مہک اٹھے گی ساری راہگزر آہستہ آہستہ
ہوا کرتا ہے خوشبو کا سفر آہستہ آہستہ
دئیے صرف ایک غم نے زندگی کو زاویئے کیا کیا
جلیں اک لو سے شمعیں کس قدر،آہستہ آہستہ
مرے حسنِنظر کا خود مجھے احساس تک کیوں ہو
جمالِ یار کر آنکھوں میں گھر،آہستہ آہستہ
شعاعیں خود ہی اپنا راستہ پہچان لیتی ہیں
اتر آتی ہے آنکھوں میں سحر آہستہ آہستہ
تری یادیں بھی اک اک کر کے رخصت ہوتی جاتی ہیں
بچھڑتے جا رہے ہیں ہم سفر آہستہ آہستہ
سعود عثمانی