یہ سچ ہے میں نے دریا کا بہاؤ روک رکھا ہے
مگر میں نے ہی بستی کا کٹاؤ روک رکھا ہے
خدا کا نام لیتے ہی بلا رستے سے ہٹ جائے
اذاں ہونے تلک میں نے پڑاؤ روک رکھا ہے
رہا ثابت قدم ہر معرکے میں، سب نے ہے دیکھا
وہ میں ہوں جس نے دشمن کا دباؤ روک رکھا ہے
مرے اجداد کی قدریں کبھی بھی مٹ نہیں سکتیں
ابھی تک شہر میں اُن کا سُبھاؤ روک رکھا ہے
تمھارے گھر کو جلنے سے بچایا ہے بھلا کس نے
وہ میں ہوں جس نے یہ خونی الاؤ روک رکھا ہے
کسی کے حد سے بڑھنے کی حمایت میں نہیں کرتا
محبت سے قبیلوں کا تناؤ روک رکھا ہے
اُسے احسان کا بدلہ ملے گا ایک دن صابرؔ
وہ جس نے میرے پاؤں کا جماؤ روک رکھا ہے
ایوب صابر