ٹیکنالوجی کا زمانہ اور ہمارا جمود
ایک اردو تحریر از یوسف صدیقی
دنیا کی تاریخ کے صفحات الٹ کر دیکھیں تو ایک حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے: وہ قومیں جو علم اور تحقیق کے چراغ روشن رکھتی ہیں، وہی دنیا کے افق پر آفتاب کی مانند چمکتی ہیں۔ آج کی دنیا توپ و تفنگ کے زور پر نہیں بلکہ سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ جو قومیں علم کو سرمایہ اور تحقیق کو ہتھیار بنا لیتی ہیں، وہ وقت کی دوڑ میں دوسروں کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں۔ پاکستان کے لیے بھی یہی فارمولہ کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے؛ مگر افسوس کہ ہم ابھی تک منزل کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
پاکستان کی موجودہ صورتِ حال کسی المیے سے کم نہیں۔ ہم اپنی روزمرہ ضرورتوں سے لے کر قومی سطح کے بڑے منصوبوں تک درآمدات پر انحصار کرتے ہیں۔ موبائل فون، لیبارٹری کے آلات، حتیٰ کہ معمولی مشینری تک ہمیں بیرونِ ملک سے منگوانی پڑتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تحقیق و ترقی کے لیے بجٹ کا نہ ہونا ہے۔ ہمارے نوجوان بے پناہ صلاحیتوں کے حامل ہیں، لیکن وسائل اور مواقع سے محروم ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بہترین اذہان بیرونی ممالک کا رخ کرتے ہیں، اور پاکستان مسلسل دماغی ہجرت (Brain Drain) کے مسئلے سے دوچار رہتا ہے۔
تعلیم وہ ستون ہے جس پر سائنس و ٹیکنالوجی کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارا تعلیمی نظام جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ دنیا روبوٹکس، مصنوعی ذہانت، بائیوٹیکنالوجی اور خلائی سائنس میں نئے ابواب رقم کر رہی ہے، جبکہ ہمارے نصاب میں اب بھی وہی پرانے مضامین اور غیر عملی ابواب شامل ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل تحقیق کے بجائے رٹہ بازی پر اکتفا کرتی ہے، اور یوں عالمی میدان میں پیچھے رہ جاتی ہے۔
تحقیق و اختراع کے میدان میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جامعات میں مقالے تو بڑی تعداد میں لکھے جاتے ہیں، مگر ان میں سے اکثر کا عملی زندگی یا صنعتی ضروریات سے کوئی حقیقی تعلق نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں ہر روز نئی ایجادات سامنے آتی ہیں، پیٹنٹس درج ہوتے ہیں، مگر ان فہرستوں میں پاکستان کا نام شاذونادر ہی دکھائی دیتا ہے۔ جب تک ہم اس خلا کو پُر نہیں کرتے، ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
تاہم یہ کہنا درست ہوگا کہ ڈیجیٹل دور نے پاکستان کے لیے کچھ نئے امکانات پیدا کیے ہیں۔ ہماری آئی ٹی انڈسٹری اور فری لانسرز نے بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ نوجوان کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی محنت سے قیمتی زرمبادلہ کما رہے ہیں۔ مگر یہ کامیابیاں عالمی پیمانے پر ابھی محدود ہیں۔ اگر ریاستی سرپرستی، جدید انفراسٹرکچر اور پالیسیوں میں تسلسل میسر آ جائے تو یہ شعبہ پاکستان کے لیے اربوں ڈالر کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کا براہِ راست تعلق معیشت سے ہے۔ ہماری زراعت سائنسی طریقوں اور جدید مشینری کے استعمال سے کئی گنا بہتر ہو سکتی ہے۔ صنعت و تجارت میں ٹیکنالوجی کے اطلاق سے ہماری مصنوعات عالمی منڈی میں مسابقت کے قابل بن سکتی ہیں۔ لیکن جب تک ہم روایتی اندازِ فکر اور پرانے طریقۂ کار سے نجات نہیں پائیں گے، ہماری معیشت کمزور ہی رہے گی۔
فخر کی بات یہ ہے کہ دفاعی میدان میں پاکستان نے قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ میزائل ٹیکنالوجی اور ایٹمی پروگرام نے ہمیں ایک مضبوط دفاعی قوت عطا کی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر ہم یہ کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں تو تعلیم، صحت، زراعت اور صنعت کے شعبوں میں اسی جذبے اور انہی وسائل کے ساتھ کیوں نہیں بڑھ سکتے؟ دفاعی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ سول سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی بھی قومی ترجیح ہونی چاہیے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اپنی پالیسیوں میں سائنس و ٹیکنالوجی کو اولین ترجیح دے۔ تحقیق و ترقی کے لیے خاطر خواہ وسائل مختص کیے جائیں۔ نوجوانوں کے لیے انوویشن سینٹرز، ٹیکنالوجی پارکس اور انکیوبیشن ہب قائم کیے جائیں جہاں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو عملی شکل دے سکیں۔ نجی شعبے اور اسٹارٹ اپس کو بھی سہارا دینا ہوگا، کیونکہ یہی قوت ہے جو پاکستان کا بین الاقوامی تشخص بہتر بنا سکتی ہے۔
دنیا ہمیں کئی روشن مثالیں دیتی ہے۔ جاپان نے تباہی کے ملبے سے اٹھ کر ٹیکنالوجی کے سہارے عالمی معیشت میں اپنی جگہ بنائی۔ جنوبی کوریا نے تعلیم اور تحقیق کو اولین ترجیح دے کر خود کو جدید دنیا میں شامل کیا۔ چین نے سائنسی ترقی کو اپنی قومی پالیسی کا محور بنایا اور آج وہ ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اگر یہ قومیں اپنے حالات بدل سکتی ہیں تو پاکستان کیوں نہیں؟
مستقبل انہی قوموں کا ہے جو مصنوعی ذہانت، نینو ٹیکنالوجی، بگ ڈیٹا اور خلائی سائنس میں آگے بڑھیں گی۔ اگر ہم بھی دنیا کے قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا، تحقیق کو قومی ترجیح دینا ہوگی اور سائنس و ٹیکنالوجی کو محض ایک مضمون نہیں بلکہ اپنی بقا اور ترقی کا ذریعہ سمجھنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر، ہم وقت کی دوڑ میں صرف تماشائی بنے رہ جائیں گے اور ترقی کا خواب ہمیشہ خواب ہی رہے گا –
یوسف صدیقی







