اس کارگہ رنگ میں ہم تنگ نہیں کیا
جو سر پہ لگا ہے ابھی وہ سنگ نہیں کیا
تصویر کو تصویر دکھائی نہیں جاتی
اس آئنہ خانے میں نظر دنگ نہیں کیا
ہے حلقہ جاں اپنی وفاؤں کا تصور
اس داغ سے آگے کوئی فرسنگ نہیں کیا
ہر بات پہ ہم دیتے ہیں غیروں کا حوالہ
اپنا کوئی آہنگ کوئی رنگ نہیں کیا
بخشے ہوئے اک گھونٹ پہ ہم جھوم رہے ہیں
اب مانگ کے پینا بھی کوئی ننگ نہیں کیا
زخم دل بیتاب ہے ہاتھوں میں نوالہ
اس بات پہ دنیا سے مری جنگ نہیں کیا
وہ رنگ نہیں شعلہ احساس میں باقیؔ
ہم ساز تمنا سے ہم آہنگ نہیں کیا
باقی صدیقی