اردو غزلیاتخورشید رضویشعر و شاعری

یوں تو وہ شکل کھو گئی گردش ماہ و سال میں

خورشید رضوی کی ایک اردو غزل

یوں تو وہ شکل کھو گئی گردش ماہ و سال میں

پھول ہے اک کھلا ہوا حاشیۂ خیال میں

اب بھی وہ روئے دل نشیں زرد سہی حسیں تو ہے

جیسے جبین آفتاب مرحلۂ زوال میں

اب بھی وہ میرے ہم سفر ہیں روش خیال پر

اب وہ نشہ ہے ہجر میں تھا جو کبھی وصال میں

ان کے خرام ناز کو بوئے گل و صبا کہا

ہم نے مثال دی مگر رنگ نہ تھا مثال میں

اہل ستم کے دل میں ہے کیا مرے کرب کا حساب

ان کو خبر نہیں کہ میں مست ہوں اپنے حال میں

کیسا پہاڑ ہو گیا وقت گزارنا مجھے

زخم پہ جم گئی نظر خواہش اندمال میں

تو نے مرے خمیر میں کتنے تضاد رکھ دیئے

موت مری حیات میں نقص مرے کمال میں

خورشید رضوی

سائٹ منتظم

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button