نیند جھولی میں لئے وصل گھڑی آتی ہے
یعنی خوابوں میں میرے اب بھی کوئی آتی ہے
.
عشق تو خیر، نہ پہلا تھا نہ دوجا تجھ سے
پھر بھی اے دوست تری یاد بڑی آتی ہے
.
اس نے یہ کہہ کے ہم ایسوں کی زباں بندی کی
بحث کرنے سے محبت میں کمی آتی ہے
.
وہ مجھے چھوڑ تو سکتا ہے مگر جانتا ہے
دھوپ میں لی گئی تصویر بری آتی ہے
.
پہلے ہم دھیان سے چلتے ہیں زمیں پر برسوں
پھر کہیں جا کے یہ بے راہ روی آتی ہے
.
میں اسے توڑ کے بس جان بچا لوں اپنی؟
وہ روایت جو زمانے سے چلی آتی ہے
.
اک ترا غم ہے کہ تنہا نہیں ہونے دیتا
اک تری یاد ہے سکھیوں میں گھری آتی ہے
.
ہائے وہ دن کہ ترے غم سے نہیں تھی فرصت
اب کبھی بیٹھ کے سوچوں تو ہنسی آتی ہے
ممتاز گورمانی