرزمین، اپنی زراعت اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنائیں۔ ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

یوسف صدیقی

یوسف صدیقی

میرا نام یوسف صدیقی ہے اور میں ایک تجربہ کار کالم نگار اور بلاگر ہوں۔ میں نے 2009 سے تحریری دنیا میں قدم رکھا اور مختلف پلیٹ فارمز پر اپنے خیالات عوام کے سامنے پیش کیے۔ میں نے روزنامہ دنیا میں مختصر کالم لکھے اور 2014 میں بہاولپور کے مقامی اخبار صادق الاخبار میں بھی مستقل لکھائی کا تجربہ حاصل کیا۔ اس کے علاوہ، میں نے ڈیجیٹل ویب سائٹ "نیا زمانہ" پر کالم شائع کیے اور موجودہ طور پر بڑی ویب سائٹ "ہم سب" پر فعال ہوں۔ میری دلچسپی کا مرکز سماجی مسائل، سیاست اور عمرانیات ہے، اور میں نوجوانوں اور معاشرتی تبدیلیوں کے موضوعات پر مؤثر اور معلوماتی تحریریں پیش کرنے کے لیے کوشاں ہوں۔ بلاگ نویسی کا تجربہ: میں تقریباً 15 سال سے مختلف پلیٹ فارمز پر لکھ رہا ہوں۔ میری تحریریں عوامی، سیاسی اور سماجی موضوعات پر مبنی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button