یہ پریشانی مبارک ہو!
ایک اردو تحریر از عابد ضمیر ہاشمی
زیست ِ انسانی بظاہر ایک حسین سفر ہے، مگربسا اوقات اس کی تلخی انسان کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ خاص طور پر اُن لوگوں کے لیے جو نہایت حساس، نرم دل اور دوسروں کے لیے ہمیشہ خیر خواہ ہوتے ہیں، زندگی اکثر ایک کٹھن امتحان بن جاتی ہے۔ایسے لوگ جو دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر اپنی خوشی تلاش کرتے ہیں، جب وہی لوگ بیوفائی، ناقدری یا تلخ حالات کا شکار ہوتے ہیں تو ایک سوال جنم لیتا ہے: ”ہمیشہ وہ لوگ جو کسی کا برا نہیں سوچتے اور جو ہیں بھی بہت حساس، آخر ان کے حصے میں ہی کیوں یہ رنج اور دُکھ کیوں؟“سچ تو یہ ہے کہ حساس دل رکھنے والے لوگ، درد کو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کی خاموشی، لہجے، باتوں کے پیچھے چھپے جذبے کو سمجھ لیتے ہیں۔ مگر یہی خوبی اکثر ان کے لیے بوجھ بن جاتی ہے، کیونکہ معاشرہ ہر دل کے درد کو محسوس کرنے والا نہیں ہوتا۔ یہاں اکثر خاموشی کو کمزوری سمجھا جاتا ہے اور نرمی کو بیوقوفی۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ معاشرتی رویے بدلے نہیں، بدتر ہوئے ہیں۔ مفادات کی دنیا میں خلوص، وفا اور احساس جیسے جذبے نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں حساس لوگ بظاہر معمول کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، مگر اندر سے وہ روز بکھرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ اپنی بیقدری پر نہیں، دوسروں کی بدسلوکی پر بھی رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔
دنیا میں مخلص انسان نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ جن کے دل میں کھوٹ نہ ہو، جو ہر رشتہ خلوص اور نیت کی پاکیزگی سے نبھاتے ہوں، ان کی قدر کرنے کے بجائے لوگ اکثر انہیں استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مخلص افراد کو کمزور سمجھ لیا جاتا ہے اور ان کی نرمی کو بے وقوفی سمجھ کر ان سے فائدہ اٹھانے کی روش عام ہوتی جا رہی ہے۔
مخلص لوگ کسی لالچ کے معاشرہ پھول بنانا چاہتے ہیں۔ انہیں اگر کوئی تکلیف دے بھی دے تو وہ برداشت کر لیتے ہیں۔ یہی خوبی بعض مفاد پرست لوگوں کے لیے موقع بن جاتی ہے۔ ایسے لوگ ان کی خاموشی، ان کے صبر، ان کے خلوص کو ہتھیار بنا کر ان پر جذباتی دباؤ ڈالتے ہیں، بار باراستعمال کرتے ہیں، ان کے احساس کو وہ اپنی چالاکی سمجھ لیتے ہیں۔مخلص انسانوں کو سب سے زیادہ دکھ اس وقت پہنچتا ہے جب وہ جن کے لیے ہر ممکن قربانی دیتے ہیں، وہی لوگ ان کے لئے عذاب بن جاتے ہیں۔
اس معاشرے میں ایسے افراد ہمیشہ پریشان رہتے ہیں، کیونکہ ان کا خلوص وقتی نہیں بلکہ دل کی گہرائی سے ہوتا ہے، اور جب دل ٹوٹتا ہے تو وہ آواز نہیں کرتا، مگر اندر سے سب کچھ ختم کر دیتا ہے۔معاشرہ مختلف مزاج، سوچ اور فطرت کے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے، جن میں سے ایک طبقہ حساس افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ حساس لوگ وہ ہوتے ہیں جو دوسروں کے دکھ، درد اور جذبات کو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ ان کے دل نرم ہوتے ہیں، احساس کی شدت ان میں زیادہ ہوتی ہے اور یہ اکثر دوسروں کی تکلیف کو اپنی ذات پر طاری کر لیتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے یہی حساس لوگ معاشرے میں سب سے زیادہ نظر انداز کیے جاتے ہیں اور اکثر تکلیف دہ تجربات کا سامنا کرتے ہیں۔حساس افراد اپنی ذات میں خوبصورتی کا پیکر ہوتے ہیں۔ یہ لوگ محبت، خلوص، سچائی اور ایثار جیسے جذبوں کو بے لوث طریقے سے نبھاتے ہیں۔ ان کا ظرف بڑا ہوتا ہے اور وہ دوسروں کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ بہترین دوست، استاد، مصنف، فنکار یا سماجی کارکن بن سکتے ہیں۔ ان کی یہ خوبی معاشرے میں بہتری، ہمدردی اور بھائی چارے کو فروغ دیتی ہے۔ حساس لوگوں کو اکثر اپنی فطرت کے باعث زخم کھانے پڑتے ہیں:
استحصال: ان کی نرمی کو کمزوری سمجھا جاتا ہے اور بعض لوگ ان کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تنقید: یہ لوگ تنقید کو ذاتی طور پر لے لیتے ہیں اور دل سے لگا بیٹھتے ہیں۔احساسِ تنہائی: یہ لوگ اکثر خود کو دوسروں سے مختلف اور اکیلا محسوس کرتے ہیں، کیونکہ ہر کوئی ان کے جذبات کو نہیں سمجھ پاتا۔ جذباتی بوجھ: دوسروں کا دکھ سمیٹتے سمیٹتے یہ خود اندر سے ٹوٹنے لگتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس اپنا درد بانٹنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
حساس لوگوں کو سمجھنا، سراہنا اور ان کی حفاظت کرنا معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر خود بے چین ہو جاتے ہیں۔ اگر ان کی قدر نہ کی جائے، تو وہ خاموشی سے اندر ہی اندر گھلنے لگتے ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی اور جذباتی سہارا دینا معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دے سکتا ہے۔
حساس لوگ معاشرے کا وہ انمول سرمایہ ہیں جو احساس، محبت اور خلوص کو زندہ رکھتے ہیں۔ ہمیں نہ صرف ان کی قدر کرنی چاہیے بلکہ ان کے ساتھ نرمی، محبت اور احترام کا سلوک روا رکھنا چاہیے۔ کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو معاشرے میں انسانیت کی شمع جلائے رکھتے ہیں۔مگر اس سب کے باوجود، یہی لوگ اس دنیا کی خوبصورتی کا اصل سبب ہیں؛اگرچہ دنیا ان کی حساسیت کو آزمائش بنا دیتی ہے، مگر وہی حساس دل معاشرے میں محبت، امن، ہمدردی اور شعور کا چراغ جلائے رکھتے ہیں۔
یہ زندگی واقعی تلخ ہے، مگر ان تلخیوں میں بھی اگر کچھ میٹھا باقی ہے، تو وہ انہی حساس دلوں کی بدولت ہے۔ دنیا کا نظام ان ہی لوگوں کی خاموش جدوجہد سے قائم ہے۔ کاش کہ معاشرہ اس حساسیت کو کمزوری نہیں، بلکہ اصل طاقت سمجھے۔حضرت علیؓ نے فرمایا:تین لوگ ہمیشہ پریشان رہتے ہیں مددگار، وفادار، اور دل کے صاف۔اگر آپ دوسروں کی خوشی میں خوش، ان کے غم میں غمگین ہو تے ہیں۔ اگر آپ کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھ کر سکون محسوس کرتے ہیں۔ اگر آپ کسی مجبور کر مجبوری دور کر کے اطمینان سے سوتے ہیں، اگر آپ کسی کی پردہ پوشی سے خوش ہوتے ہیں، اگر آپ کسی مجبورکی فیس ادا کر کے مطمئن ہو تے ہیں۔ اس سب میں آپ کا مقصد مگر صرف رضاء خدا ہے۔ معاشرہ آپ کو پریشان کر رہا ہے تو پھر یہ پریشانی آپ کو مبارک ہو!۔
عابد ضمیر ہاشمی






