پاکستان کی خوشحالی کا راستہ: بنیادی اُصول اور اِقدامات
قوموں کی معاشی پرواز کی کہانی ہمیشہ ایک مشترک نکتے سے جڑی ہوتی ہے: مضبوط اور مؤثر نظام۔ سڑکیں اور ریل، پل اور بندرگاہیں، بجلی کی پیداوار و ترسیل کے نظام، پانی و صفائی، اسکول و اسپتال، اور جدید ڈیجیٹل نیٹ ورک یہ سب مل کر معیشت کے لیے وہ شہ رگ بنتے ہیں جس سے روزگار، پیداوار، تجارت اور سماجی بہبود کو روانی میسر آتی ہے۔ جس ملک کا نظام مضبوط ہو، وہاں کاروبار کی لاگت کم ہوتی ہے، منڈیاں قریب آتی ہیں، شہری سہولیات بہتر ہوتی ہیں اور عوام کا وقت، صحت اور آمدن سب محفوظ رہتے ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں مسئلے کی نوعیت کو سمجھنا ہوگی۔ پاکستان میں کئی شعبوں میں خلا موجود ہیں۔ کھیت سے منڈی تک راستے دشوار ہیں تو زرعی پیداوار راستے میں ہی ضائع ہو جاتی ہے؛ شہروں میں ٹریفک جام روزانہ وقت اور ایندھن ضائع کرتا ہے؛ صنعتیں توانائی کی کمی سے اپنی مکمل صلاحیت استعمال نہیں کر پاتیں؛ صاف پانی اور نکاسیٔ آب کے ناکافی انتظام سے صحت کے مسائل بڑھتے ہیں؛ اور دیہی علاقوں میں بنیادی سہولیات کی کمی شہری ہجرت کو مجبور کرتی ہے۔ یہ وہ رکاوٹیں ہیں جو ترقی کی رفتار کو گھسیٹ کر آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔
دنیا کے تجربات اس حقیقت پر مہرِ تصدیق لگاتے ہیں کہ نظام میں سرمایہ کاری خوشحالی کا زینہ ہے۔ مشرقی ایشیا کی مثالیں ہوں یا یورپ و امریکہ کے صنعتی ادوار جہاں سڑک، ریل، بجلی، بندرگاہ اور آبادی کے انتظام پر مسلسل سرمایہ کاری کی گئی، وہاں پیداواری لاگت کم ہوئی، تجارت بڑھی اور معیارِ زندگی بلند ہوا۔ سبق یہ ہے کہ طویل المدتی منصوبہ بندی، شفاف عمل درآمد اور نگہداشت کے مستقل بجٹ کے بغیر کوئی منصوبہ دیرپا فائدہ نہیں دیتا۔
نقل و حمل کے پورے سلسلے کو ایک اکائی سمجھ کر اپ گریڈ کرنا ہوگا۔ صرف چوڑی سڑکیں نہیں، بلکہ محفوظ پل، پائیدار بائی پاس، دیہی مواصلات کی پکی سڑکیں، شہروں میں معیاری پبلک ٹرانسپورٹ، ریل کے مال بردار ڈھانچے کی بحالی اور بندرگاہوں کی جدید کاری یہ سب مل کر "کھیت سے منڈی” اور "کارخانے سے برآمد” تک لاگت کم کرتے ہیں۔ ساتھ ہی دیکھ بھال کے مستقل بجٹ، وزن کی پابندی اور معیارِ تعمیراتی مواد کی سخت نگرانی ضروری ہے، ورنہ اربوں کی سرمایہ کاری کے باوجود چند برس میں سڑکیں پھر خراب ہو جاتی ہیں۔
توانائی کے شعبے میں فیصلہ کن توجہ درکار ہے۔ صرف پیداوار بڑھانا کافی نہیں؛ ترسیلی لائنوں کی بہتری، تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی، لائن لاسز میں کمی، اور متنوع و سستی توانائی کا انتخاب بھی اتنا ہی اہم ہے۔ جہاں صنعتوں اور اقتصادی زونز کو بلا تعطل بجلی ملتی ہے، وہاں سرمایہ کاری آتی ہے اور روزگار پیدا ہوتا ہے۔ شمسی و ہوائی منصوبوں کی دانشمندانہ شمولیت، بیٹری اسٹوریج اور مائیکرو گرڈز دور دراز علاقوں کے لیے نئی راہیں کھول سکتے ہیں۔ گیس اور پیٹرولیم کے متبادل پر غور، اور توانائی بچت کے ضابطے نافذ کرنا بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
پانی و صفائی کے شعبے کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ شہری صحت، زرعی پیداوار اور آبی سلامتی کی بنیاد ہے۔ ڈیموں اور ذخیرہ گاہوں کی معقول منصوبہ بندی، نہری نظام کی مرمت و استرکاری، بارش کے پانی کا ذخیرہ، سیلابی پانی کی درست گزرگاہیں، شہروں میں جدید نکاسیٔ آب کے نظام اور فضلے کی صفائی یہ سب شہری بیماریوں میں کمی، زرعی پیداوار کے استحکام اور سیلابی نقصانات میں کمی کی ضمانت بنتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں یہی انتظام ہماری بقا کی شرط بنتا جا رہا ہے۔
ڈیجیٹل نظام آج کی معیشت کا شاہراہِ ریشم ہے۔ فائبر آپٹک نیٹ ورک کی توسیع، دیہی علاقوں تک بروڈبینڈ، قابلِ بھروسہ موبائل نیٹ ورک اور ڈیٹا سینٹرز یہ سب نوجوانوں کے لیے ریموٹ روزگار، آئی ٹی برآمدات، ای-کامرس، آن لائن تعلیم اور ای-گورننس کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ جب ہر یونین کونسل تک تیز رفتار انٹرنیٹ پہنچتا ہے، تو معلومات کی عدم مساوات کم ہوتی ہے اور ہنر مندی کے دروازے کھلتے ہیں۔
سماجی نظام اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، ہسپتال اور بنیادی صحت مراکز کو بھی اسی سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عمارتیں کھڑی کرنا پہلی شرط ہے، مگر اس کے ساتھ اساتذہ، ڈاکٹرز، نرسز، آلات اور ادویات کی دستیابی، اور ادارہ جاتی نظم و نسق وہ روح ہے جو سانس دیتی ہے۔ فنی و تکنیکی تربیت کے اداروں میں نجی شعبے کے ساتھ شراکت روزگار کی مانگ کے مطابق ہنر پیدا کرتی ہے اور نوجوانوں کے لیے حقیقی روزی کے راستے کھولتی ہے۔
یہ سب کیسے ممکن ہوگا؟ پہلی شرط سیاسی تسلسل ہے۔ منصوبوں کے انتخاب میں دکھاوے کی سیاست کے بجائے معاشی و سماجی منافع کو بنیاد بنایا جائے۔ ایک قومی اتفاقِ رائے ضروری ہے کہ جو منصوبہ شروع ہو، وہ حکومت بدلنے پر بھی جاری رہے۔ دوسری شرط شفافیت ہے: منصوبہ بندی سے خریداری، تعمیر سے ادائیگی تک ہر قدم ڈیجیٹلی دستیاب ہو؛ آزاد نگرانی اور آڈٹ ہو؛ بدعنوانی کے دروازے بند ہوں۔ تیسری شرط مالی بندوبست ہے: پبلک پرائیویٹ شراکت (PPP) وہاں جہاں واضح قدرِ افزونی ہو؛ مقامی و بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے شفاف قواعد؛ اور سب سے بڑھ کرنگہداشت و مرمت کے لیے سالانہ محفوظ فنڈ تاکہ اثاثوں کی عمر پوری ہو اور لاگتِ عمرانیات کم پڑے۔ چوتھی شرط مقامی صلاحیت کی ترقی ہے: انجینئرنگ، تعمیرات اور مشین سازی کی ملکی صنعت کی ترقی؛ مقامی مواد کے معیاری استعمال کی حوصلہ افزائی؛ اور چھوٹے ٹھیکیداروں کی تربیت تاکہ علاقائی روزگار بڑھے اور لاگتیں قابو میں رہیں۔
شہری منصوبہ بندی میں ہمیں تیز رفتار سڑکوں کے ساتھ انسان دوست شہر بھی چاہیے۔ ماس ٹرانزٹ کے مربوط نظام، فٹ پاتھ اور سائیکلنگ ٹریک، پارکنگ نظم، زمینی استعمال کی دانشمندانہ منصوبہ بندی، روزگار اور رہائش کے فاصلے کم کرنے والی پالیسی، اور قابلِ دسترس ہاؤسنگ
یہ سب شہروں کی پیداواری صلاحیت بڑھاتے اور آلودگی گھٹاتے ہیں۔ ثانوی شہروں میں جامعات، اسپتال، صنعتی اسٹیٹس اور ثقافتی سہولیات کی فراہمی بڑے شہروں پر دباؤ کم کرتی اور متوازن ترقی کو فروغ دیتی ہے۔
دیہات کے لیے ترجیحات مختلف مگر یکساں اہم ہیں: پکے راستے، چھوٹے پل، منڈیوں تک رسائی، کھیتوں کے قریب گودام اور کولڈ چین، شمسی ٹیوب ویل، دیہی صحت و تعلیم کے مراکز، اور مائیکرو فنانس یہ سب زرعی قدر میں اضافہ اور دیہی آمدن میں استحکام لاتے ہیں۔ جب کسان کی محنت محفوظ ہو اور اسے منڈی تک بروقت رسائی ملے، تو پوری معیشت کی نبض میں روانی آتی ہے۔
موسمیاتی لچک اب کسی اختیار کا نام نہیں، بلکہ ناگزیر حقیقت ہے۔ سڑکوں اور پلوں کو سیلابی دباؤ کے مطابق ڈیزائن کرنا، نکاسیٔ آب کو بارش کے نئے پیٹرن کے مطابق اپ گریڈ کرنا، ساحلی علاقوں میں قدرتی بفرز بحال کرنا، شہری گرمی کم کرنے کے لیے درخت اور سبز چھتیں لگانا، اور قبل از وقت انتباہی نظام قائم کرنا یہ سب ہمارے نظام کو آنے والے جھٹکوں کے مقابل مضبوط بناتے ہیں۔
میری رائے یہ ہے کہ خرچ ‘اخراج’ نہیں، بلکہ اصل ‘سرمایہ کاری’ ہے وہ اینٹ جس پر آمدن، روزگار اور سماجی سکون کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ میری رائے ہے کہ اگر ہم منصوبوں کے انتخاب میں عقلِ معاش رکھیں، عمل درآمد میں شفافیت، مالی بندوبست میں نظم و ضبط، نگہداشت میں مستقل مزاجی، اور پالیسی میں سیاسی تسلسل یقینی بنائیں تو چند برسوں میں کاروبار کی لاگت کم، پیداوار زیادہ، شہروں کا نظم بہتر، دیہات کی آمدن بلند اور عوام کی زندگی آسان ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ اسی بنیاد پر ہے ہمیں اسے وقتی دکھاوے کے بجائے قومی مستقبل سمجھ کر تعمیر کرنا چاہیے۔
یوسف صدیقی







