لے رنگ بے ثباتی یہ گلستاں بنایا
بلبل نے کیا سمجھ کر یاں آشیاں بنایا
اڑتی ہے خاک یارب شام و سحر جہاں میں
کس کے غبار دل سے یہ خاکداں بنایا
اک رنگ پر نہ رہنا یاں کا عجب نہیں ہے
کیا کیا نہ رنگ لائے تب یہ جہاں بنایا
آئینے میں کہاں ہے ایسی صفا کہے تو
جبہوں سے راستوں کے وہ آستاں بنایا
سرگشتہ ایسی کس کی ہاتھ آگئی تھی مٹی
جو چرخ زن قضا نے یہ آسماں بنایا
نقش قدم سے اس کے گلشن کی طرح ڈالی
گرد رہ اس کی لے کر سرو رواں بنایا
ہونے پہ جمع اپنے پھولا بہت تھا لیکن
کیا غنچہ تنگ آیا جب وہ دہاں بنایا
اس صحن پر یہ وسعت اللہ رے تیری صنعت
معمار نے قضا کے دل کیا مکاں بنایا
دل ٹک ادھر نہ آیا ایدھر سے کچھ نہ پایا
کہنے کو ترک لے کر اک سوانگ یاں بنایا
دریوزہ کرتے گذری گلیوں میں عمر اپنی
درویش کب ہوئے ہم تکیہ کہاں بنایا
وہ تو مٹا گیا تھا تربت بھی میر جی کی
دو چار اینٹیں رکھ کر پھر میں نشاں بنایا
میر تقی میر